یہ بے ٹکٹے لوگ
یہ وہ بنیادی سوال ہیں جن کا جواب حکومت کے پاس ہے اور عوام اپنے سوالوں کے جواب مانگ رہے ہیں
ایک بات نہ میری سمجھ میں آتی ہے اور نہ آپ کی سمجھ میں آئے گی کہ جو بھی حکومت ہو وہ عوام کو تنگ اور پریشان کرنے کے طریقے کہاں سے ڈھونڈ لیتی ہے۔ جان و مال کی حفاظت ہر حکومت کے ذمہ رہی ہے اور حکومتیں یہ کام پولیس کے ذریعے کراتی ہیں۔
دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جو بھی حکمران آیا اس نے عوام سے زیادہ اپنے جان و مال کی حفاظت کو ترجیح دی جس کے نتائج ہم آج بھگت رہے ہیں۔ عوام چوروں ، ڈاکوؤں اور چور اچکوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ روزانہ اخبارات جرائم کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔
بچوں سے سے لے کر بڑے تک ان بے رحم قاتلوں کی پہنچ سے کوئی دور نہیں ۔ ہمارے پنجاب کے درویش وزیر اعلیٰ اس کو شش میں ہیں کہ وہ عوام کو ان کی دہلیز پر انصاف فراہم کریں لیکن ابھی تک وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ایسے ہی جیسے ان کے پیشرو جناب شہباز شریف اپنی حتیٰ المقدور کوششوں کے باوجود ان جرائم پیشہ افراد کے سامنے بے بس تھے ۔ بہر حال امن و امان کی ابتری ہمارے مقدر میں لکھ دی گئی ہے، ہمیں اس کے ساتھ ہی زندگی گزارنی ہے اور اپنی حفاظت کا خود بندوبست کرنا ہے ۔ اگر ہم روائتی پولیس کے حوالے رہے تو پھر ہمارا حشر وہی ہو گا جو آج سے پہلے ہوتا آیا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے۔
ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے ایک عام پاکستانی کو اس کا ہم اخبار والوں سے زیادہ پتہ ہے۔ شاید اسلیے کہ سب کچھ اس پر بیت رہا ہے ۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ اس کا ملک غریب غریب نہیںبلکہ لوٹ مار کر کے اسے غریب بنا دیا گیا ہے۔ ان حالات میں وہ کسی نجات دہندہ کے انتظار میں رہتا ہے۔ وہ خود محنت مزدوری کرتا ہے وہ اپنی دھن میں اپنے بچوں کا روزگار کمانے کے لیے جُتا رہتا ہے اور کسی سے کچھ نہیں مانگتا لیکن انصاف ضرور مانگتا ہے کہ اسے محنت کا اجر ملتا رہے اور اس کی جان و مال محفوظ رہے تا کہ وہ آرام کے ساتھ مزدوری کر سکے ۔ مزدوری نہیں بھی ملتی تو صبر کر لیتا ہے اور جب تک سانس ہے تو وہ زیادہ کام کر کے اس کے مطابق اجرت لینے کی کوشش کرتا ہے ۔
وہ سب کچھ دیکھتا ہے مگر چپ رہتا ہے ۔ لوٹ مار اس کے سامنے ہوتی ہے مگر وہ لوٹنے والے ہاتھوں کو روک نہیں سکتا کیونکہ اس کے ہاتھ تو فارغ نہیں ہوتے ۔ ان ہاتھو ں کو روکنے بلکہ کاٹنے کے لیے وہ کسی کا انتظار کر رہا ہے۔ ایک واقعہ کسی دوست نے سنایا تھا: کہ ایک مرتبہ وہ ریلوے میں سفر کر رہے تھے، ٹکٹ چیکر نے ایک مسافر کو بلا ٹکٹ پکڑ لیا ۔ لوگ جمع ہو گئے ، ان میں سے ایک شخص جذباتی ہو گیا اور بلا ٹکٹ سفر کرنیوالوں کو لعن طعن کرنے لگا اور پر جوش انداز میں ٹکٹ چیکر کی حمائیت کرنے لگا تو نہ جانے ٹکٹ چیکر کی چھٹی حس کیسے بیدار ہوئی اور اس نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس ٹکٹ ہے جو آپ اس قدر پُر جوش ہو رہے ہیں ۔ یہ سنتے ہی وہ شخص ادھر ادھر ہو گیا ۔
یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں ایسا ٹکٹ چیکر کب آئے جو پر جوش تقریریں کرنیوالوں، عوام کو نصیحتیں کرنیوالوں اور قوم کی قیادت کا دعویٰ رکھنے والوں سے بھی ٹکٹ کا مطالبہ کرے گا کیونکہ یہ سب بے ٹکٹے ہیں لیکن دوسرے بے ٹکٹوں کو پکڑوانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں ۔ خود ٹکٹ نہیں خریدتے اس کی کئی ایک جھلکیاں ہم موجودہ حکومت کے وزیروں کی گرفتاری کی صورت میں دیکھ چکے ہیں لیکن شکر یہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنے بے ٹکٹوں کا بھی کسی نہ کسی حد تک احتساب کر رہی ہے ۔ یہ ایک ایسی جسارت ہے جس سے ہر حکومت گھبراتی ہے کیونکہ یہ جسارت اکثر اوقات گلے بھی پڑ جاتی ہے۔
کاروباری لوگوں کی حکومت کے بعد نیم کاروباری لوگوں کی حکومت میں ہمارا کاروباری طبقہ آہ و فغان کر رہا ہے، کبھی ہڑتال کا علان کرتا ہے تو اب تاجروں نے مولانا فضل الرحمٰن کی سنی سنائی اسلام آباد مارچ کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے ۔ ٹیکس دینے کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے تاجر حکومت کے ٹیکس جمع کرانے کے مطالبوں سے پریشان ہیں حالانکہ اگر دیکھا جائے تو کئی دوسرے مسائل ایسے ہیں جن کے حل ہونے سے تاجروں کی مشکلات میں کمی ہو سکتی ہے۔ لیکن انھوں نے ابھی اپنے آپ کو صرف ٹیکس نہ دینے کے مطالبے تک محدود کر لیا ہے ۔ ایک تاجر دوست بتا رہے تھے کہ مہنگی توانائی اور صوبوں میں توانائی کے یکساں نرخ نہ ہونے کی وجہ سے پیداواری لاگت میں یکسانیت نہیں ہے۔
ہماری حکومت کم از کم یہ تو کر سکتی ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں توانائی کے نرخ یکساں کر دے تا کہ کارخانوں میں بننے والے سامان کی لاگت یکساں ہو اور ان کو مارکیٹ میں فروخت کے وقت کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے ، اس ایک قدم سے آپ دیکھیں گے کہ ملک میں کارخانوں کی چمنیوں سے دوبارہ دھواں نکلنا شروع ہو جائے گا۔ لیکن شرط وہی ہے کہ متعلقہ حکومتی ادارہ اس نیک کام کو پہلی فرصت میں انجام دے اور تاجر حضرات ٹیکسوں سے نکل کر اپنے کاروبار میں حکومت سے رعائتیں حاصل کریں۔
بہرحال امن و امان کا مسئلہ ہو یا کاروباری افراد کو جائز سہولتیں دینے کی بات ہو، احتساب کا عمل ہو یا یکطرفہ احتساب کا واویلا ہو بات یہیں پر آ کر ٹکتی ہے کہ حکومت وقت کیا کر رہی ہے، کیا وہ امن و امان فراہم کرنے میں کامیاب ہے یا کارخانہ دار اس سے خوش ہیں، احتساب کے عمل میں شفافیت کا معیار کیا ہے ۔
یہ وہ بنیادی سوال ہیں جن کا جواب حکومت کے پاس ہے اور عوام اپنے سوالوں کے جواب مانگ رہے ہیں ۔ ان سوالوں کے جواب جتنی جلدی عوام کو مل جائیں توحکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہو گا کیونکہ عوام کے سوالوں کے جواب نہ دینے والی حکومت اپنی مقبولیت ختم کر بیٹھتی ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ عوام اس کا تختہ کر دیتے ہیں ۔ملک اور عوام کے مفاد میںایسی قانون سازی کی جانی چاہیے جس پر شفافیت کے ساتھ عمل ممکن ہو نا کہ کسی مخالف کو تنگ کرنے کے لیے ان قوانین کا سہارا تلاش کیا جائے۔ خلق خدا پہلے ہی بہت پریشان ہے اس کے لیے آسانیاں پیدا کریں اور بے ٹکٹے لوگوں کو ٹکٹ خریدنے کی عادت ڈالیں۔
دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جو بھی حکمران آیا اس نے عوام سے زیادہ اپنے جان و مال کی حفاظت کو ترجیح دی جس کے نتائج ہم آج بھگت رہے ہیں۔ عوام چوروں ، ڈاکوؤں اور چور اچکوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ روزانہ اخبارات جرائم کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔
بچوں سے سے لے کر بڑے تک ان بے رحم قاتلوں کی پہنچ سے کوئی دور نہیں ۔ ہمارے پنجاب کے درویش وزیر اعلیٰ اس کو شش میں ہیں کہ وہ عوام کو ان کی دہلیز پر انصاف فراہم کریں لیکن ابھی تک وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ایسے ہی جیسے ان کے پیشرو جناب شہباز شریف اپنی حتیٰ المقدور کوششوں کے باوجود ان جرائم پیشہ افراد کے سامنے بے بس تھے ۔ بہر حال امن و امان کی ابتری ہمارے مقدر میں لکھ دی گئی ہے، ہمیں اس کے ساتھ ہی زندگی گزارنی ہے اور اپنی حفاظت کا خود بندوبست کرنا ہے ۔ اگر ہم روائتی پولیس کے حوالے رہے تو پھر ہمارا حشر وہی ہو گا جو آج سے پہلے ہوتا آیا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے۔
ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے ایک عام پاکستانی کو اس کا ہم اخبار والوں سے زیادہ پتہ ہے۔ شاید اسلیے کہ سب کچھ اس پر بیت رہا ہے ۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ اس کا ملک غریب غریب نہیںبلکہ لوٹ مار کر کے اسے غریب بنا دیا گیا ہے۔ ان حالات میں وہ کسی نجات دہندہ کے انتظار میں رہتا ہے۔ وہ خود محنت مزدوری کرتا ہے وہ اپنی دھن میں اپنے بچوں کا روزگار کمانے کے لیے جُتا رہتا ہے اور کسی سے کچھ نہیں مانگتا لیکن انصاف ضرور مانگتا ہے کہ اسے محنت کا اجر ملتا رہے اور اس کی جان و مال محفوظ رہے تا کہ وہ آرام کے ساتھ مزدوری کر سکے ۔ مزدوری نہیں بھی ملتی تو صبر کر لیتا ہے اور جب تک سانس ہے تو وہ زیادہ کام کر کے اس کے مطابق اجرت لینے کی کوشش کرتا ہے ۔
وہ سب کچھ دیکھتا ہے مگر چپ رہتا ہے ۔ لوٹ مار اس کے سامنے ہوتی ہے مگر وہ لوٹنے والے ہاتھوں کو روک نہیں سکتا کیونکہ اس کے ہاتھ تو فارغ نہیں ہوتے ۔ ان ہاتھو ں کو روکنے بلکہ کاٹنے کے لیے وہ کسی کا انتظار کر رہا ہے۔ ایک واقعہ کسی دوست نے سنایا تھا: کہ ایک مرتبہ وہ ریلوے میں سفر کر رہے تھے، ٹکٹ چیکر نے ایک مسافر کو بلا ٹکٹ پکڑ لیا ۔ لوگ جمع ہو گئے ، ان میں سے ایک شخص جذباتی ہو گیا اور بلا ٹکٹ سفر کرنیوالوں کو لعن طعن کرنے لگا اور پر جوش انداز میں ٹکٹ چیکر کی حمائیت کرنے لگا تو نہ جانے ٹکٹ چیکر کی چھٹی حس کیسے بیدار ہوئی اور اس نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس ٹکٹ ہے جو آپ اس قدر پُر جوش ہو رہے ہیں ۔ یہ سنتے ہی وہ شخص ادھر ادھر ہو گیا ۔
یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں ایسا ٹکٹ چیکر کب آئے جو پر جوش تقریریں کرنیوالوں، عوام کو نصیحتیں کرنیوالوں اور قوم کی قیادت کا دعویٰ رکھنے والوں سے بھی ٹکٹ کا مطالبہ کرے گا کیونکہ یہ سب بے ٹکٹے ہیں لیکن دوسرے بے ٹکٹوں کو پکڑوانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں ۔ خود ٹکٹ نہیں خریدتے اس کی کئی ایک جھلکیاں ہم موجودہ حکومت کے وزیروں کی گرفتاری کی صورت میں دیکھ چکے ہیں لیکن شکر یہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنے بے ٹکٹوں کا بھی کسی نہ کسی حد تک احتساب کر رہی ہے ۔ یہ ایک ایسی جسارت ہے جس سے ہر حکومت گھبراتی ہے کیونکہ یہ جسارت اکثر اوقات گلے بھی پڑ جاتی ہے۔
کاروباری لوگوں کی حکومت کے بعد نیم کاروباری لوگوں کی حکومت میں ہمارا کاروباری طبقہ آہ و فغان کر رہا ہے، کبھی ہڑتال کا علان کرتا ہے تو اب تاجروں نے مولانا فضل الرحمٰن کی سنی سنائی اسلام آباد مارچ کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے ۔ ٹیکس دینے کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے تاجر حکومت کے ٹیکس جمع کرانے کے مطالبوں سے پریشان ہیں حالانکہ اگر دیکھا جائے تو کئی دوسرے مسائل ایسے ہیں جن کے حل ہونے سے تاجروں کی مشکلات میں کمی ہو سکتی ہے۔ لیکن انھوں نے ابھی اپنے آپ کو صرف ٹیکس نہ دینے کے مطالبے تک محدود کر لیا ہے ۔ ایک تاجر دوست بتا رہے تھے کہ مہنگی توانائی اور صوبوں میں توانائی کے یکساں نرخ نہ ہونے کی وجہ سے پیداواری لاگت میں یکسانیت نہیں ہے۔
ہماری حکومت کم از کم یہ تو کر سکتی ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں توانائی کے نرخ یکساں کر دے تا کہ کارخانوں میں بننے والے سامان کی لاگت یکساں ہو اور ان کو مارکیٹ میں فروخت کے وقت کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے ، اس ایک قدم سے آپ دیکھیں گے کہ ملک میں کارخانوں کی چمنیوں سے دوبارہ دھواں نکلنا شروع ہو جائے گا۔ لیکن شرط وہی ہے کہ متعلقہ حکومتی ادارہ اس نیک کام کو پہلی فرصت میں انجام دے اور تاجر حضرات ٹیکسوں سے نکل کر اپنے کاروبار میں حکومت سے رعائتیں حاصل کریں۔
بہرحال امن و امان کا مسئلہ ہو یا کاروباری افراد کو جائز سہولتیں دینے کی بات ہو، احتساب کا عمل ہو یا یکطرفہ احتساب کا واویلا ہو بات یہیں پر آ کر ٹکتی ہے کہ حکومت وقت کیا کر رہی ہے، کیا وہ امن و امان فراہم کرنے میں کامیاب ہے یا کارخانہ دار اس سے خوش ہیں، احتساب کے عمل میں شفافیت کا معیار کیا ہے ۔
یہ وہ بنیادی سوال ہیں جن کا جواب حکومت کے پاس ہے اور عوام اپنے سوالوں کے جواب مانگ رہے ہیں ۔ ان سوالوں کے جواب جتنی جلدی عوام کو مل جائیں توحکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہو گا کیونکہ عوام کے سوالوں کے جواب نہ دینے والی حکومت اپنی مقبولیت ختم کر بیٹھتی ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ عوام اس کا تختہ کر دیتے ہیں ۔ملک اور عوام کے مفاد میںایسی قانون سازی کی جانی چاہیے جس پر شفافیت کے ساتھ عمل ممکن ہو نا کہ کسی مخالف کو تنگ کرنے کے لیے ان قوانین کا سہارا تلاش کیا جائے۔ خلق خدا پہلے ہی بہت پریشان ہے اس کے لیے آسانیاں پیدا کریں اور بے ٹکٹے لوگوں کو ٹکٹ خریدنے کی عادت ڈالیں۔