دی مہاگنی شپ۔۔۔آسٹریلیا کا انوکھا بحری راز

جس کی اصلیت سے آج تک پردہ نہیں اٹھ سکا

جس کی اصلیت سے آج تک پردہ نہیں اٹھ سکا

ویسے تو آسٹریلیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جو پورا کا پورا ایک مکمل براعظم یعنی براعظم آسٹریلیا پر مشتمل ہے، مگر اس ملک کی ایک بہت ہی اہم اور خاص بات اس کے ایک اہم بحری جہاز کا غیرمعمولی راز ہے، دراصل بہت عرصہ پہلے یعنی زمانہ قدیم میں اس کا ایک بہت زبردست اور قیمتی لکڑی مہاگنی سے تیار کردہ ایک بحری جہاز سمندر میں غرقاب ہوا تھا جسے ''مہاگنی شپ'' کہا جاتا تھا۔ یہ بحری جہاز جب سے سمندر برد ہوا، اس وقت سے ابھی تک سمندر کی تہہ میں ہی موجود رہا ہے، مگر بعد کی ریسرچ اور تلاش و جستجو کے بعد اس کا پتا نہیں چل سکا کہ یہ جہاز کہا ں چلا گیا، یہ کہاں سے آیا تھا اور اس کا اصل کیا تھا، یعنی اس کا تعلق بنیادی طور پر کس ملک سے تھا۔''مہاگنی شپ'' کو سب سے پہلے 1836 میں ایک تھری وھیلرز پارٹی نے دیکھا تھا اور اس کا پتا چلایا تھا۔

یہ وہ لوگ تھے جن کا اپنا بحری جہاز بھی تھا اور جو وکٹوریا کے جنوب مغربی ساحل پر غرق ہوا تھا۔ یہ جگہ Warrnambool کے جدید شہر کے ساحل کے قریب واقع تھی اور یہ بحری جہاز اسی جگہ کہیں سمندر کے پیٹ میں چلا گیا تھا۔ اس دوران ان ملاحوں کو پورٹ فیری سے ساحل کی طرف واپس پیدل چل کر جانا پڑا تو دوران سفر انہیں ایک بہت بڑے غرقاب بحری جہاز کا ملبہ دکھائی دیا جو نصف کے قریب ریتیلے ٹیلوں میں ڈوبا ہوا تھا اور اس کا باقی حصہ پانی کے باہر سے دکھائی دے رہا تھا۔ بڑی عجیب اور حیرت انگیز منظر تھا یہ!

ان سبھی ملاحوں نے جب اس نصف غرقاب بحری جہاز کے ملبے کو دیکھا تو اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمارتی تعمیر میں کام آنے والی لکڑی جیسے مہاگنی سے بنایا گیا ہے اور جس کا رنگ اچھا خاصا گہرا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ دیودار کی لکڑی کے رنگ جیسا لگ رہا تھا۔ اسے دیکھنے اور اس کی شناخت کرنے کے بعد ان سبھی ملاحوں نے اس میں جو کچھ غیرمعمولی بات دیکھی وہ یہ تھی کہ یہ بحری جہاز بہت زیادہ قدیم لگتا تھا اور اس کی اصل غالباً پرتگیزی تھی یعنی اس کا تعلق پرتگال سے لگ رہا تھا۔

یہ بہت اہم بات تھی کیوں کہ پاپولر ہسٹری ہمیں یہ بتاتی ہے کہ آسٹریلیا کا پہلا دورہ ولندیزیوں نے سترھویں صدی کے اوائل میں کیا تھا اور بعد میں اسے برطانیہ نے اپنی نوآبادی بنالیا تھا۔ اس سے پہلے کبھی کسی بھی پرتگیزی بحری جہاز کو اس کے کناروں یا ساحل تک پہنچنے میں کام یابی نہیں مل سکی تھی۔

سولھویں صدی کے چھوٹے بادبانی جہاز جو عام طور سے پرتگال اور اسپین میں شاید مچھلیاں پکڑنے کے لیے استعمال ہوتے تھے، ان کو بعد میں مہاگنی شپ کے نام سے شناخت کرلیا گیا یعنی یہ وہی بحری جہاز تھے جنہیں ماہر گیری کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

آسڑیلیا پر انسانی قدم کب پہنچے؟ یہ بہت اہم سوال ہے اور ، اس کی تاریخ کم و بیش 65,000سال پرانی ہے جب اس سرزمین پر پہلے انسانوں نے قدم رکھے تھے اور یہاں پہلی انسانی بستی وجود میں آئی تھی۔ مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ پہلے آبادکار کون تھے؟

وہ پہلے قدیم یا اصل ابورجینلز کے آباد و اجداد تھے جو اصل میں سرزمین افریقا سے باہر نکلے تھے اور پا پیادہ چلتے ہوئے انڈیا کے راستے یورپ سے گزرے تھے اور پھر جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں سے گزرتے ہوئے آگے بڑھے تھے کہ پھر سمندر ان کے راستے میں مزاحم ہوگیا، یہ کونسا سمندر تھا؟ یہ وہ سمندر تھا جو آسٹریلیا کو باقی ساری دنیا سے الگ کرتا تھا۔ ان لوگوں نے یہ سمندر کیسے پار کیا اور آسٹریلیا تک کیسے پہنچے، اس کے بارے میں تاریخ کچھ نہیں بتاتی، بلکہ بالکل خاموش ہے۔ لیکن ایک غالب خیال یہ ہوسکتا ہے کہ وہ حادثاتی طور پر وہاں پہنچ گئے ہوں گے۔ دراصل انہوں نے چھوٹی چھوٹی رافٹوں یا تختوں کی مدد لی ہوگی جو انہوں نے مختلف جزائر کو کھوجنے کے لیے درختوں سے کاٹ کر تیار کیے ہوں گے، ان کے یہ مطلوبہ جزائر بحرہند اور بحرالکاہل کے ساحلوں پر واقع ہوں گے، مگر پھر یہ ہوا ہوگا کہ وہ سب کے سب حادثاتی طور پر سمندر کی لہروں میں بہہ گئے ہوں اور پھر اس ناقابل رسائی وسیع و عریض خطے کی نذر ہوگئے ہوں گے جس کے بارے میں پہلے بھی انہیں کچھ پتا نہیں تھا اور وہی جگہ ان کی آخری قبر بھی بن گئی ہوگی۔

یہاں اس ضمن میں ایک ثبوت یہ بھی ملتا ہے کہ انڈونیشیا، انڈیا اور چین کے ماہی گیروں اور سوداگروں نے ان خطوں کے تجارتی دورے کیے ہوں گے اور یہ تجارت ہزاروں سال تک جاری رہی ہوگی۔ لیکن یہاں ایک بات اور بھی قابل توجہ رہی ہوگی کہ ان تمام آنے اور جانے والوں کو آسٹریلیا کی وسعت کی معلومات حاصل رہی ہوگی۔ پھر یہ کہ انہوں نے یہ بھی سوچا ہوگا کہ یہ بھی اس آبی خطے کے دیگر جزائر کی طرح کا کوئی جزیرہ ہے۔

1453 میں قسطنطنیہ کا زوال ہوا، اس وقت کے بعد تک اہل یورپ نے ان سمندروں کا کھوج لگانا شروع نہیں کیا ہوگا، کیوں کہ یہی وہ سبب تھا جو انڈیا اور چین کے درمیان زمین پر کی جانے والی تجارت اور سوداگری کو بند کرنے کی وجہ بنا تھا۔ یہ وہ صورت حال تھی جس کی وجہ سے یورپی اقوام نے ایک متبادل بحری راستے کی تلاش شروع کی ہوگی جو کیپ آف گڈ ہوپ سے گھومتے ہوئے آگے کی طرف پہنچتا تھا۔ وہ اسی طرح مسالوں کی تلاش میں دور دراز کے سفر بھی کیا کرتے تھے۔

پرتگالی ملاح سب سے پہلے 1515 میں تیمور کے جزیرے پر پہنچے جو آسٹریلیا سے 700 کلومیٹر دور واقع تھا۔ ایک اندازہ یہ بھی لگایا گیا ہے کہ آسڑیلیا جیسے وسیع براعظم کو اس وقت کے ملاحوں نے اس طرح دیکھ لیا ہوگا کہ اس کا ساحل انہیں نظر آگیا ہوگا اور وہ اپنے بحری جہازوں میں آگے تک چلے گئے ہوں گے۔


لگ بھگ ایک صدی بعد ایک ولندیزی بادبانی بحری جہاں ولیم جانسزون کی قیادت میں پہلے ساحل پر پہنچا تھا اور پھر مقامی لوگوں سے بھی ملا تھا جن سے انہوں نے شناسائی بھی حاصل کی ہوگی۔

ان لوگوں نے اس براعظمی جزیرے کو ''نیو ہالینڈ'' کا نام دیا تھا۔ اس کے بعد پوری سترھویں صدی کے دوران ولندیزیوں نے پوری مغربی اور شمالی کوسٹ لائن کو چارٹر کرلیا تھا جس سے یورپ اور اہل یورپ کو آسٹریلوی کوسٹ لائن کی پوری معلومات مل گئی تھی۔ لیکن انہوں نے اس ضمن میں بستیاں بسانے کی کوئی کوشش نہیں کی کیوں کہ انہیں اس پورے خطے میں صرف خالی اور بنجر زمین ہاتھ لگی تھی اور اس کا کوئی تجارتی یا کمرشل فائدہ نہیں ہونے والا تھا۔ چناں چہ انہوں نے اس ضمن میں کوئی کوشش نہیں کی اور نہ انسانی بستی بسانے کی کوئی پلاننگ کی تھی۔

اس مضمون کے ساتھ Nicolas Desliens کا تیار کردہ ایک ورلڈ میپ بھی دیا گیا ہے جو 1566 کا ہے اور یہ نقشہ Dieppe فرانس میں تیار کیا گیا تھا۔ اس نقشے میں انڈونیشیا کے جنوب میں آسٹریلیا کو خشکی کا ایک بڑا ٹکڑا دکھایا گیا ہے جو آسٹریلیا کی دریافت سے لگ بھگ نصف صدی قبل کا ہے۔

1783 میں امریکی انقلابی جنگ کے بعد برطانیہ کو اپنی امریکی نو آبادیوں سے ہاتھ دھونے پڑے تو انہوں نے بحری جہازوں کا ایک بیڑہ نودریافت شدہ زمین کی طرف روانہ کیا تاکہ وہاں 26جنوری 1788 کو ایک نئی پینل کالونی قائم کی جائے جس کے بعد یہی تاریخ آسٹریلیا کا قوم دن بن گئی۔ اس روز آسٹریلیا کے مشرق بعید کے دور دراز ساحل پر ایک کیمپ قائم کیا گیا۔ اسی دوران اس کیمپ نے خوب ترقی کی اور پھر یہ آسٹریلیا اور اوشیانا کا سب سے بھرپور آبادی والو شہر بن گیا جس کا نام بعد میں جاکر سڈنی پڑگیا۔

یہ سب باتیں تو اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہیں لیکن جہاں تک تاریخ کا تعلق ہے تو مہاگنی شپ حقیقتاً پرتگال سے تعلق رکھتا تھا، یہ وہ بحری جہاز تھا جو آسڑیلیا کی تاریخ کی کتابوں کو دوبارہ لکھ سکتا ہے بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ اس آسٹریلوی تاریخ کو ایک نئی جہت سے روشناس کراسکتا ہے۔

بہرحال یہ بھی اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ انیسویں صدی میں Armstrong bay پر جو بحری جہاز کا ملبہ تھا، اس ضمن میں مختلف لوگوں نے مختلف رپورٹس دی ہیں کہ انہوں نے 1836 اور 1881کے درمیانی عرصے میں اس بحری جہاز کا ملبہ دیکھا تھا اور یہ وہ وقت تھا جب اس ملبے کو آخری بار دیکھا گیا تھا۔ لیکن ان تمام رپورٹس سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ وکٹوریا کی نو آبادیاتی جیسا کہ اہل یورپ نے سوچا تھا، وہ نامعلوم تھا۔ لیکن سمندر میں بحری جہاز کے ملبے کی پوزیشن کے بارے میں سبھی رپورٹس نامعلوم تھیں، کچھ لوگوں نے سمندر میں وہ ملبہ ڈالا اور کچھ نے اسے ساحل پر دکھادیا اور کچھ نے خشکی پر ٹیلے بنوادیے۔

بہرحال بحری جہاز کی لوکیشن کے بارے میں صحیح معلومات نہ ہونے کی وجہ سے کسی بڑی، ٹھوس، سنجیدہ اور منظم کوشش کی ضرورت تھی اور وہ ابھی تک شروع ہو ہی نہیں سکی تھی۔ اس ضمن میں غوطہ خوروں نے متعدد کوششیں کیں اور گذشتہ ڈیڑھ سو سال تک مسلسل تلاش میں لگے رہے، کبھی وہ پانی کے اندر باہر کے چکر لگاتے تو کبھی ساحلی ٹیلوں پر تلاش کرتے رہتے، تاکہ کسی طرح کہیں سے کوئی کھوج ہاتھ لگ جائے، مگر سب کوششیں بے کار ہی رہیں اور کہیں سے کچھ بھی نہ مل سکا۔

یہاں تک کہ وکٹوریا کی ریاستی حکومت نے 1992 میں اس شخص کو 250,000 ڈالرز کا انعام دینے کا اعلان کیا جو اس بحری جہاز کے ملبے کو تلاش کرنے میں مدد دے سکے اور اس کے بارے میں ٹھوس شواہد پیش کرسکے۔

اس ضمن میں چوں کہ کوئی کامیابی نہ مل سکی اس لیے ان کی دوبارہ دریافت کے بغیر اس ملک کے اوریجن کا پتا چلانا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے،1847 میں جب جان میسن کو سمندر کی بلندیوں پر Warrnambool کے مغرب میں ایک بحری جہاز کے ملبے کو دیکھنا کا منظر یاد آیا تو اس نے اپنا یہ خیال ظاہر کیا کہ یہ وہ غرقاب بحری جہاز ہے جو ابتدائی زمانوں میں سمندر برد ہوا تھا اور یہ اسپینی یا پھر پرتگالی ہے۔ اس وقت اس نے یہ بھی کہا کہ اس ملبے کا ٹمبر دیودار یا مہاگنی کا ہوسکتا ہے، لیکن بعدمیں اس نے اپنے اس خیال سے انکار کردیا اور یہ کہا کہ یہ لکڑی مہاگنی کی نہیں تھی البتہ یہ آسٹریلیا کی ایک سخت لکڑی ضرور تھی۔

اس کے علاوہ متعدد لوگوں نے یہ رپورٹ بھی دی کہ انہوں نے مہاگنی سے تیار کردہ اس بحری جہاز کے ٹکڑے کاٹے تھے اور اس کے کچھ نمونے آج بھی ان کے بزرگوں کے پاس ہیں یا پھر میوزیم میں رکھے ہیں۔ ان تمام ٹکڑوں کے سائنسی تجزیے نے مایوس کن نتائج پیش کیے۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ ٹکڑے تو ان درختوں سے لیے گئے ہیں جو اصل میں آسٹریلین تھے اور نہ یہ مہاگنی ہیں اور نہ دیودار کے۔ بہرحال اس ملبے کے نہ تو پرتگالی ہونے کے ثبوت مل سکے، نہ اسپینی ہونے کے، نہ ولندیزی ہونے کے اور نہ ہی چینی ہونے کے۔

سب سے پہلے 1786میں یہ شور اٹھا کہ پرتگیزی آسٹریلیا میں ولندیزیوں سے پہلے پہنچے تھے۔ اس ضمن میں بہت سی باتیں کی جاتی رہیں، سب اپنی اپنی تھیوریز پیش کرتے رہے۔ اس سلسلے میں اس خطے میں مختلف بحری جہاز اپنے اپنے بحری سفر کرتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ بحری جہاز تو دور دراز کے جزائر تک جا پہنچے جب کہ کچھ دوران سفر سمند کی نذر ہوگئے۔ کسی نے یہ بھی کہا کہ کسی بحری جہاز کو قزاقوں نے لوٹ لیا اور پھر اس کی مہاگنی کی لکڑی سے اس جیسا ایک اور بحری جہاز بنا ڈالا تاکہ اس کے ذریعے وہاں سے نکل بھاگیں۔ پھر جب دوسروں کے ہاتھ اس جہاز کا ملبہ لگے تو دوسرے لوگ اور ماہرین اسے بھی آسٹریلوی جہاز سمجھیں اور ثبوت کے طور پر وہ مہاگنی کی لکڑی پیش کردی جائے۔ بس اس طرح کی الٹی سیدھی کہانیاں بناکر پیش کی جاتی رہیں۔ مگر آج تک کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا جاسکا جس سے یہ ثابت ہو کہ یہ واقعی مہاگنی سے تیارکردہ بحری جہاز ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا، لیکن اس ضمن میں ابھی تو ریسرچ ہونا باقی ہے، پھر شاید یہ طے ہوجائے کہ اس بحری جہاز کی حقیقت اصل میں کیا ہے؟؟؟
Load Next Story