ہولی ٹرینٹی چرچ یا لائٹ ہاؤس
ہولی ٹرینٹی چرچ کے ٹاور کا طویل عرصے تک لائٹ ہاؤس کے طور پر استعمال ہوتا رہا
انگریزوں کے کراچی پر قبضے سے قبل یہ شہر ایک پسماندہ بستی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ انگریزوں کے قدم رکھنے کے بعد ہی کراچی نے اپنی ترقی کا سفر شروع کیا اور یہاں ریلوے، ڈاک، سڑکیں، ٹرامیں، بجلی و دیگر نظام روشناس کرائے۔ کیونکہ کراچی جسے قدرتی بندرگاہ کی حیثیت پہلے سے حاصل تھی اور یہ دور دراز ممالک تک مشہور تھا، وسطی ایشیا کے دروازے کے طور پر بحری راستوں سے تجارت ہوتی تھی، لہٰذا انہوں نے بندرگاہ کو خصوصی اہمیت دی اور سب سے پہلے ان نوکیلی چٹانوں کو، جو جہازوں کے بندرگاہ کے داخلے میں رکاوٹ تھیں، ختم کرنے کے ساتھ بحری جہازوں کے لنگر انداز ہونے کےلیے برتھیں بنائیں اور وزنی کرین نصب کی گئیں تاکہ بیرون ملک سے آنے والے سامان تجارت کو اتارا اور جہازوں پر چڑھایا جاسکے۔
جہازوں کی رہنمائی کےلیے لائٹ ہاؤس سے نکلنے والی روشنی کی شعاعوں سے بحری جہاز کو اپنے راستے پر چلنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی۔ وہ برقی شعاعوں کی روشنی میں بندرگاہ میں داخل ہوتے اور انہیں یہ شعاعیں ناصرف رکاوٹوں سے آگاہی دیتی بلکہ لنگر انداز ہونے تک اس کی رہنمائی کا کام انجام دیتی تھیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ کراچی میں ہر وقت بحری جہازوں کی آمدروفت کا سلسلہ جاری رہتا تھا جن کی رہنمائی کےلیے منوڑہ میں ایک بہت بڑا لائٹ ہاؤس انگریزوں کے دور میں تعمیر کیا گیا۔ اس طرح بندرگاہ پر اٹھارویں صدی سے ہی لائٹ ہاؤس کا استعمال ہونا شروع ہوگیا۔
1889 میں منوڑہ میں بحری جہازوں کی رہنمائی کےلیے تعمیر ہونے والے لائٹ ہاؤس میں مزید جدت پیدا کرکے 1909 میں اس لائٹ ہاؤس کو نئی روشنیوں سے آراستہ کیا گیا اور اسے دنیا کے سب سے طاقتور لائٹ ہاؤس ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوگیا۔
اس وقت کراچی کی بندرگاہ، برصغیر کی تین سب سے زیادہ معروف بندرگاہوں سے ایک تھی۔ اسے پہلی جنگ عظیم کے دوران اس کے اردگرد ہونے والے معرکوں سے نقصان بھی پہنچا۔ جس کے بعد دوبارہ اس کی مرمت کی گئی اور پتھروں سے تعمیر کردہ اس لائٹ ہاؤس پر طاقتور لیزرز نصب کیے گئے۔ جس کے بعد اس سے نکلنے والی شعاعیں 14 لاکھ چراغوں کی روشنی کے برابر ہوگئی۔ جسے اب مزید جدید خطوط سے ہم آہنگ کردیا گیا ہے، جس کے سبب اس لائٹ ہاؤس کا شمار دنیا کے بہترین لائٹ ہاؤسوں میں کیا جاتا ہے۔
جس طرح انگریزوں نے بندرگاہ کی اہمیت کے پیش نظر منوڑہ پر یہ لائٹ ہاؤس تعمیر کیا، ٹھیک اسی طرح انہوں نے عبداللہ ہارون روڈ پر ایوان صدر کے سامنے ہولی ٹرینٹی چرچ کی بنیاد رکھی۔ اس چرچ کا ڈیزائن ممبئی کے ایک انجینئر کیپٹن جون ہل نے تیار کیا تھا، جبکہ کمشنر سندھ سر بارٹلے فریئر نے 9 ستمبر 1852 کو اس کی بنیاد رکھی، جس کی تعمیر میں کئی سال لگے۔ مارچ 1855میں بشپ آف ممبئی نے اس کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ کیونکہ اسے کراچی کے دیگر چرچز کی طرح برطانوی فوجیوں اور ان کے خاندانوں کی عبادت کےلیے تعمیر کیا گیا تھا، لہٰذا اسے تمام چرچ عمارتوں سے منفرد اور کارآمد بنانے کےلیے اس چرچ پر ایک 6 منزلہ 150 فٹ اونچا ٹاور تعمیر کیا گیا۔ یہ ٹاور دور دراز کے علاقوں سے بھی نظر آتا تھا اور کیونکہ سمندر اس وقت شاہراہ فیصل کے کچھ آگے تک موجود تھا، لہٰذا تعمیر کیا جانے والا بلند و بالا ٹاور سمندر میں دور سے نظر آتا تھا۔ جسے دیکھتے ہوئے انگریز انجینئرز نے اس اونچے ٹاور کو بھی متبادل لائٹ ہاؤس کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے مکمل طور پر ایک لائٹ ہاؤس کے طور پر ڈھال دیا۔
یہ لائٹ ہاؤس بھی ایک طویل عرصے تک کراچی میں داخل ہونے والے بحری جہازوں کی رہنمائی کا کام انجام دیتا رہا۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم میں منوڑہ میں لائٹ ہاؤس کی تباہی کے بعد بحری جہازوں کی سمندر میں رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ جب منوڑہ میں جنگوں کے دوران تباہ ہونے والے لائٹ ہاؤس کی مرمت کا کام مکمل ہوگیا تو اس لائٹ ہاؤس کو بند کردیا گیا۔
اس دور میں اس لائٹ ہاؤس کا ٹاور پورے شہر میں سب سے بلند تھا، لہٰذا لوگ اس سے خوف کھاتے تھے۔ جس کے پیش نظر لوگوں نے اس کی بلندی کم کرنے کے مطالبات شروع کردیئے اور بالآخر بشپ لاہور کی ہدایت پر اس کی اوپری 2 منزلوں (جسے بغیر کسی پلر کے جوائنٹ سسٹم کے تحت بنایا گیا تھا) کے جوائنٹ کھول کر اس کی بلندی کو کم کردیا گیا۔ آج بھی اس بلند ٹاور سے نکلے ہوئے پتھر کے بلاک چرچ کے عقب میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
اس حوالے سے بلاگر نے جب پروٹسٹنٹ فرقے کے بشپ صادق ڈینیل سے گفتگو کی تو انہوں نے بھی ماضی میں چرچ کے بلند ٹاور کو لائٹ ہاؤس کے طور پر استعمال کیے جانے اور لوگوں کے خوف کے باعث اس کی دو منزلیں کم کیے جانے کی تصدیق کی اور چرچ کے ہال میں لائٹ ہاؤس کے طور پر استعمال ہونے والے 150 فٹ اونچے ٹاور کی فریم شدہ تصویر بھی دکھائی۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ اس چرچ کو ماضی میں برطانوی افواج سے تعلق رکھنے والے فوجیوں اور ان کے خاندانوں کی عبادت کےلیے تعمیر کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی افواج کے جو بھی افسران اور اہلکار ہلاک ہوئے یا انہوں نے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے، ان کے ناموں کی تختیاں چرچ کے ہال میں جابجا نصب ہیں۔ جس کی بنیاد پر آج بھی اس چرچ کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس چرچ کے تحت ہولی ٹرینٹی اسکول کے ساتھ فلاحی خدمات بھی انجام دیئے جاتے ہیں۔
بلاگر نے جب ان سے یہ استفسار کیا کہ ماضی میں سمندری حد کہاں تک تھی، تو ان کا بھی یہ کہنا تھا کہ سمندر کافی حد تک پیچھے کی جانب گیا ہے۔ اسی وجہ سے لوگوں کو چرچ کے ٹاور کے لائٹ ہاؤس کے طور پر استعمال ہونے پر شبہ ہے۔ لیکن یہ بات سچ ہے کہ سمندر انتہائی نزدیک تھا اور اس کی تصدیق مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، جو کہ ماضی کے فلیگ اسٹاف ہاؤس اور آج کے قائداعظم ہاؤس میوزیم میں مقیم تھیں، انہوں نے ایوب خان کے خلاف الیکشن مہم میں اسی عمارت سے حصہ لیا تھا۔ ان کی سیکریٹری بیگم خورشید کا کہنا بھی یہی تھا کہ ماضی میں سمندر انتہائی نزدیک تھا اور محترمہ فاطمہ جناح روزانہ شام کو بالکونی میں بیٹھ کر سمندر کی ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہوتی تھیں۔
اس بارے میں ماہر آثار قدیمہ قاسم علی قاسم نے بھی تصدیق کی کہ سمندر قیام پاکستان کے بعد بھی انتہائی قریب تھا، سمندری پانی للی برج اور پی آئی ڈی سی کے قرب و جوار کے علاقے کو چھو رہا ہوتا تھا، جبکہ کلفٹن اور گزری کے بیشتر علاقے بھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہوتے تھے۔ وقت کے ساتھ سمندر کم و بیش 50 میل پیچھے گیا ہے۔ انہوں نے بھی ہولی ٹرینٹی چرچ کے ٹاور کے لائٹ ہاؤس کے طور پر استعمال ہونے کی تصدیق کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس متبادل لائٹ ہاؤس نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران بحری جہازوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جہازوں کی رہنمائی کےلیے لائٹ ہاؤس سے نکلنے والی روشنی کی شعاعوں سے بحری جہاز کو اپنے راستے پر چلنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی۔ وہ برقی شعاعوں کی روشنی میں بندرگاہ میں داخل ہوتے اور انہیں یہ شعاعیں ناصرف رکاوٹوں سے آگاہی دیتی بلکہ لنگر انداز ہونے تک اس کی رہنمائی کا کام انجام دیتی تھیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ کراچی میں ہر وقت بحری جہازوں کی آمدروفت کا سلسلہ جاری رہتا تھا جن کی رہنمائی کےلیے منوڑہ میں ایک بہت بڑا لائٹ ہاؤس انگریزوں کے دور میں تعمیر کیا گیا۔ اس طرح بندرگاہ پر اٹھارویں صدی سے ہی لائٹ ہاؤس کا استعمال ہونا شروع ہوگیا۔
1889 میں منوڑہ میں بحری جہازوں کی رہنمائی کےلیے تعمیر ہونے والے لائٹ ہاؤس میں مزید جدت پیدا کرکے 1909 میں اس لائٹ ہاؤس کو نئی روشنیوں سے آراستہ کیا گیا اور اسے دنیا کے سب سے طاقتور لائٹ ہاؤس ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوگیا۔
اس وقت کراچی کی بندرگاہ، برصغیر کی تین سب سے زیادہ معروف بندرگاہوں سے ایک تھی۔ اسے پہلی جنگ عظیم کے دوران اس کے اردگرد ہونے والے معرکوں سے نقصان بھی پہنچا۔ جس کے بعد دوبارہ اس کی مرمت کی گئی اور پتھروں سے تعمیر کردہ اس لائٹ ہاؤس پر طاقتور لیزرز نصب کیے گئے۔ جس کے بعد اس سے نکلنے والی شعاعیں 14 لاکھ چراغوں کی روشنی کے برابر ہوگئی۔ جسے اب مزید جدید خطوط سے ہم آہنگ کردیا گیا ہے، جس کے سبب اس لائٹ ہاؤس کا شمار دنیا کے بہترین لائٹ ہاؤسوں میں کیا جاتا ہے۔
جس طرح انگریزوں نے بندرگاہ کی اہمیت کے پیش نظر منوڑہ پر یہ لائٹ ہاؤس تعمیر کیا، ٹھیک اسی طرح انہوں نے عبداللہ ہارون روڈ پر ایوان صدر کے سامنے ہولی ٹرینٹی چرچ کی بنیاد رکھی۔ اس چرچ کا ڈیزائن ممبئی کے ایک انجینئر کیپٹن جون ہل نے تیار کیا تھا، جبکہ کمشنر سندھ سر بارٹلے فریئر نے 9 ستمبر 1852 کو اس کی بنیاد رکھی، جس کی تعمیر میں کئی سال لگے۔ مارچ 1855میں بشپ آف ممبئی نے اس کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ کیونکہ اسے کراچی کے دیگر چرچز کی طرح برطانوی فوجیوں اور ان کے خاندانوں کی عبادت کےلیے تعمیر کیا گیا تھا، لہٰذا اسے تمام چرچ عمارتوں سے منفرد اور کارآمد بنانے کےلیے اس چرچ پر ایک 6 منزلہ 150 فٹ اونچا ٹاور تعمیر کیا گیا۔ یہ ٹاور دور دراز کے علاقوں سے بھی نظر آتا تھا اور کیونکہ سمندر اس وقت شاہراہ فیصل کے کچھ آگے تک موجود تھا، لہٰذا تعمیر کیا جانے والا بلند و بالا ٹاور سمندر میں دور سے نظر آتا تھا۔ جسے دیکھتے ہوئے انگریز انجینئرز نے اس اونچے ٹاور کو بھی متبادل لائٹ ہاؤس کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے مکمل طور پر ایک لائٹ ہاؤس کے طور پر ڈھال دیا۔
یہ لائٹ ہاؤس بھی ایک طویل عرصے تک کراچی میں داخل ہونے والے بحری جہازوں کی رہنمائی کا کام انجام دیتا رہا۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم میں منوڑہ میں لائٹ ہاؤس کی تباہی کے بعد بحری جہازوں کی سمندر میں رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ جب منوڑہ میں جنگوں کے دوران تباہ ہونے والے لائٹ ہاؤس کی مرمت کا کام مکمل ہوگیا تو اس لائٹ ہاؤس کو بند کردیا گیا۔
اس دور میں اس لائٹ ہاؤس کا ٹاور پورے شہر میں سب سے بلند تھا، لہٰذا لوگ اس سے خوف کھاتے تھے۔ جس کے پیش نظر لوگوں نے اس کی بلندی کم کرنے کے مطالبات شروع کردیئے اور بالآخر بشپ لاہور کی ہدایت پر اس کی اوپری 2 منزلوں (جسے بغیر کسی پلر کے جوائنٹ سسٹم کے تحت بنایا گیا تھا) کے جوائنٹ کھول کر اس کی بلندی کو کم کردیا گیا۔ آج بھی اس بلند ٹاور سے نکلے ہوئے پتھر کے بلاک چرچ کے عقب میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
اس حوالے سے بلاگر نے جب پروٹسٹنٹ فرقے کے بشپ صادق ڈینیل سے گفتگو کی تو انہوں نے بھی ماضی میں چرچ کے بلند ٹاور کو لائٹ ہاؤس کے طور پر استعمال کیے جانے اور لوگوں کے خوف کے باعث اس کی دو منزلیں کم کیے جانے کی تصدیق کی اور چرچ کے ہال میں لائٹ ہاؤس کے طور پر استعمال ہونے والے 150 فٹ اونچے ٹاور کی فریم شدہ تصویر بھی دکھائی۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ اس چرچ کو ماضی میں برطانوی افواج سے تعلق رکھنے والے فوجیوں اور ان کے خاندانوں کی عبادت کےلیے تعمیر کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی افواج کے جو بھی افسران اور اہلکار ہلاک ہوئے یا انہوں نے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے، ان کے ناموں کی تختیاں چرچ کے ہال میں جابجا نصب ہیں۔ جس کی بنیاد پر آج بھی اس چرچ کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس چرچ کے تحت ہولی ٹرینٹی اسکول کے ساتھ فلاحی خدمات بھی انجام دیئے جاتے ہیں۔
بلاگر نے جب ان سے یہ استفسار کیا کہ ماضی میں سمندری حد کہاں تک تھی، تو ان کا بھی یہ کہنا تھا کہ سمندر کافی حد تک پیچھے کی جانب گیا ہے۔ اسی وجہ سے لوگوں کو چرچ کے ٹاور کے لائٹ ہاؤس کے طور پر استعمال ہونے پر شبہ ہے۔ لیکن یہ بات سچ ہے کہ سمندر انتہائی نزدیک تھا اور اس کی تصدیق مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، جو کہ ماضی کے فلیگ اسٹاف ہاؤس اور آج کے قائداعظم ہاؤس میوزیم میں مقیم تھیں، انہوں نے ایوب خان کے خلاف الیکشن مہم میں اسی عمارت سے حصہ لیا تھا۔ ان کی سیکریٹری بیگم خورشید کا کہنا بھی یہی تھا کہ ماضی میں سمندر انتہائی نزدیک تھا اور محترمہ فاطمہ جناح روزانہ شام کو بالکونی میں بیٹھ کر سمندر کی ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہوتی تھیں۔
اس بارے میں ماہر آثار قدیمہ قاسم علی قاسم نے بھی تصدیق کی کہ سمندر قیام پاکستان کے بعد بھی انتہائی قریب تھا، سمندری پانی للی برج اور پی آئی ڈی سی کے قرب و جوار کے علاقے کو چھو رہا ہوتا تھا، جبکہ کلفٹن اور گزری کے بیشتر علاقے بھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہوتے تھے۔ وقت کے ساتھ سمندر کم و بیش 50 میل پیچھے گیا ہے۔ انہوں نے بھی ہولی ٹرینٹی چرچ کے ٹاور کے لائٹ ہاؤس کے طور پر استعمال ہونے کی تصدیق کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس متبادل لائٹ ہاؤس نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران بحری جہازوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔