پاکستان کو ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی ضرورت

پاکستان کے قرضہ پروگرام کا آغاز اچھا ہوا ہے اور درست سمت میں بڑھ رہا ہے۔

پاکستان کے قرضہ پروگرام کا آغاز اچھا ہوا ہے اور درست سمت میں بڑھ رہا ہے۔ فوٹو : اے ایف پی

پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) اسٹاف مشن کے سربراہ جیہادآزور نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ قرضہ پروگرام کے اہداف پرنظر ثانی ہوگی نہ ہی اہداف کو ازسرنو مقرر کرنے کی کوئی ضرورت ہے۔قرضہ پروگرام کے تحت آئی ایم ایف پاکستان کو 6 ارب ڈالر دے گا، قرضہ پروگرام پر عملدرآمد سے معاشی استحکام آئے گا۔

پاکستان کے ریونیو کی شرح نمو بہت حوصلہ افزا ہے۔ ایف بی آرکے 5550ارب روپے کے ٹیکس ریونیوہدف پرنظرثانی کاآپشن زیرغورنہیں ، پاکستان کے قرضہ پروگرام کا آغاز اچھا ہوا ہے اور درست سمت میں بڑھ رہا ہے۔وہ مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔اس موقع پر چیئرمین ایف بی آر سید شبر زیدی، گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر،آئی ایم ایف مشن چیف برائے پاکستان ارنسٹوریگو سمیت دیگراعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔

عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کی معاشی صورتحال کے اثرات و مضمرات سے قطع نظر یہ بات قطعی دوٹوک انداز میں کہی ہے کہ قرضہ پروگرام کے اہداف اور ازسر نو جائزہ کا کوئی امکان نہیں، ادارے کے اسٹاف مشن کے سربراہ نے پاکستان میںٹیکس کا بوجھ سب کو اٹھانے کا مشورہ دیا ہے ۔ معاشی شرح نمو کو حوصلہ افزا قراردیا ہے اور کہا ہے کہ قرضہ پروگرام سے ملک معاشی استحکام لائے گا۔

یہی بات مشیر خزانہ ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ کچھ روز پہلے کہہ چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کو کسی مالیاتی فلسفہ سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ان کے پیش نظر ملکی معیشت کا روڈ میپ ہوتا ہے جس پر وہ اقتصادی ترقی کے پہیے کوگھومتے دیکھنا چاہتے ہیںاور ان کی پہلی تمنا اپنی زندگیوں میں مثبت تبدیلی کی خواہش ہوتی ہے لیکن معروضی حقیقت اس کے برعکس ہے، اگر مقررہ مدت کے دوران حکومتی اقتصادی اور سماجی ترقی کی رفتار متوازن رہتی ہے تو آئی ایم ایف پروگرام کی افادیت پراٹھنے والے سوالات کی شدت کم ہوسکتی ہے۔

بشرطیکہ قرضوں میں استعمال ہونے والی رقوم عوام کی فلاح و بہبود اور ملکی ترقی کی درست مدات میں خرچ کی جائے ، لیکن گزشتہ ایک سال کے دوران حکومتی معاشی اہداف میں عوام کی آسودگی کا کتنا حصہ ہے اس پر مشیر خزانہ سے پوچھنے کا حق عوام رکھتے ہیں جو ٹیکس ، بجلی،گیس اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں سمیت مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔


حکومت کو آئی ایم ایف کی ترجیحات اور قرضوں کے لیے ڈونر اداروں اور دوست ملکوں سے مدد لیتے ہوئے اقتصادی اور سماجی نظام کے بامعنی استحکام کے لیے اپنی داخلی مالیاتی ترجیحات اور قرضے لینے میں بھی اعتدال لانا ہوگا۔ ماہرین معاشیات کے لیے پی ٹی آئی حکومت کا ایک سال میں ہوشربا قرضہ لینے کا اقدام غیر معمولی ہے ، اپوزیشن رہنما میڈٖیا میں رات دن ڈیٹ موازنہ کے اعداد وشمار پیش کرتے رہتے ہیں۔

جیہاد آزور نے مزید کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے پروگرام پر عملدرآمد کی یقین دہانی کروا دی ہے۔ حکومت کی طرف سے مالیاتی عدم توازن کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرلیے گئے ہیں، پاکستان میں ٹیکس کا بوجھ سب کو اٹھانا چاہیے، برآمدات بڑھانے کے لیے بجلی کی بلا تعطل فراہمی کی ضرورت ہے جس کے لیے گردشی قرض کو ختم کرنا ہے۔ اداروں میں اصلاحات اور ان کی خود مختاری کی ضرورت ہے۔

ان سب کے لیے پاکستان کو ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔قرض پروگرام پر عملدرآمد کے لیے صبروتحمل سے کام لینا ہوگا،گزشتہ تین ماہ کے معاشی نتائج حوصلہ افزا ہیں ۔ وزیراعظم سے ملاقات ہوئی اورقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔بتایا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان میں سماجی شعبے کی بہتری چاہتا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے بتایا ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔

ریونیو بڑھے گا تو سماجی تحفظات کے اخراجات کے لیے اضافی وسائل دستیاب ہونگے ، یہ خوش آئند یقین دہانیاںہیں۔ اس موقع پر مشیرخزانہ ڈاکٹرحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کاقرضہ پروگرام پاکستان کے اقتصادی مسائل کے حل کے لیے بہت اہم ہے، امید ہے آئی ایم ایف وفدکے ساتھ مذاکرات خوش اسلوبی سے انجام پائیں گے۔

انھوں نے اس تاثرکو مکمل طورپرغلط قرار دیا کہ جب تک آئی ایم ایف کا قرضہ پروگرام چل رہاہے تو پاکستان چین سے مزیدقرضہ نہیں لے سکے گا۔ تاہم قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں آئی ایم ایف کے وفد نے شرکت کی جس میں اپوزیشن کی تین بڑی جماعتوں نےIMF پروگرام پر تحفظات کا اظہار کیا اور اسے غیر حقیقی اور غریب دشمن قراردیا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے بارے میں ماہرین معاشیات اور اپوزیشن کے خدشات،اور مالیاتی ادارہ کے مائنڈ سیٹ، اس کی ترجیحات اور اصلاحات پر عملدرآمد کے میکنزم پر کڑی نظر رکھے اور ملکی معیشت میں عوام ٹریکل ڈاؤن کے بیش قیمت امکانات سے بھی مایوس نہ ہوں کیونکہ قرضہ لینے کی مجبوری کا تعلق بھی عوام کی مکمل آسودگی سے ہونا چاہیے۔
Load Next Story