ڈار اور ڈالر
سچی بات تو یہ ہے کہ آج کی یہ چیخ و پکار کچھ بے صبری کا نتیجہ ہے۔ جلد بازی اور بے وقت کی راگنی۔
سچی بات تو یہ ہے کہ آج کی یہ چیخ و پکار کچھ بے صبری کا نتیجہ ہے۔ جلد بازی اور بے وقت کی راگنی۔ لیکن آثار کچھ اچھے نہیں ہیں۔ معاملات اسی طرح آگے بڑھے تو یہ بے وقت کی راگنی بہت سے راگ الاپنے لگے گی۔ راگ درباری بھی اور دیپک راگ بھی۔ تین یا چار ماہ کسی حکومت کی کارکردگی کو جانچنے اور فیصلہ سنا دینے کے لیے کافی نہیں ہوتے۔ اتنی دیر میں تو لوگ ہنی مون کے سحر سے باہر نہیں نکلتے کجا یہ کہ ہم نتیجہ سنانے لگ جائیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ عام آدمی کو روز بہ روز ایسا رگڑا لگ رہا ہے کہ زیست مشکل ہے۔ سرنگ کے کسی سرے پر کوئی روشنی نہیں ہے۔ کرن تک دکھائی نہیں دیتی۔ حالات کے ہاتھوں عوام نکو نک آئے ہوئے ہیں اور انھیں یہی سمجھ نہیں آ رہی کہ کس کی ماں کو ماسی کہیں (پنجابی محاورہ)۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے اس ملک میں بچی کھچی، اپنی آخری امید کو اقتدار سونپ دیا ہے۔ وہ اسے تھوڑا اور وقت بھی دے دیں گے لیکن وہ خود کنفیوزڈ دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں عوام کا حوصلہ کہاں برقرار رہتا ہے۔ اسی لیے وہ گھبراہٹ کا شکار ہیں۔
یہ گھبراہٹ کا نتیجہ ہی ہے کہ لوگ ڈالر کے پیچھے نکل دوڑے ہیں۔ لینا، پکڑنا، کہیں ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ ایک بلاوجہ کی جنونی کیفیت ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تو آج کل جا بجا اور بے وجہ دھوم دھڑکا شروع ہو جاتا ہے۔ کوئی ذرا کھل کے ڈکار بھی مار دے تو بھارت کی طرف سے سرحدی خلاف ورزی کی پٹی چل جاتی ہے۔ ڈالر کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ سٹہ بازوں اور کرنسی کی تجارت کرنے والوں کا ایک مختصر سا ٹولہ ہے جو کھیل میں شریک ہے۔ میں صاف لفظوں میں انھیں جواری کہا کرتا ہوں۔ کرنسی کی قدر میں آٹھ دس فیصد کی کمی کوئی معمولی بات نہیں۔ مخصوص حالات میں اتنی کمی اگر سال بھر میں ہوئی ہو، دھیرے دھیرے، تو پھر بھی قابل قبول ہے لیکن دو ہفتوں میں اس کی درگت بنا دینا صرف جواریوں کا کام ہوتا ہے۔ وہ آتے ہیں، کھیل میں حصہ لیتے ہیں اور فارغ ہو کے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ گھر جاتے ہی ان میں سے آدھوں کو جوتے پڑتے ہیں کیونکہ وہ لٹ کے آتے ہیں۔ باقی آدھے لوٹنے والوں میں شامل ہیں۔ بچتے وہ بھی نہیں۔ وہ اگلے کھیل میں لٹ جاتے ہیں۔
یہ جو آج کل آپ ٹی وی کے بوجھ بجھکڑوں کی زبانی ڈالر کی مضبوطی کے قصے سن رہے ہیں اور یہ بھی سنتے ہیں کہ اب کھٹا کھٹ ساری سرمایہ کاری اسی میں ہو رہی ہے تو یہ کچھ درست نہیں ہے۔ انویسٹر اسی طرف جاتا ہے جہاں منافع زیادہ ہوتا ہے اور تجربہ بتاتا ہے کہ سرمایہ کاری کے دیگر تمام معروف ذرایع ڈالر سے زیادہ مفید رہتے ہیں۔ سونا، تیل، اجناس، اسٹاکس اور پراپرٹی وغیرہ۔ گزشتہ ڈیڑھ برس میں پراپرٹی میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو پچاس ساٹھ فیصد تک نفع ہوا ہے۔ پراپرٹی کی پچیس فیصد قیمت تو نئی حکومت کے حلف اٹھانے کے بعد سے ہی بڑھی ہے جب کہ ڈالر میں صرف دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے حوالے سے ہمارے معاشی افلاطون مزید دس پندرہ فیصد اضافے کی بات کرتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اسی عرصے میں بھارتی روپیہ کوئی بیس فیصد گر چکا ہے۔ وہاں آئی ایم ایف کہاں سے آ گیا۔ حقیقت یہی ہے کہ کرنسی کی قدر عالمی اور مقامی حالات کے کمبی نیشن سے خود ہی طے ہوتی ہے۔ معیشت مضبوط ہو گی تو سکہ بھی مضبوط ہو گا اور معیشت دو چار ہفتوں میں مضبوط یا کمزور نہیں ہوا کرتی۔ اتنے وقت میں تو صرف تماشا ہوتا ہے اور جواری پانسہ پھینکتا ہے۔
اب یہاں میں آپ کو روپے اور ڈالر کے تعلق کے بارے میں ایک تکنیکی بات بتاتا ہوں۔ ہمارے ہاں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی آتا ہی نہ ہو۔ غیر ملکی سرمایہ کار جب بھی انوسٹمنٹ کرتے ہیں تو عموماً ذرا لمبے عرصے کے لیے کرتے ہیں۔ اس عرصے کے لیے یہ بات تو وہ پہلے سے طے سمجھتے ہیں کہ روپے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے ان کا انویسٹ کیا ہوا سرمایہ بھی کم ہو جائے گا لیکن وہ انویسٹ ایسی جگہ پر کرتے ہیں جہاں قدر کی یہ کمی گننے کے بعد بھی انھیں نفع ہو۔ تکنیکی بات یہ ہے کہ وہ ہر سال روپے کی قدر میں ساڑھے چار سے پانچ فیصد کی کمی کی امید کرتے ہیں اور ایسی جگہ سرمایہ لگاتے ہیں جہاں انھیں چودہ پندرہ فیصد سالانہ اضافہ ہو جائے۔ یوں سرمایے کی ویلیو کم ہونے کے بعد بھی انھیں کوئی دس فیصد نفع ہو جاتا ہے۔
اس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اوسطاً روپے کی ویلیو میں پانچ فیصد کی کمی ہم ''طے شدہ'' سمجھ لیں۔ اگر گزشتہ تمام برسوں کا حساب لگایا جائے تو بھی یہی اوسط نکلتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ اسٹیٹ بینک نے کچھ عرصہ قبل تمام بینکوں کو پابند کر دیا تھا کہ وہ لوگوں کے تمام سیونگ اکاؤنٹس پر کم از کم چھ فیصد منافع دیں۔ ایک نئے فارمولے کے تحت اب اسے بڑھا کر تقریباً ساڑھے چھ فیصد کر دیا گیا ہے۔ یہ نفع دراصل اس ڈی ویلیوایشن کو کور کرتا ہے جس کا ہمارے روپے کو سامنا ہے۔ جب تک یہ پابندی نہیں تھی اس وقت تک بچت کھاتوں میں ریٹرن منفی تھا۔ یعنی یوں سمجھ لیں کہ بینکوں میں رکھا ہوا پیسہ ہر سال کم ہو جاتا تھا۔ لیکن پیارے قارئین! زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وزیر خزانہ نے نہ صرف یہ والا آدھا فیصد بلکہ اور بھی بہت کچھ آپ کی جیب سے نکالنے کا انتظام کر رکھا ہے۔ پٹرول اور بجلی والا تازہ ''خرچہ جاریہ'' اس کے علاوہ ہے۔
اسے میں بے وقت کی راگنی۔۔۔۔ حکومت کی ابتدائی مدت کو دیکھ کے کہتا ہوں اور امید یہ رکھتا ہوں کہ بدحواسیوں کا طوفان تھمے گا تو وطن میں سکون اور سہولت کا بسیرا ہو گا۔ اسی لیے تھوڑا اور صبر کرنے اور حکومت کو وقت دینے کی بات کی ہے۔ ہو سکتا ہے اس نے کھیسے میں کوئی ایسی گیدڑ سنگھی چھپا رکھی ہو جسے وہ اچانک نکالے اور کوئی معجزہ ہو جائے۔ ورنہ سیاپا اور دیپک راگ تو کسی بھی وقت چھیڑا جا سکتا ہے۔ مثلاً میں چاہوں تو ابھی اور اسی وقت پوچھ سکتا ہوں کہ جب ہمارا روپیہ تھرک تھرک کے ڈالر کے سامنے ناچ رہا تھا تو اس وقت وزیر خزانہ کہاں تھے اور کیا کر رہے تھے؟ صورتحال یہ ہے کہ ہمہ وقت وزیر خزانہ کو وزیر اعظم کا آئینہ بنے دیکھ کے لوگ چڑ گئے ہیں۔
یہی وہ وزارت ہے جس سے لوگ سب سے زیادہ شاکی ہیں۔ اسی نے تہ در تہ مسائل رقم کیے ہیں اور یہی اپنے کام ادھورے چھوڑ کے باقی ہر کام میں گھستی ہے۔ اپوزیشن کو مبارک ہو کہ اگر یہ حکومت وقت سے پہلے ڈوب گئی تو اسے ڈبونے کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی وزارت ہو گی۔ نا اہلی کا بوجھ آخر کوئی کب تک سہہ سکتا ہے۔ پھر آخر کیا کیا جائے؟ مجھے شاعری سے کوئی خاص شغف نہیں ہے لیکن اتنا یاد ہے کہ معروف و مقبول مغنیہ منی بیگم نے ایک بار ارشاد فرمایا تھا ''جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں۔''
یہ گھبراہٹ کا نتیجہ ہی ہے کہ لوگ ڈالر کے پیچھے نکل دوڑے ہیں۔ لینا، پکڑنا، کہیں ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ ایک بلاوجہ کی جنونی کیفیت ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تو آج کل جا بجا اور بے وجہ دھوم دھڑکا شروع ہو جاتا ہے۔ کوئی ذرا کھل کے ڈکار بھی مار دے تو بھارت کی طرف سے سرحدی خلاف ورزی کی پٹی چل جاتی ہے۔ ڈالر کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ سٹہ بازوں اور کرنسی کی تجارت کرنے والوں کا ایک مختصر سا ٹولہ ہے جو کھیل میں شریک ہے۔ میں صاف لفظوں میں انھیں جواری کہا کرتا ہوں۔ کرنسی کی قدر میں آٹھ دس فیصد کی کمی کوئی معمولی بات نہیں۔ مخصوص حالات میں اتنی کمی اگر سال بھر میں ہوئی ہو، دھیرے دھیرے، تو پھر بھی قابل قبول ہے لیکن دو ہفتوں میں اس کی درگت بنا دینا صرف جواریوں کا کام ہوتا ہے۔ وہ آتے ہیں، کھیل میں حصہ لیتے ہیں اور فارغ ہو کے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ گھر جاتے ہی ان میں سے آدھوں کو جوتے پڑتے ہیں کیونکہ وہ لٹ کے آتے ہیں۔ باقی آدھے لوٹنے والوں میں شامل ہیں۔ بچتے وہ بھی نہیں۔ وہ اگلے کھیل میں لٹ جاتے ہیں۔
یہ جو آج کل آپ ٹی وی کے بوجھ بجھکڑوں کی زبانی ڈالر کی مضبوطی کے قصے سن رہے ہیں اور یہ بھی سنتے ہیں کہ اب کھٹا کھٹ ساری سرمایہ کاری اسی میں ہو رہی ہے تو یہ کچھ درست نہیں ہے۔ انویسٹر اسی طرف جاتا ہے جہاں منافع زیادہ ہوتا ہے اور تجربہ بتاتا ہے کہ سرمایہ کاری کے دیگر تمام معروف ذرایع ڈالر سے زیادہ مفید رہتے ہیں۔ سونا، تیل، اجناس، اسٹاکس اور پراپرٹی وغیرہ۔ گزشتہ ڈیڑھ برس میں پراپرٹی میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو پچاس ساٹھ فیصد تک نفع ہوا ہے۔ پراپرٹی کی پچیس فیصد قیمت تو نئی حکومت کے حلف اٹھانے کے بعد سے ہی بڑھی ہے جب کہ ڈالر میں صرف دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے حوالے سے ہمارے معاشی افلاطون مزید دس پندرہ فیصد اضافے کی بات کرتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اسی عرصے میں بھارتی روپیہ کوئی بیس فیصد گر چکا ہے۔ وہاں آئی ایم ایف کہاں سے آ گیا۔ حقیقت یہی ہے کہ کرنسی کی قدر عالمی اور مقامی حالات کے کمبی نیشن سے خود ہی طے ہوتی ہے۔ معیشت مضبوط ہو گی تو سکہ بھی مضبوط ہو گا اور معیشت دو چار ہفتوں میں مضبوط یا کمزور نہیں ہوا کرتی۔ اتنے وقت میں تو صرف تماشا ہوتا ہے اور جواری پانسہ پھینکتا ہے۔
اب یہاں میں آپ کو روپے اور ڈالر کے تعلق کے بارے میں ایک تکنیکی بات بتاتا ہوں۔ ہمارے ہاں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی آتا ہی نہ ہو۔ غیر ملکی سرمایہ کار جب بھی انوسٹمنٹ کرتے ہیں تو عموماً ذرا لمبے عرصے کے لیے کرتے ہیں۔ اس عرصے کے لیے یہ بات تو وہ پہلے سے طے سمجھتے ہیں کہ روپے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے ان کا انویسٹ کیا ہوا سرمایہ بھی کم ہو جائے گا لیکن وہ انویسٹ ایسی جگہ پر کرتے ہیں جہاں قدر کی یہ کمی گننے کے بعد بھی انھیں نفع ہو۔ تکنیکی بات یہ ہے کہ وہ ہر سال روپے کی قدر میں ساڑھے چار سے پانچ فیصد کی کمی کی امید کرتے ہیں اور ایسی جگہ سرمایہ لگاتے ہیں جہاں انھیں چودہ پندرہ فیصد سالانہ اضافہ ہو جائے۔ یوں سرمایے کی ویلیو کم ہونے کے بعد بھی انھیں کوئی دس فیصد نفع ہو جاتا ہے۔
اس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اوسطاً روپے کی ویلیو میں پانچ فیصد کی کمی ہم ''طے شدہ'' سمجھ لیں۔ اگر گزشتہ تمام برسوں کا حساب لگایا جائے تو بھی یہی اوسط نکلتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ اسٹیٹ بینک نے کچھ عرصہ قبل تمام بینکوں کو پابند کر دیا تھا کہ وہ لوگوں کے تمام سیونگ اکاؤنٹس پر کم از کم چھ فیصد منافع دیں۔ ایک نئے فارمولے کے تحت اب اسے بڑھا کر تقریباً ساڑھے چھ فیصد کر دیا گیا ہے۔ یہ نفع دراصل اس ڈی ویلیوایشن کو کور کرتا ہے جس کا ہمارے روپے کو سامنا ہے۔ جب تک یہ پابندی نہیں تھی اس وقت تک بچت کھاتوں میں ریٹرن منفی تھا۔ یعنی یوں سمجھ لیں کہ بینکوں میں رکھا ہوا پیسہ ہر سال کم ہو جاتا تھا۔ لیکن پیارے قارئین! زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وزیر خزانہ نے نہ صرف یہ والا آدھا فیصد بلکہ اور بھی بہت کچھ آپ کی جیب سے نکالنے کا انتظام کر رکھا ہے۔ پٹرول اور بجلی والا تازہ ''خرچہ جاریہ'' اس کے علاوہ ہے۔
اسے میں بے وقت کی راگنی۔۔۔۔ حکومت کی ابتدائی مدت کو دیکھ کے کہتا ہوں اور امید یہ رکھتا ہوں کہ بدحواسیوں کا طوفان تھمے گا تو وطن میں سکون اور سہولت کا بسیرا ہو گا۔ اسی لیے تھوڑا اور صبر کرنے اور حکومت کو وقت دینے کی بات کی ہے۔ ہو سکتا ہے اس نے کھیسے میں کوئی ایسی گیدڑ سنگھی چھپا رکھی ہو جسے وہ اچانک نکالے اور کوئی معجزہ ہو جائے۔ ورنہ سیاپا اور دیپک راگ تو کسی بھی وقت چھیڑا جا سکتا ہے۔ مثلاً میں چاہوں تو ابھی اور اسی وقت پوچھ سکتا ہوں کہ جب ہمارا روپیہ تھرک تھرک کے ڈالر کے سامنے ناچ رہا تھا تو اس وقت وزیر خزانہ کہاں تھے اور کیا کر رہے تھے؟ صورتحال یہ ہے کہ ہمہ وقت وزیر خزانہ کو وزیر اعظم کا آئینہ بنے دیکھ کے لوگ چڑ گئے ہیں۔
یہی وہ وزارت ہے جس سے لوگ سب سے زیادہ شاکی ہیں۔ اسی نے تہ در تہ مسائل رقم کیے ہیں اور یہی اپنے کام ادھورے چھوڑ کے باقی ہر کام میں گھستی ہے۔ اپوزیشن کو مبارک ہو کہ اگر یہ حکومت وقت سے پہلے ڈوب گئی تو اسے ڈبونے کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی وزارت ہو گی۔ نا اہلی کا بوجھ آخر کوئی کب تک سہہ سکتا ہے۔ پھر آخر کیا کیا جائے؟ مجھے شاعری سے کوئی خاص شغف نہیں ہے لیکن اتنا یاد ہے کہ معروف و مقبول مغنیہ منی بیگم نے ایک بار ارشاد فرمایا تھا ''جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں۔''