غریب شہر کے حالات دیکھنا
آخر غریب جائیں تو کہاں جائیں، ایسا لگتا ہے کہ کوئی اُن کی فریاد سُننے اور اُن کے مسائل حل کرنے کو سنجیدہ ہی نہیں ہے
پاکستانی عوام کی بدقسمتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی آپس کی چپقلش ، دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی کوششوں اور خود کو بالکل ''فرشتہ'' کہلوانے کے دعوؤں کے شور میں بنیادی مسائل کے لیے اٹھائی گئی آوازیں مسلسل دَب رہی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عوام کے برسوں پرانے مسائل تاحال جوں کے توں ہیں اور فی الحال ان میں سُدھار کی بھی کوئی واضح صورت نظر نہیں آرہی۔ اس سنگین اور تشویش ناک صورت حال میں سب سے زیادہ صوبہ سندھ متاثر ہورہا ہے کیونکہ یہاں صوبائی اور وفاقی حکومتیں الگ الگ سیاسی جماعتوں کی ہیں تو صوبائی اور شہری حکومت کے نمائندوں کا تعلق بھی مختلف جماعتوں سے ہے ۔ یہاں بدقسمتی سے ہر ایشو اور ہر کام ''سیاسی'' بن رہا ہے یا بنایا جارہا ہے۔ ہر معاملے پر زور شور سے بیان بازیاں ہی ہوتی ہیں لیکن کام نہیں ہوتا۔
سندھ کے عوام جائیں تو کہاں جائیں اور اپنی فریاد کسے پیش کریں؟ ایک جانب اگر کراچی کے پاس ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، تقسیم آپ کے ناقص نظام اور ظالمانہ بے حسی کو بھگت رہے ہیں تو دوسری جانب شہر کے گلی کوچوں میں پڑا کچرا ہر شہری کا مذاق اڑایا ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ کچرا کراچی والوں کو چیلنج دے رہا ہو کہ ''مجھے اٹھاکر دکھاؤ تو مانوں!'' ۔ میٹروپولٹین شہر اور ''عروس البلاد'' کہا جانے والا شہر اس حال میں ہے تو سندھ کے دیگر شہروں کا حال نہ پوچھا جائے تو بہتر ہے۔
پیپلزپارٹی کا گڑھ کہا جانے والا لاڑکانہ جس حال میں ہے اس کی خبر سب کو ہے لیکن شاید ارباب اقتدار کو نہیں ہے۔ حکومتی ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کو شاید یہ احساس بھی نہیں کہ بے شک بنیادی سہولتیں عوام تک نہ پہنچی ہوں لیکن سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی سندھ کے ہر چھوٹے بڑے شہر اور گاؤں تک پہنچ چکی ہے۔
ایک لمحے میں مسائل اور واقعات کی فوٹیج دنیا بھر میں پھیل جاتی ہیں اور پھیل رہی ہیں۔ لوگ اپنے علاقوں کے مسائل کے حل کیلیے چیخ رہے ہیں لیکن شاید آوازیں اتنی کمزور ہیں جو محلات کی دیواروں کو گرانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ یہ بات بھی طے ہے کہ اگر ارباب اختیار اچھا کام کریں گے تو یقینی طور پر وہ بھی سامنے آئے گا لیکن افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ اچھے کام کی رفتار اور تعداد بہت سست ہے۔
حال ہی میں اندرون سندھ 3واقعات نے دل دہلاکر رکھ دیے۔ میرپورخاص کے اسپتال سے ایمبولینس نہ ملنے پر موٹرسائیکل پر اپنے لخت جگر کی میت لے جانے والے باپ اور چچا ٹرک کی ٹکر سے جاں بحق ہوگئے ۔ یہ تصور ہی انتہائی درد ناک اور المناک ہے کہ میت لے جانے والے ہی میت میں تبدیل ہوجائیں تو باقی گھر والوں پر کیا بیتی ہوگی۔ پھر شکارپور میں کتے کے کاٹنے سے زخمی ہونے والا 10 یا 12 سال کا بچہ جس طرح اپنی ماں کی گود میں سسک سسک کر دنیا چھوڑ کے گیا، وہ دردناک منظر ارباب اقتدار کے لیے معمولی ہوگا لیکن عوام اسے شاید ہی بھول جائیں۔
ان دونوں واقعات پر سیاسی بیانات بھی آئے ، اپوزیشن کی صفوں سے حکومت کے خلاف باتیں کی گئیں تو حکومتی نمائندوں نے ان واقعات پر مکمل تحقیقات کرانے کے وعدے کیے اور طرح طرح کے جوازپیش کرکے یہ ثابت کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی گئی کہ ان سانحات کی ذمے دار حکومت نہیں۔ یہ بڑی دردناک صورتحال ہے کہ اگر صوبے کے عوام کو بنیادی سہولتیں بھی میسر نہ ہوں تو دیگر معاملات پر امیدیں کیسے لگائی جاسکتی ہیں؟۔
میرپورخاص میں اپنے بچے کی میت لے جانے والے جس طرح حادثے کا شکار ہوئے اور شکارپور میں بچہ جس طرح دوائی نہ ملنے کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر اپنی ماں کی گود سونی کرگیا' اس پر ہم جانے والوں اور ان کے لواحقین سے تعزیت بھی کرتے ہیں اور معافی بھی مانگتے ہیں کہ ہم ایسے حکمرانوں کے ساتھ ہیں جنھیں عوام کی پروا صرف اور صرف الیکشن کے موقع پر ہوتی ہے۔
تیسرا اہم واقعہ صوبہ سندھ میں آئین کے آرٹیکل 149 کے ممکنہ نفاذ کا بیان تھا جس نے کراچی سے لے کر اسلام آباد تک سیاسی ہلچل مچادی۔ اس بیان کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے موقف کی بھرپور ترجمانی کی، کوئی اس بیان کی حمایت اور کوئی مخالفت میں خوب بولا، کئی روز پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اسی موضوع کا چرچا رہا اور ایسا لگا اب سندھ میں تمام مسائل حل ہوگئے ہیں اور صرف آرٹیکل 149 ہی کا معاملہ رہ گیا ہے۔
سندھ کا باسی ہونے کے ناتے ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ آرٹیکل (1) سے لے کر اگر آرٹیکل نمبر ایک ہزار بھی آجائے اور اس میں عوامی فلاح و بہبود کا ذکر نہ ہو توعوام کو فائدہ نہیں پہنچے گا۔ عوام کو صرف اور صرف ایسا آرٹیکل چاہیے جو ان کے بنیادی مسائل حل کرے اور تعلیم، صحت ، صاف پانی کی سہولتیں ان کو بروقت اور پابندی سے مل سکیں۔
جب عوام کو مہینوں مہینوں پانی نہ ملے، سرکاری نلوں پر پانی کے حصول کے لیے طویل قطاریں لگی ہوں ، سرکاری اسپتالوں میں دوائیں نایاب ہوں، دیگر بنیادی سہولتوں کے لیے بھی عوام مارے مارے پھر رہے ہوں تو کسی کو کیا فکر ہوگی کہ کون سا آرٹیکل فائدہ مند ہے اور کون سا نقصان دہ؟۔
اپنے ٹھنڈے کمروں ، اے سی گاڑیوں اور سرکاری پروٹوکول سے نکل کر اگر عوام کی پھلائی اور ان کے مسائل کے حل کے لیے کام کیا جائے تو ایسے عوامی نمائندے لوگوں کی دعائیں پائیں گے ورنہ کراچی سے خیبر تک بنیادی سہولتوں سے محروم عوام عوامی نمائندوں کو کیسے کیسے القاب سے نوازتے ہیں اور ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ، اسے فی الحال قلمبند نہیں کیا جاسکتا لیکن معلوم سب کو ہے۔
آخر غریب جائیں تو کہاں جائیں، ایسا لگتا ہے کہ کوئی اُن کی فریاد سُننے اور اُن کے مسائل حل کرنے کو سنجیدہ ہی نہیں ہے۔ عوامی خدمت کے نعرے ضرور مارے جاتے ہیں لیکن عوامی خدمت نہیں ہورہی جس کی وجہ سے عوام جگہ جگہ رُل رہے ہیں۔
غریب عوام کی حالت زار پر دکھی دل کے ساتھ اپنے ہی چند اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں
بدلی نہیں ہے دیکھیے حالت غریب کی
کچھ اس طرح کی ہوگئی قسمت غریب کی
جمہوریت کی کیسی سزا مِل گئی اُسے
محفوظ ہی نہیں رہی عزت غریب کی
قصر ِامیر ِشہر کی رونق نہ پوچھیے
ہر سمت دیکھ لیجیے محنت غریب کی
کوئی مفاد ہے جو نہایت امیر لوگ
اب بات کررہے ہیں نہایت غریب کی
حاکم کے دوستوں کے مکاں زَر سے بھر گئے
یوں بھی تو بڑھتی جائے ہے غربت غریب کی
آئے گا انتخاب کا موسم تو دیکھنا
جاگے گی سب دلوں میں محبت غریب کی
آصف غریب ِ شہر کے حالات دیکھنا
بدلیں گے جب بھی آئی حکومت غریب کی
یہی وجہ ہے کہ عوام کے برسوں پرانے مسائل تاحال جوں کے توں ہیں اور فی الحال ان میں سُدھار کی بھی کوئی واضح صورت نظر نہیں آرہی۔ اس سنگین اور تشویش ناک صورت حال میں سب سے زیادہ صوبہ سندھ متاثر ہورہا ہے کیونکہ یہاں صوبائی اور وفاقی حکومتیں الگ الگ سیاسی جماعتوں کی ہیں تو صوبائی اور شہری حکومت کے نمائندوں کا تعلق بھی مختلف جماعتوں سے ہے ۔ یہاں بدقسمتی سے ہر ایشو اور ہر کام ''سیاسی'' بن رہا ہے یا بنایا جارہا ہے۔ ہر معاملے پر زور شور سے بیان بازیاں ہی ہوتی ہیں لیکن کام نہیں ہوتا۔
سندھ کے عوام جائیں تو کہاں جائیں اور اپنی فریاد کسے پیش کریں؟ ایک جانب اگر کراچی کے پاس ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، تقسیم آپ کے ناقص نظام اور ظالمانہ بے حسی کو بھگت رہے ہیں تو دوسری جانب شہر کے گلی کوچوں میں پڑا کچرا ہر شہری کا مذاق اڑایا ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ کچرا کراچی والوں کو چیلنج دے رہا ہو کہ ''مجھے اٹھاکر دکھاؤ تو مانوں!'' ۔ میٹروپولٹین شہر اور ''عروس البلاد'' کہا جانے والا شہر اس حال میں ہے تو سندھ کے دیگر شہروں کا حال نہ پوچھا جائے تو بہتر ہے۔
پیپلزپارٹی کا گڑھ کہا جانے والا لاڑکانہ جس حال میں ہے اس کی خبر سب کو ہے لیکن شاید ارباب اقتدار کو نہیں ہے۔ حکومتی ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کو شاید یہ احساس بھی نہیں کہ بے شک بنیادی سہولتیں عوام تک نہ پہنچی ہوں لیکن سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی سندھ کے ہر چھوٹے بڑے شہر اور گاؤں تک پہنچ چکی ہے۔
ایک لمحے میں مسائل اور واقعات کی فوٹیج دنیا بھر میں پھیل جاتی ہیں اور پھیل رہی ہیں۔ لوگ اپنے علاقوں کے مسائل کے حل کیلیے چیخ رہے ہیں لیکن شاید آوازیں اتنی کمزور ہیں جو محلات کی دیواروں کو گرانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ یہ بات بھی طے ہے کہ اگر ارباب اختیار اچھا کام کریں گے تو یقینی طور پر وہ بھی سامنے آئے گا لیکن افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ اچھے کام کی رفتار اور تعداد بہت سست ہے۔
حال ہی میں اندرون سندھ 3واقعات نے دل دہلاکر رکھ دیے۔ میرپورخاص کے اسپتال سے ایمبولینس نہ ملنے پر موٹرسائیکل پر اپنے لخت جگر کی میت لے جانے والے باپ اور چچا ٹرک کی ٹکر سے جاں بحق ہوگئے ۔ یہ تصور ہی انتہائی درد ناک اور المناک ہے کہ میت لے جانے والے ہی میت میں تبدیل ہوجائیں تو باقی گھر والوں پر کیا بیتی ہوگی۔ پھر شکارپور میں کتے کے کاٹنے سے زخمی ہونے والا 10 یا 12 سال کا بچہ جس طرح اپنی ماں کی گود میں سسک سسک کر دنیا چھوڑ کے گیا، وہ دردناک منظر ارباب اقتدار کے لیے معمولی ہوگا لیکن عوام اسے شاید ہی بھول جائیں۔
ان دونوں واقعات پر سیاسی بیانات بھی آئے ، اپوزیشن کی صفوں سے حکومت کے خلاف باتیں کی گئیں تو حکومتی نمائندوں نے ان واقعات پر مکمل تحقیقات کرانے کے وعدے کیے اور طرح طرح کے جوازپیش کرکے یہ ثابت کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی گئی کہ ان سانحات کی ذمے دار حکومت نہیں۔ یہ بڑی دردناک صورتحال ہے کہ اگر صوبے کے عوام کو بنیادی سہولتیں بھی میسر نہ ہوں تو دیگر معاملات پر امیدیں کیسے لگائی جاسکتی ہیں؟۔
میرپورخاص میں اپنے بچے کی میت لے جانے والے جس طرح حادثے کا شکار ہوئے اور شکارپور میں بچہ جس طرح دوائی نہ ملنے کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر اپنی ماں کی گود سونی کرگیا' اس پر ہم جانے والوں اور ان کے لواحقین سے تعزیت بھی کرتے ہیں اور معافی بھی مانگتے ہیں کہ ہم ایسے حکمرانوں کے ساتھ ہیں جنھیں عوام کی پروا صرف اور صرف الیکشن کے موقع پر ہوتی ہے۔
تیسرا اہم واقعہ صوبہ سندھ میں آئین کے آرٹیکل 149 کے ممکنہ نفاذ کا بیان تھا جس نے کراچی سے لے کر اسلام آباد تک سیاسی ہلچل مچادی۔ اس بیان کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے موقف کی بھرپور ترجمانی کی، کوئی اس بیان کی حمایت اور کوئی مخالفت میں خوب بولا، کئی روز پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اسی موضوع کا چرچا رہا اور ایسا لگا اب سندھ میں تمام مسائل حل ہوگئے ہیں اور صرف آرٹیکل 149 ہی کا معاملہ رہ گیا ہے۔
سندھ کا باسی ہونے کے ناتے ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ آرٹیکل (1) سے لے کر اگر آرٹیکل نمبر ایک ہزار بھی آجائے اور اس میں عوامی فلاح و بہبود کا ذکر نہ ہو توعوام کو فائدہ نہیں پہنچے گا۔ عوام کو صرف اور صرف ایسا آرٹیکل چاہیے جو ان کے بنیادی مسائل حل کرے اور تعلیم، صحت ، صاف پانی کی سہولتیں ان کو بروقت اور پابندی سے مل سکیں۔
جب عوام کو مہینوں مہینوں پانی نہ ملے، سرکاری نلوں پر پانی کے حصول کے لیے طویل قطاریں لگی ہوں ، سرکاری اسپتالوں میں دوائیں نایاب ہوں، دیگر بنیادی سہولتوں کے لیے بھی عوام مارے مارے پھر رہے ہوں تو کسی کو کیا فکر ہوگی کہ کون سا آرٹیکل فائدہ مند ہے اور کون سا نقصان دہ؟۔
اپنے ٹھنڈے کمروں ، اے سی گاڑیوں اور سرکاری پروٹوکول سے نکل کر اگر عوام کی پھلائی اور ان کے مسائل کے حل کے لیے کام کیا جائے تو ایسے عوامی نمائندے لوگوں کی دعائیں پائیں گے ورنہ کراچی سے خیبر تک بنیادی سہولتوں سے محروم عوام عوامی نمائندوں کو کیسے کیسے القاب سے نوازتے ہیں اور ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ، اسے فی الحال قلمبند نہیں کیا جاسکتا لیکن معلوم سب کو ہے۔
آخر غریب جائیں تو کہاں جائیں، ایسا لگتا ہے کہ کوئی اُن کی فریاد سُننے اور اُن کے مسائل حل کرنے کو سنجیدہ ہی نہیں ہے۔ عوامی خدمت کے نعرے ضرور مارے جاتے ہیں لیکن عوامی خدمت نہیں ہورہی جس کی وجہ سے عوام جگہ جگہ رُل رہے ہیں۔
غریب عوام کی حالت زار پر دکھی دل کے ساتھ اپنے ہی چند اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں
بدلی نہیں ہے دیکھیے حالت غریب کی
کچھ اس طرح کی ہوگئی قسمت غریب کی
جمہوریت کی کیسی سزا مِل گئی اُسے
محفوظ ہی نہیں رہی عزت غریب کی
قصر ِامیر ِشہر کی رونق نہ پوچھیے
ہر سمت دیکھ لیجیے محنت غریب کی
کوئی مفاد ہے جو نہایت امیر لوگ
اب بات کررہے ہیں نہایت غریب کی
حاکم کے دوستوں کے مکاں زَر سے بھر گئے
یوں بھی تو بڑھتی جائے ہے غربت غریب کی
آئے گا انتخاب کا موسم تو دیکھنا
جاگے گی سب دلوں میں محبت غریب کی
آصف غریب ِ شہر کے حالات دیکھنا
بدلیں گے جب بھی آئی حکومت غریب کی