ہم اتنے بھی کمزور نہیں ہیں
اب ہمارے سامنے کوئی نہیں ہے۔ اگر ہم اس برتر پوزیشن میں دنیا پر حکمرانی کا خواب نہ دیکھیں تو کیا کریں۔
ہمارے وزیر اعظم ان دنوں امریکا کے دورے پر ہیں۔ امریکا جانے سے پہلے انھوں نے سعودی عرب میں مختصر قیام کیا۔ سعودی ولی عہد نے ان کو امریکا کے سفر کے لیے اپنا ذاتی طیارہ فراہم کر کے پاکستان سے محبت کا اظہار کیا۔
امریکا یاترا سے پہلے سعودی عرب کادورہ یقینا اس مسئلے کے لیے تھا جو امریکا کی خواہش کے مطابق پیدا کیا جا رہا ہے اور گزشتہ روزامریکا کے صدر ٹرمپ اور عمران خان کے درمیان ہونے والے ملاقات میں اس مسئلے کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے پاکستانی وزیر اعظم کو ایران کے ساتھ معاملات میں بہتری کے لیے بات چیت کا مینڈیٹ دیا ہے۔
محسوس یوں ہوتا ہے کہ امریکی پاکستان اور اس کے ہمسائیوں کے بارے میں اپنے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں، اگر وہ تھوڑی بہت تہذیب کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو ا س میں بھی ان کی کوئی مصلحت پوشیدہ ہو گی۔
گزشتہ روز وزیر اعظم پاکستان اور امریکی فارن کونسل کے درمیان ملاقات میں امریکیوں کا سارا زور اس بات پر تھا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات میں کسی طرح کوئی ایسا بگاڑ پیدا کر دیا جائے تا کہ چین جو پاکستان کا ہمسائیہ ہونے کے علاوہ پاکستان کا قدرتی حلیف اور پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے، اس میں خلل ڈالا جا سکے لیکن ہمارے وزیر اعظم نے جس تدبر اور خندہ پیشانی سے ان کے چبھتے سوالوں کا نہ صرف خوشدلی سے سامنا کیا بلکہ امریکیوں کوان کی ہی زبان میں مدلل جواب بھی دیے ۔
صاف ذہن کے وزیر اعظم پاکستان اس وقت تک بیرون ملک پاکستان کی نمائندگی کا بھر پور حق ادا کر رہے ہیں، وہ جہاں بھی جاتے ہیں کوئی لگی لپٹی رکھے اور چونکہ چنانچہ کے بغیرصاف اور شفاف بات کرتے ہیں ۔ مختلف مسائل پرپاکستان کا واضح موقف ایک مدت کے کے بعد دنیا کے سامنے کھل کر پیش کیا جارہا ہے ۔ ان کا یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ اسلام میں انتہا پسند یا اعتدال پسند جیسی اصلاحات کا کوئی وجود نہیں بلکہ ہم سب ایک ہی اسلام کے ماننے والے ہیں اور وہ پیغمبر محمد ﷺ کا اسلام ہے ۔
ایک واضح موقف رکھنے والے وزیر اعظم پاکستان کا امریکا میں بیٹھ کریہ کہنا تھا کہ امریکا کو افغانستان سے نکلنا ہو گا ۔ انھوں نے امریکی حمایت میں طالبان کو تربیت دینے کا اعتراف بھی کیا اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکی حصہ دار بننے پر اسے پاکستان کی تاریخی غلطی قرار دیا۔
فرانس کے ایک صدر چارلس ڈیگال نے دوسرے ملکوں میں امریکا کی بے جا مداخلت سے تنگ آکر کہا تھا کہ امریکا دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی ہے لیکن اگر پاکستان کی بات کی جائے تو ہم نے ہمیشہ امریکا کا پڑوسی بننے کو ترجیح دی بلکہ ہمارا تو حال امریکا کے ساتھ عاشقی و معشوقی والا رہا ہے البتہ یہ معاملہ حل طلب ہی رہا کہ عاشق کون ہے اور معشوق کے عہدے پر کون فائز رہا ہے۔
ہمارا تو جی چاہتا ہے کہ کاش امریکا ہمارا پڑوسی ہوتا۔جب کبھی امریکا اپنے مفادات کے لیے ہمارے بہت قریب آتا ہے تو کئی پاکستانی کہتے ہیں کہ امریکا ہمیں اپنی ایک ریاست ہی بنا لیتا ۔ پاکستان ان ملکوں میں سر فہرست رہا جو امریکی بالادستی بلکہ اس کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالنے کے لیے بے قرار رہا ۔
انگریزوں کے بعد فوراً ہی ہم نے ایک دوسرا آقا تلاش کر لیا ۔ گویا غلامی کی خواہش ہمارے خون میں رچ بس گئی ہے ۔ ہم ایک باغیرت مسلمان تو کیا ایک باعزت شریف انسان بھی نہیں رہے ۔ ہم سے تو ننگے پاؤں والے طالبان ہی بہتر ہیں جو اپنی قومی حمیت اور غیرت کی حفاظت کر رہے ہیں اور امریکا سے بھیک نہیں مانگتے بلکہ اس کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں امریکا نے طالبان کے ساتھ بے تابانہ مذاکرات کیے اور ان مذاکرات میں اتنی عجلت دکھائی کہ محسوس یوں ہوا کہ آج کل میں طالبان اور امریکیوں میں افہام و تفہیم ہو جائے گی لیکن پھر یکا یک امریکی صدر نے ان مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کر دیا ۔ امریکی صرف اس بات پر ناراض ہو گئے کہ امن مذاکرات کے درمیان طالبان نے امریکیوں پر حملہ کر دیا جس میں ان کا ایک فوجی مارا گیا حالانکہ خود ان کے اپنے ہاتھ لاکھوں افغانوں کے خون سے لتھڑے ہوئے ہیں۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکا واحد سپر پاور رہ گیا ہے، امریکیوں سے بات کریں تو وہ اپنی جہانبانی کی خواہش سے انکار نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی اقتصادی طاقت بھی ہیں ۔ ہم نے اپنے دشمن سوویت یونین کو اس کے گھر میں بیٹھے بٹھائے ختم کر دیا اور اس بے رحم طاقت کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ۔
اب ہمارے سامنے کوئی نہیں ہے۔ اگر ہم اس برتر پوزیشن میں دنیا پر حکمرانی کا خواب نہ دیکھیں تو کیا کریں۔ ہماری خواہش ہے کہ ہمارے مفادات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ بنے لیکن ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہم کمزور اور اعتماد سے محروم ملکوں کے چھوٹے موٹے معاملات کو سلجھاتے رہیں ۔ اگر کوئی اپنے خرچ پر ہمارے پاس آکر مدد کی درخواست کرتا ہے تو ہم اخلاقاً اس کی دلجوئی کر دیتے ہیںاور کچھ نہ کچھ کہہ دیتے ہیں ۔
اب ہمارے تھوڑے کہے کو کوئی بہت سمجھ لے یا ہماری سیدھی بات کو بہت گہرے معنی پہناتا رہے تو اس کی اپنی مرضی ۔ ہمارے اپنے مقاصد اور ضروریات ہیں، ہمیں کسی کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم خود رابطہ کر لیتے ہیں، کسی کے آنے کا انتظار نہیں کرتے۔ ہم نے محنت اور جانفشانی سے یہ مقام حاصل کیا ہے لیکن سب کچھ ہمارے اپنے لیے ہے کسی اور کے لیے نہیں ہے۔
یہ امریکیوں کی وہ ذہنیت ہے جس کا مشاہدہ ہم دوستی کے آ غاز سے کرتے آرہے ہیں لیکن ہم پھر بھی اسی عطار کے لونڈے سے دوا کو ہی ترجیح دیتے ہیں ۔ امریکا کا دنیا اور خاص طور پر مسلمان ممالک کے لیے ایک مخصوص ایجنڈا ہے جس پر وہ عمل پیرا ہے۔ امریکا کے صدر آتے جاتے رہتے ہیں لیکن امریکی ایجنڈا کامیابی سے آگے بڑھتا رہتا ہے۔
ہمارے صاف گو وزیر اعظم کو کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنے زور بازو پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے ۔ ہمیں دنیا کے سامنے اپنا موقف ضرور پیش کرنا چاہیے لیکن اپنی سرحدوں اور مفادات کا تحفظ ہمیں خو دہی کرنا ہوگا ،کوئی دوسرا ہماری مدد نہیں کرے گا۔ ہم اتنے بھی کمزور نہیں ہیں، ابھی ہمارے دلوں میں ایمان کی حرارت باقی ہے۔
امریکا یاترا سے پہلے سعودی عرب کادورہ یقینا اس مسئلے کے لیے تھا جو امریکا کی خواہش کے مطابق پیدا کیا جا رہا ہے اور گزشتہ روزامریکا کے صدر ٹرمپ اور عمران خان کے درمیان ہونے والے ملاقات میں اس مسئلے کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے پاکستانی وزیر اعظم کو ایران کے ساتھ معاملات میں بہتری کے لیے بات چیت کا مینڈیٹ دیا ہے۔
محسوس یوں ہوتا ہے کہ امریکی پاکستان اور اس کے ہمسائیوں کے بارے میں اپنے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں، اگر وہ تھوڑی بہت تہذیب کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو ا س میں بھی ان کی کوئی مصلحت پوشیدہ ہو گی۔
گزشتہ روز وزیر اعظم پاکستان اور امریکی فارن کونسل کے درمیان ملاقات میں امریکیوں کا سارا زور اس بات پر تھا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات میں کسی طرح کوئی ایسا بگاڑ پیدا کر دیا جائے تا کہ چین جو پاکستان کا ہمسائیہ ہونے کے علاوہ پاکستان کا قدرتی حلیف اور پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے، اس میں خلل ڈالا جا سکے لیکن ہمارے وزیر اعظم نے جس تدبر اور خندہ پیشانی سے ان کے چبھتے سوالوں کا نہ صرف خوشدلی سے سامنا کیا بلکہ امریکیوں کوان کی ہی زبان میں مدلل جواب بھی دیے ۔
صاف ذہن کے وزیر اعظم پاکستان اس وقت تک بیرون ملک پاکستان کی نمائندگی کا بھر پور حق ادا کر رہے ہیں، وہ جہاں بھی جاتے ہیں کوئی لگی لپٹی رکھے اور چونکہ چنانچہ کے بغیرصاف اور شفاف بات کرتے ہیں ۔ مختلف مسائل پرپاکستان کا واضح موقف ایک مدت کے کے بعد دنیا کے سامنے کھل کر پیش کیا جارہا ہے ۔ ان کا یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ اسلام میں انتہا پسند یا اعتدال پسند جیسی اصلاحات کا کوئی وجود نہیں بلکہ ہم سب ایک ہی اسلام کے ماننے والے ہیں اور وہ پیغمبر محمد ﷺ کا اسلام ہے ۔
ایک واضح موقف رکھنے والے وزیر اعظم پاکستان کا امریکا میں بیٹھ کریہ کہنا تھا کہ امریکا کو افغانستان سے نکلنا ہو گا ۔ انھوں نے امریکی حمایت میں طالبان کو تربیت دینے کا اعتراف بھی کیا اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکی حصہ دار بننے پر اسے پاکستان کی تاریخی غلطی قرار دیا۔
فرانس کے ایک صدر چارلس ڈیگال نے دوسرے ملکوں میں امریکا کی بے جا مداخلت سے تنگ آکر کہا تھا کہ امریکا دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی ہے لیکن اگر پاکستان کی بات کی جائے تو ہم نے ہمیشہ امریکا کا پڑوسی بننے کو ترجیح دی بلکہ ہمارا تو حال امریکا کے ساتھ عاشقی و معشوقی والا رہا ہے البتہ یہ معاملہ حل طلب ہی رہا کہ عاشق کون ہے اور معشوق کے عہدے پر کون فائز رہا ہے۔
ہمارا تو جی چاہتا ہے کہ کاش امریکا ہمارا پڑوسی ہوتا۔جب کبھی امریکا اپنے مفادات کے لیے ہمارے بہت قریب آتا ہے تو کئی پاکستانی کہتے ہیں کہ امریکا ہمیں اپنی ایک ریاست ہی بنا لیتا ۔ پاکستان ان ملکوں میں سر فہرست رہا جو امریکی بالادستی بلکہ اس کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالنے کے لیے بے قرار رہا ۔
انگریزوں کے بعد فوراً ہی ہم نے ایک دوسرا آقا تلاش کر لیا ۔ گویا غلامی کی خواہش ہمارے خون میں رچ بس گئی ہے ۔ ہم ایک باغیرت مسلمان تو کیا ایک باعزت شریف انسان بھی نہیں رہے ۔ ہم سے تو ننگے پاؤں والے طالبان ہی بہتر ہیں جو اپنی قومی حمیت اور غیرت کی حفاظت کر رہے ہیں اور امریکا سے بھیک نہیں مانگتے بلکہ اس کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں امریکا نے طالبان کے ساتھ بے تابانہ مذاکرات کیے اور ان مذاکرات میں اتنی عجلت دکھائی کہ محسوس یوں ہوا کہ آج کل میں طالبان اور امریکیوں میں افہام و تفہیم ہو جائے گی لیکن پھر یکا یک امریکی صدر نے ان مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کر دیا ۔ امریکی صرف اس بات پر ناراض ہو گئے کہ امن مذاکرات کے درمیان طالبان نے امریکیوں پر حملہ کر دیا جس میں ان کا ایک فوجی مارا گیا حالانکہ خود ان کے اپنے ہاتھ لاکھوں افغانوں کے خون سے لتھڑے ہوئے ہیں۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکا واحد سپر پاور رہ گیا ہے، امریکیوں سے بات کریں تو وہ اپنی جہانبانی کی خواہش سے انکار نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی اقتصادی طاقت بھی ہیں ۔ ہم نے اپنے دشمن سوویت یونین کو اس کے گھر میں بیٹھے بٹھائے ختم کر دیا اور اس بے رحم طاقت کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ۔
اب ہمارے سامنے کوئی نہیں ہے۔ اگر ہم اس برتر پوزیشن میں دنیا پر حکمرانی کا خواب نہ دیکھیں تو کیا کریں۔ ہماری خواہش ہے کہ ہمارے مفادات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ بنے لیکن ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہم کمزور اور اعتماد سے محروم ملکوں کے چھوٹے موٹے معاملات کو سلجھاتے رہیں ۔ اگر کوئی اپنے خرچ پر ہمارے پاس آکر مدد کی درخواست کرتا ہے تو ہم اخلاقاً اس کی دلجوئی کر دیتے ہیںاور کچھ نہ کچھ کہہ دیتے ہیں ۔
اب ہمارے تھوڑے کہے کو کوئی بہت سمجھ لے یا ہماری سیدھی بات کو بہت گہرے معنی پہناتا رہے تو اس کی اپنی مرضی ۔ ہمارے اپنے مقاصد اور ضروریات ہیں، ہمیں کسی کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم خود رابطہ کر لیتے ہیں، کسی کے آنے کا انتظار نہیں کرتے۔ ہم نے محنت اور جانفشانی سے یہ مقام حاصل کیا ہے لیکن سب کچھ ہمارے اپنے لیے ہے کسی اور کے لیے نہیں ہے۔
یہ امریکیوں کی وہ ذہنیت ہے جس کا مشاہدہ ہم دوستی کے آ غاز سے کرتے آرہے ہیں لیکن ہم پھر بھی اسی عطار کے لونڈے سے دوا کو ہی ترجیح دیتے ہیں ۔ امریکا کا دنیا اور خاص طور پر مسلمان ممالک کے لیے ایک مخصوص ایجنڈا ہے جس پر وہ عمل پیرا ہے۔ امریکا کے صدر آتے جاتے رہتے ہیں لیکن امریکی ایجنڈا کامیابی سے آگے بڑھتا رہتا ہے۔
ہمارے صاف گو وزیر اعظم کو کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنے زور بازو پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے ۔ ہمیں دنیا کے سامنے اپنا موقف ضرور پیش کرنا چاہیے لیکن اپنی سرحدوں اور مفادات کا تحفظ ہمیں خو دہی کرنا ہوگا ،کوئی دوسرا ہماری مدد نہیں کرے گا۔ ہم اتنے بھی کمزور نہیں ہیں، ابھی ہمارے دلوں میں ایمان کی حرارت باقی ہے۔