حکومت کو پان کھانا چاہیے
ڈر لگنے لگتا ہے یہ دیکھ کر جب بھی کوئی سرکار میڈیا کی فلاح و بہبود کی فکر میڈیا والوں سے بھی زیادہ کرنا شروع کر دے۔
ڈر لگنے لگتا ہے یہ دیکھ کر جب بھی کوئی سرکار میڈیا کی فلاح و بہبود کی فکر میڈیا والوں سے بھی زیادہ کرنا شروع کر دے۔دل میں عجب عجب وسوسے اور '' ماں سے زیادہ چاہے پھاپھا کٹنی کہلائے '' جیسے محاورے سر اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔
ایک ایسی حکومت جس کی شہرت ہی یہ ہو کہ اسے میڈیا کے مسائل سے جتنی دلچسپی ہے اس سے کہیں زیادہ اس سے ہے کہ خود اس کے مسائل پر میڈیا اپنا ہاتھ ہولا رکھے، اپوزیشن کو سر پے نہ چڑھائے اور اوپر سے نیچے تک وزیروں کبیروں کی بس واہ واہ کرے۔
جب ایسی حکومت کی جانب سے میڈیا کی فلاح و بہبود اور اس کے مسائل سے ہمدردی کی گفتگو تواتر سے ہونے لگے تو دل خوشی سے زیادہ انجانے خوف سے دھک دھک کرنے لگتا ہے۔
پچھلے تہتر برس میں کون سی ایسی حکومت ہے جس نے میڈیا کو راہ راست پر لانے اور مثبت و محب ِ وطن صحافت کے بنیادی آداب سکھانے کی اپنی سی کوشش نہیں کی اور پیار سے گال تھپتھپاتے ہوئے ریاستی پنجے نے میڈیا کے چہرے کا آدھا پونا بوٹا نہیں اتار لیا۔
موجودہ مشیرِ اطلاعات آپاں فردوس عاشق اعوان سے پہلے جو وزیرِ اطلاعات تھے وہ پیمرا اور پاکستان پریس کونسل وغیرہ کو مدغم کرکے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کی بات کرتے رہے تاکہ بقول ان کے شکایات و اقدامات ون ونڈو آپریشن کے تحت نمٹائے جا سکیں۔
اس سے پہلے کہ وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بنانے میں کامیاب ہوتے ان کا قلمدان آپاں فردوس کو دے دیا گیا۔مگر آپاں کے منہ سے ریگولیٹری اتھارٹی کی تجویز کسی نے نہیں سنی۔وہ اپنا ایک آئیڈیا لے کر آئیں۔یعنی میڈیا کورٹس قائم کی جائیں تاکہ سرکار کو میڈیا سے اور میڈیا کو سرکار سے جو شکایتیں ہیں وہ یہ میڈیا کورٹس نوے دن میں نمٹا سکیں۔
یہ آئیڈیا مشیرِ اطلاعات صاحبہ نے چوبیس جولائی کو کراچی میں چھوڑا تھا۔اس آئیڈیے کو صحافیوں، ایڈیٹروں اور مالکان کی تنظیموں نے فوری طور پر مسترد کر دیا۔اس کے بعد یوں لگا گویا بات آئی گئی ہو گئی۔ مگر تین روز پہلے مشیرِ اطلاعات صاحبہ نے کابینہ کے فیصلوں سے متعلق پریس بریفنگ میں یہ دھماکا کردیا کہ میڈیا کورٹس کے قیام کی کابینہ نے منظوری دے دی ہے۔اس بارے میں ایک بل جلد ہی پارلیمنٹ میں پیش ہوگا اور صحافیوں اور مالکان سمیت تمام ''اسٹیک ہولڈرز ''سے بھی قانونی مسودہ شیئر کیا جائے گا۔
جب اس اعلان کو ایک بار پھر میڈیائی تنظیموں سے لے کر حزبِ اختلاف اور انسانی حقوق کمیشن تک نے آڑے ہاتھوں لیا تو مشیرِ اطلاعات نے یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ تمام فریقوں سے پیشگی مشاورت کے بغیر میڈیا کورٹس قائم نہیں ہوں گے اور یہ کہ کابینہ میں یہ معاملہ زیرِ بحث ضرور آیا مگر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔
لگتا ہے فی الحال اس آئیڈئے کو عملی جامہ پہنانے کا آئیڈیا پھر پیچھے کر دیا گیا ہے۔لگتا ہے کچھ عرصے بعد پھر اس آئیڈئیے کو کسی نئی شکل میں سہہ بارہ بطور آزمائشی غبارہ چھوڑا جائے گا۔
جس طرح ڈرگ کورٹس، کنزیومر کورٹس، بینکنگ کورٹس، ملٹری کورٹس ، ای کورٹس، اینٹی ٹیررسٹ کورٹس ، لیبر کورٹس وغیرہ ہوتی ہیں اسی طرح مجھے ذاتی طور پر میڈیا عدالتوں کے تصور سے بھی کوئی تشویش نہیں۔بس یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یہ آئیڈیا محترمہ مشیرِِ اطلاعات کا طبع زاد ہے ، کہیں سے مستعار ہے یا اوپر سے فرمائش ہے ؟
ایسا ملک جہاں شرعی و اینگلو سیکسن قوانین ، ہتکِ عزت کا قانون ، سائبر کرائمز ایکٹ ، پیمرا کے چینل بندی ، جرمانے اور ضابطہِ اخلاق پر عمل درآمد کے قواعد و ضوابط نافذ ہوں، پاکستان پریس کونسل ہو۔غیر علانیہ ہدایتی یا خود عائد کردہ سنسر شپ چل رہا ہو، اخباری ہاکروں اور کیبل آپریٹروں تک کو معلوم ہو کہ کس اخبار اور چینل کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے ، کب تک کرنا ہے اور کیوں کرنا ہے۔
حتٰی کہ چیف جسٹس آف پاکستان تک بارہا کہہ چکے ہوں کہ آزادیِ اظہار پر قدغنوں سے سماج آگے نہیں پیچھے جاتا ہے۔اس سب کے بعد میڈیا کورٹس کی کسر ہی باقی رہ گئی ہے۔
عدلیہ کو لاکھوں زیرِ التوا مقدمات نمٹانے کے لیے ہی اضافی جج اور بجٹ میسر نہیں آ رہا تس پر میڈیا کورٹس کا شخشخا بھی چھوڑ دیا گیا۔اگر اعلی عدلیہ کی جانب سے ایسی کوئی تجویز یا آبزرویشن آتی تو تب بھی کوئی بات ہوتی۔مگر عدلیہ کو الگ سے میڈیا کورٹس بنانے سے اتنی دلچسپی نہیں جتنی موجودہ حکومت کو ہے۔بس مجھ جیسے دودھ کے جلوں کو یہی بات کھل رہی ہے کہ اس مہربانی کے پیچھے اصل مدعا کیا ہے ؟
اس ملک نے کب میڈیا کو کسنے والا شکنجائی نظام نہیں دیکھا۔بوقت ِ ضرورت کس حکومت نے میڈیا کی طبیعت و تربیت کی درستی کے لیے عدالتی نظام کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔
کیا صحافی ایوب دور میں بغاوت و غداری یا شرپسندی کے الزامات میں حراست میں نہیں لیے جاتے تھے۔کیا ان کے اخباری اثاثے ضبط نہیں ہوتے تھے۔کیا بھٹو دور میں صحافی ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت جیل نہیں بھیجے جاتے رہے ، کیا اخبارات و رسائل کو ریاست دشمن یا فتنہ پرداز قرار دے کر ان کے ڈکلریشن منسوخ نہیں ہوتے تھے۔
اس ملک میں سب سے پہلی میڈیا عدالت دراصل وہ تھی جس نے سن اسی کی ضیائی دہائی میں چار صحافیوں کو کوڑوں کی سزا سنائی تھی۔مگر میڈیا بھی کتے کی دم ہی رہا ، کسی سرکار کی نلکی اسے سیدھا نہیں کر سکی۔
فی زمانہ میڈیا جتنا تابع دار ہے اگر اس تابع داری اور بھانت بھانت کے قوانین کے باوجود بھی حکومت میڈیا عدالتوں کی ضرورت محسوس کر رہی ہے تو پھر مسئلہ میڈیا سے زیادہ خود حکومت کا احساسِ عدم تحفظ ہے جو غالباً اس سطح تک پہنچ گیا ہے کہ ہر ہلتی شے سانپ لگ رہی ہے۔
اس مسئلے کا علاج میڈیا کورٹس نہیں بلکہ جسمانی کچھاؤ اور اعصابی تناؤ کم کرنے والی کسی بھی چالو برانڈ کی دو گولیاں ہیں۔جنھیں نگل کے کمبل اوڑھ کے سرکار کو چند گھنٹے کے لیے سو جانا چاہیے۔تاکہ پسینہ آنے سے طبیعت کچھ ہلکی ہو سکے۔
ساتھ ہی ساتھ جملہ وزراء و مشیران و خوشامدیان و موقع پرستگان و جی حضوریان و ٹویٹریان اگر پان کھانے کی عادت بھی ڈال لیں تو حالات اور بہتر ہو سکتے ہیں۔پان کی گلوری داڑھ میں دابنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ منہ بند رہتا ہے اور بہت ہی ضروری بات نہ ہو توعموماً آلتو فالتو سوالات کے جواب میں ہوں ہاں یا اشاروں سے بھی کام چل جاتا ہے۔اس حکومت کو پان کی گلوری کی جس قدر ضرورت ہے وہ آپ کی سوچ سے بھی زیادہ ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
ایک ایسی حکومت جس کی شہرت ہی یہ ہو کہ اسے میڈیا کے مسائل سے جتنی دلچسپی ہے اس سے کہیں زیادہ اس سے ہے کہ خود اس کے مسائل پر میڈیا اپنا ہاتھ ہولا رکھے، اپوزیشن کو سر پے نہ چڑھائے اور اوپر سے نیچے تک وزیروں کبیروں کی بس واہ واہ کرے۔
جب ایسی حکومت کی جانب سے میڈیا کی فلاح و بہبود اور اس کے مسائل سے ہمدردی کی گفتگو تواتر سے ہونے لگے تو دل خوشی سے زیادہ انجانے خوف سے دھک دھک کرنے لگتا ہے۔
پچھلے تہتر برس میں کون سی ایسی حکومت ہے جس نے میڈیا کو راہ راست پر لانے اور مثبت و محب ِ وطن صحافت کے بنیادی آداب سکھانے کی اپنی سی کوشش نہیں کی اور پیار سے گال تھپتھپاتے ہوئے ریاستی پنجے نے میڈیا کے چہرے کا آدھا پونا بوٹا نہیں اتار لیا۔
موجودہ مشیرِ اطلاعات آپاں فردوس عاشق اعوان سے پہلے جو وزیرِ اطلاعات تھے وہ پیمرا اور پاکستان پریس کونسل وغیرہ کو مدغم کرکے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کی بات کرتے رہے تاکہ بقول ان کے شکایات و اقدامات ون ونڈو آپریشن کے تحت نمٹائے جا سکیں۔
اس سے پہلے کہ وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بنانے میں کامیاب ہوتے ان کا قلمدان آپاں فردوس کو دے دیا گیا۔مگر آپاں کے منہ سے ریگولیٹری اتھارٹی کی تجویز کسی نے نہیں سنی۔وہ اپنا ایک آئیڈیا لے کر آئیں۔یعنی میڈیا کورٹس قائم کی جائیں تاکہ سرکار کو میڈیا سے اور میڈیا کو سرکار سے جو شکایتیں ہیں وہ یہ میڈیا کورٹس نوے دن میں نمٹا سکیں۔
یہ آئیڈیا مشیرِ اطلاعات صاحبہ نے چوبیس جولائی کو کراچی میں چھوڑا تھا۔اس آئیڈیے کو صحافیوں، ایڈیٹروں اور مالکان کی تنظیموں نے فوری طور پر مسترد کر دیا۔اس کے بعد یوں لگا گویا بات آئی گئی ہو گئی۔ مگر تین روز پہلے مشیرِ اطلاعات صاحبہ نے کابینہ کے فیصلوں سے متعلق پریس بریفنگ میں یہ دھماکا کردیا کہ میڈیا کورٹس کے قیام کی کابینہ نے منظوری دے دی ہے۔اس بارے میں ایک بل جلد ہی پارلیمنٹ میں پیش ہوگا اور صحافیوں اور مالکان سمیت تمام ''اسٹیک ہولڈرز ''سے بھی قانونی مسودہ شیئر کیا جائے گا۔
جب اس اعلان کو ایک بار پھر میڈیائی تنظیموں سے لے کر حزبِ اختلاف اور انسانی حقوق کمیشن تک نے آڑے ہاتھوں لیا تو مشیرِ اطلاعات نے یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ تمام فریقوں سے پیشگی مشاورت کے بغیر میڈیا کورٹس قائم نہیں ہوں گے اور یہ کہ کابینہ میں یہ معاملہ زیرِ بحث ضرور آیا مگر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔
لگتا ہے فی الحال اس آئیڈئے کو عملی جامہ پہنانے کا آئیڈیا پھر پیچھے کر دیا گیا ہے۔لگتا ہے کچھ عرصے بعد پھر اس آئیڈئیے کو کسی نئی شکل میں سہہ بارہ بطور آزمائشی غبارہ چھوڑا جائے گا۔
جس طرح ڈرگ کورٹس، کنزیومر کورٹس، بینکنگ کورٹس، ملٹری کورٹس ، ای کورٹس، اینٹی ٹیررسٹ کورٹس ، لیبر کورٹس وغیرہ ہوتی ہیں اسی طرح مجھے ذاتی طور پر میڈیا عدالتوں کے تصور سے بھی کوئی تشویش نہیں۔بس یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یہ آئیڈیا محترمہ مشیرِِ اطلاعات کا طبع زاد ہے ، کہیں سے مستعار ہے یا اوپر سے فرمائش ہے ؟
ایسا ملک جہاں شرعی و اینگلو سیکسن قوانین ، ہتکِ عزت کا قانون ، سائبر کرائمز ایکٹ ، پیمرا کے چینل بندی ، جرمانے اور ضابطہِ اخلاق پر عمل درآمد کے قواعد و ضوابط نافذ ہوں، پاکستان پریس کونسل ہو۔غیر علانیہ ہدایتی یا خود عائد کردہ سنسر شپ چل رہا ہو، اخباری ہاکروں اور کیبل آپریٹروں تک کو معلوم ہو کہ کس اخبار اور چینل کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے ، کب تک کرنا ہے اور کیوں کرنا ہے۔
حتٰی کہ چیف جسٹس آف پاکستان تک بارہا کہہ چکے ہوں کہ آزادیِ اظہار پر قدغنوں سے سماج آگے نہیں پیچھے جاتا ہے۔اس سب کے بعد میڈیا کورٹس کی کسر ہی باقی رہ گئی ہے۔
عدلیہ کو لاکھوں زیرِ التوا مقدمات نمٹانے کے لیے ہی اضافی جج اور بجٹ میسر نہیں آ رہا تس پر میڈیا کورٹس کا شخشخا بھی چھوڑ دیا گیا۔اگر اعلی عدلیہ کی جانب سے ایسی کوئی تجویز یا آبزرویشن آتی تو تب بھی کوئی بات ہوتی۔مگر عدلیہ کو الگ سے میڈیا کورٹس بنانے سے اتنی دلچسپی نہیں جتنی موجودہ حکومت کو ہے۔بس مجھ جیسے دودھ کے جلوں کو یہی بات کھل رہی ہے کہ اس مہربانی کے پیچھے اصل مدعا کیا ہے ؟
اس ملک نے کب میڈیا کو کسنے والا شکنجائی نظام نہیں دیکھا۔بوقت ِ ضرورت کس حکومت نے میڈیا کی طبیعت و تربیت کی درستی کے لیے عدالتی نظام کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔
کیا صحافی ایوب دور میں بغاوت و غداری یا شرپسندی کے الزامات میں حراست میں نہیں لیے جاتے تھے۔کیا ان کے اخباری اثاثے ضبط نہیں ہوتے تھے۔کیا بھٹو دور میں صحافی ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت جیل نہیں بھیجے جاتے رہے ، کیا اخبارات و رسائل کو ریاست دشمن یا فتنہ پرداز قرار دے کر ان کے ڈکلریشن منسوخ نہیں ہوتے تھے۔
اس ملک میں سب سے پہلی میڈیا عدالت دراصل وہ تھی جس نے سن اسی کی ضیائی دہائی میں چار صحافیوں کو کوڑوں کی سزا سنائی تھی۔مگر میڈیا بھی کتے کی دم ہی رہا ، کسی سرکار کی نلکی اسے سیدھا نہیں کر سکی۔
فی زمانہ میڈیا جتنا تابع دار ہے اگر اس تابع داری اور بھانت بھانت کے قوانین کے باوجود بھی حکومت میڈیا عدالتوں کی ضرورت محسوس کر رہی ہے تو پھر مسئلہ میڈیا سے زیادہ خود حکومت کا احساسِ عدم تحفظ ہے جو غالباً اس سطح تک پہنچ گیا ہے کہ ہر ہلتی شے سانپ لگ رہی ہے۔
اس مسئلے کا علاج میڈیا کورٹس نہیں بلکہ جسمانی کچھاؤ اور اعصابی تناؤ کم کرنے والی کسی بھی چالو برانڈ کی دو گولیاں ہیں۔جنھیں نگل کے کمبل اوڑھ کے سرکار کو چند گھنٹے کے لیے سو جانا چاہیے۔تاکہ پسینہ آنے سے طبیعت کچھ ہلکی ہو سکے۔
ساتھ ہی ساتھ جملہ وزراء و مشیران و خوشامدیان و موقع پرستگان و جی حضوریان و ٹویٹریان اگر پان کھانے کی عادت بھی ڈال لیں تو حالات اور بہتر ہو سکتے ہیں۔پان کی گلوری داڑھ میں دابنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ منہ بند رہتا ہے اور بہت ہی ضروری بات نہ ہو توعموماً آلتو فالتو سوالات کے جواب میں ہوں ہاں یا اشاروں سے بھی کام چل جاتا ہے۔اس حکومت کو پان کی گلوری کی جس قدر ضرورت ہے وہ آپ کی سوچ سے بھی زیادہ ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)