گاڈ میڈ God Made
اس کائنات ارض و سما کا ایک ہی خالق، ایک ہی مالک، ایک ہی رب اور ایک ہی کارساز ہے۔
عبدالستار منعم نے 33سال ریڈیو پاکستان میں کام کیا۔ پروڈیوسرکی حیثیت سے ابتدا کی اور ڈائریکٹر پروگرام کے عہدے پر پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔ اس دوران میں پانچ مرتبہ بی بی سی ہیڈکوارٹر، اسلام آباد کی یاترا کی۔ کراچی، لاہور ، فیصل آباد، ملتان، حیدرآباد اور پشاور میں مختلف عہدوں پر تعینات ہوئے۔ جہاں گئے کامیاب لوٹے، جوکام سپرد ہوا کامیابی سے پورا کیا، جو ذمے داری سونپی گئی جانفشانی سے پوری کی، نئی راہیں بھی نکالیں اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
عبدالستار نے '' گاڈ میڈ'' کے عنوان سے اپنی آپ بیتی لکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں لوگ بڑے فخر سے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ سیلف میڈ ہیں یعنی یہ کہ انھوں نے خالصتاً اپنی محنت اور ذاتی کاوش سے اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ میں بھی یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے والدین محنت کش تھے، وہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ میں نے اپنی قسمت خود بنائی، مجھے کسی نے نہیں بنایا۔ میں کسی سہارے، کسی سفارش کی مدد سے اس مقام تک نہیں پہنچا۔ مگر نہ یہ کسی آدمی کا دعویٰ سچا ہے اور نہ میرا۔ کوئی انسان سیلف میڈ نہیں، گاڈ میڈ (God Made) ہے۔ اس کائنات ارض و سما کا ایک ہی خالق، ایک ہی مالک، ایک ہی رب اور ایک ہی کارساز ہے۔ میں ایک معمولی آدمی تھا اور میں ایک عام انسان ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا قائل اور شکرگزار کہ اس نے مجھے اس زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا دیا۔
عبدالستار کا خاندان تقسیم کے بعد جالندھر شہر کے ایک گاؤں سے آکر اوکاڑہ کے قریب ایک گاؤں میں آباد ہوگیا تھا۔ان کی ابتدائی زندگی نہایت فطری، سادہ اور جدید شہری سہولیات سے بالکل مبرا تھی۔ ان کے بڑے بھائی پرائمری پاس تھے، دوسرے بھائی بالکل ان پڑھ تھے۔ تیسرے میٹرک پاس کرکے واپڈا میں ملازم ہوگئے، چوتھے بھائی میٹرک پاس نہ کرسکے تو پہلے فوج میں گئے پھر اسے چھوڑ کر کاروبار کرنے لگے۔ عبدالستار لکھتے ہیں ''بس میں ہی اس خاندان کا آخری بچہ تھا جس نے تعلیم کو اپنا زیور بنایا، پنجاب یونیورسٹی سے ڈبل ایم اے کیا، پہلے عربی میں اور پھر علوم اسلامیہ میں۔ پھر دوران ملازمت ہومیوپیتھی کا ڈاکٹری کا ڈپلومہ بھی باقاعدہ کالج کی شام کی کلاسوں میں داخل ہوکر حاصل کیا اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد باقاعدہ کلینک کھولا۔''
1971 کے آغاز میں عبدالستار نے راولپنڈی میں ریڈیو پاکستان جوائن کیا۔ یہ گریڈ 17 میں پروڈیوسرکی پوسٹ تھی۔ لکھتے ہیں ''اس سے پہلے میں نے نہ اسٹوڈیو دیکھے تھے، نہ ڈبنگ اور ریکارڈنگ کرنے والی مشینیں۔ ایک بالکل مختلف پروفیشنل لوگوں کا ماحول ، شعر و شاعری ، موسیقی اور ڈراموں اور ادب لطیف کی باتیں۔ ریڈیو پروگراموں کے بارے میں بھی مجھے معلوم نہ تھا کہ کس طرح سوچے جاتے ہیں اور کس طرح ترتیب دیے جاتے ہیں۔ بس آتے ہی پروگرام سونپ دیے گئے۔ میں اپنے سینئر ساتھیوں کے پاس بیٹھتا، ان سے ان تمام امورکے بارے میں پوچھتا اور ان کوکام کرتے دیکھ کر سیکھتا۔ اللہ کے فضل سے دو ماہ کے اندر سب کچھ سیکھ گیا اور بذات خود تمام امور انجام دینے لگا۔ سب سے پہلے مجھے فوجی بھائیوں کا پروگرام دیا گیا جو میں نے بڑی محنت سے چلایا۔اس کے صلے میں ڈائریکٹر جنرل سے شاباشی بھی ملی۔
راولپنڈی اسٹیشن پرکام کرتے ہوئے عبدالستارکو ابھی ساڑھے تین سال ہی ہوئے تھے کہ ان کی ترقی ہوگئی اور وہ سینئر پروڈیوسر ہوکرکراچی پہنچ گئے۔ یہاں ان دنوں طاہر شاہ اسٹیشن ڈائریکٹر تھے۔ وہاں پہنچتے ہی ان کو اسکول براڈ کاسٹ کا انچارج بنا دیا گیا۔ ابھی سال بھر ہوا تھا کہ ریڈیو پاکستان کا سب سے اہم پروگرام ''روشنی'' ان کے سپرد ہوگیا اور اس پروگرام کو انھوں نے بام عروج پر پہنچا دیا۔ شاہ بلیغ الدین اس پروگرام کے بڑے کنٹری بیوٹر تھے۔
عبدالستارکا کراچی میں قیام بڑا مبارک ثابت ہوا۔ یہیں ان کی شادی ہوئی اور پہلے بیٹا اور پھر دو بیٹیاں بھی یہیں پیدا ہوئیں۔ پھر جب کراچی کی آب و ہوا نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا اور تنفس کا مسئلہ پیدا ہوا تو ان کا تبادلہ ملتان ہوگیا کہ وہاں کا موسم سازگار تھا۔ اس تبادلے میں ریڈیو کی دو مقبول شخصیتوں حمید نسیم اور عنایت بلوچ کا رول تھا۔ عبدالستار نے اپنی کتاب میں کراچی کے خوشگوار قیام کی یادوں کے ساتھ تین مشکل مقامات کا بھی ذکر کیا جب ان کی ملازمت خطرے میں پڑگئی تھی اور پھرکس طرح وہ محفوظ رہے۔
عبدالستار کراچی سے پہلے ملتان اور پھر وہاں سے فیصل آباد پہنچے۔ فیصل آباد ریڈیو اسٹیشن پرگزرے زمانے میں ان کی کاوشیں دو مذہبی پروگراموں ''الہدیٰ'' اور حی علی الصلوٰۃ'' کی نشریات قابل ذکر ہیں۔ ان کی بڑی پذیرائی ہوئی۔ 1990 میں عبدالستار ترقی پاکر پروگرام منیجر بن گئے اور حیدرآباد بھیج دیے گئے جہاں عنایت بلوچ اسٹیشن ڈائریکٹر تھے۔ وہ ایک بار پھر فیصل آباد گئے۔ اس دفعہ اسٹیشن ڈائریکٹر ہوکر۔ فیصل آباد کے لوگ موسیقی کے بہت دلدادہ ہیں۔ چنانچہ انھوں نے عابدہ پروین کو ایک محفل موسیقی میں مدعو کیا اور انھوں نے چارگھنٹے اپنے فن کا مظاہرہ کرکے لوگوں کے دل جیت لیے۔
1999 کے آخری ماہ میں عبدالستارکنٹرولر ہوگئے اور ہیڈکوارٹر میں انھیں عالمی سروس کی سربراہی ملی۔ یہاں اس وقت حالات دگرگوں تھے۔ چند ماہ میں انھوں نے ٹھیک کر دیے۔ ان دنوں سلیم گل ڈائریکٹر جنرل تھے۔ ستار صاحب کو ان کی حمایت حاصل رہی۔ سلیم گل نہایت قابل افسر، بہترین منظم اور خوش اخلاق آدمی تھے۔ انھوں نے نیوز اینڈکرنٹ افیئر کا چینل بھی ان کے حوالے کردیا۔ یہ ایک چیلنج تھا جس سے وہ عہدہ برآ ہوئے۔ایسا ہی ایک چیلنج لاہور ریڈیو اسٹیشن کا سینٹرل پروڈکشن یونٹ کا حال درست کرنا تھا۔ یہ کام بھی عبدالستارکوکرنا تھا۔ سو ان کا لاہور ٹرانسفر ہوگیا۔ اسی سال ملک میں عام انتخابات ہوئے تھے۔ اس کے انتظامات کے لیے انھیں پھر اسلام آباد بلا لیا گیا اور یہ کنٹرولر ہوم سروس مقرر کردیے گئے۔ ان کے کنٹرولر ہوم ہی کے دوران میرپور آزاد کشمیر ریڈیو کا افتتاح ہوا۔ یہ وہاں موجود رہے اور تمام انتظامات خوش اسلوبی سے پورے کیے۔
عبدالستار کی اگلی پوسٹنگ ریڈیو پاکستان کے پشاور اسٹیشن کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے ہوئی۔ یہاں پہنچتے ہی پہلا کام انھوں نے یہ کیا کہ نئے پروگرام شروع کیے۔ پھر پرانے پروگراموں میں نئی جان ڈالی۔ اسی دوران میں انھیں حج کوریج کے لیے دوبارہ نامزد کیا گیا۔ انھوں نے میدان عرفات سے ''یوم الحج'' پر ڈائریکٹ کمنٹری نشر کی اور پھر جدہ ریڈیو کے اردو نشریات کے چینل سے اردو میں بھی کمنٹری نشر کی۔
عبدالستار لکھتے ہیں ''جن ریڈیو اسٹیشنز اور مراکز کی سربراہی میں نے سرانجام دی ان میں پشاور اسٹیشن آخری تھا۔ اسی دوران میری پروموشن بطور ڈائریکٹر پروگرامز عمل میں آئی۔ بحمداللہ میں پروگرام پروڈیوسر سے ترقی کرتے کرتے ڈائریکٹر پروگرام کے عہدے پر پہنچا۔ میرے جیسے کم مایہ اور سفارش سے مبرا شخص کے لیے یہ ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمت اور بے کراں فضل ہے۔ اس کے لیے میں اللہ تعالیٰ کا جس قدر بھی شکر کروں کم ہے اور میں یہ کہنے میں کہ میں '' گاڈ میڈ'' ہوں حق بجانب ہوں۔''
ڈاکٹر عبدالستار 2004 میں باعزت طریقے سے ریڈیو سے ریٹائر ہوئے۔ انھوں نے اچھا وقت گزارا۔ یہ ریڈیو کا سنہری دور تھا۔ اسے یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ''کیسے کیسے ماہرین، جید اہل علم و فضل، استاد، موسیقی کے ماہرین اور اعلیٰ پائے کے فنکاروں، صدا کاروں کی آمد و رفت تھی۔ ان سے ملاقات کرکے فرحت ملتی تھی اور معلومات میں اضافہ ہوتا تھا۔ کتابوں پر تبصرے اور رائے زنی ہوتی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ نابغہ علم لوگوں کی صحبت مجھے میسر آئی۔''
ایک مرتبہ حکیم محمد سعید ''قرآن حکیم اور ہماری زندگی'' کے موضوع پر اپنی تقریر ریکارڈ کرانے تشریف لائے۔ گاڑی سے اترتے ہی مجھ سے پوچھا کہ ڈیوٹی روم میں عربی کی کوئی لغت ہے؟ مجھے یہ دیکھنا ہے کہ لفظ رسالت میں حرف 'ر' زیر سے ہے یا زَبر سے ہے۔ میں نے عرض کیا حضور! آپ تو حافظ قرآن ہیں اور اہل زبان بھی۔ آپ نے اس کی سند قرآن سے کیوں نہ لی؟ چلتے چلتے رک گئے اور پوچھا وہ کیسے؟ میں نے کہا، قرآن نے رِسالت کہا ہے۔ انھوں نے میرا چہرہ پکڑا اس پر بوسہ دیا اور فرمایا '' نوجوان! آپ نے تو میرا مسئلہ حل کردیا جو صبح سے مجھے پریشان کر رہا تھا۔''
عبدالستار کہتے ہیں ''اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد خود ستائی یا اپنی علمیت ظاہر کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ حکیم سعید جیسے عالم فاضل بھی جب تقریر کرنے ریڈیو آتے تو تلفظ کے معاملے میں کس قدر حساس اور محتاط ہوتے تھے کہ کہیں غلطی نہ ہو جائے۔''
عبدالستار نے '' گاڈ میڈ'' کے عنوان سے اپنی آپ بیتی لکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں لوگ بڑے فخر سے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ سیلف میڈ ہیں یعنی یہ کہ انھوں نے خالصتاً اپنی محنت اور ذاتی کاوش سے اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ میں بھی یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے والدین محنت کش تھے، وہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ میں نے اپنی قسمت خود بنائی، مجھے کسی نے نہیں بنایا۔ میں کسی سہارے، کسی سفارش کی مدد سے اس مقام تک نہیں پہنچا۔ مگر نہ یہ کسی آدمی کا دعویٰ سچا ہے اور نہ میرا۔ کوئی انسان سیلف میڈ نہیں، گاڈ میڈ (God Made) ہے۔ اس کائنات ارض و سما کا ایک ہی خالق، ایک ہی مالک، ایک ہی رب اور ایک ہی کارساز ہے۔ میں ایک معمولی آدمی تھا اور میں ایک عام انسان ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا قائل اور شکرگزار کہ اس نے مجھے اس زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا دیا۔
عبدالستار کا خاندان تقسیم کے بعد جالندھر شہر کے ایک گاؤں سے آکر اوکاڑہ کے قریب ایک گاؤں میں آباد ہوگیا تھا۔ان کی ابتدائی زندگی نہایت فطری، سادہ اور جدید شہری سہولیات سے بالکل مبرا تھی۔ ان کے بڑے بھائی پرائمری پاس تھے، دوسرے بھائی بالکل ان پڑھ تھے۔ تیسرے میٹرک پاس کرکے واپڈا میں ملازم ہوگئے، چوتھے بھائی میٹرک پاس نہ کرسکے تو پہلے فوج میں گئے پھر اسے چھوڑ کر کاروبار کرنے لگے۔ عبدالستار لکھتے ہیں ''بس میں ہی اس خاندان کا آخری بچہ تھا جس نے تعلیم کو اپنا زیور بنایا، پنجاب یونیورسٹی سے ڈبل ایم اے کیا، پہلے عربی میں اور پھر علوم اسلامیہ میں۔ پھر دوران ملازمت ہومیوپیتھی کا ڈاکٹری کا ڈپلومہ بھی باقاعدہ کالج کی شام کی کلاسوں میں داخل ہوکر حاصل کیا اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد باقاعدہ کلینک کھولا۔''
1971 کے آغاز میں عبدالستار نے راولپنڈی میں ریڈیو پاکستان جوائن کیا۔ یہ گریڈ 17 میں پروڈیوسرکی پوسٹ تھی۔ لکھتے ہیں ''اس سے پہلے میں نے نہ اسٹوڈیو دیکھے تھے، نہ ڈبنگ اور ریکارڈنگ کرنے والی مشینیں۔ ایک بالکل مختلف پروفیشنل لوگوں کا ماحول ، شعر و شاعری ، موسیقی اور ڈراموں اور ادب لطیف کی باتیں۔ ریڈیو پروگراموں کے بارے میں بھی مجھے معلوم نہ تھا کہ کس طرح سوچے جاتے ہیں اور کس طرح ترتیب دیے جاتے ہیں۔ بس آتے ہی پروگرام سونپ دیے گئے۔ میں اپنے سینئر ساتھیوں کے پاس بیٹھتا، ان سے ان تمام امورکے بارے میں پوچھتا اور ان کوکام کرتے دیکھ کر سیکھتا۔ اللہ کے فضل سے دو ماہ کے اندر سب کچھ سیکھ گیا اور بذات خود تمام امور انجام دینے لگا۔ سب سے پہلے مجھے فوجی بھائیوں کا پروگرام دیا گیا جو میں نے بڑی محنت سے چلایا۔اس کے صلے میں ڈائریکٹر جنرل سے شاباشی بھی ملی۔
راولپنڈی اسٹیشن پرکام کرتے ہوئے عبدالستارکو ابھی ساڑھے تین سال ہی ہوئے تھے کہ ان کی ترقی ہوگئی اور وہ سینئر پروڈیوسر ہوکرکراچی پہنچ گئے۔ یہاں ان دنوں طاہر شاہ اسٹیشن ڈائریکٹر تھے۔ وہاں پہنچتے ہی ان کو اسکول براڈ کاسٹ کا انچارج بنا دیا گیا۔ ابھی سال بھر ہوا تھا کہ ریڈیو پاکستان کا سب سے اہم پروگرام ''روشنی'' ان کے سپرد ہوگیا اور اس پروگرام کو انھوں نے بام عروج پر پہنچا دیا۔ شاہ بلیغ الدین اس پروگرام کے بڑے کنٹری بیوٹر تھے۔
عبدالستارکا کراچی میں قیام بڑا مبارک ثابت ہوا۔ یہیں ان کی شادی ہوئی اور پہلے بیٹا اور پھر دو بیٹیاں بھی یہیں پیدا ہوئیں۔ پھر جب کراچی کی آب و ہوا نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا اور تنفس کا مسئلہ پیدا ہوا تو ان کا تبادلہ ملتان ہوگیا کہ وہاں کا موسم سازگار تھا۔ اس تبادلے میں ریڈیو کی دو مقبول شخصیتوں حمید نسیم اور عنایت بلوچ کا رول تھا۔ عبدالستار نے اپنی کتاب میں کراچی کے خوشگوار قیام کی یادوں کے ساتھ تین مشکل مقامات کا بھی ذکر کیا جب ان کی ملازمت خطرے میں پڑگئی تھی اور پھرکس طرح وہ محفوظ رہے۔
عبدالستار کراچی سے پہلے ملتان اور پھر وہاں سے فیصل آباد پہنچے۔ فیصل آباد ریڈیو اسٹیشن پرگزرے زمانے میں ان کی کاوشیں دو مذہبی پروگراموں ''الہدیٰ'' اور حی علی الصلوٰۃ'' کی نشریات قابل ذکر ہیں۔ ان کی بڑی پذیرائی ہوئی۔ 1990 میں عبدالستار ترقی پاکر پروگرام منیجر بن گئے اور حیدرآباد بھیج دیے گئے جہاں عنایت بلوچ اسٹیشن ڈائریکٹر تھے۔ وہ ایک بار پھر فیصل آباد گئے۔ اس دفعہ اسٹیشن ڈائریکٹر ہوکر۔ فیصل آباد کے لوگ موسیقی کے بہت دلدادہ ہیں۔ چنانچہ انھوں نے عابدہ پروین کو ایک محفل موسیقی میں مدعو کیا اور انھوں نے چارگھنٹے اپنے فن کا مظاہرہ کرکے لوگوں کے دل جیت لیے۔
1999 کے آخری ماہ میں عبدالستارکنٹرولر ہوگئے اور ہیڈکوارٹر میں انھیں عالمی سروس کی سربراہی ملی۔ یہاں اس وقت حالات دگرگوں تھے۔ چند ماہ میں انھوں نے ٹھیک کر دیے۔ ان دنوں سلیم گل ڈائریکٹر جنرل تھے۔ ستار صاحب کو ان کی حمایت حاصل رہی۔ سلیم گل نہایت قابل افسر، بہترین منظم اور خوش اخلاق آدمی تھے۔ انھوں نے نیوز اینڈکرنٹ افیئر کا چینل بھی ان کے حوالے کردیا۔ یہ ایک چیلنج تھا جس سے وہ عہدہ برآ ہوئے۔ایسا ہی ایک چیلنج لاہور ریڈیو اسٹیشن کا سینٹرل پروڈکشن یونٹ کا حال درست کرنا تھا۔ یہ کام بھی عبدالستارکوکرنا تھا۔ سو ان کا لاہور ٹرانسفر ہوگیا۔ اسی سال ملک میں عام انتخابات ہوئے تھے۔ اس کے انتظامات کے لیے انھیں پھر اسلام آباد بلا لیا گیا اور یہ کنٹرولر ہوم سروس مقرر کردیے گئے۔ ان کے کنٹرولر ہوم ہی کے دوران میرپور آزاد کشمیر ریڈیو کا افتتاح ہوا۔ یہ وہاں موجود رہے اور تمام انتظامات خوش اسلوبی سے پورے کیے۔
عبدالستار کی اگلی پوسٹنگ ریڈیو پاکستان کے پشاور اسٹیشن کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے ہوئی۔ یہاں پہنچتے ہی پہلا کام انھوں نے یہ کیا کہ نئے پروگرام شروع کیے۔ پھر پرانے پروگراموں میں نئی جان ڈالی۔ اسی دوران میں انھیں حج کوریج کے لیے دوبارہ نامزد کیا گیا۔ انھوں نے میدان عرفات سے ''یوم الحج'' پر ڈائریکٹ کمنٹری نشر کی اور پھر جدہ ریڈیو کے اردو نشریات کے چینل سے اردو میں بھی کمنٹری نشر کی۔
عبدالستار لکھتے ہیں ''جن ریڈیو اسٹیشنز اور مراکز کی سربراہی میں نے سرانجام دی ان میں پشاور اسٹیشن آخری تھا۔ اسی دوران میری پروموشن بطور ڈائریکٹر پروگرامز عمل میں آئی۔ بحمداللہ میں پروگرام پروڈیوسر سے ترقی کرتے کرتے ڈائریکٹر پروگرام کے عہدے پر پہنچا۔ میرے جیسے کم مایہ اور سفارش سے مبرا شخص کے لیے یہ ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمت اور بے کراں فضل ہے۔ اس کے لیے میں اللہ تعالیٰ کا جس قدر بھی شکر کروں کم ہے اور میں یہ کہنے میں کہ میں '' گاڈ میڈ'' ہوں حق بجانب ہوں۔''
ڈاکٹر عبدالستار 2004 میں باعزت طریقے سے ریڈیو سے ریٹائر ہوئے۔ انھوں نے اچھا وقت گزارا۔ یہ ریڈیو کا سنہری دور تھا۔ اسے یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ''کیسے کیسے ماہرین، جید اہل علم و فضل، استاد، موسیقی کے ماہرین اور اعلیٰ پائے کے فنکاروں، صدا کاروں کی آمد و رفت تھی۔ ان سے ملاقات کرکے فرحت ملتی تھی اور معلومات میں اضافہ ہوتا تھا۔ کتابوں پر تبصرے اور رائے زنی ہوتی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ نابغہ علم لوگوں کی صحبت مجھے میسر آئی۔''
ایک مرتبہ حکیم محمد سعید ''قرآن حکیم اور ہماری زندگی'' کے موضوع پر اپنی تقریر ریکارڈ کرانے تشریف لائے۔ گاڑی سے اترتے ہی مجھ سے پوچھا کہ ڈیوٹی روم میں عربی کی کوئی لغت ہے؟ مجھے یہ دیکھنا ہے کہ لفظ رسالت میں حرف 'ر' زیر سے ہے یا زَبر سے ہے۔ میں نے عرض کیا حضور! آپ تو حافظ قرآن ہیں اور اہل زبان بھی۔ آپ نے اس کی سند قرآن سے کیوں نہ لی؟ چلتے چلتے رک گئے اور پوچھا وہ کیسے؟ میں نے کہا، قرآن نے رِسالت کہا ہے۔ انھوں نے میرا چہرہ پکڑا اس پر بوسہ دیا اور فرمایا '' نوجوان! آپ نے تو میرا مسئلہ حل کردیا جو صبح سے مجھے پریشان کر رہا تھا۔''
عبدالستار کہتے ہیں ''اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد خود ستائی یا اپنی علمیت ظاہر کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ حکیم سعید جیسے عالم فاضل بھی جب تقریر کرنے ریڈیو آتے تو تلفظ کے معاملے میں کس قدر حساس اور محتاط ہوتے تھے کہ کہیں غلطی نہ ہو جائے۔''