نند کشور وکرم …چند یادیں
یہ ہماری پہلی اورآخری ملاقات ثابت ہوئی۔اس یادگارملاقات کاوسیلہ فاطمہ حسن بنی تھیں، جن کے گھر نند صاحب ٹھہرے ہوئے تھے۔
تقریباً دو ماہ کینیڈا میں گزار کر 26 اگست 2019 کی دوپہر پونے تین بجے کراچی ہوائی جہاز اترا۔ دو دن آرام میں کٹ گئے۔ 29 اگست کو اپنے دوست شاعر صابر ظفر کو فون کیا تو انھوں نے یہ افسوس ناک خبر سنائی کہ نند کشور وکرم کا انتقال ہوگیا ہے'' نند صاحب کے انتقال کی خبر صابر ظفر نے انٹرنیٹ پر دیکھی۔ شاید کہیں اخبار میں بھی چھپی ہوگی۔ نند صاحب سے تقریباً 26 سال کے طویل انتظار کے بعد جنوری 2019 کراچی میں ملاقات ہوئی تھی۔
یہ ہماری پہلی اور آخری ملاقات ثابت ہوئی۔اس یادگار ملاقات کا وسیلہ فاطمہ حسن بنی تھیں، جن کے گھر نند صاحب ٹھہرے ہوئے تھے۔ نند صاحب تین چار روز سے کراچی میں تھے، انھوں نے محمود شام ، پروفیسر سحر انصاری ودیگر ادیبوں، شاعروں سے کہا کہ ''سعید پرویز سے رابطہ کریں'' مگر میرا سیل فون بند پڑا تھا اور یوں رابطہ نہ ہو سکا، وہ تو بھلا ہو صابر ظفرکا جنھوں نے مجھے نند صاحب کی کراچی آمد اور ان کا بے تابانہ ملاقات کرنے کا بتایا، تو میں نے فاطمہ حسن سے رابطہ کیا۔ فاطمہ حسن نے دوسرے لمحے نند صاحب کو سیل فون دیتے ہوئے کہا '' لیجیے نند صاحب! سعید پرویز سے بات کریں۔'' وہ بالکل آخری چند گھڑیاں تھیں۔
نند صاحب ایئرپورٹ روانہ ہو رہے تھے، انھوں نے اسلام آباد پہنچنا تھا اور پھر واپس دہلی جانا تھا۔ میں دوڑتا بھاگتا فاطمہ حسن کے گھر پہنچا۔ فاطمہ صاحبہ گھر کے باہر سڑک پر کھڑی تھیں، انھوں نے وہیں مجھے اشارے سے روکا، میں اپنی کار سے اترا، سامنے دوسری کار سے نند کشور وکرم باہر نکل رہے تھے، میں پہلی بار بالمشافہ ان سے مل رہا تھا۔ سرخ و سفید رنگ، نکلتا ہوا قد، ہلکے براؤن رنگ کا پینٹ کوٹ پہنے، میں اور وہ بغل گیر ہوئے۔
پھر وقت بس اتنا ہی تھا کہ ہم کراچی ایئرپورٹ تک ایک ہی کار کی پچھلی نشست پر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے، ہم نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا (کاش ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں بھی نند صاحب اور میری طرح محبت پیار کے ساتھ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں) وہ مجھے بتا رہے تھے ''میں نے ڈائریکٹر کا انتخاب کرلیا ہے، بس اب دہلی جاتے ہی حبیب جالب صاحب پر ڈرامہ بنانا شروع کردوں گا۔'' نند کشور وکرم ، جالب کے بڑے دیوانے تھے، انھوں نے جالب صاحب کی پہلی برسی 1994 میں ''عالمی اردو ادب'' کا حبیب جالب نمبر کتابی شکل میں شایع کیا تھا۔
جس کی ضخامت 450 صفحات پر مشتمل تھی اور اس کتاب کی تقریب جالب کے اسکول اینگلو عربک کالج میں منعقد کی تھی اور مزید یہ کہ اسکول میں ایک گوشہ حبیب جالب بھی قائم کیا تھا۔ ہم دونوں کراچی ایئرپورٹ کی طرف جا رہے تھے، فاطمہ حسن ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھیں، نند صاحب کہہ رہے تھے ''میں دہلی جاتے ہی ضروری کاغذات آپ کو بھجوا دوں گا، آپ میرے گھر ٹھہریں گے، تمام تر ذمے داریاں میری ہوں گی۔
بس آپ دہلی آنے کی تیاری کرلیں، فاطمہ حسن آپ کی معاونت کریں گی'' مگر ابھی دہلی کے خواب ہی دیکھ رہا تھا کہ ایک انتہائی ہیبت ناک دھماکہ ہوگیا، پلوامہ کے ہندوستانی فوجی مرکز پر زوردار دھماکہ ہوگیا، دو ڈھائی سو فوجی مارے گئے اور دہلی جانے کے خواب چکنا چور ہوگئے۔ ''زہے سیاست دوراں، زہے سیاست زیست'' ہم دونوں جالب کے محبتی پھر سے اکٹھے نہ ہوسکے اور اب تو حالات کہاں سے کہاں تک پہنچ گئے۔
میں کینیڈا کے شہر اور دارالخلافہ اوٹاوا میں تھا، جہاں میری بیٹی رہتی ہے۔ 24 اگست 2019 کے دن شام 8 بجے ایک عید ملن ڈنر کا اہتمام تھا۔ ہمارے پاکستان کے سفیر بشیر تارڑ مہمان خصوصی تھے، کینیڈین پارلیمنٹ کے ارکان بھی موجود تھے، ہندو ممبران پارلیمنٹ بھی موجود تھے۔ میں نے وہاں مختصراً خطاب کرتے ہوئے کہا ''معزز خواتین و حضرات! میں اس دعا کے ساتھ اپنی بات شروع کروں گا کہ اے اللہ، اے بھاگوان، اے گاڈ (God) ہندوستان اور پاکستان کے غریب عوام پر رحم فرما۔'' پھر میں نے یہ بھی کہا کہ آپ سب ہند و پاک کے سنگین حا لات سے واقف ہیں ، میں ان سنگین حالات کی تفصیل میں اس وقت نہیں جاؤں گا۔ آخر میں، میں نے حبیب جالب کا یہ شعر پڑھا ''امن کا پرچم لے کر اٹھو، ہر انسان سے پیار کرو/اپنا تو منشور ہے جالب سارے جہاں سے پیار کرو۔''
کشمیر میں کس قدر انسانی خون بہہ رہا ہے۔ مہینہ ہونے کو آیا کرفیو بدستور جاری ہے۔ ان حالات میں نند کشور وکرم جیسا انسان دوست مزید کہاں جی سکتا تھا۔ اسے تو اب جانا ہی تھا سو وہ چلا گیا۔
کتنے سہانے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے نند چلا گیا۔ وہ تو چلا گیا مگر ہم زندہ ہیں، جانے کتنے بھیانک مناظر دیکھنے کے لیے۔ اے پیارے نند کشور وکرم! جاؤ اپنے جیسے پیاروں میں رہو، بسو۔۔۔۔تم نے دنیا میں اپنے جینے کا بھرم خوب قائم رکھا اور اپنا حق ادا کردیا۔ اب تم کو جانا تھا، وہاں جہاں تمہارے اپنے تمہارے منتظر تھے۔ ہم تمہارے بعد تمہارے رستے پر چلنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ جاؤ نند ، جاؤ!
یہ ہماری پہلی اور آخری ملاقات ثابت ہوئی۔اس یادگار ملاقات کا وسیلہ فاطمہ حسن بنی تھیں، جن کے گھر نند صاحب ٹھہرے ہوئے تھے۔ نند صاحب تین چار روز سے کراچی میں تھے، انھوں نے محمود شام ، پروفیسر سحر انصاری ودیگر ادیبوں، شاعروں سے کہا کہ ''سعید پرویز سے رابطہ کریں'' مگر میرا سیل فون بند پڑا تھا اور یوں رابطہ نہ ہو سکا، وہ تو بھلا ہو صابر ظفرکا جنھوں نے مجھے نند صاحب کی کراچی آمد اور ان کا بے تابانہ ملاقات کرنے کا بتایا، تو میں نے فاطمہ حسن سے رابطہ کیا۔ فاطمہ حسن نے دوسرے لمحے نند صاحب کو سیل فون دیتے ہوئے کہا '' لیجیے نند صاحب! سعید پرویز سے بات کریں۔'' وہ بالکل آخری چند گھڑیاں تھیں۔
نند صاحب ایئرپورٹ روانہ ہو رہے تھے، انھوں نے اسلام آباد پہنچنا تھا اور پھر واپس دہلی جانا تھا۔ میں دوڑتا بھاگتا فاطمہ حسن کے گھر پہنچا۔ فاطمہ صاحبہ گھر کے باہر سڑک پر کھڑی تھیں، انھوں نے وہیں مجھے اشارے سے روکا، میں اپنی کار سے اترا، سامنے دوسری کار سے نند کشور وکرم باہر نکل رہے تھے، میں پہلی بار بالمشافہ ان سے مل رہا تھا۔ سرخ و سفید رنگ، نکلتا ہوا قد، ہلکے براؤن رنگ کا پینٹ کوٹ پہنے، میں اور وہ بغل گیر ہوئے۔
پھر وقت بس اتنا ہی تھا کہ ہم کراچی ایئرپورٹ تک ایک ہی کار کی پچھلی نشست پر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے، ہم نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا (کاش ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں بھی نند صاحب اور میری طرح محبت پیار کے ساتھ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں) وہ مجھے بتا رہے تھے ''میں نے ڈائریکٹر کا انتخاب کرلیا ہے، بس اب دہلی جاتے ہی حبیب جالب صاحب پر ڈرامہ بنانا شروع کردوں گا۔'' نند کشور وکرم ، جالب کے بڑے دیوانے تھے، انھوں نے جالب صاحب کی پہلی برسی 1994 میں ''عالمی اردو ادب'' کا حبیب جالب نمبر کتابی شکل میں شایع کیا تھا۔
جس کی ضخامت 450 صفحات پر مشتمل تھی اور اس کتاب کی تقریب جالب کے اسکول اینگلو عربک کالج میں منعقد کی تھی اور مزید یہ کہ اسکول میں ایک گوشہ حبیب جالب بھی قائم کیا تھا۔ ہم دونوں کراچی ایئرپورٹ کی طرف جا رہے تھے، فاطمہ حسن ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھیں، نند صاحب کہہ رہے تھے ''میں دہلی جاتے ہی ضروری کاغذات آپ کو بھجوا دوں گا، آپ میرے گھر ٹھہریں گے، تمام تر ذمے داریاں میری ہوں گی۔
بس آپ دہلی آنے کی تیاری کرلیں، فاطمہ حسن آپ کی معاونت کریں گی'' مگر ابھی دہلی کے خواب ہی دیکھ رہا تھا کہ ایک انتہائی ہیبت ناک دھماکہ ہوگیا، پلوامہ کے ہندوستانی فوجی مرکز پر زوردار دھماکہ ہوگیا، دو ڈھائی سو فوجی مارے گئے اور دہلی جانے کے خواب چکنا چور ہوگئے۔ ''زہے سیاست دوراں، زہے سیاست زیست'' ہم دونوں جالب کے محبتی پھر سے اکٹھے نہ ہوسکے اور اب تو حالات کہاں سے کہاں تک پہنچ گئے۔
میں کینیڈا کے شہر اور دارالخلافہ اوٹاوا میں تھا، جہاں میری بیٹی رہتی ہے۔ 24 اگست 2019 کے دن شام 8 بجے ایک عید ملن ڈنر کا اہتمام تھا۔ ہمارے پاکستان کے سفیر بشیر تارڑ مہمان خصوصی تھے، کینیڈین پارلیمنٹ کے ارکان بھی موجود تھے، ہندو ممبران پارلیمنٹ بھی موجود تھے۔ میں نے وہاں مختصراً خطاب کرتے ہوئے کہا ''معزز خواتین و حضرات! میں اس دعا کے ساتھ اپنی بات شروع کروں گا کہ اے اللہ، اے بھاگوان، اے گاڈ (God) ہندوستان اور پاکستان کے غریب عوام پر رحم فرما۔'' پھر میں نے یہ بھی کہا کہ آپ سب ہند و پاک کے سنگین حا لات سے واقف ہیں ، میں ان سنگین حالات کی تفصیل میں اس وقت نہیں جاؤں گا۔ آخر میں، میں نے حبیب جالب کا یہ شعر پڑھا ''امن کا پرچم لے کر اٹھو، ہر انسان سے پیار کرو/اپنا تو منشور ہے جالب سارے جہاں سے پیار کرو۔''
کشمیر میں کس قدر انسانی خون بہہ رہا ہے۔ مہینہ ہونے کو آیا کرفیو بدستور جاری ہے۔ ان حالات میں نند کشور وکرم جیسا انسان دوست مزید کہاں جی سکتا تھا۔ اسے تو اب جانا ہی تھا سو وہ چلا گیا۔
کتنے سہانے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے نند چلا گیا۔ وہ تو چلا گیا مگر ہم زندہ ہیں، جانے کتنے بھیانک مناظر دیکھنے کے لیے۔ اے پیارے نند کشور وکرم! جاؤ اپنے جیسے پیاروں میں رہو، بسو۔۔۔۔تم نے دنیا میں اپنے جینے کا بھرم خوب قائم رکھا اور اپنا حق ادا کردیا۔ اب تم کو جانا تھا، وہاں جہاں تمہارے اپنے تمہارے منتظر تھے۔ ہم تمہارے بعد تمہارے رستے پر چلنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ جاؤ نند ، جاؤ!