نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبّیری

لڑائی اپنی پوری ہولنا کی سے جاری تھی، اب دوپہر ہوگئی مگرکوفی فوج غلبہ حاصل نہ کرسکی۔

zulfiqarcheema55@gmail.com

(معرکۂ کربلا)

جمعہ کے دن دسویںمحرم کو نماز فجر کے بعد عمر بن سعد اپنی فوج لے کر نکلا۔ سیّد نا امام حسین ؓ نے بھی اپنے اصحاب کی صفیں قائم کیں۔ ان کے ساتھ صرف 32سوار اور 40پیدل کل 72آدمی تھے۔ میمنہ پر زہیربن القین کو مقر ر کیا۔ علم اپنے بھائی عباس بن علی رضی اللہ ُ عنہ کے ہاتھ میں دیا اور دعا کے لیے ہاتھ اُٹھادیے ۔'' الٰہی !ہرمصیبت میں تجھی پر میرا بھروسہ ہے۔ ہر سختی میں میرا تو ہی پشت پناہ ہے۔ کتنی مصیبتیں پڑیں ۔ مگر میں نے صرف تجھی سے التجاء کی اور تونے ہی میری دستگیری کی آج بھی تجھی سے التجا کر رہا ہوں ''۔

جب دشمن قریب آگیا ، تو آپ نے اونٹنی طلب کی ، سوار ہوئے، قرآن سامنے رکھا اور دشمن کی صفوںکے سامنے کھڑے ہو کر بلند آواز سے یہ خطبہ دیا:

''لوگو! میری بات سنو، جلدی نہ کرو ۔مجھے نصیحت کر لینے دو ، اپنی آمد کی وجہ بتانے دو۔ اگر وجہ معقول ہو اور تم اسے قبول کر سکو تو انصاف کرو، یہ تمہارے لیے خوش نصیبی کا باعث ہو گا اورتم میری مخالفت سے باز آجاؤ گے ، لیکن اگر سننے کے بعد بھی تم انصاف کرنے سے انکا ر کر دو، تو پھر مجھے کسی بات سے انکار نہیں۔ بھروسہ ہر حال میں صرف پروردگارِعالم پرہے اور وہ نیکوکاروں کا حامی ہے۔''

'' لوگو! میرا حسب نسب یاد کرو ،سوچو میں کون ہوں؟ پھر اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے ضمیر کامحاسبہ کرو۔ خوب غور کرو،کیا تمہارے لیے میرا قتل کرنا اورمیری حرمت کا رشتہ توڑنا رواہے؟کیا میں تمہارے نبیﷺ کی بیٹی کا بیٹا اور اس کے عَم زاد کا بیٹا نہیں ہوں ؟ کیا سیّد الشہد اء سیّدنا حمزہ ؓ میرے باپ کے چچانہ تھے؟کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کا مشہور قول نہیں سنا جو آپﷺ میرے اور دوسرے بھائی کے حق میں فرماتے ہیں !سیّد شباب اھل جنت (جنت میں نوعمروں کے سردار)

اگر میرا یہ بیان سچّا ہے اور ضرور سچاہے، کیونکہ واللہ میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد سے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ تو بتلاؤ کیا تمہیں برہنہ تلواروں سے میرا استقبال کرنا چاہیے؟ اگر تم میر ی بات پر یقین نہیں کرتے تو تم میں سے ایسے لوگ موجود ہیں ، جن سے تصدیق کر سکتے ہو۔ جابر بن عبداللہ انصاری ؓ سے پوچھو۔انس بن مالک ؓ سے پوچھو کہ انھوں نے یہ فرماتے سناہے یا نہیں ؟ کیا یہ بات بھی تمہیں میرا خون بہانے سے نہیں روک سکتی؟ اے اشعث بن ربعی، اے حجاجب بن ابجر، اے قیس بن الاشعث ، اے یزید بن الحارث! کیا تم نے مجھے نہیں لکھا تھا کہ پھل پک گئے ہیں ۔

آپ اگر آئیں گے ،تو اپنی فوج جرار کے پاس آئیں گے جلد آئیے۔ کیا فاطمہؓ کا بیٹا سمیہ کے چھوکرے (یعنی ابنِ زیاد)سے کہیں زیادہ تمہاری حمایت ونصرت کا مستحق نہیں ہے؟ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یزید کو خوش کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ تم حسین ؓکا خون بہاؤ''۔خطبے سے خاموشی طاری ہوگئی اس کے بعد حُر کے قبیلہ کے ایک شخص مہاجربن اوس نے حُر سے پوچھا کیا تم حسینؓ پر حملہ کرو گے؟'' حر خاموش ہوگیا۔ مہاجرکہنے لگا:'' تمہاری خاموشی مشتبہ ہے۔ میں نے کبھی کسی جنگ میں تمہاری یہ حالت نہیں دیکھی۔اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ کوفہ میں سب سے بہادر کون ہے؟ تو تمہارے نا م کے سواکوئی نام میری زبان پر نہیں آسکتا ۔ پھر یہ تم اس وقت کیا کررہے ہو؟''

حُرنے سنجیدگی سے جواب دیا:''بخدا میں جنت یا دوزخ کا انتخاب کر رہا ہوں ۔ واللہ میں نے جنت کا انتخاب کر لیا ہے۔ چاہے مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا جائے۔'' یہ کہہ کر حُر گھوڑے کو ایڑ لگا کر لشکر حسینؓ میں پہنچ گیااور سیّد ناحسین علیہ اسلام کی خدمت میں پہنچ کر کہا:'' ابن رسول ؐ اللہ ! میں ہی وہ بد بخت ہوں جس نے آپ کو لَوٹنے سے روکا۔ راستہ بھر آپ کا پیچھا کیا اور اس جگہ اترنے پر مجبور کیا ۔ خدا کی قسم میرے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ آئی کہ یہ لوگ آپ کی شرطیںمنظور نہ کریںگے اور آپ کے معاملے میں اس حد تک پہنچ جائیں گے۔واللہ اگر مجھے یہ معلوم ہوتاکہ وہ ایسا کریں گے ، تو ہرگز اس حرکت کا مرتکب نہ ہوتا۔ میں اپنے قصور وں پر نادم ہوکر توبہ کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں۔ میں آپ کے قدموں میں قربان ہوناچاہتا ہوں ۔ کیاآپ کے خیال میں یہ میری تو بہ کے لیے کافی ہوگا؟''

امام عالی مقامؓ نے شفقت سے فرمایا :''ہاں خداتیری توبہ قبول کرے ''

اس کے بعد حُر نے نہایت جوش وخروش سے تقریر کی اور اہل کُوفہ کو ان کی بد عہدی پر شرم و غیرت دلائی ، لیکن اس کے جواب میں انھوں نے تیر برسانے شروع کر دیے اور وہ ناچار خیمے کی طرف لوٹ آیا۔تھوڑی دیر بعد زیاد بن ابیہ اورابنِ زیاد کے غلام یساراور سالم نے میدان میںاترکر مبارزت طلب کی۔ مقابلے کے لیے عبداللہ بن عمیرالکبی نے امام عالی مقامؓ سے اجازت طلب کی۔


یہ شخص اپنی بیوی کے ساتھ امام عالی مقامؓ کی حمایت کے لیے کوفہ سے چل کر آیا تھا۔ سیاہ رنگ، تنومند،کشادہ سینہ تھا۔ اس کی صورت دیکھ کر فرمایا : ''یہ مردِ میدان ہے'' اور اجازت دی۔عبداللہ نے چند پھیروں میں ہی دونوں کو قتل کر ڈالا۔ اس کی بیوی اُمِّ وہب ہاتھ میں لاٹھی لیے کھڑی تھی۔ اور جنگ کی ترغیب دیتی تھی۔پھر یکا یک اُسے اس قدر جوش آیا کہ میدانِ جنگ کی طرف بڑھنے لگی۔ سیّد نا حسینؓ یہ دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور فرمایا:'' خداتمہیں جزائے خیر دے لیکن عورتوں کے ذمّے لڑائی نہیں ۔''

اس کے بعد ابن سعد کے میمنہ نے حملہ کیا۔ جب بالکل قریب پہنچ گئے تو حضرت امام حسینؓ کے رفقاء زمین پر گُھٹنے ٹیک کر کھڑے ہو گئے اور نیزے سیدھے کر دیے۔ نیزوں کے منہ پر گھوڑے بڑھ نہ سکے اور لَوٹنے لگے۔ حضرتؓ کی فوج نے اس موقع سے فائدہ اُٹھایا اور تیرمار کر کئی آدمی قتل اور زخمی کردیے۔

اب باقاعدہ جنگ جاری ہو گئی۔طرفین سے ایک ایک دو دو جوان نکلتے تھے اورتلوار کے جوہر دکھاتے تھے۔ سیّد نا حسینؓ کے طرفداروں کا پلہ بھاری تھا جو سامنے آتا تھا مارا جاتا تھا۔ابن زیاد کے سپہ سالار عمروبن الحجاج نے یہ حالت دیکھی تو پکا ر اُٹھا: ''بیوقوفو ! پہلے جان لو، کن سے لڑ رہے ہو؟یہ لوگ جان پر کھیلے ہوئے ہیں ، تم اسی طرح ایک ایک کر کے قتل ہوتے جاؤ گے ۔ ایسا نہ کرو ، یہ مٹھی بھر ہیں ۔ اس کے بعدعمر بن سعد نے حکم دیا کہ مبارزت موقوف کی جائے اور عام حملہ شروع ہو:چنانچہ میمنہ آگے بڑھا اور کشت و خون شروع ہوگیا۔

میمنہ کے بعد میسرہ نے یورش کی ،شمرذی الجوشن سپہ سالار تھا۔ حملہ بہت ہی سخت تھا ،مگرحسینی میسرہ نے بڑی بہادری سے مقابلہ کیا ۔ اس بازو میںصرف 32سوار تھے جس طرف ٹوٹ پڑتے تھے، صفیں اُلٹ جاتی تھیں۔آخر طاقتور دشمن نے محسوس کرلیا کہ کامیابی ناممکن ہے، چنانچہ فوراً نئی کمک طلب کی ، بہت سے سپاہی اور پانچ سوتیرانداز مد د کو پہنچ گئے۔ انھوںنے آتے ہی تیر برسانے شروع کر دیے، تھوڑی ہی دیر میں حسینی فوج کے گھوڑے بیکار ہو گئے اور سواروں کو پیدل ہو جانا پڑا۔

ایوب بن مشرح روایت کَرتاہے کہ حربن یزید کا گھوڑا خود میں نے زخمی کیا تھا۔ میں نے اُسے تیروںسے چھلنی کر ڈالا ۔ حربن یزید زمین پر کود پڑے، تلوار ہاتھ میں لیے بالکل شیرببر معلوم ہوتے تھے،تلوار ہر طرف متحرک تھی اور یہ شعر زبان پر تھا

ان تعقر وابی فانا ابن الحر اشجع من ذی لبد ھذبر

(اگر تم نے میرے گھوڑا بے کا رکر دیا تو کیا ہوا؟ میں شریف کا بیٹا ہوں ۔خوفناک شیر سے بھی زیادہ بہادر ہوں)

لڑائی اپنی پوری ہولنا کی سے جاری تھی، اب دوپہر ہوگئی مگرکوفی فوج غلبہ حاصل نہ کرسکی۔ وجہ یہ تھی کہ لشکر اما م مجتمع تھا اور حسینی فوج نے تمام خیمے ایک جگہ جمع کردیے تھے اور دشمن صرف ایک ہی رخ سے حملہ کرسکتا تھا۔ عمر بن سعد نے یہ دیکھا، تو خیمے اکھاڑ ڈالنے کے لیے آدمی بھیجے۔ حسینی فوج کے صرف چار پانچ آدمی یہاں مقابلہ کے لیے کافی ثابت ہوئے خیموں کی آڑسے دشمن کے آدمی قتل کرنے لگے۔

جب یہ صورت بھی نا کامیاب رہی، تو عمر بن سعد نے خیمے جلادینے کا حکم دیا۔ سپاہی آگ لے کر دوڑے، حسینی فوج نے یہ دیکھا تو مضطرب ہوئی،مگر امام عالی مقام ؓ نے فرمایا: کچھ پرواہ نہیں، جلانے دو، یہ ہمارے لیے اور بھی زیادہ بہتر ہے، اب وہ پیچھے سے حملہ نہیں کر سکیں گے اور ہوابھی یہی!

اِسی اثناء میں زہیر بن القین نے شمر پر زبر دست حملہ کیا اور اس کی فوج کے قدم اکھا ڑ دیے۔مگر کب تک دشمن کی تعداد ہزاروں میں تھی اور یہ مٹھی بھر ! ذراسی دیر کے بعد پھر دشمن کا ہجوم ہو گیا ۔ اب لشکرِ حسینؓ کے بہت سے لوگ شہید ہو چکے تھے۔ کئی نامی سردار شہید چکے تھے۔ حتیٰ کہ عبداللہ بن عمیر کلبی بھی شہید ہوگیا، اس کی بیوی ام وہب یہ کہتی جاتی تھی۔'' تجھے جنت مبارک ہو۔'' شِمر نے اسے دیکھا تو اُسے بھی شہید کر ڈالا۔ (جاری ہے)
Load Next Story