ماؤں کے لیے ایک کالم
کراچی میں مین یونیورسٹی روڈ پر بنے ہوئے اپارٹمنٹ میں ایک مہذب اور پڑھا لکھا خاندان رہتا ہے جن کے تین بچے ہیں
کراچی میں مین یونیورسٹی روڈ پر بنے ہوئے اپارٹمنٹ میں ایک مہذب اور پڑھا لکھا خاندان رہتا ہے جن کے تین بچے ہیں، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔ایک بیٹی نویں جماعت کی طالبہ ہے، دوسری ایک کالج میں سیکنڈ ایئر کی، جب کہ بیٹا پانچویں میں ہے۔ ان کے گھر جوکام والی آتی ہے اس کو والدہ نے اپنی مصروفیت کے باعث اس کام پر مامورکردیا کہ اسکول کے علاوہ جہاں بھی بچیوں کو جانا ہو وہ ملازمہ ساتھ لے کر جائے گی۔ فرض کرلیجیے کہ خاتون کا نام جمیلہ اور بیٹیوں کے نام بالترتیب فائزہ اور تحریم ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے جو ملازمہ ان کے گھر کام کر رہی ہے، اس پر مسز جمیلہ اندھا اعتماد کرتی ہیں۔ برتن، جھاڑو، صفائی،کپڑے دھونا اور روٹی پکانا سب اس کے فرائض میں شامل ہیں۔ ساتھ ساتھ اب تحریم اور فائزہ کو لے کر جانے کی ذمے داری بھی اس کو دے دی گئی کہ قابل بھروسہ غریب عورت ہے۔ مسز جمیلہ اس کا بہت خیال رکھتی ہیں۔
اب ہوا یوں کہ آنے جانے کے دوران تحریم کی دوستی شاپنگ سینٹر میں ایک لڑکے سے ہوگئی۔ یہ دوستی اتنی بڑھی کہ تحریم نے ملازمہ کو ہمراز بنالیا۔ وہ کسی نہ کسی سہیلی کے گھر جانے کے بہانے یا ماہانہ ٹیسٹ کی تیاری کے حوالے سے ملازمہ کو ساتھ لے کر اس لڑکے سے ملنے جانے لگی۔ لڑکا اور لڑکی دونوں اسے پیسے دیتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ملازمہ نے دونوں کے ملنے کے لیے اپنی جھونپڑی فراہم کردی۔ جو ایک خالی پلاٹ پر ہے اور مالک نے حفاظت کی خاطر اس کے خاندان کو بغیر کسی کرائے کے وہاں رکھا ہوا ہے۔ یہ سلسلہ ایک سال سے چل رہا ہے۔ ماں کے سوا پوری بلڈنگ کو معلوم ہے کہ تحریم ایک بگڑی ہوئی لڑکی ہے، بدتمیز ہے اور منہ پھٹ بھی۔ دو تین سال پہلے ایک خاتون نے ہمدردی کے طور پر مسز جمیلہ کو تحریم کی حرکتوں سے آگاہ کیا تو وہ خاصی ناراض ہوگئیں۔ جس اسکول میں وہ پڑھتی ہے اس کی فیس بہت زیادہ ہے۔ تحریم کو پڑھائی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ دو تین بار فیل ہوچکی ہے۔ ہمہ وقت موبائل اور بقیہ وقت ٹیلی ویژن دیکھتی ہے۔ یہی حال فائزہ کا بھی ہے۔ وہ ٹیپ ریکارڈر پر گانے سنتی ہے۔ دونوں بہنیں کمپیوٹر پر ذوق و شوق سے چیٹنگ کرتی ہیں۔ ماں باپ کی لاڈلی ہیں۔
والد صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک باہر رہتے ہیں۔ مسز جمیلہ کی کچھ اپنی مصروفیات ہیں اور کچھ گھٹنوں کا درد، جس کی وجہ سے وہ گھر سے باہر صرف اسی صورت میں جاتی ہیں جب انھیں کسی شادی غمی کی محفلوں میں جانا پڑے۔ ملازمہ کی مہربانی سے اب وہ بازار بھی نہیں جاتیں۔ ہر اتوار کو فائزہ اور تحریم ماسی کے ساتھ اتوار بازار سے ضروری اشیاء لے آتی ہیں۔ چند دن پہلے اپارٹمنٹ کے لوگوں نے فائزہ کو کئی بار ایک اجنبی لڑکے کی گاڑی سے اترتے بھی دیکھا اور اسی بلڈنگ میں رہنے والی مسز احمد جو پہلے ہمارے اپارٹمنٹ میں رہتی تھیں انھوں نے کئی بار تحریم کو ملازمہ اور ایک اجنبی لڑکے کے ساتھ دیکھا۔ پھر اپنے شک کو یقین میں بدلنے کے لیے چوکیدار کو مسئلے کی سنگینی بتاتے ہوئے تحریم اور ملازمہ کا پیچھا کرنے کو کہا۔ چوکیدار جو ایک عمر رسیدہ نیک انسان ہے۔ اس نے تین چار دن کے بعد مسز احمد کو یہ بتاکر حیران کردیا کہ وہ ملازمہ وقفے وقفے سے لڑکے لڑکیوں کی ملاقاتیں کرواتی ہے۔ اس کا شوہر بھی اس کاروبار میں شریک ہے۔ ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ فائزہ بھی ایک لڑکے کے ساتھ گاڑی میں آتی جاتی ہے۔
یہ معلومات حاصل کرکے مسز احمد نے ایک اور خاتون سے ذکر کیا اور ان سے درخواست کی کہ چونکہ وہ فائزہ کی امی کی دوست ہیں اور تمام باتوں سے باخبر بھی ہیں اس لیے محلے داری اور حق ہمسائیگی کا خیال کرتے ہوئے کسی طرح مسز جمیلہ کو اعتماد میں لے کر تمام باتیں بتادیں۔ نیز بلڈنگ کی یونین کے عہدیداروں سے کہہ کر اس ماسی کو یہاں سے نکلوا دیں۔ لیکن دوسری خاتون نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ باوجود اس کے کہ وہ تمام باتوں سے باخبر ہیں لیکن وہ اس معاملے میں بالکل خاموش رہیں گی کیونکہ اول تو وہ ملازمہ ہی مکر جائے گی، دوم مسز جمیلہ کبھی یقین نہیں کریں گی، سوم یہ کہ مین یونیورسٹی روڈ پر بنی جھگیوں میں زیادہ تر جرائم پیشہ لوگ آباد ہیں۔ جن کی عورتیں گھروں میں چوریاں کرتی ہیں اور مرد ڈاکا زنی میں ماہر ہیں۔ یہ بسوں، ویگنوں اور شاپنگ سینٹرز میں خواتین کے گلے سے لاکٹ باآسانی اڑا لیتی ہیں۔ اگر ان جرائم پیشہ لوگوں کے علم میں یہ بات آگئی کہ کس نے شکایت کی ہے تو وہ انتقامی کارروائی کرسکتے ہیں۔ کیونکہ انھیں پولیس کی سرپرستی حاصل ہے۔ ہر واردات میں سے باقاعدہ حصہ انھیں ملتا ہے۔ رہ گئے یونین کے عہدیدار تو کئی لوگوں کو مل کر ان سے بات کرنی چاہیے۔ لیکن اس پر بھی کوئی تیار نہ ہوا۔
آخر مسز احمد نے مجھے آکر یہ قصہ بتایا اور میں اپنے قارئین خصوصاً خواتین کے علم میں یہ نازک واقعات لانا چاہتی ہوں کہ روز بروز بڑھتے ہوئے جرائم میں لڑکیوں کے اغوا، قتل اور زیادتی کے واقعات تواتر سے ہورہے ہیں اور ہم سب خاموش تماشائی بنے ٹی وی پر خبریں دیکھ کر آبدیدہ ہوجاتے ہیں یا پھر مجرموں اور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بلند و بانگ دعوے پڑھ کر روتے ہیں۔ لیکن ہم خود ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیتے کیونکہ آگ ہمارے گھر میں نہیں لگی ہوتی اور پھر جب وہ آگ ہماری خود غرضی اور بے حسی کی بدولت جب ہمارے دروازے تک پہنچتی ہے تو اسے بجھانے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ کیونکہ لوگوں کو ہماری بے حسی یاد ہوتی ہے۔
میں نے پہلے بھی اپنے بہت سے کالموں میں اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جب کوئی جاننے والا آپ سے آپ کے بیٹے یا بیٹی کے بارے میں کوئی منفی اطلاع دے تو بھڑکنے کے بجائے اس کی تحقیق کرنی چاہیے اور بتانے والے کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ نہ کہ اپنی اولاد کو فرشتہ ثابت کرکے اطلاع دینے والے کے لتے لے لیے جائیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ ''ایکسپریس انٹرٹینمنٹ'' کی جانب سے چند دن پہلے ایک ترکی ڈرامہ "Meenay" (می نے) دکھایا جارہا ہے۔ یہ بھی اسی حساس موضوع پر مبنی ہے جس میں نوجوان لڑکیاں تعلیمی اداروں کے بجائے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ وقت گزارتی ہیں۔ اور جب ایک ہمدرد انسان اس کی اطلاع لڑکی کے باپ کو دیتا ہے تو وہ چراغ پا ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب ایک ہولناک خبر سامنے آتی ہے کہ ان کی نابالغ بیٹی ماں بننے والی ہے تو انھیں مجبوراً اسی شخص سے معافی مانگنی پڑتی ہے جس پر وہ پہلے سخت ناراض ہوچکے تھے۔
دنیا بے شک ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہوچکی ہے۔ لیکن اس کا سب سے زیادہ نقصان ان پسماندہ ممالک کو ہورہا ہے جہاں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور غربت کا گراف دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستان بھی انھی ممالک میں شامل ہے۔ یہ مسائل ان لوگوں کے ساتھ زیادہ پیش آرہے ہیں جو ''آدھا تیتر آدھا بٹیر'' کے مصداق زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک طرف ان کی خاندانی اقدار ہیں اور دوسری طرف بڑھتی ہوئی عریانی، گمراہی اور ایڈوانس کہلانے کے شوق میں انھوں نے بچوں کو ہر طرح کی آزادی دے دی ہے۔ لڑکے کھلے عام مختلف نشے کر رہے ہیں اور لڑکیاں گھومنے پھرنے کے لیے آزاد ہیں۔ میڈیکل سائنس نے انھیں وقت سے پہلے بالغ اور چالاک بنادیا ہے۔ اب کردار اور عصمت کا تصور بھی وہ نہیں رہا جو پندرہ سال پہلے تھا۔ البتہ وہ نو دولتیے خاندان جو منشیات و جسم فروشی، ااسمگلنگ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے ذریعے مال اور عزت بنا رہے ہیں اپنی رہائش بدلتے ہیں اور ایسے مہنگے علاقوں میں جا بستے ہیں جہاں ان کو کوئی نہیں جانتا۔ بڑے سے آہنی گیٹ پہ کھڑے گارڈ کی موجودگی یہ تو بتاتی ہے کہ بنگلہ کسی مالدار کا ہے۔ لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ پہلے کہاں رہتے تھے اور اچانک اتنی دولت کہاں سے آگئی۔ پیسہ ہر عیب چھپالیتا ہے۔ شوہر نامدار سب کچھ جاننے کے باوجود مہر بہ لب ہوتا ہے کہ زبان کھولنے پر وہ پینڈو یا ان کلچرڈ کہلائے گا۔ لیکن وہ لڑکیاں جو اپنی ہم جماعتوں کی نقل میں وہ سب کچھ کر گزرتی ہیں جو دولت مندوں کا شیوہ ہے تو بعد میں صرف پچھتاوا یا خودکشی ہی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ مائیں اگر اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور بچوں کے شب و روز کی نگرانی کرتی رہیں تو وہ مسز جمیلہ کی بیٹیوں کے ساتھ ہونے والے واقعات سے بچ سکتی ہیں۔
اب ہوا یوں کہ آنے جانے کے دوران تحریم کی دوستی شاپنگ سینٹر میں ایک لڑکے سے ہوگئی۔ یہ دوستی اتنی بڑھی کہ تحریم نے ملازمہ کو ہمراز بنالیا۔ وہ کسی نہ کسی سہیلی کے گھر جانے کے بہانے یا ماہانہ ٹیسٹ کی تیاری کے حوالے سے ملازمہ کو ساتھ لے کر اس لڑکے سے ملنے جانے لگی۔ لڑکا اور لڑکی دونوں اسے پیسے دیتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ملازمہ نے دونوں کے ملنے کے لیے اپنی جھونپڑی فراہم کردی۔ جو ایک خالی پلاٹ پر ہے اور مالک نے حفاظت کی خاطر اس کے خاندان کو بغیر کسی کرائے کے وہاں رکھا ہوا ہے۔ یہ سلسلہ ایک سال سے چل رہا ہے۔ ماں کے سوا پوری بلڈنگ کو معلوم ہے کہ تحریم ایک بگڑی ہوئی لڑکی ہے، بدتمیز ہے اور منہ پھٹ بھی۔ دو تین سال پہلے ایک خاتون نے ہمدردی کے طور پر مسز جمیلہ کو تحریم کی حرکتوں سے آگاہ کیا تو وہ خاصی ناراض ہوگئیں۔ جس اسکول میں وہ پڑھتی ہے اس کی فیس بہت زیادہ ہے۔ تحریم کو پڑھائی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ دو تین بار فیل ہوچکی ہے۔ ہمہ وقت موبائل اور بقیہ وقت ٹیلی ویژن دیکھتی ہے۔ یہی حال فائزہ کا بھی ہے۔ وہ ٹیپ ریکارڈر پر گانے سنتی ہے۔ دونوں بہنیں کمپیوٹر پر ذوق و شوق سے چیٹنگ کرتی ہیں۔ ماں باپ کی لاڈلی ہیں۔
والد صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک باہر رہتے ہیں۔ مسز جمیلہ کی کچھ اپنی مصروفیات ہیں اور کچھ گھٹنوں کا درد، جس کی وجہ سے وہ گھر سے باہر صرف اسی صورت میں جاتی ہیں جب انھیں کسی شادی غمی کی محفلوں میں جانا پڑے۔ ملازمہ کی مہربانی سے اب وہ بازار بھی نہیں جاتیں۔ ہر اتوار کو فائزہ اور تحریم ماسی کے ساتھ اتوار بازار سے ضروری اشیاء لے آتی ہیں۔ چند دن پہلے اپارٹمنٹ کے لوگوں نے فائزہ کو کئی بار ایک اجنبی لڑکے کی گاڑی سے اترتے بھی دیکھا اور اسی بلڈنگ میں رہنے والی مسز احمد جو پہلے ہمارے اپارٹمنٹ میں رہتی تھیں انھوں نے کئی بار تحریم کو ملازمہ اور ایک اجنبی لڑکے کے ساتھ دیکھا۔ پھر اپنے شک کو یقین میں بدلنے کے لیے چوکیدار کو مسئلے کی سنگینی بتاتے ہوئے تحریم اور ملازمہ کا پیچھا کرنے کو کہا۔ چوکیدار جو ایک عمر رسیدہ نیک انسان ہے۔ اس نے تین چار دن کے بعد مسز احمد کو یہ بتاکر حیران کردیا کہ وہ ملازمہ وقفے وقفے سے لڑکے لڑکیوں کی ملاقاتیں کرواتی ہے۔ اس کا شوہر بھی اس کاروبار میں شریک ہے۔ ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ فائزہ بھی ایک لڑکے کے ساتھ گاڑی میں آتی جاتی ہے۔
یہ معلومات حاصل کرکے مسز احمد نے ایک اور خاتون سے ذکر کیا اور ان سے درخواست کی کہ چونکہ وہ فائزہ کی امی کی دوست ہیں اور تمام باتوں سے باخبر بھی ہیں اس لیے محلے داری اور حق ہمسائیگی کا خیال کرتے ہوئے کسی طرح مسز جمیلہ کو اعتماد میں لے کر تمام باتیں بتادیں۔ نیز بلڈنگ کی یونین کے عہدیداروں سے کہہ کر اس ماسی کو یہاں سے نکلوا دیں۔ لیکن دوسری خاتون نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ باوجود اس کے کہ وہ تمام باتوں سے باخبر ہیں لیکن وہ اس معاملے میں بالکل خاموش رہیں گی کیونکہ اول تو وہ ملازمہ ہی مکر جائے گی، دوم مسز جمیلہ کبھی یقین نہیں کریں گی، سوم یہ کہ مین یونیورسٹی روڈ پر بنی جھگیوں میں زیادہ تر جرائم پیشہ لوگ آباد ہیں۔ جن کی عورتیں گھروں میں چوریاں کرتی ہیں اور مرد ڈاکا زنی میں ماہر ہیں۔ یہ بسوں، ویگنوں اور شاپنگ سینٹرز میں خواتین کے گلے سے لاکٹ باآسانی اڑا لیتی ہیں۔ اگر ان جرائم پیشہ لوگوں کے علم میں یہ بات آگئی کہ کس نے شکایت کی ہے تو وہ انتقامی کارروائی کرسکتے ہیں۔ کیونکہ انھیں پولیس کی سرپرستی حاصل ہے۔ ہر واردات میں سے باقاعدہ حصہ انھیں ملتا ہے۔ رہ گئے یونین کے عہدیدار تو کئی لوگوں کو مل کر ان سے بات کرنی چاہیے۔ لیکن اس پر بھی کوئی تیار نہ ہوا۔
آخر مسز احمد نے مجھے آکر یہ قصہ بتایا اور میں اپنے قارئین خصوصاً خواتین کے علم میں یہ نازک واقعات لانا چاہتی ہوں کہ روز بروز بڑھتے ہوئے جرائم میں لڑکیوں کے اغوا، قتل اور زیادتی کے واقعات تواتر سے ہورہے ہیں اور ہم سب خاموش تماشائی بنے ٹی وی پر خبریں دیکھ کر آبدیدہ ہوجاتے ہیں یا پھر مجرموں اور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بلند و بانگ دعوے پڑھ کر روتے ہیں۔ لیکن ہم خود ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیتے کیونکہ آگ ہمارے گھر میں نہیں لگی ہوتی اور پھر جب وہ آگ ہماری خود غرضی اور بے حسی کی بدولت جب ہمارے دروازے تک پہنچتی ہے تو اسے بجھانے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ کیونکہ لوگوں کو ہماری بے حسی یاد ہوتی ہے۔
میں نے پہلے بھی اپنے بہت سے کالموں میں اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جب کوئی جاننے والا آپ سے آپ کے بیٹے یا بیٹی کے بارے میں کوئی منفی اطلاع دے تو بھڑکنے کے بجائے اس کی تحقیق کرنی چاہیے اور بتانے والے کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ نہ کہ اپنی اولاد کو فرشتہ ثابت کرکے اطلاع دینے والے کے لتے لے لیے جائیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ ''ایکسپریس انٹرٹینمنٹ'' کی جانب سے چند دن پہلے ایک ترکی ڈرامہ "Meenay" (می نے) دکھایا جارہا ہے۔ یہ بھی اسی حساس موضوع پر مبنی ہے جس میں نوجوان لڑکیاں تعلیمی اداروں کے بجائے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ وقت گزارتی ہیں۔ اور جب ایک ہمدرد انسان اس کی اطلاع لڑکی کے باپ کو دیتا ہے تو وہ چراغ پا ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب ایک ہولناک خبر سامنے آتی ہے کہ ان کی نابالغ بیٹی ماں بننے والی ہے تو انھیں مجبوراً اسی شخص سے معافی مانگنی پڑتی ہے جس پر وہ پہلے سخت ناراض ہوچکے تھے۔
دنیا بے شک ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہوچکی ہے۔ لیکن اس کا سب سے زیادہ نقصان ان پسماندہ ممالک کو ہورہا ہے جہاں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور غربت کا گراف دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستان بھی انھی ممالک میں شامل ہے۔ یہ مسائل ان لوگوں کے ساتھ زیادہ پیش آرہے ہیں جو ''آدھا تیتر آدھا بٹیر'' کے مصداق زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک طرف ان کی خاندانی اقدار ہیں اور دوسری طرف بڑھتی ہوئی عریانی، گمراہی اور ایڈوانس کہلانے کے شوق میں انھوں نے بچوں کو ہر طرح کی آزادی دے دی ہے۔ لڑکے کھلے عام مختلف نشے کر رہے ہیں اور لڑکیاں گھومنے پھرنے کے لیے آزاد ہیں۔ میڈیکل سائنس نے انھیں وقت سے پہلے بالغ اور چالاک بنادیا ہے۔ اب کردار اور عصمت کا تصور بھی وہ نہیں رہا جو پندرہ سال پہلے تھا۔ البتہ وہ نو دولتیے خاندان جو منشیات و جسم فروشی، ااسمگلنگ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے ذریعے مال اور عزت بنا رہے ہیں اپنی رہائش بدلتے ہیں اور ایسے مہنگے علاقوں میں جا بستے ہیں جہاں ان کو کوئی نہیں جانتا۔ بڑے سے آہنی گیٹ پہ کھڑے گارڈ کی موجودگی یہ تو بتاتی ہے کہ بنگلہ کسی مالدار کا ہے۔ لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ پہلے کہاں رہتے تھے اور اچانک اتنی دولت کہاں سے آگئی۔ پیسہ ہر عیب چھپالیتا ہے۔ شوہر نامدار سب کچھ جاننے کے باوجود مہر بہ لب ہوتا ہے کہ زبان کھولنے پر وہ پینڈو یا ان کلچرڈ کہلائے گا۔ لیکن وہ لڑکیاں جو اپنی ہم جماعتوں کی نقل میں وہ سب کچھ کر گزرتی ہیں جو دولت مندوں کا شیوہ ہے تو بعد میں صرف پچھتاوا یا خودکشی ہی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ مائیں اگر اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور بچوں کے شب و روز کی نگرانی کرتی رہیں تو وہ مسز جمیلہ کی بیٹیوں کے ساتھ ہونے والے واقعات سے بچ سکتی ہیں۔