اختیارات کا دنگل اور کراچی
کراچی کا ماسٹر پلان کیا ہے؟ میں ذاتی تجربہ کرچکی ہوں کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران بھی لاعلم ہیں
کراچی کے ماضی ، حال اور مستقبل پر غورکیا جائے تو اس شہرکا سفر رک نہیں رہا بلکہ یہ اپنی وسعت کے ساتھ جس تیزی سے آگے جا رہا ہے اور جس طرح سے جا رہا ہے لگتا ہے اور آگے جائے گا۔ کراچی کے شہریوں کے خلاف سازش کرنے والے اب اس کو روک سکنے کی استعداد سے محروم ہوتے نظر آرہے ہیں۔
زبانی کلامی معاملات بھی اب تیزی سے جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں ، جن میں مسائل کا حل تو نہیں البتہ پیچیدگیاں بڑھانے کا عنصر واضح نظر آرہا ہے ۔ اب سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہاں کے مستقل باسی تو کہیں جانے والے نہیں اور جو غرض وغایت کے لیے آتے ہیں ان پرکوئی روک نہیں لگائی جاسکتی تا وقت یہ کہ ان کے آبائی علاقوں میں روزگارکے مواقع فراہم کیے جائیں ، اس لیے ضروری ہے کہ اب کراچی کے لیے معمول کی کوششوں سے ہٹ کر اجتماعی مفاد کو مقدم رکھ کر معیشت کی بحالی اور ملک کے استحکام کے لیے آئین و قانون کے دائرے میں ایسے فیصلے کرنا ضروری ہوچکے ہیں، جس سے کراچی کے کروڑوں شہری سکون کا سانس لے سکیں۔
اٹھارہویں ترمیم وفاق سے صوبوں کے لیے اختیارات کی منتقلی کا پیغام لے کر ضرور آئی تھی لیکن عوام کے حوالے سے ہوا یہ کہ ''آسمان سے گرا اورکھجور میں اٹکا'' وفاق نے اپنے اختیارات صوبے کو منتقل کیے اور جب صوبے کی حکومتوں کے پاس اختیارات آئے تو مقتدر ہونے کی صورت میں سارا اختیار اپنے پاس رکھ لیا جس کے نتیجے میں نہ صرف عوام تہی دست رہے بلکہ اس سے بڑے المیے نے جنم لیا کہ اقتدار رکھنے والوں نے اختیار کا بھی ایک ریڈ زون بنا لیا اور ریڈ زون ایک عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتا ہے۔
ایسی صورتحال قومی یکجہتی کے لیے کسی ضرب سے کم نہیں۔ یہ انسانوں کی درجہ بندیوں میں اضافے کا سبب بنتی ہیں جب کہ اس کو ختم کرنے اور عوام کی بنیادی ضرورتوں کے حصول اور ان کی فراہمی میں روانی پیدا کرنے کے لیے دستور میں ترمیمات وقت کی ضرورت ہوتی ہیں لیکن اب ان پر واویلا کرنا اس بات کی غماضی کرتا نظر آرہا ہے کہ اختیارات رکھنے والی طاقتیں اپنی گرفت کو مضبوط کرکے عوام کو اس ریڈزون سے دور ہی رکھنا چاہتے ہیں۔
پانی، بجلی، گیس، سیوریج، صفائی ستھرائی، ٹرانسپورٹ اور صحت و تعلیم جیسی بنیادی ضرورتوں سے محروم عوام کو ریلیف اس صورت میں ہی مل سکتا ہے کہ اختیارات نچلی سطح یعنی لوکل گورنمنٹ کے پاس منتقل کر دیے جائیں جیساکہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں ہو رہا ہے کہ ہرکاؤنٹی کا اپنا ایک اسپتال، اسکول، تھانہ اور صفائی ستھرائی کا نظام ہوتا ہے جب کہ یونیورسٹی اورکالج کاؤنٹی میں نہ سہی مگر ضلع یا شہری سطح پر ضرور موجود ہوتے ہیں لیکن یہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے کہ درجنوں محکمے تشکیل دیے گئے بلکہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے یعنی جن چیزوں پر اختیار شہری حکومتوں کا ہونا چاہیے وہ نہیں ہے۔
مثلاً (کالعدم) کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو جو کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ایک ذیلی ادارہ تھا اس کو سندھ کی حکومت نے متعلقہ ادارے سے نکال کر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنا دیا اور اس کا براہ راست کنٹرول اتھارٹی سے نکال کر سندھ گورنمنٹ کے اختیار میں دے دیا گیا۔ یاد رہے کراچی میں کئی عمارتیں گر چکی ہیں اسی طرح دیگر اداروں کے اندر بھی اختیارات کے توازن میں رد و بدل کیا گیا ہے جس سے نہ صرف محکموں کی کارکردگی میں فرق آیا ہے بلکہ غیر یقینی صورتحال نمایاں نظر آتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پچھلے گیارہ سالوں سے اقتدار میں رہنے والی صوبائی حکومت اور اس کے چلانے والوں کی سوچ میں نہ تو کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ آیندہ آنے کی کوئی امید ہے ایسا ہی کچھ نظارہ وفاق کی جانب سے بھی ہے کہ کراچی پیکیج کے نام سے اعلانات کیے گئے لیکن عملی طور پر عملدرآمد نامکمل۔ اور صوبائی حکومت اختیارات ہونے کے باوجود کراچی سے عدم تعاون پر عمل پیرا۔ کراچی کے شہریوں کے لیے پینے کے پانی کی فراہمی کے سلسلے میں شروع کیا جانے والا K-4 منصوبہ التوا کا شکار ہے۔ اسی طرح اورنج لائن،گرین لائن و دیگر ٹرانسپورٹ کے منصوبے ابھی تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچے۔
کچرا اٹھانے کا محکمہ تو بنا دیا گیا لیکن کراچی کے مختلف ضلعے ابھی تک اس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں۔ سیوریج کے معاملات کی ذمے داری واٹر بورڈ کے ادارے کی ہے لیکن وہ صوبائی گورنمنٹ کے کنٹرول میں چلا گیا ہے جس کی وجہ سے گلی محلوں کے مین ہول اور اس کے ڈھکن کی فراہمی بھی صوبائی حکومت کی منظوری سے دی جاتی ہے۔ کراچی جیسے معاشی حب میں کئی انڈسٹریل زون قائم ہیں۔
جن کو صوبائی حکومت کا ایک ادارہ کنٹرول کرتا ہے جب کہ ان علاقوں کی خراب صورتحال پر جواب طلبی میئرکراچی سے کی جاتی ہے۔ کراچی کا ساحل تقریباً چار ادارے کنٹرول کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیشہ مسائل در پیش رہتے ہیں اور ان کے قوانین بھی علیحدہ ہیں۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ ، پورٹ قاسم اتھارٹی ،کنٹونمنٹ بورڈ اور کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے اپنے اپنے قاعدے قوانین ہیں۔کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن وہ واحد ادارہ ہے جو کراچی کے ساحل پر اپنی کوئی اتھارٹی نہیں رکھتا۔
اب کراچی کی حدود میں ترتیب دیے گئے مختلف محکمے اور اتھارٹیز کا ایک سرسری جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس شہرکے ساتھ کس قدر نا انصافی ہو رہی ہے اور یہ کام کوئی عام نہیں بلکہ ایسے ادارے کر رہے ہیں جن کی باضابطہ گورننگ باڈیز یا بورڈ آف ڈائریکٹرز موجود ہیں اور ان کے اجلاسوں کی تشہیر بھی کی جاتی ہے ذرا غور کریں کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی، لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی، کراچی پورٹ ٹرسٹ، پورٹ قاسم اتھارٹی، فشری ڈیپارٹمنٹ، سولڈ ویسٹ مینجمنٹ، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے علاوہ کئی دیگر اور محکمے بھی ہیں جو کراچی کو چلانے کے دعویدار ہیں اور ان تمام محکموں کے اندر بھی مزید انٹرنل ذیلی ڈائریکٹوریٹ بھی بنا رکھے ہیں۔
اب اگر یہ تمام ادارے کام کر رہے ہیں تو ان کی کارکردگی نظر کیوں نہیں آتی۔ حقیقت کی نگاہ سے دیکھیں تو آپ کو درست تصویر کچھ ایسی دکھائی دے گی کہ بیس، انیس، اٹھارہ، سترہ اور اور سولہ گریڈ کی فوج ظفر موج دفتروں کے ٹھنڈے کمروں میں اور اسٹاف برآمدوں میں خوش گپیوں میں مصروف یا چائے کے کپ ہاتھوں میں اٹھائے باتوں میں مشغول وقت ضایع کرنے کا ہنر دوسروں کو سکھا رہا ہوگا یہی نہیں ملکی سیاست سے لے کر بین الاقوامی معاملات بھی اس کی گفتگو کا اہم حصہ ہوں گے۔ اب اس کارہائے نمایاں میں سب سے زیادہ استفادہ کرنے والی وہ بیورو کریسی ہے جو ان محکموں کے عہدوں پر فائز ہیں۔
کراچی کا ماسٹر پلان کیا ہے؟ میں ذاتی تجربہ کرچکی ہوں کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران بھی لاعلم ہیں یہاں تک کہ انکو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ آیندہ بجٹ میں کون سا منصوبہ رکھا جائے گا بلکہ ہو یہ رہا ہے کہ اقتدار میں رہتی شخصیت اعلانات کرتی ہے اور وہی ماسٹر پلان کا حصہ بن جاتا ہے لہٰذا اب ہمیں ضرورت ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے لامتناہی ادارے کھولتے چلے جانے کے بجائے موجودہ قوانین میں ترمیمات کے ساتھ مزید نئے قوانین بھی بنانا ہونگے جو نہ صرف عصری تقاضوں کو پورا کرسکیں بلکہ اختیارات کو نچلی سطح تک پہنچایا جائے تاکہ عوام مستفید ہوسکیں اور ملکی معیشت قومی یکجہتی کے ساتھ ریاست کی سالمیت کو قوی تر بنانے میں بھی مدد گار ثابت ہوں۔
اس بات سے قطع نظر کہ مخالفت کرنیوالے اپنے ذہنوں میں کیا سوچ رکھتے ہیں وفاق ہو صوبائی حکومت ہو یا مقتدر حلقے آئین پاکستان کی ہر اس شق کا اطلاق کراچی کے لیے ضرور ہونا چاہیے جسکے نفاذ سے معاشی حب کراچی اور اس کے رہنے والے کروڑوں انسانوں کو فلاح نصیب ہو کیونکہ اس شہر کی ترقی ہی ملک کی معیشت کا واحد پیمانہ تصور کی جاتی ہے جس کے ذریعے ریاست کو مضبوطی اور اس کی طاقت کو جانچا جاسکتا ہے۔
زبانی کلامی معاملات بھی اب تیزی سے جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں ، جن میں مسائل کا حل تو نہیں البتہ پیچیدگیاں بڑھانے کا عنصر واضح نظر آرہا ہے ۔ اب سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہاں کے مستقل باسی تو کہیں جانے والے نہیں اور جو غرض وغایت کے لیے آتے ہیں ان پرکوئی روک نہیں لگائی جاسکتی تا وقت یہ کہ ان کے آبائی علاقوں میں روزگارکے مواقع فراہم کیے جائیں ، اس لیے ضروری ہے کہ اب کراچی کے لیے معمول کی کوششوں سے ہٹ کر اجتماعی مفاد کو مقدم رکھ کر معیشت کی بحالی اور ملک کے استحکام کے لیے آئین و قانون کے دائرے میں ایسے فیصلے کرنا ضروری ہوچکے ہیں، جس سے کراچی کے کروڑوں شہری سکون کا سانس لے سکیں۔
اٹھارہویں ترمیم وفاق سے صوبوں کے لیے اختیارات کی منتقلی کا پیغام لے کر ضرور آئی تھی لیکن عوام کے حوالے سے ہوا یہ کہ ''آسمان سے گرا اورکھجور میں اٹکا'' وفاق نے اپنے اختیارات صوبے کو منتقل کیے اور جب صوبے کی حکومتوں کے پاس اختیارات آئے تو مقتدر ہونے کی صورت میں سارا اختیار اپنے پاس رکھ لیا جس کے نتیجے میں نہ صرف عوام تہی دست رہے بلکہ اس سے بڑے المیے نے جنم لیا کہ اقتدار رکھنے والوں نے اختیار کا بھی ایک ریڈ زون بنا لیا اور ریڈ زون ایک عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتا ہے۔
ایسی صورتحال قومی یکجہتی کے لیے کسی ضرب سے کم نہیں۔ یہ انسانوں کی درجہ بندیوں میں اضافے کا سبب بنتی ہیں جب کہ اس کو ختم کرنے اور عوام کی بنیادی ضرورتوں کے حصول اور ان کی فراہمی میں روانی پیدا کرنے کے لیے دستور میں ترمیمات وقت کی ضرورت ہوتی ہیں لیکن اب ان پر واویلا کرنا اس بات کی غماضی کرتا نظر آرہا ہے کہ اختیارات رکھنے والی طاقتیں اپنی گرفت کو مضبوط کرکے عوام کو اس ریڈزون سے دور ہی رکھنا چاہتے ہیں۔
پانی، بجلی، گیس، سیوریج، صفائی ستھرائی، ٹرانسپورٹ اور صحت و تعلیم جیسی بنیادی ضرورتوں سے محروم عوام کو ریلیف اس صورت میں ہی مل سکتا ہے کہ اختیارات نچلی سطح یعنی لوکل گورنمنٹ کے پاس منتقل کر دیے جائیں جیساکہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں ہو رہا ہے کہ ہرکاؤنٹی کا اپنا ایک اسپتال، اسکول، تھانہ اور صفائی ستھرائی کا نظام ہوتا ہے جب کہ یونیورسٹی اورکالج کاؤنٹی میں نہ سہی مگر ضلع یا شہری سطح پر ضرور موجود ہوتے ہیں لیکن یہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے کہ درجنوں محکمے تشکیل دیے گئے بلکہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے یعنی جن چیزوں پر اختیار شہری حکومتوں کا ہونا چاہیے وہ نہیں ہے۔
مثلاً (کالعدم) کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو جو کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ایک ذیلی ادارہ تھا اس کو سندھ کی حکومت نے متعلقہ ادارے سے نکال کر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنا دیا اور اس کا براہ راست کنٹرول اتھارٹی سے نکال کر سندھ گورنمنٹ کے اختیار میں دے دیا گیا۔ یاد رہے کراچی میں کئی عمارتیں گر چکی ہیں اسی طرح دیگر اداروں کے اندر بھی اختیارات کے توازن میں رد و بدل کیا گیا ہے جس سے نہ صرف محکموں کی کارکردگی میں فرق آیا ہے بلکہ غیر یقینی صورتحال نمایاں نظر آتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پچھلے گیارہ سالوں سے اقتدار میں رہنے والی صوبائی حکومت اور اس کے چلانے والوں کی سوچ میں نہ تو کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ آیندہ آنے کی کوئی امید ہے ایسا ہی کچھ نظارہ وفاق کی جانب سے بھی ہے کہ کراچی پیکیج کے نام سے اعلانات کیے گئے لیکن عملی طور پر عملدرآمد نامکمل۔ اور صوبائی حکومت اختیارات ہونے کے باوجود کراچی سے عدم تعاون پر عمل پیرا۔ کراچی کے شہریوں کے لیے پینے کے پانی کی فراہمی کے سلسلے میں شروع کیا جانے والا K-4 منصوبہ التوا کا شکار ہے۔ اسی طرح اورنج لائن،گرین لائن و دیگر ٹرانسپورٹ کے منصوبے ابھی تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچے۔
کچرا اٹھانے کا محکمہ تو بنا دیا گیا لیکن کراچی کے مختلف ضلعے ابھی تک اس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں۔ سیوریج کے معاملات کی ذمے داری واٹر بورڈ کے ادارے کی ہے لیکن وہ صوبائی گورنمنٹ کے کنٹرول میں چلا گیا ہے جس کی وجہ سے گلی محلوں کے مین ہول اور اس کے ڈھکن کی فراہمی بھی صوبائی حکومت کی منظوری سے دی جاتی ہے۔ کراچی جیسے معاشی حب میں کئی انڈسٹریل زون قائم ہیں۔
جن کو صوبائی حکومت کا ایک ادارہ کنٹرول کرتا ہے جب کہ ان علاقوں کی خراب صورتحال پر جواب طلبی میئرکراچی سے کی جاتی ہے۔ کراچی کا ساحل تقریباً چار ادارے کنٹرول کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیشہ مسائل در پیش رہتے ہیں اور ان کے قوانین بھی علیحدہ ہیں۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ ، پورٹ قاسم اتھارٹی ،کنٹونمنٹ بورڈ اور کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے اپنے اپنے قاعدے قوانین ہیں۔کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن وہ واحد ادارہ ہے جو کراچی کے ساحل پر اپنی کوئی اتھارٹی نہیں رکھتا۔
اب کراچی کی حدود میں ترتیب دیے گئے مختلف محکمے اور اتھارٹیز کا ایک سرسری جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس شہرکے ساتھ کس قدر نا انصافی ہو رہی ہے اور یہ کام کوئی عام نہیں بلکہ ایسے ادارے کر رہے ہیں جن کی باضابطہ گورننگ باڈیز یا بورڈ آف ڈائریکٹرز موجود ہیں اور ان کے اجلاسوں کی تشہیر بھی کی جاتی ہے ذرا غور کریں کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی، لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی، کراچی پورٹ ٹرسٹ، پورٹ قاسم اتھارٹی، فشری ڈیپارٹمنٹ، سولڈ ویسٹ مینجمنٹ، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے علاوہ کئی دیگر اور محکمے بھی ہیں جو کراچی کو چلانے کے دعویدار ہیں اور ان تمام محکموں کے اندر بھی مزید انٹرنل ذیلی ڈائریکٹوریٹ بھی بنا رکھے ہیں۔
اب اگر یہ تمام ادارے کام کر رہے ہیں تو ان کی کارکردگی نظر کیوں نہیں آتی۔ حقیقت کی نگاہ سے دیکھیں تو آپ کو درست تصویر کچھ ایسی دکھائی دے گی کہ بیس، انیس، اٹھارہ، سترہ اور اور سولہ گریڈ کی فوج ظفر موج دفتروں کے ٹھنڈے کمروں میں اور اسٹاف برآمدوں میں خوش گپیوں میں مصروف یا چائے کے کپ ہاتھوں میں اٹھائے باتوں میں مشغول وقت ضایع کرنے کا ہنر دوسروں کو سکھا رہا ہوگا یہی نہیں ملکی سیاست سے لے کر بین الاقوامی معاملات بھی اس کی گفتگو کا اہم حصہ ہوں گے۔ اب اس کارہائے نمایاں میں سب سے زیادہ استفادہ کرنے والی وہ بیورو کریسی ہے جو ان محکموں کے عہدوں پر فائز ہیں۔
کراچی کا ماسٹر پلان کیا ہے؟ میں ذاتی تجربہ کرچکی ہوں کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران بھی لاعلم ہیں یہاں تک کہ انکو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ آیندہ بجٹ میں کون سا منصوبہ رکھا جائے گا بلکہ ہو یہ رہا ہے کہ اقتدار میں رہتی شخصیت اعلانات کرتی ہے اور وہی ماسٹر پلان کا حصہ بن جاتا ہے لہٰذا اب ہمیں ضرورت ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے لامتناہی ادارے کھولتے چلے جانے کے بجائے موجودہ قوانین میں ترمیمات کے ساتھ مزید نئے قوانین بھی بنانا ہونگے جو نہ صرف عصری تقاضوں کو پورا کرسکیں بلکہ اختیارات کو نچلی سطح تک پہنچایا جائے تاکہ عوام مستفید ہوسکیں اور ملکی معیشت قومی یکجہتی کے ساتھ ریاست کی سالمیت کو قوی تر بنانے میں بھی مدد گار ثابت ہوں۔
اس بات سے قطع نظر کہ مخالفت کرنیوالے اپنے ذہنوں میں کیا سوچ رکھتے ہیں وفاق ہو صوبائی حکومت ہو یا مقتدر حلقے آئین پاکستان کی ہر اس شق کا اطلاق کراچی کے لیے ضرور ہونا چاہیے جسکے نفاذ سے معاشی حب کراچی اور اس کے رہنے والے کروڑوں انسانوں کو فلاح نصیب ہو کیونکہ اس شہر کی ترقی ہی ملک کی معیشت کا واحد پیمانہ تصور کی جاتی ہے جس کے ذریعے ریاست کو مضبوطی اور اس کی طاقت کو جانچا جاسکتا ہے۔