مفتی اعظم شام کی روداد
شامی مفتی اعظم شیخ احمد بدر الدین نے اپنے بیٹے کے قاتلوں کو معاف کرکے انصاف کا معاملہ اللہ پر چھوڑدیا۔
شیخ احمد بدر الدین حسون جو کہ شام کے اہل سنت کے شامی مفتی اعظم ہیں، اپنی روداد سناتے ہوئے اور اپنے بیٹے کے قاتلوں کو معاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''میرے پانچ بیٹے تھے لیکن اب چار ہیں، میں اپنے بیٹے کے قاتلوں کو معاف کرتا ہوں اور انصاف اللہ پر چھوڑتا ہوں۔
شیخ احمد بدر الدین فرما رہے تھے کہ میں اپنے بیٹے کے قاتلوں سے ملا ہوں اور قاتل یہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہم کس کو قتل کر رہے ہیں۔ ان کا شہید ہونے والا بیٹا سانیا الیپو یونیورسٹی کا طالب علم تھا جسے اس کی کار سے اغوا کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔
شیخ بدر الدین کہتے ہیں میں اپنے بیٹے کے دو قاتلوں سے کمرہ عدالت میں ملاقات کرنے گیا تو انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کو صرف میرے بیٹے کی گاڑی کا نمبر دیا گیا تھا اور کارروائی کے بعد جب انھوں نے یہ خبر ٹی وی پر دیکھی تو ان قاتلوں کو علم ہوا کہ انھوں نے کس کو قتل کیا ہے۔ مفتی اعظم نے آنسو بہاتے ہوئے کہا کہ میرا بیٹا اکیس سال کا تھا، اپنی شہادت کے روز وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ رہا تھا اور اپنی ہونے والی بیوی کے بارے میں فیصلہ کر رہا تھا، اس کی ہونے والی بیوی میڈیکل کی طالبہ تھی جب کہ میرا بیٹا معیشت اور علوم سیاسیات کا طالب علم تھا، ان دونوں قاتلوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کے قتل کی سازش میں پندرہ لوگ شامل تھے، انھوں نے بتایا کہ ان کو کہا گیا تھا کہ میرا بیٹا بہت اہم شخصیت ہے، میں ان قاتلوں سے کہا کہ میں تمھیں معاف کرتا ہوں اور میں نے جج سے بھی کہا کہ ان کو معاف کر دیں لیکن جج نے مجھ سے کہا کہ یہ دہشت گرد پہلے ہی کئی گھنائونی وارداتوں میں ملوث ہیں ان کو ہر حال میں سزا دی جائے گی۔
شیخ حمود کو ٹھیک اسی دن موبائل فون پر ایک پیغام موصول ہوا جس میں دہشت گردوں کی طرف سے لکھا گیا تھا کہ ہمیں تمھاری معافی کی کوئی ضرورت نہیں ہے لہذا تم ہمیں معاف کرنے کا خیال اپنے دماغ سے نکال دو، اس کے بعد ٹی وی پر ایک خبر نشر ہوئی جس میں انھی دہشت گردوں کے ایک سرغنہ نے اعلان کیا کہ مفتی اعظم شام کو سب سے پہلے سزا دی جانی چاہیے اور مفتی اعظم کو ہر گز معافی نہیں دیں گے۔ تب میں نے ان کو موبائل فون کے ذریعے ایک پیغام ارسال کیا اور لکھا کہ میں نے کسی انسان کو نہ تو قتل کیا ہے اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ رکھتا ہوں میں تو صرف شام کے حالات کو بہتر کرنے کے لیے مفاہمت چاہتا ہوں تا کہ معصوم اور نہتے انسانوں کو تمھارے جیسے دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچا سکوں۔ ایک مفتی پوری قوم کے لیے ایک باپ کی حیثیت رکھتا ہے اور میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں لیکن تم مجھے قتل کر کے کیا حاصل کرنا چاہتے ہو؟
مفتی اعظم شیخ بدر الدین حسون نے بتایا کہ ان کے فرزند کے قتل میں ملوث گرفتار تمام دہشت گردوں نے بتایا کہ وہ شام کے ایک علاقے الیپو میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں اور ان دہشت گردوں کی اصل کمانڈ ترکی اور سعودی عرب کے ہاتھوں میں ہے۔ دہشت گردوں کے بیانات کے مطابق ان کو پچاس ہزار شامی پائونڈ ایک قتل کے بدلے میں دیے جاتے ہیں۔ مفتی بدر الدین نے کہا کہ اس کا مطلب ہے میرے بیٹے کا قتل کسی مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف پیسوں کی لالچ میں کیا گیا ہے۔ مفتی بدر الدین کہتے ہیں کہ میرے بیٹے کی زندگی کی قیمت ان دو قاتلوں کے لیے صرف سات سو پائونڈ سے زیادہ نہ تھی، لیکن اب میرے پاس چار بیٹے ہیں جب کہ پہلے میں پانچ بیٹوں کا باپ تھا۔
شیخ حسون کہتے ہیں کہ میں بشار الاسد کی ہمت اور جرات کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ جو اپنے گھر والوں کو تنہا چھوڑ کر ایسے حالات میں کہ جب مسجد کو دھماکے سے اڑائے جانے کی دھمکی دی گئی تھی بشار الاسد خود چل کر مفاہمت کے لیے ایک اہم اجلاس میں ہمارے ہاں شریک ہوئے۔ شیخ حسون نے کہا کہ بشار الاسد کی طرف سے اس میں کوئی کوتاہی نہیں ہے بلکہ دہشت گرد غلطی پر ہیں۔ شیخ کہتے ہیں کہ میں بشار الاسد کو کہا کہ مجھے خوف ہے کہ شامی خفیہ ایجنسی مخابرات کہیں آپ کو نقصان نہ پہنچا دے یا دہشت گردوں کے ساتھ مل کر حکومت کو ختم نہ کر دے لیکن اس وقت بھی بشار الاسد بہت پر سکون انداز میں رہے اور ان کو کسی قسم کا کوئی خوف نہ تھا۔
میں اس خفیہ ایجنسی کا شکار بن چکا ہوں مجھے 1972 سے 2000 تک میری موجودہ پوسٹ سے ہٹا دیا گیا تھا، مجھ پر پابندی عائد تھی نہ تو میں نماز جمعہ پڑھوانے جا سکتا تھا اور نہ ہی مسجد میں خطبہ دے سکتا تھا، دنیا کی تمام خفیہ ایجنسیاں ایک جیسی ہوتی ہیں، وہ کبھی انسانوں کا مفاد نہیں دیکھتیں بلکہ صرف اپنے اداروں کی بہتری اور مضبوطی کے لیے کام کرتی ہیں بلکہ بعض اوقات یہ خفیہ ادارے اپنے ہی صدر کے خلاف ہو جاتے ہیں۔
میں دعا کرتا ہوں کہ جنیوا کنونشن ۔۲ میں شام کے مسئلہ کا بہتر حل نکالا جائے نہ کہ دہشت گردوں کی مزید حمایت جاری رکھی جائے، میں تمام شامی عوام، سنی مسلمانوں، عیسائیوں، دروز اور دیگر مکاتب کے لوگوں کے لیے مفتی ہوں، اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان حالات سے نمٹنے کے لیے مفاہمت سے ہٹ کر کوئی اور راستہ موجود نہیں ہے، لیکن ہمیں غیر ملکی مداخلت کو فی الفور بند کرنا ہو گا تب ہی پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے۔ اگر اس معاملے میں ترکی اور سعودی عرب نے دہشت گردوں کی حمایت اور مالی مدد بند نہ کی تو پھر خطے کو بھڑکتی ہوئی آگ سے کوئی نہیں بچا سکتا ہے۔ مفتی اعظم نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ شام میں آنے والے ان غیر ملکیوں کا ہے جو ترکی کے راستے بغیر ویزے کے شام پہنچ چکے ہیں ان کو ہر حال میں اپنے ممالک کی طرف واپس جانا چاہیے اور دہشت گردوں کو اسلحہ پھینک کر حکومت کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا چاہیے۔
مجھے معلوم ہے کہ امریکی یہ کہانی بالکل نہیں سننا چاہیں گے اور نہ ہی اس پر یقین کریں گے، مفتی کہتے ہیں کہ مجھے George Mason اور George Washington Universities سے خطاب کی دعوت دی گئی، میں اردن میں امریکی سفارتخانے میں ویزا لینے کے لیے گیا تو ایک خاتون سفارت کار نے مجھ سے شیشے کے پیچھے سے تفتیش کی، مجھے انتہائی بے عزتی محسوس ہوئی اور میں نے اگلے ہی روز شام واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ شیخ کے ایک بیٹے کو اسی روز ہی امریکن سفارتخانے سے ایک فون موصول ہوا اور بتایا گیا کہ ان کی ویزا کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا ہے، کیونکہ مفتی ایک خطر ناک شخص ہیں۔
مفتی اعظم شام کہتے ہیں کہ میں پوری دنیا میں ہر جگہ جانے کے لیے تیار ہوں اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جنگ کسی بھی مسئلے کے لیے کوئی حل نہیں ہوتی، اور جو لوگ پیغمبروں موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد (ص) کے نام پر جنگ کے حامی ہیں، میں ان کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں ایسا نہیں ہے، بلکہ انبیاء علیہم السلام کا کام تو انسانیت کو زندگی بخشنا ہے نہ کہ موت۔
یہاں تاریخی مساجد اور چرچ ہیں، ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اچھے انسان تیار کریں اور اچھے معاشروں کی تعمیر کریں، ہمیں قتل و غارت کی زبان کو ترک کرنا ہو گا، کیا ہم نے جنگوں میں پیسہ بہانے اور دہشت گردوں کو مدد کرنے کے بجائے امن و امان کے لیے مالی تعاون کیا ہے؟ اگر نہیں تو پھر امریکا، اسرائیل، ترکی اور سعودی عرب جان لیں کہ جنگ کے لیے بہایا جانے والا ان کا پیسہ انسانیت کا قتل کر رہا ہے اور ہمیں امن قائم کرنا ہے، یہ ایک خطر ناک مفتی کا پوری دنیا کو پیغام ہے، کیونکہ امریکا کی نظر میں مجھے خطرناک قرار دیا گیا ہے۔
شیخ احمد بدر الدین فرما رہے تھے کہ میں اپنے بیٹے کے قاتلوں سے ملا ہوں اور قاتل یہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہم کس کو قتل کر رہے ہیں۔ ان کا شہید ہونے والا بیٹا سانیا الیپو یونیورسٹی کا طالب علم تھا جسے اس کی کار سے اغوا کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔
شیخ بدر الدین کہتے ہیں میں اپنے بیٹے کے دو قاتلوں سے کمرہ عدالت میں ملاقات کرنے گیا تو انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کو صرف میرے بیٹے کی گاڑی کا نمبر دیا گیا تھا اور کارروائی کے بعد جب انھوں نے یہ خبر ٹی وی پر دیکھی تو ان قاتلوں کو علم ہوا کہ انھوں نے کس کو قتل کیا ہے۔ مفتی اعظم نے آنسو بہاتے ہوئے کہا کہ میرا بیٹا اکیس سال کا تھا، اپنی شہادت کے روز وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ رہا تھا اور اپنی ہونے والی بیوی کے بارے میں فیصلہ کر رہا تھا، اس کی ہونے والی بیوی میڈیکل کی طالبہ تھی جب کہ میرا بیٹا معیشت اور علوم سیاسیات کا طالب علم تھا، ان دونوں قاتلوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کے قتل کی سازش میں پندرہ لوگ شامل تھے، انھوں نے بتایا کہ ان کو کہا گیا تھا کہ میرا بیٹا بہت اہم شخصیت ہے، میں ان قاتلوں سے کہا کہ میں تمھیں معاف کرتا ہوں اور میں نے جج سے بھی کہا کہ ان کو معاف کر دیں لیکن جج نے مجھ سے کہا کہ یہ دہشت گرد پہلے ہی کئی گھنائونی وارداتوں میں ملوث ہیں ان کو ہر حال میں سزا دی جائے گی۔
شیخ حمود کو ٹھیک اسی دن موبائل فون پر ایک پیغام موصول ہوا جس میں دہشت گردوں کی طرف سے لکھا گیا تھا کہ ہمیں تمھاری معافی کی کوئی ضرورت نہیں ہے لہذا تم ہمیں معاف کرنے کا خیال اپنے دماغ سے نکال دو، اس کے بعد ٹی وی پر ایک خبر نشر ہوئی جس میں انھی دہشت گردوں کے ایک سرغنہ نے اعلان کیا کہ مفتی اعظم شام کو سب سے پہلے سزا دی جانی چاہیے اور مفتی اعظم کو ہر گز معافی نہیں دیں گے۔ تب میں نے ان کو موبائل فون کے ذریعے ایک پیغام ارسال کیا اور لکھا کہ میں نے کسی انسان کو نہ تو قتل کیا ہے اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ رکھتا ہوں میں تو صرف شام کے حالات کو بہتر کرنے کے لیے مفاہمت چاہتا ہوں تا کہ معصوم اور نہتے انسانوں کو تمھارے جیسے دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچا سکوں۔ ایک مفتی پوری قوم کے لیے ایک باپ کی حیثیت رکھتا ہے اور میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں لیکن تم مجھے قتل کر کے کیا حاصل کرنا چاہتے ہو؟
مفتی اعظم شیخ بدر الدین حسون نے بتایا کہ ان کے فرزند کے قتل میں ملوث گرفتار تمام دہشت گردوں نے بتایا کہ وہ شام کے ایک علاقے الیپو میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں اور ان دہشت گردوں کی اصل کمانڈ ترکی اور سعودی عرب کے ہاتھوں میں ہے۔ دہشت گردوں کے بیانات کے مطابق ان کو پچاس ہزار شامی پائونڈ ایک قتل کے بدلے میں دیے جاتے ہیں۔ مفتی بدر الدین نے کہا کہ اس کا مطلب ہے میرے بیٹے کا قتل کسی مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف پیسوں کی لالچ میں کیا گیا ہے۔ مفتی بدر الدین کہتے ہیں کہ میرے بیٹے کی زندگی کی قیمت ان دو قاتلوں کے لیے صرف سات سو پائونڈ سے زیادہ نہ تھی، لیکن اب میرے پاس چار بیٹے ہیں جب کہ پہلے میں پانچ بیٹوں کا باپ تھا۔
شیخ حسون کہتے ہیں کہ میں بشار الاسد کی ہمت اور جرات کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ جو اپنے گھر والوں کو تنہا چھوڑ کر ایسے حالات میں کہ جب مسجد کو دھماکے سے اڑائے جانے کی دھمکی دی گئی تھی بشار الاسد خود چل کر مفاہمت کے لیے ایک اہم اجلاس میں ہمارے ہاں شریک ہوئے۔ شیخ حسون نے کہا کہ بشار الاسد کی طرف سے اس میں کوئی کوتاہی نہیں ہے بلکہ دہشت گرد غلطی پر ہیں۔ شیخ کہتے ہیں کہ میں بشار الاسد کو کہا کہ مجھے خوف ہے کہ شامی خفیہ ایجنسی مخابرات کہیں آپ کو نقصان نہ پہنچا دے یا دہشت گردوں کے ساتھ مل کر حکومت کو ختم نہ کر دے لیکن اس وقت بھی بشار الاسد بہت پر سکون انداز میں رہے اور ان کو کسی قسم کا کوئی خوف نہ تھا۔
میں اس خفیہ ایجنسی کا شکار بن چکا ہوں مجھے 1972 سے 2000 تک میری موجودہ پوسٹ سے ہٹا دیا گیا تھا، مجھ پر پابندی عائد تھی نہ تو میں نماز جمعہ پڑھوانے جا سکتا تھا اور نہ ہی مسجد میں خطبہ دے سکتا تھا، دنیا کی تمام خفیہ ایجنسیاں ایک جیسی ہوتی ہیں، وہ کبھی انسانوں کا مفاد نہیں دیکھتیں بلکہ صرف اپنے اداروں کی بہتری اور مضبوطی کے لیے کام کرتی ہیں بلکہ بعض اوقات یہ خفیہ ادارے اپنے ہی صدر کے خلاف ہو جاتے ہیں۔
میں دعا کرتا ہوں کہ جنیوا کنونشن ۔۲ میں شام کے مسئلہ کا بہتر حل نکالا جائے نہ کہ دہشت گردوں کی مزید حمایت جاری رکھی جائے، میں تمام شامی عوام، سنی مسلمانوں، عیسائیوں، دروز اور دیگر مکاتب کے لوگوں کے لیے مفتی ہوں، اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان حالات سے نمٹنے کے لیے مفاہمت سے ہٹ کر کوئی اور راستہ موجود نہیں ہے، لیکن ہمیں غیر ملکی مداخلت کو فی الفور بند کرنا ہو گا تب ہی پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے۔ اگر اس معاملے میں ترکی اور سعودی عرب نے دہشت گردوں کی حمایت اور مالی مدد بند نہ کی تو پھر خطے کو بھڑکتی ہوئی آگ سے کوئی نہیں بچا سکتا ہے۔ مفتی اعظم نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ شام میں آنے والے ان غیر ملکیوں کا ہے جو ترکی کے راستے بغیر ویزے کے شام پہنچ چکے ہیں ان کو ہر حال میں اپنے ممالک کی طرف واپس جانا چاہیے اور دہشت گردوں کو اسلحہ پھینک کر حکومت کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا چاہیے۔
مجھے معلوم ہے کہ امریکی یہ کہانی بالکل نہیں سننا چاہیں گے اور نہ ہی اس پر یقین کریں گے، مفتی کہتے ہیں کہ مجھے George Mason اور George Washington Universities سے خطاب کی دعوت دی گئی، میں اردن میں امریکی سفارتخانے میں ویزا لینے کے لیے گیا تو ایک خاتون سفارت کار نے مجھ سے شیشے کے پیچھے سے تفتیش کی، مجھے انتہائی بے عزتی محسوس ہوئی اور میں نے اگلے ہی روز شام واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ شیخ کے ایک بیٹے کو اسی روز ہی امریکن سفارتخانے سے ایک فون موصول ہوا اور بتایا گیا کہ ان کی ویزا کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا ہے، کیونکہ مفتی ایک خطر ناک شخص ہیں۔
مفتی اعظم شام کہتے ہیں کہ میں پوری دنیا میں ہر جگہ جانے کے لیے تیار ہوں اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جنگ کسی بھی مسئلے کے لیے کوئی حل نہیں ہوتی، اور جو لوگ پیغمبروں موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد (ص) کے نام پر جنگ کے حامی ہیں، میں ان کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں ایسا نہیں ہے، بلکہ انبیاء علیہم السلام کا کام تو انسانیت کو زندگی بخشنا ہے نہ کہ موت۔
یہاں تاریخی مساجد اور چرچ ہیں، ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اچھے انسان تیار کریں اور اچھے معاشروں کی تعمیر کریں، ہمیں قتل و غارت کی زبان کو ترک کرنا ہو گا، کیا ہم نے جنگوں میں پیسہ بہانے اور دہشت گردوں کو مدد کرنے کے بجائے امن و امان کے لیے مالی تعاون کیا ہے؟ اگر نہیں تو پھر امریکا، اسرائیل، ترکی اور سعودی عرب جان لیں کہ جنگ کے لیے بہایا جانے والا ان کا پیسہ انسانیت کا قتل کر رہا ہے اور ہمیں امن قائم کرنا ہے، یہ ایک خطر ناک مفتی کا پوری دنیا کو پیغام ہے، کیونکہ امریکا کی نظر میں مجھے خطرناک قرار دیا گیا ہے۔