توقعات بمقابلہ حقائق
زندگی میں جیت اپنے اردگرد موجود وسائل کے بہترین استعمال سے کامیابی کو کشید کرنے کے فن کا حصول ہے
زندگی توقعات اور حقائق کی مسلسل جاری رہنے والی ایک جنگ ہے۔ اس جنگ میں جیت، کیا خوشی کے ہم معنی ہوسکتی ہے، یہ سوال ہے جہاں آکر ہم میں سے اکثر لوگ کنفیوز ہوجاتے ہیں۔ جدید دنیا میں سوشل میڈیا کا زندگی میں بڑھتا ہوا اثر ورسوخ بھی اس کنفیوژن کی ایک بڑی وجہ ہے۔ سچائی اور حقائق کے درمیان فاصلہ بڑھتا جارہا ہے۔ زندگی میں مایوسی اور ناکامی کے بڑھتے ہوئے عوامل میں سب سے بڑا فیکٹر ہے کہ ہم اکثر خود کو، چیزوں کو اور واقعات کو حقائق کے برعکس سمجھتے اور اندازے لگاتے ہیں۔ اور بعد میں ان اندازوں کے نتائج غلط ہونے پر مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ ہماری کامن سینس کیا کہتی ہے، ورچوئل دنیا کا ہماری زندگی میں بڑھتا ہوا کردار کا بھی اس میں ایک اہم حصہ ہے، کیونکہ ہم سامنے نظر آنے والی چیزوں کی بنیاد پر دوسروں کی خوشی، غمی اور کامیابی کا اندازہ لگانے لگتے ہیں، جو کسی تصویر یا بیان کیے گئے الفاظ پر مشتمل ہوتی ہیں، جن کے پیچھے چھپی سچائی زیادہ تر ہماری نظروں سے اوجھل ہوتی ہے۔
مغربی دنیا میں اس حوالے سے ہونے والی ریسرچ بتاتی ہے کہ آج کے انسان کی زندگی میں حقائق اور توقعات کے درمیان فاصلہ بہت تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف صورتحال میں مثلاً کسی کامیابی کے حصول کی صورت میں، آئیڈیل جاب اور حتیٰ کہ شادی کی صورت میں بھی ہمارے قیاس اور توقعات حقیقی نہیں ہوتیں۔ اس اسٹڈی کے مطابق نئے نویلے شادی شدہ جوڑے سوچتے ہیں کہ وہ ایک خوشیوں بھرے فیز میں داخل ہورہے ہیں اور اگلے چند سال تک ان خوشیوں میں مسلسل اضافہ ہی ہونے والا ہے، جب کہ حقیقی صورتحال اس سے قطعی مختلف ہوتی ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ انسان ہمیشہ یہی سوچتا ہے کہ آئیڈیل جاب، پرفیکٹ ریلیشن شپ وغیرہ ہماری خوشیوں میں شاید ہمیشہ کےلیے اضافہ کرنے والا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری توقعات ہمیں کنفیوز کردیتی ہیں کہ ہمارے زندگی میں سیٹ کیے مقاصد جیسے ہی حاصل ہوں گے ہماری زندگی میں ناقابل یقین اور پرمسرت تبدیلیاں رونما ہوں گی۔
لیکن زندگی میں ان سب سے جو توقعات ہم جوڑ لیتے ہیں، وہ اصل حقائق سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کے پورا نہ ہونے پر ہم میں اسٹریس اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ اور اسی طرح کی خیالی یا تصوراتی دنیا کی وجہ سے ہی ہم اکثر اپنی زندگی میں غلط مقاصد سیٹ کرلیتے ہیں۔ اور خود سے منسلک رشتوں کی توقعات پر بھی پورا نہیں اتر پاتے۔
مثال کے طور پر اپنی پسند کی شادی کو اکثر لوگ اپنی تمام تر خوشی کا مرکز خیال کرتے ہوئے اس کے حصول کےلیے کوشاں ہوجاتے ہیں اور اس وجہ سے زندگی میں حقیقی ضروریات کے حصول کےلیے کیا راستہ اختیار کریں گے، یہ ان کے پلان میں کہیں شامل ہی نہیں ہوتا۔ اور جب وہ اپنی پسند کی شادی کرلیتے ہیں، اس کے بعد انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ خوشیوں کے حصول کےلیے ان کا نقطۂ نظر حقیقت سے کہیں بہت دور تھا۔ جیسے کہ زندگی گزارنے کےلیے معاشی خوشحالی کی اہمیت۔ جس کے بارے میں انہوں نے سنجیدگی سے سوچنے اور پلاننگ کرنے کی زحمت ہی نہیں کی ہوتی۔
اس سارے قصے میں اصل نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہم ان چیزوں کی قدر کرنا بھی بھول جاتے ہیں جو کہ ہمیں باآسانی میسر ہوتی ہیں یا ہمارے پاس ہوتی ہیں۔ اور ہم ناقابل رسائی چیزوں کے تعاقب میں ان کا احساس نہیں کرپاتے۔ زندگی میں اکثر لوگ یہی غلطی کرتے ہیں، وہ کسی بھی چیز کے حصول پر اتنا فوکس کردیتے ہیں کہ انہیں اپنے پاس موجود دوسری نعمت کا احساس تک نہیں ہوتا۔ کئی مرتبہ وہ بہت سی ایسی چیزوں کو اہم سمجھتے ہیں جو حقیقت میں غیر اہم ہوتی ہیں۔
جیسے کہ کبھی کبھی ہماری خواہشات کا مرکزی تصور ہمارے آس پاس رہنے والے لوگوں کی زندگی کے بارے میں ہمارے اپنے ہی بنائے ہوئے تصورات پر ہوتا ہے، یعنی ہم خود ہی دوسروں کی زندگی کی نظر آتی تصویر کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں کہ وہ خوش ہیں اور کامیاب ہیں اور اس کی وجہ ان کی نظر آنے والی دنیاوی آسائشات وغیرہ ہیں۔ لیکن حقائق اس کے برعکس بھی ہوسکتے ہیں۔ ورچوئل دنیا میں ویسے بھی سچ اور جھوٹ تک پہنچنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا کی دنیا میں کسی کی نئی گاڑی، اچھے کپڑوں، فوڈ آؤٹ لیٹس کی تصویروں کی شیئرنگ سے اسے حقیقی خوشی جاننا اور ان کے حصول کو اپنی حقیقی خوشی سمجھنا ایک ایسی ہی خیالی دنیا کے حصول کی خواہش ہے جو ہمیں اپنے آس پاس موجود نعمتوں کو فار گرانٹڈ لینے کی عادت ڈال دیتی ہے۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب ہمیں خود سے ہی وابستہ غیر حقیقی توقعات کے حصول میں ناکامی ہوتی ہے اور اس وقت تک ہم اپنی نادانی سے ان نعمتوں کو بھی گنوا چکے ہوتے ہیں۔
مثلاً ایک بہت اچھی نوکری کے خواب میں مناسب نوکری جو میسر بھی ہو اسے قبول نہ کرنا یا لڑکیوں یا ان کی فیملیز کا آئیڈیل شریک حیات کی خواہش میں اپنے لیے آنے والے مناسب رشتوں سے انکار کرنا۔ یہ سب توقعات اور حقائق میں فاصلے کی عام اور اردگرد بکھری بے شمار مثالوں میں سے ہیں۔
زندگی ایک نعمت ہے۔ یہ کسی ہار جیت کا ان دیکھا مقابلہ نہیں۔ اس لیے زندگی میں خوشیوں کے حصول کا آسان اور سادہ طریقہ صرف یہ ہے کہ جس وقت ہمیں جو چیز میسر ہو، اس کی اہمیت کو محسوس کریں اور اس کو مکمل انجوائے کریں۔ بجائے ان لمحوں کو صرف ان چیزوں کے متعلق سوچ کر ضائع کردیا جائے جو ہمارے پاس نہیں ہیں۔ خصوصاً ورچوئل دنیا کی چمک دمک کی بنیاد پر اپنی زندگی کے مقاصد ہرگز نہ طے کیجیے۔ خوشی اور کامیابی کسی شارٹ کٹ کا نام ہے نہ ہی کسی خاص آسائش کے حصول سے مشروط ہے۔
یاد رکھیے! زندگی میں جیت اپنے اردگرد موجود وسائل کے بہترین استعمال سے کامیابی کو کشید کرنے کے فن کا حصول ہے۔ اور کامیابی میسر نعمتوں پر شکر گزار ہونے، ان پر خوش ہونے اور ان ہی سے اپنے لیے نئے راستے ہموار کرنے کا نام ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
قطع نظر اس کے کہ ہماری کامن سینس کیا کہتی ہے، ورچوئل دنیا کا ہماری زندگی میں بڑھتا ہوا کردار کا بھی اس میں ایک اہم حصہ ہے، کیونکہ ہم سامنے نظر آنے والی چیزوں کی بنیاد پر دوسروں کی خوشی، غمی اور کامیابی کا اندازہ لگانے لگتے ہیں، جو کسی تصویر یا بیان کیے گئے الفاظ پر مشتمل ہوتی ہیں، جن کے پیچھے چھپی سچائی زیادہ تر ہماری نظروں سے اوجھل ہوتی ہے۔
مغربی دنیا میں اس حوالے سے ہونے والی ریسرچ بتاتی ہے کہ آج کے انسان کی زندگی میں حقائق اور توقعات کے درمیان فاصلہ بہت تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف صورتحال میں مثلاً کسی کامیابی کے حصول کی صورت میں، آئیڈیل جاب اور حتیٰ کہ شادی کی صورت میں بھی ہمارے قیاس اور توقعات حقیقی نہیں ہوتیں۔ اس اسٹڈی کے مطابق نئے نویلے شادی شدہ جوڑے سوچتے ہیں کہ وہ ایک خوشیوں بھرے فیز میں داخل ہورہے ہیں اور اگلے چند سال تک ان خوشیوں میں مسلسل اضافہ ہی ہونے والا ہے، جب کہ حقیقی صورتحال اس سے قطعی مختلف ہوتی ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ انسان ہمیشہ یہی سوچتا ہے کہ آئیڈیل جاب، پرفیکٹ ریلیشن شپ وغیرہ ہماری خوشیوں میں شاید ہمیشہ کےلیے اضافہ کرنے والا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری توقعات ہمیں کنفیوز کردیتی ہیں کہ ہمارے زندگی میں سیٹ کیے مقاصد جیسے ہی حاصل ہوں گے ہماری زندگی میں ناقابل یقین اور پرمسرت تبدیلیاں رونما ہوں گی۔
لیکن زندگی میں ان سب سے جو توقعات ہم جوڑ لیتے ہیں، وہ اصل حقائق سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کے پورا نہ ہونے پر ہم میں اسٹریس اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ اور اسی طرح کی خیالی یا تصوراتی دنیا کی وجہ سے ہی ہم اکثر اپنی زندگی میں غلط مقاصد سیٹ کرلیتے ہیں۔ اور خود سے منسلک رشتوں کی توقعات پر بھی پورا نہیں اتر پاتے۔
مثال کے طور پر اپنی پسند کی شادی کو اکثر لوگ اپنی تمام تر خوشی کا مرکز خیال کرتے ہوئے اس کے حصول کےلیے کوشاں ہوجاتے ہیں اور اس وجہ سے زندگی میں حقیقی ضروریات کے حصول کےلیے کیا راستہ اختیار کریں گے، یہ ان کے پلان میں کہیں شامل ہی نہیں ہوتا۔ اور جب وہ اپنی پسند کی شادی کرلیتے ہیں، اس کے بعد انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ خوشیوں کے حصول کےلیے ان کا نقطۂ نظر حقیقت سے کہیں بہت دور تھا۔ جیسے کہ زندگی گزارنے کےلیے معاشی خوشحالی کی اہمیت۔ جس کے بارے میں انہوں نے سنجیدگی سے سوچنے اور پلاننگ کرنے کی زحمت ہی نہیں کی ہوتی۔
اس سارے قصے میں اصل نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہم ان چیزوں کی قدر کرنا بھی بھول جاتے ہیں جو کہ ہمیں باآسانی میسر ہوتی ہیں یا ہمارے پاس ہوتی ہیں۔ اور ہم ناقابل رسائی چیزوں کے تعاقب میں ان کا احساس نہیں کرپاتے۔ زندگی میں اکثر لوگ یہی غلطی کرتے ہیں، وہ کسی بھی چیز کے حصول پر اتنا فوکس کردیتے ہیں کہ انہیں اپنے پاس موجود دوسری نعمت کا احساس تک نہیں ہوتا۔ کئی مرتبہ وہ بہت سی ایسی چیزوں کو اہم سمجھتے ہیں جو حقیقت میں غیر اہم ہوتی ہیں۔
جیسے کہ کبھی کبھی ہماری خواہشات کا مرکزی تصور ہمارے آس پاس رہنے والے لوگوں کی زندگی کے بارے میں ہمارے اپنے ہی بنائے ہوئے تصورات پر ہوتا ہے، یعنی ہم خود ہی دوسروں کی زندگی کی نظر آتی تصویر کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں کہ وہ خوش ہیں اور کامیاب ہیں اور اس کی وجہ ان کی نظر آنے والی دنیاوی آسائشات وغیرہ ہیں۔ لیکن حقائق اس کے برعکس بھی ہوسکتے ہیں۔ ورچوئل دنیا میں ویسے بھی سچ اور جھوٹ تک پہنچنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا کی دنیا میں کسی کی نئی گاڑی، اچھے کپڑوں، فوڈ آؤٹ لیٹس کی تصویروں کی شیئرنگ سے اسے حقیقی خوشی جاننا اور ان کے حصول کو اپنی حقیقی خوشی سمجھنا ایک ایسی ہی خیالی دنیا کے حصول کی خواہش ہے جو ہمیں اپنے آس پاس موجود نعمتوں کو فار گرانٹڈ لینے کی عادت ڈال دیتی ہے۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب ہمیں خود سے ہی وابستہ غیر حقیقی توقعات کے حصول میں ناکامی ہوتی ہے اور اس وقت تک ہم اپنی نادانی سے ان نعمتوں کو بھی گنوا چکے ہوتے ہیں۔
مثلاً ایک بہت اچھی نوکری کے خواب میں مناسب نوکری جو میسر بھی ہو اسے قبول نہ کرنا یا لڑکیوں یا ان کی فیملیز کا آئیڈیل شریک حیات کی خواہش میں اپنے لیے آنے والے مناسب رشتوں سے انکار کرنا۔ یہ سب توقعات اور حقائق میں فاصلے کی عام اور اردگرد بکھری بے شمار مثالوں میں سے ہیں۔
زندگی ایک نعمت ہے۔ یہ کسی ہار جیت کا ان دیکھا مقابلہ نہیں۔ اس لیے زندگی میں خوشیوں کے حصول کا آسان اور سادہ طریقہ صرف یہ ہے کہ جس وقت ہمیں جو چیز میسر ہو، اس کی اہمیت کو محسوس کریں اور اس کو مکمل انجوائے کریں۔ بجائے ان لمحوں کو صرف ان چیزوں کے متعلق سوچ کر ضائع کردیا جائے جو ہمارے پاس نہیں ہیں۔ خصوصاً ورچوئل دنیا کی چمک دمک کی بنیاد پر اپنی زندگی کے مقاصد ہرگز نہ طے کیجیے۔ خوشی اور کامیابی کسی شارٹ کٹ کا نام ہے نہ ہی کسی خاص آسائش کے حصول سے مشروط ہے۔
یاد رکھیے! زندگی میں جیت اپنے اردگرد موجود وسائل کے بہترین استعمال سے کامیابی کو کشید کرنے کے فن کا حصول ہے۔ اور کامیابی میسر نعمتوں پر شکر گزار ہونے، ان پر خوش ہونے اور ان ہی سے اپنے لیے نئے راستے ہموار کرنے کا نام ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔