ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے موٹرسائیکلیں خراب ہونے لگیں مکینکوں کا روزگارچمک گیا

بارشوں کے بعدسڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ اورسیوریج نظام کی خرابی سے پڑنے والے گڑھوں سے موٹر سائیکلیں زیادہ خراب ہونے لگی

شہر کے ہرعلاقے میں بائیک مکینکوں نے دکانیں کھول لیں،اسپیئرپارٹس کی دکانوںکی تعداد بڑھنے لگی، سروس اسٹیشنوں پربھی رش بڑھ گیا ۔ فوٹو : ایکسپریس

ISLAMABAD:
نکاسی آب کے نظام میں خرابی سے سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ شہریوں کے لیے دہری پریشانی کا سبب بن گیا ہے۔

ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر چلنے والی لاکھوں موٹرسائیکلوں کی حالت خراب ہوگئی، کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے فقدان کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد آمدورفت کے لیے موٹرسائیکل کی سواری کو ترجیح دیتی ہے، کراچی میں موٹرسائیکلوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے یومیہ بنیاد پر700سے زائد موٹرسائیکلیں سڑکوں پر آرہی ہیں نئی موٹرسائیکلوں میں مرمت کا کام ابتدائی 2 سال تک بہت کم رہتا ہے لیکن بارشوں کے بعد سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ اور جگہ جگہ سیوریج کا پانی جمع ہونے سے پڑنے والے گڑھوں کے باعث اب پرانی موٹرسائیکلوں کے ساتھ نئی موٹرسائیکلوں میں بھی مرمت کا کام نکل رہا ہے۔

شہر کے ہر علاقے میں موٹرسائیکلوں کی مرمت کی مارکیٹیں قائم ہوچکی ہیں جہاں موٹرسائیکل کے پرزہ جات کی فروخت سے لے کر سروس، پہیوں کے رم اور تیلیوں کی درستگی، جمپ اور الیکٹرک وائرنگ کی درستگی کی عارضی اور پختہ ورکشاپس قائم ہیں ، سڑکوں کے کنار ے مکینک اوزاروں کی پیٹیاں لے کر بیٹھے رہتے ہیں اور آئے روز پرزہ جات فروخت کرنے والی اسپیئر پارٹس کی دکانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ سے موٹرسائیکلوں کے نقائص بڑھ گئے ہیں شہریوں کی بڑی تعداد اتوار کے دن موٹرسائیکلوں کی مرمت کراتی ہے۔

موٹرسائیکلوں کی تمام مارکیٹیں جمعہ کے دن بند رہتی ہیں اور اتوار کے روز بھرپور کام ہوتا ہے، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے موٹرسائیکلوں میں پیدا ہونے والے نقائص سے مکینکوں کا روزگار بڑھ گیا ہے ساتھ ہی پرزہ جات فروخت کرنے والوں اور بائیک سروس کرنے والے سروس اسٹیشنوں پر بھی گاہکوں کا رش لگا رہتا ہے۔

گڑھوں پربائیک چلانے والوں کی کمراورگردن میں دردرہتاہے

کراچی کی آبادی کا بڑا حصہ موٹرسائیکلوں پر سفر کرتا ہے، ناظم آباد کے رہائشی محمد ایوب نے بتایا کہ وہ اسپتال میں آپریشن تھیٹر میں ٹیکنیشن کا کام کرتے ہیں ان کا کام بہت ایمرجنسی میں ہوتا ہے کسی بھی وقت اسپتال سے کال آتی ہے اور انھیں موٹرسائیکل پر نکلنا ہوتا ہے کیونکہ کسی کی زندگی بچانی ہوتی ہے۔

ایسے میں موٹرسائیکل میں خرابی کا رسک نہیں لیا جاسکتا اور وہ ہفتہ وار بنیاد پر اپنی موٹرسائیکل کی مرمت اور ٹیوننگ کراتے رہتے ہیں ایوب کے مطابق بارشوں کی وجہ سے ان کی دیکھ بھال کر رکھی ہوئی اچھی خاصی موٹرسائیکل میں بھی کام نکل آیا ہے پرزہ جات مہنگے ہوگئے ہیں لیکن مرمت کرانا مجبوری ہے۔

مرمت کرانے والے دیگر شہریوں کا کہنا تھاکہ سڑکوں پر پڑنے گڑھوں سے موٹرسائیکلوں کی خرابی تو نظر آتی ہے لیکن موٹرسائیکل چلانے والوں کو ریڑھ کی ہڈی،گردن اور کاندھوں میں مستقل درد کی شکایات کا سامنا ہے، روزگار کمانے اور گھریلو ذمے داریوں کے لیے موٹرسائیکل چلانے والے اپنی صحت اور جان داؤ پر لگاتے ہیں موٹرسائیکل سواروںکا کہنا تھا کہ اگر شہر میں اچھی اور آرام دہ پبلک بسیں چلائی جائیں تو بائیکوں کے بجائے بسوں میں سفر کو ترجیح دیں گے بائیک پر یومیہ پیٹرول کا خرچہ آتا ہے اور مہینے میں ہزار دو ہزار روپے مرمت پر خرچ ہوجاتے ہیں بائیک پر سفر کی وجہ سے دھول مٹی اور دھوپ لگنے سے حلیہ بگڑ جاتا ہے۔

30 لاکھ موٹر سائیکلوں کیلیے 15ہزار مکینک موجود ہیں

کراچی میں لگ بھگ 30 لاکھ سے زائد موٹر سائیکلیں سڑکوں پر رواں دواں ہیں یہ وہ گاڑیاں ہیں جو کراچی میں رجسٹرڈ ہیں دیگر شہروں اور صوبوں سے لائی گئی موٹرسائیکلیں الگ ہیں اس کے مقابلے میں مکینکوں کی تعداد 10سے 15ہزار کے درمیان ہے30 سے 40 فیصد پختہ ورکشاپ سے وابستہ ہیں لیکن جیسے جیسے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔

پکی ورکشاپس کا کام کم ہورہا ہے، محمد نعیم قریشی کا کہنا ہے کہ جب موٹرسائیکلوں کی قیمت بڑھتی ہے اور گاہک اپنی پرانی موٹرسائیکلوں کی مرمت پر توجہ دیتے ہیں جس سے مکینکس کا کام بڑھتا ہے شہر میں سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ اور بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے بھی موٹرسائیکلوں میں مرمت کا کام بڑھ رہا ہے لیکن اسی تناسب سے مکینکس بھی بڑھتے جارہے ہیں اور مکینکوں کی اوسط آمدن بڑھنے کے بجائے کم ہورہی ہے۔

مہنگائی کااثرسب سے پہلے بائیک مکینک محسوس کرتا ہے

شہر میں جیسے جیسے موٹرسائیکلوں کی تعداد بڑھتی گئی اسی طرح مکینکوں میں مسابقت بھی بڑھتی رہی فٹ پاتھ پر کام کرنے والے مکینک یومیہ بنیاد پر اجرت کماتے ہیں اور گاہک جو دے رکھ لیتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ گاہکوں کا کام کریں اور ایک مخصوص رقم حاصل کریں جو ان کے گھر والوں کے اس روز کے اخراجات کے لیے کافی ہو اس تگ و دو میں مکینک صبح سویرے موٹرسائیکلوں کے پارٹس کی دکانوں کے سامنے ڈیرے جمالیتے ہیں بعض دکانوں کے سامنے کا حصہ مخصوص مکینکوں کے لیے مقرر ہے جو اسی دکان سے پارٹس لے کر گاڑیوں میں لگاتے ہیں ، باقی مکینکس کو جہاں جگہ ملتی ہے کام شروع کردیتے ہیں۔

یہ بات مکینک محمد نعیم قریشی نے گفتگو میں بتائی انھوں نے کہا کہ موٹرسائیکل مکینکوں کامہنگائی سے گہرا تعلق ہے مہنگائی کے اثرات سب سے پہلے موٹرسائیکل مکینکس ہی محسوس کرتے ہیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ خود مہنگائی سے متاثر ہوتے ہیں ان کے گھر کے اخراجات بڑھتے ہیں دوسری جانب ان کے گاہک بھی غریب اور کم آمدن والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور جیسے جیسے ان کے اخراجات بڑھتے ہیں وہ موٹرسائیکلوں کی مینٹی نینس پر اٹھنے والے اخراجات بھی محدود سے محدود تر کردیتے ہیں، مہنگائی کم ہو تو پرانی موٹرسائیکلوں کے گھسے پرزوں کی مرمت پر وقت اور پیسہ برباد نہیں کیا جاتا اور نئے پرزے ڈال کر جان چھڑالی جاتی ہے لیکن مہنگائی بڑھتی ہے تو گاہکوں کی کوشش ہوتی ہے 50 روپے خرچ کرکے گاڑی کو چلتا رکھیں اس کے لیے مکینکوں کی اجرت کاٹی جاتی ہے پرانے پرزہ جات کو ہی چلانے پر زور دیا جاتا ہے۔



موٹر سائیکلیں خراب ہونے سے حادثات بڑھ رہے ہیں


بارش کے بعد ٹوٹنے والی اور سیوریج نظام کی خرابی سے سڑکوں پر پڑنے والے گڑھوں سے خراب ہونے والی بائیکوں میں زیادہ تر اگلی پچھلی جمپس خراب ہونے، پہیوں کے بیرنگ ٹوٹنے، چین اور اسپاکٹ خراب ہونے کی شکایات بڑھ گئی ہیں مکینکوں کے مطابق ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی وجہ سے بائیکوں میں نکلنے والے کام سے مکینکوں کی مصروفیت تو بڑھی ہے لیکن شہری مہنگائی کی وجہ سے صرف اتنا کام کرارہے ہیں جتنا بائیک کو رواں رکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے، ناظم آباد نمبر2 میں ورکشاپ چلانے والے مکینک انیس نے بتایا کہ ٹوٹی ہوئی سڑکوں سے شہریوں کو بہت نقصان ہورہا ہے۔

موٹرسائیکلوں میں جمپ، چین اسپاکٹس خراب ہورہے ہیں اور الیکٹریکل فالٹ بھی بڑھ رہے ہیں، موٹرسائیکل غریب کی سواری ہے متوفسط طبقے کے افراد اپنی محدود آمدن میں گھر کے خرچ کے ساتھ موٹرسائیکل کو بھی ٹھیک رکھتے ہیں جو اس کے روزگار اور اہل خانہ کی آمدورفت کے لیے استعمال ہوتی ہے، پرانی موٹر سائیکلوں پر ماہانہ ایک ہزار سے 1500 روپے تک مرمت کا خرچ آتا ہے کم استعمال ہونے والی بائیک کا خرچ بھی کم ہوتا ہے سڑکوں کی خراب صورتحال کی وجہ سے یہ لاگت اور خرچ بڑھ رہا ہے، ماہانہ مرمت کرانے والے گاہک جو بارش کے بعد اپنی بائیکس مرمت کرارہے ہیں ان کے اخراجات میں100فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ مرمت کے لیے آنے والی بائیکوں میں بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے 70فیصد زیادہ کام نکل رہا ہے جو شہری اپنی قوت خرید اور آمدن کے لحاظ سے کرارہے ہیں سڑکوں پر گڑھوں اور ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے موٹر سائیکل میں پیدا ہونے والی خرابیاں جانی نقصان کا سبب بھی بنتی ہیں بائیکوں کے بریک شو خراب ہونے کی و جہ سے حادثات بڑھ رہے ہیں۔

30 سال سے مکینک کاکام کرنے والا ذاتی مکان کے لیے رقم نہ جوڑ سکا

30 سال سے موٹرسائیکلوں کی مرمت کا کام کررہا ہوں لیکن اپنے ذاتی مکان کے لیے پیسے نہ جوڑ سکا والد سے ترکہ میں چھوڑے گئے مکان کی فروخت کے بعد تمام بھائی تتر بتر ہوگئے انھوں نے بھی کرایے کے گھر میں سکونت اختیار کی اب مکان کا کرایہ 10ہزار روپے، ماہانہ بجلی کا بل ڈھائی سے 3 ہزار روپے، یومیہ کھانے پینے پر اٹھنے والے اخراجات اور دیگر خرچوں کی وجہ سے پریشانی رہتی ہے، مکینک محمد نعیم قریشی کاکہنا ہے کہ اس وقت مہنگائی نے غریب طبقہ کا جینا اجیرن کردیا ہے اس سے قبل کبھی اس طرح کے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا مکینکوں کے مابین مسابقت کی وجہ سے یومیہ 500 روپے کمانا مشکل ہورہا ہے۔

جو کام پکی ورکشاپ والے 300 روپے میں کرتے ہیں وہ فٹ پاتھوں پر بیٹھے مکینک100روپے میں کرنے کو تیار ہوتے ہیں اور جب کام کم ہو تو یہی کام 50 روپے میں بھی کردیا جاتا ہے، پرزہ جات مہنگے ہونے سے بھی گاہک اجرت دینے میںکنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں بعض گاہکوں کی موٹرسائیکل اور ان کی اپنی حالت اتنی خستہ ہوتی ہے کہ پیسہ مانگنے کا دل بھی نہیں چاہتا اس لیے وہ جو دیں رکھ لیتے ہیں، نعیم قریشی کے مطابق جب انھوں نے کام شروع کیا تو یومیہ 100روپے بھی بہت ہوتے تھے اب ایک ہزار روپے بھی کم پڑتے ہیں۔

روپے کی قدر گرنے سے پرزوں کی قیمت میں اضافہ ہوا

لیاقت آباد ڈاک خانہ پر 10 سال سے موٹرسائیکلوں کی مرمت کرنے والے مکینک نعیم نے بتایا کہ زیادہ تر موٹرسائیکلوں کے بریک خراب ہیں پہیوں کے بیرنگ ٹوٹ گئے ہیں، موٹرسائیکلوں میں زنگ لگ گیا ہے چین ٹوٹنے کی وجہ سے چین کور اور اسپاکٹ کو نقصان پہنچ رہا ہے انھوں نے بتایا کہ ایک ماہ جاری رہنے والی بارش کے بعد زیادہ تر موٹر سائیکلیں ایسی لائی جارہی تھیں جو پانی میں چلائی گئیں اور ان کے انجن اور کاربوریٹر میں پانی چلا گیا۔

نعیم کے مطابق روپے کی قدر گرنے سے موٹرسائیکلوں کے پرزوں کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے جو پرزہ 800 روپے کا تھا وہ اب 1200روپے کا بک رہا ہے50 والی چیز 80 روپے کی ہوچکی ہے جبکہ مزدوری جوں کی توں برقرار ہے شہری ہلکا پھلکا کام کرانے کو ترجیح دے رہے ہیں، نعیم نے شہریوں کو مشورہ دیا کہ موٹرسائیکلوں کی وائرنگ کو جلنے سے بچانے کے لیے انجن کو پانی سے بچائیں پلگ کی تاروں اور کاربوریٹر پرگریس لگارکر رکھیں۔

فٹ پاتھوں پر بنی عارضی دکانیں ہزاروں مکینکوں کیلیے روزگارکاذریعہ بن گئیں
کراچی میں فٹ پاتھوں پر بنی ورکشاپس ہزاروں مکینکوں کے لیے روزگار کا ذریعہ ہیں شہر میں چلنے والی 30 لاکھ سے زائد موٹرسائیکلوں کی مرمت کرکے روزی کمانے والے مکینک مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں، لیاقت آباد کے رہائشی محمد نعیم قریشی کا شمار بھی یومیہ اجرت کمانے والے ان لاکھوں افراد میں ہوتا ہے جو اپنے ہنر سے روزی کما رہے ہیں لیکن مہنگائی کی وجہ سے گزربسر روز بہ روز دشوار ہو رہا ہے۔

محمد نعیم قریشی نے 8 بہن بھائیوں کے کنبے میں آنکھ کھولی والد ایک چھوٹی سی دکان چلاتے تھے جس سے 7 بھائیوں اور ایک بہن پر مشتمل خاندان کی گزربسر آسانی سے ہوجاتی تھی، محمد نعیم قریشی کم عمری میں ہی ہنر کی جانب راغب ہوگئے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد موٹرسائیکل مکینک کا کام سیکھنا شروع کیا اور 4 سال میں ہی اس ہنر میں مہارت حاصل کرلی، محمد نعیم قریشی گزشتہ 30 سال سے لیاقت آباد ڈاک خانہ چوک پر فٹ پاتھ پر اپنے اوزاروں کی پیٹی لے کر بیٹھے ہوئے ہیں اور موٹر سائیکلوں کی مرمت کرکے روزگار کما رہے ہیں۔

حکومتی کارکردگی کا ایک ہی عوامی پیمانہ ہے اور وہ ہے مہنگائی
محمد نعیم قریشی کے مطابق حکومت کی کارکردگی کا ایک ہی عوامی پیمانہ ہے اور وہ ہے مہنگائی جس حکمران کے دور میں مہنگائی کم ہوگی وہ دور مثالی ہوگا، موجودہ وقت میں جاری مہنگائی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے حکومت کے اقدامات اور معیشت کی بہتری کے دعوے اس وقت درست ثابت ہوں گے جب انتہائی نچلا طبقہ اس بہتری کے اثرات محسوس کرے گا۔

3سال کام کرنے کے بعد شاگرد مکینک بن جاتا ہے، چند مکینک مہارت کی وجہ سے شہرت پاتے ہیں
مکینک محمد نعیم نے اب تک 10سے 12شاگرد تیار کیے ہیں جنھوں نے لگ کر دلجمعی سے کام سیکھا اور اب اپنا روزگار کمارہے ہیں، محمد نعیم قریشی کہتے ہیں کہ 3 سال میں ایک مکینک موٹرسائیکلوں کی مرمت میں مہارت حاصل کرلیتا ہے اور پھر اپنے دماغ اور تجربہ سے اپنا نام پیدا کرتا ہے بعض مکینک اپنے تجربہ اور مہارت کی وجہ سے شہر بھر میں شہرت رکھتے ہیں لیکن اب ہر علاقے میں کئی موٹرسائیکل مارکیٹیں کھل گئی ہیں جہاں اہل علاقہ اپنی موٹرسائیکلیں مرمت کراتے ہیں اس سے قبل مشہور مکینک سے کام کرانے کے لیے گاہک ایک سے دوسرے علاقے کا رخ کرتے تھے۔

محمد نعیم کے مطابق اب نئے شاگرد محنت سے کتراتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ کام سیکھنے آنے والے کو بھی 100سے 200 روپے یومیہ خرچہ درکار ہوتا ہے کیونکہ اس کا گھر بھی ان پیسوں سے چلتا ہے کام سیکھنے والے کو بھی گزربسر کے لیے کچھ نہ کچھ پیسے درکار ہوتے ہیں اس لیے 3 سال تک محدود آمدن پر مشقت بھرے کام کی وجہ سے نوجوان بھاگ جاتے ہیں، استاد اور شاگرد کا رشتہ کافی گہرا ہوتا ہے کام سیکھنے والے استاد کی عزت کرتے ہیں اور اچھے برے وقت میں اپنے استاد سے مشورہ کرتے ہیں اور اپنا کام شروع کرنے کے بعد بھی استاد سے جڑے رہتے ہیں۔

صدر پرویز مشرف کا دور حکومت مثالی تھا، مہنگائی نہ ہونے کے برابر تھی، مکینک
روزگار اور کام کے لحاظ سے صدر پرویز مشرف کا دور حکومت مثالی تھا جب مہنگائی نہ ہونے کے برابر تھی اور محدود آمدن میں بھی گزر بسر اچھی ہوجاتی تھی، اتنی افراتفری اور پکڑ دھکڑ کا عالم نہ تھا اس دور میں ہی موٹرسائیکلوں کی فیکٹریاں لگنی شروع ہوئیں اور 2 پہیوں کی سواری تک غریب طبقہ کی پہنچ آسان ہوئی روزگار کے مواقع عام ہوئے جس کے فوائد مکینک تک بھی منتقل ہوئے، یہ بات مکینک نعیم قریشی نے گفتگو میں بتائی انھوں نے کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ عمران خان نے غریبوں کے لیے گھر کی اسکیم شروع کی ہے لیکن امید نہیں کہ غریبوں کو کوئی چھت فراہم کرے گا۔ محمد نعیم کہتے ہیں کہ ابھی تک ہاتھ پیر سلامت ہیں اس لیے صبح سے شام تک سڑک کنارے محنت مزدوری کرکے روزی کماتاہوں اور آگے بھی خالق کائنات سے ہی امید ہے۔
Load Next Story