جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں

عمران خان حکومت کی ڈولتی کشتی کو بچانے کا اب یہی طریقہ ہے کہ اس کشتی سے ناقص مشیروں اور وزیروں کا بوجھ اتار دیا جائے

عمران خان کے دور کا ہر گزرنے والا دن نااہلیوں کے نئے باب رقم کررہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

KARACHI:
عمران خان کا دفاع میرا کام نہیں۔ یہ کسی بھی صحافی کا کام نہیں کہ کسی پارٹی کا ترجمان بن کر بولے، سوچے اور رائے عامہ میں تبدیلی کا باعث بننے کی کوشش کرے۔ صحافت کا تعلق صرف اور صرف عوام کو ان کی فلاح کی خاطر باخبر رکھنے سے ہوتا ہے۔ ایک صحافی معاشرے کی آنکھ اور کان کا کردار ادا کرتا ہے۔ وہ عوام کو یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے جسے اپنا مسیحا سمجھ کر اپنے ووٹ کے ذریعے مسندِ اقتدار پر پہنچایا وہ حاکمیت ملنے کے بعد کس رنگ میں ہے اور ان سے کیے اپنے وعدوں کو لے کر کتنا سنجیدہ ہے۔ صحافی معاشرے کے خوابیدہ ضمیر پر دستک دیتا انھیں بتاتا ہے کہ کون کس مہارت کے ساتھ ان کے خون پسینے کی کمائی کو کس طرح خرچ رہا ہے۔ وہ عوام کو آگاہ کرتا ہے کس نے چہرے پر کیسا نقاب اوڑھا ہے اور نقاب در نقاب اصلی چہرے کے کیا خدوخال ہیں۔

افسوس صد افسوس کہ گزرتے وقت کے ساتھ صحافت جیسا شعبہ بھی پیراشوٹروں اور نقاب پوش مفاد پرستوں کی نذر ہوگیا ہے۔ کمرشلزم نے اس شعبے کا رنگ بھی سیاہ کردیا۔ صحافت کی سیڑھی کا استعمال کرتے ایوانِ اقتدار تک رسائی کے قصے، طاقتور لوگوں کی قربت سے اپنے اور اپنے رشتے داروں کےلیے مال بنانے کی کہانیاں، اس مقدس شعبے کی آڑ میں ایجنڈا فروشی کی داستانیں آج زبان زدِ عام ہیں۔ اکثر سوچتا ہوں کہ ہمیں کسی بھی طرح کے ''خالص'' کی تلاش اب چھوڑ دینی چاہیے۔ یہ تلاش لاحاصل ہے۔ اب خالص 'کم سے کم' ملاوٹ والی شے کی پہلی قسم ہے۔

ہاشم ندیم لکھتے ہیں خالص آج کے دور میں صرف 'نفرت' ہے۔ یہ دنیا کا واحد جذبہ ہے جس میں کوئی کھوٹ نہیں، باقی ہر چیز غیر معیاری اور ملاوٹ زدہ ہوگئی ہے۔ آزمائش شرط ہے۔

سچ پوچھیں تو شہرِ اقتدار کے حالات خراب ہیں۔ کچھ سنبھالے نہیں سنبھل رہا۔ ابھی جیسا چل رہا ہے، ویسا زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ اگر ایسا ہوا تو شہرِ اقتدار اور اس کے گرد و نواح کا موسم بھی جلد تبدیل ہوسکتا ہے۔ عمران خان کے دور کا ہر گزرنے والا دن نالائقیوں اور نااہلیوں کے نت نئے باب رقم کررہا ہے۔ بدترین گورننس بھی اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا تھا تو جواب دہی کے خوف نے سب کو آلیا تھا۔ ذخیرہ اندوزوں، منافع خوروں، قبضہ گروپوں، ضمیر فروشوں پر سوال ہونے، جواب نہ ہونے اور پھر پکڑے جانے کا ایک ڈر تھا، جو طاری رہا۔ مگر ان کے اس ڈر اور ہماری اس خوش فہمی کی عمر چند دن رہی۔ آج وہ سب ہر قسم کے خوف سے ماورا ہیں، آزاد ہیں۔ کسی غلط کام کا صرف ایک جواب کہ ''حضور تبدیلی آگئی ہے'' اور سوال کرنے والا کھسیانی ہنسی ہنس کر ادھر ادھر کو ہوجاتا ہے۔ یعنی تبدیلی کا کانسیپٹ بھی ایک مذاق اور شرمندگی کا سامان ہوکر رہ گیا۔

یوں تو اسلام آباد میں ستمبر کے آخر اور اکتوبر کے آغاز میں گرمیوں کی شامیں سردیوں کی خنک راتوں سے بغل گیر ہو کر موسمِ سرما کے آمد کی نوید سناتی ہیں، مگر سیاست کے دشت میں ابھی لو کے تھپیڑے تبدیلی سرکار کا حال اور مقدر ہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے پندرہ لاکھ افراد اسلام آباد لانے کا عزم کر رکھا ہے۔ ہمیشہ اقتدار کی سیاست کرنے والے مولانا اپنی سیاست کے اس نئے رول کو کیسے نبھاتے ہیں، یہ آنے والا وقت طے کرے گا۔ یوں تو اگر کسی اداکار کو نیا رول سونپ دیا جائے مگر ہدایت کار پکا ہو تو اداکار اپنا روایت سے مختلف کردار بھی احسن طریقے سے نبھا لیتا ہے، مگر اس بار سیاسی تھیٹر میں مولانا کو کسی ہدایت کار کی سرپرستی حاصل نہیں۔ انہیں اکیلے ہی عمران خان کی حکومت پر ایک کاری ضرب لگا کر انہیں زیر کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ پیپلزپارٹی نے تو اپنا دو ٹوک موقف دے دیا ہے کہ وہ کسی قسم کی دھرنا سیاست کا حصہ نہیں بنے گی۔ شاید اب سمجھنے والے سمجھ جائیں کہ سینیٹ میں وہ جو ارکان تھے جنہوں نے صادق سنجرانی کو بچایا، کون اور کس کے آدمی تھے۔


سندھ حکومت کی صورت میں سیاست کے حالیہ سسٹم میں کچھ اسٹیک رکھنے والے آکسفورڈ کے پولیٹکل سائنس کے گریجویٹ بلاول پاور پالیٹکس کے کئی اسرار و رموز سے واقف دکھائی دیتے ہیں۔

نواز شریف مگر اس وقت کسی ڈیل اور ڈھیل کے زیرِ اثر نظر نہیں آرہے۔ بیک ڈور بات چیت سے انکار نہیں، لیکن بات چیت کسی صورت نتیجہ خیز نہیں ہے۔ وہ مولانا کے دھرنے کی ہر صورت سیاسی اور مالی حمایت جاری رکھنے کا ارادہ کیے ہوئے ہیں اور کیپٹن صفدر کے ذریعے مولانا سے رابطے میں بھی ہیں۔ یہاں غور طلب بات یہ کہ یہ خط و کتابت کیپٹن صفدر کے ذریعے ہورہی ہے، شہباز شریف کے ذریعے نہیں۔ اس صورت حال کا جواب شیخ رشید کے بیان سے لیں جو کہتے ہیں کہ شہباز شریف ان کی پارٹی کا آدمی ہے جو کہ معاملات کو سنبھالنا جانتا ہے اور سمجھتا ہے۔

تاہم دیکھنا یہ ہے کہ بڑے میاں صاحب جیل سے باہر آکر کیسی سیاست کرتے ہیں۔ کیا اب کی بار بھی ہونٹ سیے رکھتے ہیں یا ووٹ کو عزت دو کا علم تھامے نظر آتے ہیں۔ کیا اب کی بار وہ پارلیمانی سیاست سے آؤٹ مگر پارٹی کو دوبارہ موبلائز کرتے ہیں یا کہیں کسی کونے میں بچ بچاؤ کا راستہ ڈھونڈتے ہیں۔ کھیل پر سب کی نظر ہے اور جواب اگلی اننگز میں ملنے کو ہیں۔ اْن کے وکلاء بہرحال اسلام آباد ہائی کورٹ میں یہ گراؤنڈ لے رہے ہیں کہ میاں صاحب کو سزا سنانے والے جج ارشد ملک نے اگر عدلیہ کے منہ پر کالک مل دی، مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے، اگر او ایس ڈی بنا دیے گئے، عہدے سے ہٹا دیے گئے تو ان کا دیا گیا فیصلہ اپنی جگہ پر کیوں موجود ہے۔ لہٰذا جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ مرکزی اپیلوں کی سماعت مکمل کر کے فیصلے پر نہیں پہنچتی، تب تک انہیں آزاد فضا میں سانس لینے دیا جائے۔ ان کا باہر آنا عمران خان کے مسائل میں اضافہ کرے گا اور سسٹم پر ان کی گرفت مزید کمزور۔

جہاں میاں صاحب مولانا کے ساتھ مل کر عمران خان اور ان کے ساتھیوں پر وار کریں گے، وہیں اس طرف سے ماڈل ٹاؤن اور دیگر کیسز کو ٹائر لگا کر انہیں زیر کرنے کی کوشش کی جائے گی اور یہ میسیج دیا جائے گا کہ پیسے دو، باہر جاؤ، جیو بھی اور جینے بھی دو۔

عمران خان کا جنرل اسمبلی کا خطاب انہیں درکار سیاسی آکسیجن تو فراہم کردے گا، مگر دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ آکسیجن کب تک بسترِ مرگ پر لیٹے اس مریض کی نبض بڑھاتا ہے۔ ان کی جنرل اسمبلی میں تقریر کامیاب ہوگی اور کچھ دنوں تک بدترین گورننس اور مہنگائی کی خبریں اندرونی صفحات پر یعنی نظروں سے اوجھل ہوں گی۔ اسی کامیابی کو کیش کرتے ہوئے امریکا سے واپسی پر کابینہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی تلوار چلے گی اور لوگوں کو یہ بات باور کرائی جائے گی کہ حکومت سنجیدہ ہے، اندرونی اور بیرونی محاذ دونوں پر لڑنے کی سکت رکھتی ہے، جارحانہ خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ جارحانہ اندرونی گورننس پر بھی عمل پیرا ہے۔

عمران خان حکومت کی ڈولتی کشتی کو بچانے کا اب یہی طریقہ ہے کہ اس کشتی سے ناقص مشیروں اور وزیروں کا بوجھ اتار دیا جائے۔ عوام کو سمجھایا جائے کہ خان ڈٹا ہوا ہے، تھکا نہیں ہے اور ڈگمگایا ضرور مگر گرا نہیں ہے۔ بقول قمر جلالوی ''جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں''۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story