طالبان سے معاہدہ افغان جمہوری عمل کی نفی
ٹرمپ نے افغان طالبان کے ساتھ معاہدے کے اعلان کے لیے کیمپ ڈیوڈ ملاقات منسوخ کر کے جرات مندانہ قدم اٹھایا
صدر ٹرمپ نے جنھیں ٹویٹ کرنے کا بہت شوق ہے، افغان طالبان سے مذاکرات کے بارے میں جو پیغام بھیجا اس پر بہت سے لوگوں نے تنقید کی ہے، مگر اس کے باوجود یہ مثبت پیغام ہے۔
ٹرمپ نے افغان طالبان کے ساتھ معاہدے کے اعلان کے لیے کیمپ ڈیوڈ ملاقات منسوخ کر کے جرات مندانہ قدم اٹھایا۔ ورنہ یہ زلمے خلیل زاد کے لیے مہر تصدیق اور طالبان کے سامنے مکمل طور پر ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہوتا۔ افغانستان کو ایک جمہوری اور ترقی پسند نظام حکومت دینے کے لیے صرف امریکی فوجیوں نے ہی اپنی جانیں قربان نہیں کیں بلکہ افغان عوام نے بھی اس کی بھاری قیمت ادا کی۔
افغان خواتین نے بھی اطمینان کا سانس لیا ہو گا کیونکہ خلیل زاد کی قیادت میں اسلامی امارت افغانستان سے ہونے والے سمجھوتے میں اُن عورت دشمن عناصر کے ساتھ سودے بازی کی گئی جو لڑکیوں کے اسکولوں اور دوسرے تعلیمی مراکز کو تباہ کرنے کا ٹریک ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ان لوگوں نے خواتین کے لیے برقع پہننا بھی لازمی قرار دیا تھا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکا کو حملہ ہی نہیں کرنا چاہیے تھا اور سخت رد عمل کے طور پر اپنی فوج افغانستان نہیں بھیجنی چاہیے تھی۔ وہ شمالی اتحاد کی مدد سے افغان طالبان کی حکومت کو ختم کر سکتا تھا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ امارات پر طالبان سے یکسر علیحدگی اور ان کی مالی مدد روکنے کے لیے دباؤ ڈال سکتا تھا، انھی تین حکومتوں نے طالبان کو تسلیم کیا تھا۔
ا سٹیو کول نے خاصی تحقیق کے بعد اپنی تصنیف "Directorate S" میں جو کچھ کہا ہے ، وہ پڑھنے اور سمجھنے کا لائق ہے۔ اب امریکا اعتراف کرتا ہے کہ پاکستان نے امریکیوں اور طالبان کے درمیان بات چیت میں مدد کی۔ ہو سکتا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ پاکستان کے رابطوں نے افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی کچھ مدد کی ہو۔
ایک عرصہ تک امریکی پاکستان کو یہ کہتے رہے کہ مزید کچھ کرو جس پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ برہم بھی ہوتی رہی اور ہم یہ کہتے رہے کہ طالبان پر ہمارا زیادہ اثرورسوخ نہیں ہے۔
اس سے پہلے، افغان طالبان، امریکا، چین اور روس کے درمیان چار فریقی مذاکرات کی کوشش ناکام ہوگئی تھی کیونکہ افغان انٹیلجنس نے یہ راز افشا کر دیا تھا کہ طالبان کے سپریم لیڈر ملا عمر کئی ماہ پہلے انتقال کر چکے ہیں جب کہ پر اسرار طریقے سے مذاکرات کے حق میں ملا عمر کا ایک جعلی خط بھی منظر عام پر لایا گیا۔اس صورت حال نے افغان طالبان کو اپنی تحریک کے نئے امیر اختر منصور کے اعلان پر مجبور کیا جو مئی 2016ء میں اُس وقت امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا جب وہ ایران کے ساتھ ملنے والی سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہوا تھا۔
عام طور پر باور کیا جاتا تھا کہ وہ امریکا کے ساتھ امن مذاکرات کے حق میں نہیں تھا اور اسی لیے امریکا نے اسے راستے سے ہٹا دیا۔ اس کے بعد افغان طالبان نے ہیبت اللہ اخونزادہ کو اپنا امیر منتخب کیا۔ وہ افغان سرحد کے قریب ایک گاؤں میں ایک مدرسہ چلاتا تھا۔ دوسری طرف پاکستان کی طرف سے قبائلی علاقوں میں حقانی گروپ کے لیڈروں کی موجودگی کی بھی تردید کی گئی حالانکہ اسے اچھی طرح سے معلوم ہے کہ افغانستان اور امریکا ہماری تردید پر یقین نہیں کرتے۔
امریکا اور افغانستان نے جب بھی اصرار کیا کہ پاکستان مزید اقدامات کرے، پاکستانی حکومت نے موقف اختیار کیا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج کے اہل کاروں اور بے گناہ سویلینز سمیت 70,000 افراد کی قربانی دے چکا ہے۔ یاد رہے کہ شروع میں پاکستانی طالبان کو بھی ہم نے تخلیق کیا تھا تاہم بعد میں وہ کسی کے ہاتھوںمیں کھیلنے لگے اور سوئس افسانوی کردار frankenstein بن گئے۔
افغانستان کی منتخب حکومت اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے ساتھ، جو شمالی اتحاد کے ایک مقبول لیڈر ہیں، بات چیت سے طالبان کا انکار، گھڑی کی سوئی الٹی گھمانے کے متراد ف ہے ، کیونکہ وہاں صدارتی الیکشن ہونے والا ہے۔ طالبان کو جو جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے ، مجبور کیا جانا چاہیے تھا کہ وہ اگلے انتخابات میں حصہ لیں اور اگر وہ جیت جائیں تو دہشت گرد حملوں میں بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کی بجائے افغانستان میں اپنی حکومت بنائیں۔
انتہا پسند صرف اس وقت تک جمہوریت پسند ہوتے ہیں جب تک حکومت سے باہر ہوتے ہیں۔ جب وہ منتخب ہو جاتے ہیں تو پھر قرون وسطیٰ کی اقدار نافذ کرنے کی آڑ میں اپنا فسطائی رنگ دکھاتے ہیں۔ کیامصر میں مرسی کی جماعت اخوان المسلمون نے ایسا نہیں کیا تھا؟
پاکستان نے بالآخر اپنی پالیسی تبدیل کرلی ہے کہ وہ اپنی قومی سلامتی کی پالیسی آگے بڑھانے کے لیے غیر ریاستی اداکاروں کو استعمال نہیں کرے گا۔ اس تبدیلی کی بڑی وجہ بین الاقوامی دباؤ اور آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی اقتصادی پابندیوں کا خوف ہے۔ یہ پالیسی اس وقت تبدیل ہونا شروع ہوئی جب پاکستان کو پاکستانی طالبان کا مقابلہ کرنا پڑا۔ جنرل کیانی نے کہا تھا کہ پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ اندر سے ہے ۔ پاکستان کی فوج نے پاکستانی طالبان کے خلاف بہادری سے جنگ لڑی اور 70 سال کے بعد فاٹا کا خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام ہوا۔
ٹرمپ نے افغان طالبان کے ساتھ معاہدے کے اعلان کے لیے کیمپ ڈیوڈ ملاقات منسوخ کر کے جرات مندانہ قدم اٹھایا۔ ورنہ یہ زلمے خلیل زاد کے لیے مہر تصدیق اور طالبان کے سامنے مکمل طور پر ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہوتا۔ افغانستان کو ایک جمہوری اور ترقی پسند نظام حکومت دینے کے لیے صرف امریکی فوجیوں نے ہی اپنی جانیں قربان نہیں کیں بلکہ افغان عوام نے بھی اس کی بھاری قیمت ادا کی۔
افغان خواتین نے بھی اطمینان کا سانس لیا ہو گا کیونکہ خلیل زاد کی قیادت میں اسلامی امارت افغانستان سے ہونے والے سمجھوتے میں اُن عورت دشمن عناصر کے ساتھ سودے بازی کی گئی جو لڑکیوں کے اسکولوں اور دوسرے تعلیمی مراکز کو تباہ کرنے کا ٹریک ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ان لوگوں نے خواتین کے لیے برقع پہننا بھی لازمی قرار دیا تھا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکا کو حملہ ہی نہیں کرنا چاہیے تھا اور سخت رد عمل کے طور پر اپنی فوج افغانستان نہیں بھیجنی چاہیے تھی۔ وہ شمالی اتحاد کی مدد سے افغان طالبان کی حکومت کو ختم کر سکتا تھا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ امارات پر طالبان سے یکسر علیحدگی اور ان کی مالی مدد روکنے کے لیے دباؤ ڈال سکتا تھا، انھی تین حکومتوں نے طالبان کو تسلیم کیا تھا۔
ا سٹیو کول نے خاصی تحقیق کے بعد اپنی تصنیف "Directorate S" میں جو کچھ کہا ہے ، وہ پڑھنے اور سمجھنے کا لائق ہے۔ اب امریکا اعتراف کرتا ہے کہ پاکستان نے امریکیوں اور طالبان کے درمیان بات چیت میں مدد کی۔ ہو سکتا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ پاکستان کے رابطوں نے افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی کچھ مدد کی ہو۔
ایک عرصہ تک امریکی پاکستان کو یہ کہتے رہے کہ مزید کچھ کرو جس پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ برہم بھی ہوتی رہی اور ہم یہ کہتے رہے کہ طالبان پر ہمارا زیادہ اثرورسوخ نہیں ہے۔
اس سے پہلے، افغان طالبان، امریکا، چین اور روس کے درمیان چار فریقی مذاکرات کی کوشش ناکام ہوگئی تھی کیونکہ افغان انٹیلجنس نے یہ راز افشا کر دیا تھا کہ طالبان کے سپریم لیڈر ملا عمر کئی ماہ پہلے انتقال کر چکے ہیں جب کہ پر اسرار طریقے سے مذاکرات کے حق میں ملا عمر کا ایک جعلی خط بھی منظر عام پر لایا گیا۔اس صورت حال نے افغان طالبان کو اپنی تحریک کے نئے امیر اختر منصور کے اعلان پر مجبور کیا جو مئی 2016ء میں اُس وقت امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا جب وہ ایران کے ساتھ ملنے والی سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہوا تھا۔
عام طور پر باور کیا جاتا تھا کہ وہ امریکا کے ساتھ امن مذاکرات کے حق میں نہیں تھا اور اسی لیے امریکا نے اسے راستے سے ہٹا دیا۔ اس کے بعد افغان طالبان نے ہیبت اللہ اخونزادہ کو اپنا امیر منتخب کیا۔ وہ افغان سرحد کے قریب ایک گاؤں میں ایک مدرسہ چلاتا تھا۔ دوسری طرف پاکستان کی طرف سے قبائلی علاقوں میں حقانی گروپ کے لیڈروں کی موجودگی کی بھی تردید کی گئی حالانکہ اسے اچھی طرح سے معلوم ہے کہ افغانستان اور امریکا ہماری تردید پر یقین نہیں کرتے۔
امریکا اور افغانستان نے جب بھی اصرار کیا کہ پاکستان مزید اقدامات کرے، پاکستانی حکومت نے موقف اختیار کیا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج کے اہل کاروں اور بے گناہ سویلینز سمیت 70,000 افراد کی قربانی دے چکا ہے۔ یاد رہے کہ شروع میں پاکستانی طالبان کو بھی ہم نے تخلیق کیا تھا تاہم بعد میں وہ کسی کے ہاتھوںمیں کھیلنے لگے اور سوئس افسانوی کردار frankenstein بن گئے۔
افغانستان کی منتخب حکومت اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے ساتھ، جو شمالی اتحاد کے ایک مقبول لیڈر ہیں، بات چیت سے طالبان کا انکار، گھڑی کی سوئی الٹی گھمانے کے متراد ف ہے ، کیونکہ وہاں صدارتی الیکشن ہونے والا ہے۔ طالبان کو جو جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے ، مجبور کیا جانا چاہیے تھا کہ وہ اگلے انتخابات میں حصہ لیں اور اگر وہ جیت جائیں تو دہشت گرد حملوں میں بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کی بجائے افغانستان میں اپنی حکومت بنائیں۔
انتہا پسند صرف اس وقت تک جمہوریت پسند ہوتے ہیں جب تک حکومت سے باہر ہوتے ہیں۔ جب وہ منتخب ہو جاتے ہیں تو پھر قرون وسطیٰ کی اقدار نافذ کرنے کی آڑ میں اپنا فسطائی رنگ دکھاتے ہیں۔ کیامصر میں مرسی کی جماعت اخوان المسلمون نے ایسا نہیں کیا تھا؟
پاکستان نے بالآخر اپنی پالیسی تبدیل کرلی ہے کہ وہ اپنی قومی سلامتی کی پالیسی آگے بڑھانے کے لیے غیر ریاستی اداکاروں کو استعمال نہیں کرے گا۔ اس تبدیلی کی بڑی وجہ بین الاقوامی دباؤ اور آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی اقتصادی پابندیوں کا خوف ہے۔ یہ پالیسی اس وقت تبدیل ہونا شروع ہوئی جب پاکستان کو پاکستانی طالبان کا مقابلہ کرنا پڑا۔ جنرل کیانی نے کہا تھا کہ پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ اندر سے ہے ۔ پاکستان کی فوج نے پاکستانی طالبان کے خلاف بہادری سے جنگ لڑی اور 70 سال کے بعد فاٹا کا خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام ہوا۔