اطاعت عشق کی کسوٹی ہے
اللہ رب العزت کی اطاعت کریں آپ کو اپنے رب کا قرب ملتا چلا جائے گا
اطاعت محبت کی کنجی ہے، یہ عشق کی کسوٹی ہے، اطاعت کے بغیرعشق عشق نہیں ہے، اپنی انا کی تسکین کا ایک ذریعہ ہے۔
ابلیس عابد تھا، عارف بھی تھا، عالم بھی تھا، مگر عاشق نہیں تھا۔ وہ فرشتوں کی صحبت میں رہ کر ان جیسا ہوگیا، فرشتے عبادت کرتے تھے، اس نے بھی کرنی شروع کردی، علم بھی حاصل کیا، اللہ کو بھی پہچانا، مگر جب بات حکم ماننے کی آئی تو اپنی انا آگے آگئی، اطاعت پر فیل ہوگیا۔
آپ اپنی روز مرہ زندگی میں دیکھیں آپ کو محبت کے دعوے تو بہت ملیں گے مگر اطاعت غائب۔ بچے والدین سے بہت محبت کرتے ہیں، جان چھڑکتے ہیں مگر فرمانبردار نہیں۔ آپ نے بیوی سے کہا کہ آج کوفتے بنادو مگر ان کا موڈ پیزا کھانے کا ہے، سو وہ آرڈر ہوگیا اور ایک دن اچانک انہوں نے طرح طرح کے کھانے بنائے کیونکہ ان کا دل کچن میں کام کرنے کا تھا۔ اب آپ لاکھ سمجھائیں کہ آج تو آلو کا بھرتہ بھی کافی تھا مگر نہیں اب آپ کو کھانا پڑے گا کہ انہوں نے اتنے پیار سے کھانا بنایا ہے۔
یہ تو دل کی ہٹ دھرمی ہوگئی، محبت کہاں گئی؟ اطاعت کا کیا ہوا؟ اسے ہم عرف عام میں Chill کرنا کہتے ہیں۔ میاں بیوی Chill کر رہے ہیں، اولاد والدین Chill کر رہے ہیں، دوست و رشتے دار Chill کر رہے ہیں، بالکل اسی طرح نعوذ باللہ ہم اللہ کے ساتھ بھی Chill کر رہے ہوتے ہیں۔ دل نہیں تو فجر کا چھوٹ جانا روز کا معمول ہے اور دل کیا تو ہر سال عمرہ اور ڈھیر ساری قربانی۔ کبھی کبھی دل کہنے پر صلوٰۃ التسبیح بھی پڑھ لی کہ اولیا میں شمار ہونے لگے۔
سچ بتائیے خدا کون ہوا؟ جس کی اطاعت کی۔ صحیح۔
دل معبود ہوا، آپ کی انا خدا ٹھہری۔ اللہ رب العزت کی تو آپ نے مانی کوئی نہیں۔
کیا ہی افسوس کا مقام ہے ان نیکیوں پر جو جہنم کی راہ ہموار کریں۔
کامل بندگی اطاعت کے بغیر ممکن نہیں اور بندگی سے بڑا امتیاز کوئی نہیں۔
جہاں اطاعت ضروری ہو وہاں نہ بہانے کام آتے ہیں نہ نفل۔ آپ ایک ڈرائیور رکھیں اور وہ سوائے گاڑی چلانے کے سارے کام کرے تو آپ اس کا کیا کریں گے؟ اگر طالب علم پڑھائی نہ کرے مگر سارے کالج کا خیال رکھے تو کس کام کا؟ آپ نمازیں نہ پڑھیں مگر مریضوں کا علاج کرتے رہیں، زکوٰۃ نہ دیں مگر غریبوں کو کھانا کھلاتے رہیں، قربانی نہ کریں مگر یتیم خانہ چلاتے رہیں۔ یہ تمام ثانوی نیکیاں اپنی جگہ، ان کا اجر مسلّم، مگر یہ بتائیے پوج کس کو رہے ہیں؟ نفلی عبادتوں میں اپنی 'میں'، دنیا دکھاوا، ریا کاری اور بے شمار خطرات شامل ہوتے ہیں، فرائض میں سیدھی سادی اطاعت۔ نماز کیوں پڑھی؟ کیونکہ اللہ نے کہا ہے۔ زکوٰۃ کیوں نکالی؟ کیونکہ اس کا حکم ہے، سیدھی سی بات۔
کوشش کرکے اطاعت کی یہ تعریف اپنے بچوں اور گھر والوں کو سکھانی چاہیے، اس سے دین میں بھی ترقی ہوگی اور دنیا میں بھی فائدہ ہوگا۔
ہر دوسرے شخص کو لیڈر بننے کا شوق ہے، اطاعت ایک اچھا فالور بننا سکھاتی ہے، ایک اچھا فالور ہی ایک اچھا لیڈر بن سکتا ہے۔
آپ کسی کی بھی اطاعت کرتے چلے جائیں آپ کو اس سے محبت ہوتی چلی جائے گی۔ اللہ رب العزت کی اطاعت کریں آپ کو اپنے رب کا قرب ملتا چلا جائے گا۔ اللہ کے رسول محمدؐ کے کہے پر چلیں آپ ایک اچھے امتّی بنتے چلے جائیں گے۔ اپنے شیخ کی سنیں، وہ آپ کے محبوب ہوجائیں گے۔ اپنے باس کی مانیں، آپ بہترین ورکرز میں شمار ہوں گے۔ اور اگر آپ اپنے نفس کی یا شیطان کی مانتے چلے جائیں، آپ کو گناہ میں ترقی ملتی چلی جائے گی۔
اصل منزل اللہ اور اس کو رسولؐ کی اطاعت ہے، باقی سب وہاں تک پہنچنے کا ایک ذریعہ، ایک سبب۔ یاد رکھیں اس ذریعہ یا سبب کی اطاعت بھی اسی لیے ہے کہ اصل تک پہنچ سکے۔ اگر اس درمیانی اطاعت کی وجہ سے اصل سے دور ہورہے ہیں تو یہاں اطاعت بے وفائی ہے۔
آپ سے ایک کام کی بات عرض کروں؟ ماں باپ کو ہمیشہ فرمانبردار بچہ سب سے پیارا ہوتا ہے، نہ تعلیم، نہ دولت، نہ شہرت۔ اگر وہ آپ کی سنتا ہے تو آپ کو پیارا ہے، اگر وہ آپ کی سنتا ہی نہیں تو باقی سب چیزیں کس کام کی؟
اللہ ہم سب کو اطاعت گزار بنائے۔ آمین!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ابلیس عابد تھا، عارف بھی تھا، عالم بھی تھا، مگر عاشق نہیں تھا۔ وہ فرشتوں کی صحبت میں رہ کر ان جیسا ہوگیا، فرشتے عبادت کرتے تھے، اس نے بھی کرنی شروع کردی، علم بھی حاصل کیا، اللہ کو بھی پہچانا، مگر جب بات حکم ماننے کی آئی تو اپنی انا آگے آگئی، اطاعت پر فیل ہوگیا۔
آپ اپنی روز مرہ زندگی میں دیکھیں آپ کو محبت کے دعوے تو بہت ملیں گے مگر اطاعت غائب۔ بچے والدین سے بہت محبت کرتے ہیں، جان چھڑکتے ہیں مگر فرمانبردار نہیں۔ آپ نے بیوی سے کہا کہ آج کوفتے بنادو مگر ان کا موڈ پیزا کھانے کا ہے، سو وہ آرڈر ہوگیا اور ایک دن اچانک انہوں نے طرح طرح کے کھانے بنائے کیونکہ ان کا دل کچن میں کام کرنے کا تھا۔ اب آپ لاکھ سمجھائیں کہ آج تو آلو کا بھرتہ بھی کافی تھا مگر نہیں اب آپ کو کھانا پڑے گا کہ انہوں نے اتنے پیار سے کھانا بنایا ہے۔
یہ تو دل کی ہٹ دھرمی ہوگئی، محبت کہاں گئی؟ اطاعت کا کیا ہوا؟ اسے ہم عرف عام میں Chill کرنا کہتے ہیں۔ میاں بیوی Chill کر رہے ہیں، اولاد والدین Chill کر رہے ہیں، دوست و رشتے دار Chill کر رہے ہیں، بالکل اسی طرح نعوذ باللہ ہم اللہ کے ساتھ بھی Chill کر رہے ہوتے ہیں۔ دل نہیں تو فجر کا چھوٹ جانا روز کا معمول ہے اور دل کیا تو ہر سال عمرہ اور ڈھیر ساری قربانی۔ کبھی کبھی دل کہنے پر صلوٰۃ التسبیح بھی پڑھ لی کہ اولیا میں شمار ہونے لگے۔
سچ بتائیے خدا کون ہوا؟ جس کی اطاعت کی۔ صحیح۔
دل معبود ہوا، آپ کی انا خدا ٹھہری۔ اللہ رب العزت کی تو آپ نے مانی کوئی نہیں۔
کیا ہی افسوس کا مقام ہے ان نیکیوں پر جو جہنم کی راہ ہموار کریں۔
کامل بندگی اطاعت کے بغیر ممکن نہیں اور بندگی سے بڑا امتیاز کوئی نہیں۔
جہاں اطاعت ضروری ہو وہاں نہ بہانے کام آتے ہیں نہ نفل۔ آپ ایک ڈرائیور رکھیں اور وہ سوائے گاڑی چلانے کے سارے کام کرے تو آپ اس کا کیا کریں گے؟ اگر طالب علم پڑھائی نہ کرے مگر سارے کالج کا خیال رکھے تو کس کام کا؟ آپ نمازیں نہ پڑھیں مگر مریضوں کا علاج کرتے رہیں، زکوٰۃ نہ دیں مگر غریبوں کو کھانا کھلاتے رہیں، قربانی نہ کریں مگر یتیم خانہ چلاتے رہیں۔ یہ تمام ثانوی نیکیاں اپنی جگہ، ان کا اجر مسلّم، مگر یہ بتائیے پوج کس کو رہے ہیں؟ نفلی عبادتوں میں اپنی 'میں'، دنیا دکھاوا، ریا کاری اور بے شمار خطرات شامل ہوتے ہیں، فرائض میں سیدھی سادی اطاعت۔ نماز کیوں پڑھی؟ کیونکہ اللہ نے کہا ہے۔ زکوٰۃ کیوں نکالی؟ کیونکہ اس کا حکم ہے، سیدھی سی بات۔
کوشش کرکے اطاعت کی یہ تعریف اپنے بچوں اور گھر والوں کو سکھانی چاہیے، اس سے دین میں بھی ترقی ہوگی اور دنیا میں بھی فائدہ ہوگا۔
ہر دوسرے شخص کو لیڈر بننے کا شوق ہے، اطاعت ایک اچھا فالور بننا سکھاتی ہے، ایک اچھا فالور ہی ایک اچھا لیڈر بن سکتا ہے۔
آپ کسی کی بھی اطاعت کرتے چلے جائیں آپ کو اس سے محبت ہوتی چلی جائے گی۔ اللہ رب العزت کی اطاعت کریں آپ کو اپنے رب کا قرب ملتا چلا جائے گا۔ اللہ کے رسول محمدؐ کے کہے پر چلیں آپ ایک اچھے امتّی بنتے چلے جائیں گے۔ اپنے شیخ کی سنیں، وہ آپ کے محبوب ہوجائیں گے۔ اپنے باس کی مانیں، آپ بہترین ورکرز میں شمار ہوں گے۔ اور اگر آپ اپنے نفس کی یا شیطان کی مانتے چلے جائیں، آپ کو گناہ میں ترقی ملتی چلی جائے گی۔
اصل منزل اللہ اور اس کو رسولؐ کی اطاعت ہے، باقی سب وہاں تک پہنچنے کا ایک ذریعہ، ایک سبب۔ یاد رکھیں اس ذریعہ یا سبب کی اطاعت بھی اسی لیے ہے کہ اصل تک پہنچ سکے۔ اگر اس درمیانی اطاعت کی وجہ سے اصل سے دور ہورہے ہیں تو یہاں اطاعت بے وفائی ہے۔
آپ سے ایک کام کی بات عرض کروں؟ ماں باپ کو ہمیشہ فرمانبردار بچہ سب سے پیارا ہوتا ہے، نہ تعلیم، نہ دولت، نہ شہرت۔ اگر وہ آپ کی سنتا ہے تو آپ کو پیارا ہے، اگر وہ آپ کی سنتا ہی نہیں تو باقی سب چیزیں کس کام کی؟
اللہ ہم سب کو اطاعت گزار بنائے۔ آمین!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔