کشمیر دو طرفہ نہیں عالمی مسئلہ ہے
اس چنگاری کو شعلہ بننے سے روکنے کی سعی دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے، ورنہ بہت دیر ہوجائے گی
BEIJING:
پاکستان اور ہندوستان کے قیام کے وقت انگریزوں کی طرف سے علاقوں کی غیرمنصفانہ تقسیم کی بدولت کشمیر کے تنازعہ نے جنم لیا، جس کو آج ستر سال سے زائد کا عرصہ ہوچلا ہے۔ اس تنازعے کے تین فریق ہیں جن میں پاکستان، ہندوستان اور کشمیر ہیں۔ پاکستان اور کشمیر اس تنازعہ کو اقوام متحدہ کی منظور ہونے والی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے پر راضی ہیں لیکن اس کا تیسرا فریق یعنی ہندوستان اس مسئلے کے حل کی راہ میں پہلے دن سے روڑے اٹکاتا چلا آرہا ہے اور کسی بھی طرح اس کے حل کی جانب پیش قدمی کرنے کے بجائے خطے کی صورتحال کو مزید خراب کررہا ہے۔
ہندوستان دنیا کو یہ باور کراتا آرہا ہے کہ مسئلہ کشمیر سے دنیا کا کچھ لینا دینا نہیں ہے بلکہ یہ صرف دو ملکوں پاکستان اور ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے، جس میں کسی تیسرے فریق کو ٹانگ اڑانے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔ دنیا کے کئی ممالک یہ سمجھنے کے باوجود کہ ہندوستان جھوٹ بول رہا ہے، اس کے خلاف دو ٹوک انداز سے کھڑے ہونے سے گریزاں اس لیے ہیں کہ ہندوستان ایک بہت بڑی معیشت والا ملک ہے، جس کے دنیا کے کئی بڑے ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدے ہیں۔ جن سے ہندوستان اور وہ تمام ممالک کاروباری فائدے اٹھا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں وہ اپنی چلتی معیشت کے پاؤں پر جان بوجھ کر کیوں کلہاڑی مارنا چاہیں گے؟ اور وہ بھی ہمارے ملک پاکستان کی خاطر، جہاں کسی کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ حکومت کس کے ہاتھ میں ہے اور مذاکرات کس سے کرنے ہیں؟ اور پھر کل یہاں کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا۔
جہاں ملکی مفاد کی پالیسیاں اور ترقیاتی کام بھی حکومت کی تبدیلی پر روک دیے جاتے ہیں اور نئی حکومتی جماعت ساری دنیا میں اس بات کا خود ببانگ دہل ڈھنڈورا پیٹتی ہے کہ پاکستان میں پہلےحکمران کرپٹ تھے اور انہوں نے پاکستان کے ساتھ بہت برا کیا اور ملک سے پیسے لوٹ کر باہر بھیج دیے۔ اب آپ خود سوچیے کہ ایسے ملک کے حکمرانوں کی بات کون سنے گا اور کون مانے گا۔ البتہ وقتی طور پر جب کسی خاص معاملے پر دنیا کے بڑوں کو ہمارے جیسے ملک کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ ان کے گن گانے لگتے ہیں اور انہیں ہم سے زیادہ سچا اور کھرا ملک دوسرا کوئی نظر نہیں آتا۔ان کے مکھن لگانے سے ہم رام ہوجاتے ہیں اور وہ اپنا کام ہماری فراخدلانہ مدد سے مکمل کرنے کے بعد دوبارہ آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں اور ہم سانپ نکل جانے کے بعد اس کی لکیر پیٹتے رہ جاتے ہیں۔
اب ذرا دوبارہ آئیے مسئلہ کشمیر کی طرف۔ ہندوستان یہ کہتا ہے کہ یہ دو طرفہ مسئلہ ہے اور وہ کسی تیسرے فریق کو اس میں اپنی رائے دینے کی اجازت نہیں دے گا۔ اب ہندوستان کی اس منطق پر اگر ہنسی نہ آئے تو اور کیا ہو۔ دو طرفہ مسئلہ تو وہ ہوتا ہے جس میں کسی تیسرے فریق کو کانوں کان خبر نہ ہو یا اگر کہیں سے اس کے کانوں میں یہ بھنک پڑ بھی جائے تو اس سے اس کا کوئی فائدہ یا نقصان نہ ہوتا ہو۔ تب تو وہ اس معاملے کو نظر انداز کردے گا کہ جن کا مسئلہ ہے وہ خود حل کرلیں گے۔ لیکن دوسری صورت میں اگر اسے یہ یقین ہو کہ اگر میں اس مسئلے کو حل کرانے کی کوشش نہیں کرتا ہوں تو کل میرا گھر بھی اس آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے، تو وہ سارے کام چھوڑ کر جھگڑنے والے فریقین کے صلح صفائی سے مسئلہ حل کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا۔
کشمیر کا مسئلہ اگر محض دو طرفہ ہوتا تو اس کےلیے اقوام متحدہ نے قراردادیں کبھی نہ منظور کی ہوتیں۔ کشمیر کا مسئلہ اگر دو طرفہ ہوتا تو آج مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہوئے چالیس دن نہ گزر گئے ہوتے۔ اگر ہندوستان حق پر ہوتا تو مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں فوجی نہ تعینات کیے ہوتے۔ اگر مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہوتا تو اس کے آئین میں جموں اور کشمیر کو علیحدہ حیثیت کبھی نہ دی گئی ہوتی۔ مقبوضہ کشمیر اگر دو طرفہ معاملہ ہوتا تو بھارتی حکمران بار بار دنیا کے ممالک کو یہ باور نہ کرا رہے ہوتے کہ دو طرفہ معاملہ ہے۔
مقبوضہ کشمیر اگر صرف دو طرفہ معاملہ ہوتا اور کشمیری بھارت کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزار رہے ہوتے تو وہاں آئے روز ہڑتالیں نہ کی جارہی ہوتیں، وہاں پاکستان کا جھنڈا نہ لہرایا جارہا ہوتا۔ اور اگر یہ محض دو طرفہ معاملہ ہوتا تو کشمیری ''انڈیا جا جا کشمیر سے نکل جا... میری جنت میرے گھر سے نکل جا'' کا ورد نہ کررہے ہوتے۔
اگر مقبوضہ کشمیر کے عوام کے دکھوں کا مداوا بھارت ہوتا تو وہ کبھی یہ نہ کہہ رہے ہوتے کہ ''میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن''۔ اور اگر مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو ہندوستان کی سپریم کورٹ حکومت کو مقبوضہ کشمیر میں حالات کو معمول پر لانے کی ہدایت کبھی نہ کرتی۔
ان ساری ٹھوس باتوں کے باوجود اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے اور ساتھ ہی اس کو اپنا اٹوٹ انگ بھی سمجھتا ہے تو اس سے بڑا بے وقوف کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔
اس ساری صورتحال کے پیش نظر عالمی برادری کو یہ سوچنا اور سمجھنا چاہیے کہ ٹھیک ہے بھارت ایک بڑی معیشت ہے، جس کے ساتھ ان ممالک کے تجارتی مفادات وابستہ ہیں، لیکن جب وہاں امن ہی نہ رہے گا تو پھر ان مفادات کا تحفظ کون کرے گا؟ کیونکہ کسی بھی مسئلے کا چاہے وہ دو طرفہ ہو یا سہ طرفہ، اس کا بہترین حل بات چیت ہے۔ لیکن اگر مسئلہ بات چیت سے حل نہ ہورہا ہو تو پھر فریقین کے درمیان حالات خراب ہوتے ہیں اور جب بات مزید بڑھتی ہے تو معاملہ لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتا ہے۔
جب اول دونوں ممالک ابدی پڑوسی ہوں، دوسرے دونوں کے نظریات میں زمین و آسمان کا فرق ہو، تیسرے دونوں آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہوتے ہوں، چوتھے دونوں کے پاس بڑی افواج ہوں اور پانچویں دونوں اس دنیا کی ایٹمی طاقیں ہوں اور اس سے پہلے بھی ان کے درمیان باقاعدہ اس معاملے پر جنگیں برپا ہوچکی ہوں، تو پھر اگر دونوں کے درمیان خدانخواستہ جھگڑا ہوتا ہے تو کیا یہ محض دو طرفہ رہے گا یا اس کی آگ سوئی ہوئی عالمی برادری کے گھروں تک نہیں جائے گی؟ اگر آگ نہ بھی گئی تو اس آگ کا دھواں بھی لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوں، حیوانوں، جمادات و نباتات کو اس صفحہ ہستی سے مٹانے کےلیے کافی ہوگا۔
اب اس معاملے پر صورتحال یہ ہے کہ اس کے بنیادی طور پر تو تین فریق ہیں، یعنی پاکستان، بھارت اور کشمیر۔ لیکن ساتھ ساتھ کشمیر کا کچھ علاقہ چین کے پاس بھی ہے اور شاید کچھ علاقہ روس کے پاس بھی ہے۔ اس کے تین بنیادی فریقوں میں سے دو یعنی پاکستان اور کشمیری تو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کے حل کےلیے پہلے دن سے راضی ہیں اور بات چیت کےلیے بھی ہمہ وقت تیار ہیں، لیکن تالی ایک ہاتھ سے تو بجنے سے رہی جب تک کہ بھارت بھی اپنا ہاتھ آگے نہ بڑھائے۔ اب ان دنوں عالمی برادری کو یہ تو معلوم ہو ہی گیا ہے کہ بات چیت کےلیے کون راضی ہے اور کون نہیں، تو پھر کیا عالمی برادری کے ٹھیکیداروں کا یہ فرض نہیں بنتا کہ جو بات چیت پر راضی نہیں ہورہا ہے، اس کو پکڑ کر مذاکرات کی میز پر لے کر آئیں تاکہ یہ اونٹ کسی کروٹ تو بیٹھے۔
یہ بات تو طے ہے کہ اگر کسی معاملے میں کسی فریق کے پاس دلائل ختم ہوجائیں تو وہ جھگڑے پر اتر آتا ہے۔ اس لیے ساری عالمی برادری اور مسلم برادری بالخصوص اس بات کو ہلکا نہ سمجھے اور معاملے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ کیونکہ اس سارے معاملے میں بھارت کے پاس دلائل نہیں ہیں، جس وجہ سے وہ بات چیت پر آمادہ نہیں ہوتا۔ لیکن اس طرح یہ معاملہ سردخانے میں جانے کے بجائے زیادہ خطرناک ہوتا جارہا ہے اور عالمی برادری کا اس طرح آنکھیں بند کرنا انہیں اس سے بری الذمہ نہیں قرار دے دیتا۔
اس سے پہلے یہ دنیا دو عالمی جنگوں کا سامنا کرچکی ہے اور جاپان کے شہروں ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم کی تباہی بھی کوئی زیادہ پرانی بات نہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد اس وقت دنیا نے دنیا کے ممالک کو جمع کرکے ''لیگ آف نیشنز'' قائم کی تھی، تاکہ دنیا میں امن قائم کیا جاسکے، لیکن اس لیگ نے کوئی خاطر خواہ کام نہ کیا اور اپنی ذمے داریاں پورے طریقے سے سرانجام نہ دے سکی اور اسی وجہ سے دنیا کو دوسری جنگ عظیم کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کے بعد 24 اکتوبر 1945 میں ''اقوام متحدہ'' یعنی یونائیٹڈ نیشنز قائم کی گئی، جس میں اس وقت دنیا کے 51 ممالک شامل تھے، جو بڑھ کر آج 193 سے بھی زائد ہوچکے ہیں۔ لیگ آف نیشنز کی طرح اقوام متحدہ کا بھی مرکزی کام دنیا کو جنگ کی ہولناکیوں سے بچانا اور امن کو یقینی بنانا ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج اقوام متحدہ بھی کئی معاملات میں محض قراردادیں پاس کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کررہی۔ حتیٰ کہ اپنی منظور شدہ قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی نہیں بناسکتی اور سیکیورٹی کونسل محض اجلاس منعقد کرنے کے علاوہ بڑے اور اثرورسوخ والے ممالک کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے گریزاں رہتی ہے۔
اقوام متحدہ میں شامل سارے ممالک کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں بھی چھوٹے پیمانے سے شروع ہوئی تھیں اور بعد میں اس کی لپیٹ میں کتنے ہی بڑے ممالک آگئے تھے۔
اب بھی وقت ہے کہ عالمی برادری ہوش کے ناخن لے اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم سے بھارت کو روکے، وہاں سے کرفیو فوراً ہٹایا جائے اور بین الاقوامی میڈیا کی رسائی وہاں یقینی بنائی جائے۔ بھارت کو اس کے آئین کی شق 370 اور A35 کو واپس اس کی روح کے مطابق قابل عمل بنانے پر مجبور کیا جائے اور سب سے بڑھ کر اسے بات چیت کے ذریعے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق یہ مسئلہ حل کرانے پر مجبور کیا جائے۔ تاکہ اس خطے کو کسی بڑی تباہی سے دوچار ہونے سے بچایا جاسکے۔ یہ بھارت کی بھول ہے کہ وہ بندوق کی نوک پر کشمیریوں کو ساری عمر اپنا غلام بنا کر رکھ سکتا ہے۔ اس چنگاری کو شعلہ بننے سے روکنے کی سعی اس دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے، ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پاکستان اور ہندوستان کے قیام کے وقت انگریزوں کی طرف سے علاقوں کی غیرمنصفانہ تقسیم کی بدولت کشمیر کے تنازعہ نے جنم لیا، جس کو آج ستر سال سے زائد کا عرصہ ہوچلا ہے۔ اس تنازعے کے تین فریق ہیں جن میں پاکستان، ہندوستان اور کشمیر ہیں۔ پاکستان اور کشمیر اس تنازعہ کو اقوام متحدہ کی منظور ہونے والی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے پر راضی ہیں لیکن اس کا تیسرا فریق یعنی ہندوستان اس مسئلے کے حل کی راہ میں پہلے دن سے روڑے اٹکاتا چلا آرہا ہے اور کسی بھی طرح اس کے حل کی جانب پیش قدمی کرنے کے بجائے خطے کی صورتحال کو مزید خراب کررہا ہے۔
ہندوستان دنیا کو یہ باور کراتا آرہا ہے کہ مسئلہ کشمیر سے دنیا کا کچھ لینا دینا نہیں ہے بلکہ یہ صرف دو ملکوں پاکستان اور ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے، جس میں کسی تیسرے فریق کو ٹانگ اڑانے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔ دنیا کے کئی ممالک یہ سمجھنے کے باوجود کہ ہندوستان جھوٹ بول رہا ہے، اس کے خلاف دو ٹوک انداز سے کھڑے ہونے سے گریزاں اس لیے ہیں کہ ہندوستان ایک بہت بڑی معیشت والا ملک ہے، جس کے دنیا کے کئی بڑے ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدے ہیں۔ جن سے ہندوستان اور وہ تمام ممالک کاروباری فائدے اٹھا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں وہ اپنی چلتی معیشت کے پاؤں پر جان بوجھ کر کیوں کلہاڑی مارنا چاہیں گے؟ اور وہ بھی ہمارے ملک پاکستان کی خاطر، جہاں کسی کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ حکومت کس کے ہاتھ میں ہے اور مذاکرات کس سے کرنے ہیں؟ اور پھر کل یہاں کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا۔
جہاں ملکی مفاد کی پالیسیاں اور ترقیاتی کام بھی حکومت کی تبدیلی پر روک دیے جاتے ہیں اور نئی حکومتی جماعت ساری دنیا میں اس بات کا خود ببانگ دہل ڈھنڈورا پیٹتی ہے کہ پاکستان میں پہلےحکمران کرپٹ تھے اور انہوں نے پاکستان کے ساتھ بہت برا کیا اور ملک سے پیسے لوٹ کر باہر بھیج دیے۔ اب آپ خود سوچیے کہ ایسے ملک کے حکمرانوں کی بات کون سنے گا اور کون مانے گا۔ البتہ وقتی طور پر جب کسی خاص معاملے پر دنیا کے بڑوں کو ہمارے جیسے ملک کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ ان کے گن گانے لگتے ہیں اور انہیں ہم سے زیادہ سچا اور کھرا ملک دوسرا کوئی نظر نہیں آتا۔ان کے مکھن لگانے سے ہم رام ہوجاتے ہیں اور وہ اپنا کام ہماری فراخدلانہ مدد سے مکمل کرنے کے بعد دوبارہ آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں اور ہم سانپ نکل جانے کے بعد اس کی لکیر پیٹتے رہ جاتے ہیں۔
اب ذرا دوبارہ آئیے مسئلہ کشمیر کی طرف۔ ہندوستان یہ کہتا ہے کہ یہ دو طرفہ مسئلہ ہے اور وہ کسی تیسرے فریق کو اس میں اپنی رائے دینے کی اجازت نہیں دے گا۔ اب ہندوستان کی اس منطق پر اگر ہنسی نہ آئے تو اور کیا ہو۔ دو طرفہ مسئلہ تو وہ ہوتا ہے جس میں کسی تیسرے فریق کو کانوں کان خبر نہ ہو یا اگر کہیں سے اس کے کانوں میں یہ بھنک پڑ بھی جائے تو اس سے اس کا کوئی فائدہ یا نقصان نہ ہوتا ہو۔ تب تو وہ اس معاملے کو نظر انداز کردے گا کہ جن کا مسئلہ ہے وہ خود حل کرلیں گے۔ لیکن دوسری صورت میں اگر اسے یہ یقین ہو کہ اگر میں اس مسئلے کو حل کرانے کی کوشش نہیں کرتا ہوں تو کل میرا گھر بھی اس آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے، تو وہ سارے کام چھوڑ کر جھگڑنے والے فریقین کے صلح صفائی سے مسئلہ حل کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا۔
کشمیر کا مسئلہ اگر محض دو طرفہ ہوتا تو اس کےلیے اقوام متحدہ نے قراردادیں کبھی نہ منظور کی ہوتیں۔ کشمیر کا مسئلہ اگر دو طرفہ ہوتا تو آج مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہوئے چالیس دن نہ گزر گئے ہوتے۔ اگر ہندوستان حق پر ہوتا تو مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں فوجی نہ تعینات کیے ہوتے۔ اگر مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہوتا تو اس کے آئین میں جموں اور کشمیر کو علیحدہ حیثیت کبھی نہ دی گئی ہوتی۔ مقبوضہ کشمیر اگر دو طرفہ معاملہ ہوتا تو بھارتی حکمران بار بار دنیا کے ممالک کو یہ باور نہ کرا رہے ہوتے کہ دو طرفہ معاملہ ہے۔
مقبوضہ کشمیر اگر صرف دو طرفہ معاملہ ہوتا اور کشمیری بھارت کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزار رہے ہوتے تو وہاں آئے روز ہڑتالیں نہ کی جارہی ہوتیں، وہاں پاکستان کا جھنڈا نہ لہرایا جارہا ہوتا۔ اور اگر یہ محض دو طرفہ معاملہ ہوتا تو کشمیری ''انڈیا جا جا کشمیر سے نکل جا... میری جنت میرے گھر سے نکل جا'' کا ورد نہ کررہے ہوتے۔
اگر مقبوضہ کشمیر کے عوام کے دکھوں کا مداوا بھارت ہوتا تو وہ کبھی یہ نہ کہہ رہے ہوتے کہ ''میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن''۔ اور اگر مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو ہندوستان کی سپریم کورٹ حکومت کو مقبوضہ کشمیر میں حالات کو معمول پر لانے کی ہدایت کبھی نہ کرتی۔
ان ساری ٹھوس باتوں کے باوجود اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے اور ساتھ ہی اس کو اپنا اٹوٹ انگ بھی سمجھتا ہے تو اس سے بڑا بے وقوف کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔
اس ساری صورتحال کے پیش نظر عالمی برادری کو یہ سوچنا اور سمجھنا چاہیے کہ ٹھیک ہے بھارت ایک بڑی معیشت ہے، جس کے ساتھ ان ممالک کے تجارتی مفادات وابستہ ہیں، لیکن جب وہاں امن ہی نہ رہے گا تو پھر ان مفادات کا تحفظ کون کرے گا؟ کیونکہ کسی بھی مسئلے کا چاہے وہ دو طرفہ ہو یا سہ طرفہ، اس کا بہترین حل بات چیت ہے۔ لیکن اگر مسئلہ بات چیت سے حل نہ ہورہا ہو تو پھر فریقین کے درمیان حالات خراب ہوتے ہیں اور جب بات مزید بڑھتی ہے تو معاملہ لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتا ہے۔
جب اول دونوں ممالک ابدی پڑوسی ہوں، دوسرے دونوں کے نظریات میں زمین و آسمان کا فرق ہو، تیسرے دونوں آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہوتے ہوں، چوتھے دونوں کے پاس بڑی افواج ہوں اور پانچویں دونوں اس دنیا کی ایٹمی طاقیں ہوں اور اس سے پہلے بھی ان کے درمیان باقاعدہ اس معاملے پر جنگیں برپا ہوچکی ہوں، تو پھر اگر دونوں کے درمیان خدانخواستہ جھگڑا ہوتا ہے تو کیا یہ محض دو طرفہ رہے گا یا اس کی آگ سوئی ہوئی عالمی برادری کے گھروں تک نہیں جائے گی؟ اگر آگ نہ بھی گئی تو اس آگ کا دھواں بھی لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوں، حیوانوں، جمادات و نباتات کو اس صفحہ ہستی سے مٹانے کےلیے کافی ہوگا۔
اب اس معاملے پر صورتحال یہ ہے کہ اس کے بنیادی طور پر تو تین فریق ہیں، یعنی پاکستان، بھارت اور کشمیر۔ لیکن ساتھ ساتھ کشمیر کا کچھ علاقہ چین کے پاس بھی ہے اور شاید کچھ علاقہ روس کے پاس بھی ہے۔ اس کے تین بنیادی فریقوں میں سے دو یعنی پاکستان اور کشمیری تو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کے حل کےلیے پہلے دن سے راضی ہیں اور بات چیت کےلیے بھی ہمہ وقت تیار ہیں، لیکن تالی ایک ہاتھ سے تو بجنے سے رہی جب تک کہ بھارت بھی اپنا ہاتھ آگے نہ بڑھائے۔ اب ان دنوں عالمی برادری کو یہ تو معلوم ہو ہی گیا ہے کہ بات چیت کےلیے کون راضی ہے اور کون نہیں، تو پھر کیا عالمی برادری کے ٹھیکیداروں کا یہ فرض نہیں بنتا کہ جو بات چیت پر راضی نہیں ہورہا ہے، اس کو پکڑ کر مذاکرات کی میز پر لے کر آئیں تاکہ یہ اونٹ کسی کروٹ تو بیٹھے۔
یہ بات تو طے ہے کہ اگر کسی معاملے میں کسی فریق کے پاس دلائل ختم ہوجائیں تو وہ جھگڑے پر اتر آتا ہے۔ اس لیے ساری عالمی برادری اور مسلم برادری بالخصوص اس بات کو ہلکا نہ سمجھے اور معاملے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ کیونکہ اس سارے معاملے میں بھارت کے پاس دلائل نہیں ہیں، جس وجہ سے وہ بات چیت پر آمادہ نہیں ہوتا۔ لیکن اس طرح یہ معاملہ سردخانے میں جانے کے بجائے زیادہ خطرناک ہوتا جارہا ہے اور عالمی برادری کا اس طرح آنکھیں بند کرنا انہیں اس سے بری الذمہ نہیں قرار دے دیتا۔
اس سے پہلے یہ دنیا دو عالمی جنگوں کا سامنا کرچکی ہے اور جاپان کے شہروں ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم کی تباہی بھی کوئی زیادہ پرانی بات نہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد اس وقت دنیا نے دنیا کے ممالک کو جمع کرکے ''لیگ آف نیشنز'' قائم کی تھی، تاکہ دنیا میں امن قائم کیا جاسکے، لیکن اس لیگ نے کوئی خاطر خواہ کام نہ کیا اور اپنی ذمے داریاں پورے طریقے سے سرانجام نہ دے سکی اور اسی وجہ سے دنیا کو دوسری جنگ عظیم کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کے بعد 24 اکتوبر 1945 میں ''اقوام متحدہ'' یعنی یونائیٹڈ نیشنز قائم کی گئی، جس میں اس وقت دنیا کے 51 ممالک شامل تھے، جو بڑھ کر آج 193 سے بھی زائد ہوچکے ہیں۔ لیگ آف نیشنز کی طرح اقوام متحدہ کا بھی مرکزی کام دنیا کو جنگ کی ہولناکیوں سے بچانا اور امن کو یقینی بنانا ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج اقوام متحدہ بھی کئی معاملات میں محض قراردادیں پاس کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کررہی۔ حتیٰ کہ اپنی منظور شدہ قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی نہیں بناسکتی اور سیکیورٹی کونسل محض اجلاس منعقد کرنے کے علاوہ بڑے اور اثرورسوخ والے ممالک کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے گریزاں رہتی ہے۔
اقوام متحدہ میں شامل سارے ممالک کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں بھی چھوٹے پیمانے سے شروع ہوئی تھیں اور بعد میں اس کی لپیٹ میں کتنے ہی بڑے ممالک آگئے تھے۔
اب بھی وقت ہے کہ عالمی برادری ہوش کے ناخن لے اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم سے بھارت کو روکے، وہاں سے کرفیو فوراً ہٹایا جائے اور بین الاقوامی میڈیا کی رسائی وہاں یقینی بنائی جائے۔ بھارت کو اس کے آئین کی شق 370 اور A35 کو واپس اس کی روح کے مطابق قابل عمل بنانے پر مجبور کیا جائے اور سب سے بڑھ کر اسے بات چیت کے ذریعے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق یہ مسئلہ حل کرانے پر مجبور کیا جائے۔ تاکہ اس خطے کو کسی بڑی تباہی سے دوچار ہونے سے بچایا جاسکے۔ یہ بھارت کی بھول ہے کہ وہ بندوق کی نوک پر کشمیریوں کو ساری عمر اپنا غلام بنا کر رکھ سکتا ہے۔ اس چنگاری کو شعلہ بننے سے روکنے کی سعی اس دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے، ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔