کراچی میں صفائی مہم کی نگرانی کے لیے مانیٹرنگ کمیٹی قائم
میئرکراچی وسیم اختر کی دبئی میں سابق صدر پرویز مشرف اورسابق گورنرسندھ عشرت العباد سے ملاقاتوں کی بازگشت اب تک جاری ہے۔
کراچی کا کچرا شہر کی سیاست کا محور بن گیا ہے۔ وفاقی وزیر علی زیدی کی جانب سے شہر کو صاف کرنے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور اب حکومت سندھ کی جانب سے صفائی مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
سید مراد علی شاہ نے صفائی مہم کی نگرانی کے لیے اٹھارہ رکنی مانیٹرنگ کمیٹی قائم کردی ہے۔ کابینہ ارکان پر مشتمل مانیٹرنگ کمیٹی صفائی مہم کی نگرانی کرے گی۔ ضلع جنوبی میں بیرسٹر مرتضیٰ وہاب، اویس قادرشاہ اور ریاض احمد پر مشتمل مانیٹرنگ ٹیم ہوگی۔ اعجاز جکھرانی شہلارضا اور راشد ربانی کو ضلع وسطی میں صفائی مہم کا نگراں بنایا گیا ہے۔شرقی ضلع میں اسماعیل راہو، فراز ڈیرو اور قاسم نوید کو کچرہ اٹھانے کی مہم کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔
وزیر ایکسائز مکیش کمار چاولہ، وزیر توانائی امتیازشیخ کو کورنگی ضلع صاف کرانے کا ٹاسک دیا گیا ہے، وزیر ثقافت سردار شاہ، وزیر پبلک ہیلتھ انجینئرنگ شبیر بجارانی پر مشتمل ضلع غربی میں کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ اسی طرح ضلع ملیر میں کچرہ اٹھانے کیلیے غلام مرتضیٰ بلوچ، تیمور تالپور، نواب وسان پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی، یہ کمیٹی اپنے اضلاع میں کچرہ اٹھانے کی مہم کی نگرانی کرے گی۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ خود بھی صفائی مہم کی نگرانی کر رہے ہیں اور اس ضمن میں انہوں نے شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ بھی کیا۔ اس موقع پر مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ صفائی کا کام ڈی ایم سیز کا ہے۔
علی زیدی صاحب آئے اور کہا کہ وہ کچرا اٹھائیں گے۔ میں نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت ہمیں وسائل نہیں دے رہی۔آپ کچرہ اٹھا رہے ہیں تو اچھا ہے لیکن کچرہ لینڈ فل سائیٹ لے جائیں۔ ان کی مدد کے بجائے مسئلہ مزید خراب ہوگیا، کیوں کہ کچرا انہوں نے سڑکوں پر پھینکنا شروع کردیا ۔ شہر میں کچرا چاہے کے پی ٹی کے علاقوں میں ہو یا کنٹونمنٹ علاقوں میں ہو الزام مراد علی شاہ پر ہے، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ گلی کوچوں سے کچرا اٹھاکر عارضی جی ٹی ایس پر لے آئیں۔
میں نے عارضی جی ٹی ایس کے لیے وزیراعلی ہاؤس کی لان کی بھی پیشکش کی۔ جی ٹی ایس سے ہم ایس ایس ڈبلیو ایم اے کے ذریعے کچرا لینڈ فل سائٹ لے جائیں گے ۔ میں روزانہ صفائی مہم کی نگرانی کروں گا ۔ جو کچرا پھینکے گا اب اس کو گرفتار کریں گے ۔ شہریوں کی جانب سے حکومت سندھ کی صفائی مہم کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صفائی مہم کے نام پر اس سے قبل شہریوں کے ساتھ مذاق کیا جاتا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ اور ان کی ٹیم کو اس مرتبہ سنجیدگی کے ساتھ کام کرنا ہوگا ۔اگر حکومت کی نیت ٹھیک ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ شہر کا کچرا صاف نہ ہوسکے۔
قومی اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف اور پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید احمد شاہ کی گرفتاری نے سندھ کی سیاست میں ہلچل مچادی ہے۔ خورشید شاہ کا شمار پیپلزپارٹی کے انتہائی اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ نیب کی جانب سے ان پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے خورشید شاہ کی گرفتاری کی بھرپور مذمت کی ہے اور سیاسی انتقام کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔
وزیراطلاعات سندھ سعید غنی کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت جنرل مشرف کی حکومت کا تسلسل ہے۔ خورشید شاہ کو جس طرح گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے خلاف جس طرح بھونڈے الزامات لگائے گئے ہیں وہ قابل مذمت ہے۔ خورشید شاہ کے خلاف انکوائری ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور اس طرح کی انکوائری میں گرفتاری کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔خورشید شاہ کی گرفتاری نے ایک مرتبہ پھر احتساب کے عمل پر کئی سوالات اٹھادیئے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ سلیکٹڈ احتساب ہے کیونکہ اسی طرح کے الزامات حکمران جماعت کے رہنماؤں پر بھی ہیں لیکن ان کے خلاف نیب اس طرح متحرک نظر نہیں آرہا ہے، جس طرح اپوزیشن کے خلاف ہے۔ احتساب کے عمل سے کسی کو انکار نہیں ہے ملک لوٹنے والوں کا احتساب ناگزیر ہے اس کے بغیر کوئی ریاست نہ تو ترقی کر سکتی ہے اور نہ ہی عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔ خورشید شاہ کی گرفتاری کے بعد سندھ کے بعض علاقوں میں جشن منایا گیا جب کہ بعض علاقوں میں چھوٹے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے اس صورت حال کے باوجود احتساب کا عمل جاری رہنا چاہیے۔
میڈیا میں وزیراعلیٰ سندھ سید مرا د علی شاہ کی گرفتاری کے حوالے سے بھی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ نیب نے ان کو طلب بھی کیا تھا لیکن انہوںنے اس مرتبہ بھی نیب کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا ہے۔ اگر سید مرا د علی شاہ کو نیب گرفتار کر لیا جاتا ہے، تو سندھ میں وزیراعلیٰ اسی طرح حکومت چلائے گا جیسے آغا سراج درانی اسمبلی اور میئر کراچی وسیم اختر بلدیہ عظمیٰ کراچی کے معاملات چلاتے رہے ہیں،کیونکہ پیپلزپارٹی فیصلہ کرچکی ہے وہ وزیراعلیٰ سندھ کی گرفتاری کی صورت میں کسی دوسرے شخص کو اس عہدے کے لیے نامزد نہیں کرے گی اور مراد علی شاہ ہی وزیراعلیٰ سندھ رہیں گے۔
میئرکراچی وسیم اختر کی دبئی میں سابق صدر پرویز مشرف اور سابق گورنر سندھ عشرت العباد سے ملاقاتوں کی بازگشت اب تک جاری ہے۔ ملاقات کے دوران کراچی کے مسائل کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔ عشرت العباد خان نے مسائل کے حل کے لیے میئر کراچی کو اپنے تعاون کی مکمل یقین دہانی کرائی اور حکومت سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وفاق کراچی کے منصوبوں کی جلد تکمیل اور فنڈز کی فراہمی کے لیے اپنا کردار ادا کرے، کراچی کے اسٹیک ہولڈر بھی میئر کراچی کے ساتھ تعاون میں اپنا کردار ادا کریں۔
ادھر سیاسی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ میئر کراچی کی یہ کوئی معمول کی ملاقاتیں نہیں تھیں۔آئندہ بلدیاتی انتخابات سے قبل کراچی کی سیاست میں ڈاکٹرعشرت العباد کو ایک مرتبہ پھر ''ان'' کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ ملاقاتیں اس وقت مختلف گروپوں میں تقسیم ایم کیو ایم کو متحد کرنے یا کسی نئے گروپ کی تشکیل کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہیں۔
سید مراد علی شاہ نے صفائی مہم کی نگرانی کے لیے اٹھارہ رکنی مانیٹرنگ کمیٹی قائم کردی ہے۔ کابینہ ارکان پر مشتمل مانیٹرنگ کمیٹی صفائی مہم کی نگرانی کرے گی۔ ضلع جنوبی میں بیرسٹر مرتضیٰ وہاب، اویس قادرشاہ اور ریاض احمد پر مشتمل مانیٹرنگ ٹیم ہوگی۔ اعجاز جکھرانی شہلارضا اور راشد ربانی کو ضلع وسطی میں صفائی مہم کا نگراں بنایا گیا ہے۔شرقی ضلع میں اسماعیل راہو، فراز ڈیرو اور قاسم نوید کو کچرہ اٹھانے کی مہم کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔
وزیر ایکسائز مکیش کمار چاولہ، وزیر توانائی امتیازشیخ کو کورنگی ضلع صاف کرانے کا ٹاسک دیا گیا ہے، وزیر ثقافت سردار شاہ، وزیر پبلک ہیلتھ انجینئرنگ شبیر بجارانی پر مشتمل ضلع غربی میں کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ اسی طرح ضلع ملیر میں کچرہ اٹھانے کیلیے غلام مرتضیٰ بلوچ، تیمور تالپور، نواب وسان پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی، یہ کمیٹی اپنے اضلاع میں کچرہ اٹھانے کی مہم کی نگرانی کرے گی۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ خود بھی صفائی مہم کی نگرانی کر رہے ہیں اور اس ضمن میں انہوں نے شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ بھی کیا۔ اس موقع پر مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ صفائی کا کام ڈی ایم سیز کا ہے۔
علی زیدی صاحب آئے اور کہا کہ وہ کچرا اٹھائیں گے۔ میں نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت ہمیں وسائل نہیں دے رہی۔آپ کچرہ اٹھا رہے ہیں تو اچھا ہے لیکن کچرہ لینڈ فل سائیٹ لے جائیں۔ ان کی مدد کے بجائے مسئلہ مزید خراب ہوگیا، کیوں کہ کچرا انہوں نے سڑکوں پر پھینکنا شروع کردیا ۔ شہر میں کچرا چاہے کے پی ٹی کے علاقوں میں ہو یا کنٹونمنٹ علاقوں میں ہو الزام مراد علی شاہ پر ہے، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ گلی کوچوں سے کچرا اٹھاکر عارضی جی ٹی ایس پر لے آئیں۔
میں نے عارضی جی ٹی ایس کے لیے وزیراعلی ہاؤس کی لان کی بھی پیشکش کی۔ جی ٹی ایس سے ہم ایس ایس ڈبلیو ایم اے کے ذریعے کچرا لینڈ فل سائٹ لے جائیں گے ۔ میں روزانہ صفائی مہم کی نگرانی کروں گا ۔ جو کچرا پھینکے گا اب اس کو گرفتار کریں گے ۔ شہریوں کی جانب سے حکومت سندھ کی صفائی مہم کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صفائی مہم کے نام پر اس سے قبل شہریوں کے ساتھ مذاق کیا جاتا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ اور ان کی ٹیم کو اس مرتبہ سنجیدگی کے ساتھ کام کرنا ہوگا ۔اگر حکومت کی نیت ٹھیک ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ شہر کا کچرا صاف نہ ہوسکے۔
قومی اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف اور پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید احمد شاہ کی گرفتاری نے سندھ کی سیاست میں ہلچل مچادی ہے۔ خورشید شاہ کا شمار پیپلزپارٹی کے انتہائی اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ نیب کی جانب سے ان پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے خورشید شاہ کی گرفتاری کی بھرپور مذمت کی ہے اور سیاسی انتقام کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔
وزیراطلاعات سندھ سعید غنی کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت جنرل مشرف کی حکومت کا تسلسل ہے۔ خورشید شاہ کو جس طرح گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے خلاف جس طرح بھونڈے الزامات لگائے گئے ہیں وہ قابل مذمت ہے۔ خورشید شاہ کے خلاف انکوائری ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور اس طرح کی انکوائری میں گرفتاری کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔خورشید شاہ کی گرفتاری نے ایک مرتبہ پھر احتساب کے عمل پر کئی سوالات اٹھادیئے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ سلیکٹڈ احتساب ہے کیونکہ اسی طرح کے الزامات حکمران جماعت کے رہنماؤں پر بھی ہیں لیکن ان کے خلاف نیب اس طرح متحرک نظر نہیں آرہا ہے، جس طرح اپوزیشن کے خلاف ہے۔ احتساب کے عمل سے کسی کو انکار نہیں ہے ملک لوٹنے والوں کا احتساب ناگزیر ہے اس کے بغیر کوئی ریاست نہ تو ترقی کر سکتی ہے اور نہ ہی عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔ خورشید شاہ کی گرفتاری کے بعد سندھ کے بعض علاقوں میں جشن منایا گیا جب کہ بعض علاقوں میں چھوٹے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے اس صورت حال کے باوجود احتساب کا عمل جاری رہنا چاہیے۔
میڈیا میں وزیراعلیٰ سندھ سید مرا د علی شاہ کی گرفتاری کے حوالے سے بھی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ نیب نے ان کو طلب بھی کیا تھا لیکن انہوںنے اس مرتبہ بھی نیب کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا ہے۔ اگر سید مرا د علی شاہ کو نیب گرفتار کر لیا جاتا ہے، تو سندھ میں وزیراعلیٰ اسی طرح حکومت چلائے گا جیسے آغا سراج درانی اسمبلی اور میئر کراچی وسیم اختر بلدیہ عظمیٰ کراچی کے معاملات چلاتے رہے ہیں،کیونکہ پیپلزپارٹی فیصلہ کرچکی ہے وہ وزیراعلیٰ سندھ کی گرفتاری کی صورت میں کسی دوسرے شخص کو اس عہدے کے لیے نامزد نہیں کرے گی اور مراد علی شاہ ہی وزیراعلیٰ سندھ رہیں گے۔
میئرکراچی وسیم اختر کی دبئی میں سابق صدر پرویز مشرف اور سابق گورنر سندھ عشرت العباد سے ملاقاتوں کی بازگشت اب تک جاری ہے۔ ملاقات کے دوران کراچی کے مسائل کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔ عشرت العباد خان نے مسائل کے حل کے لیے میئر کراچی کو اپنے تعاون کی مکمل یقین دہانی کرائی اور حکومت سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وفاق کراچی کے منصوبوں کی جلد تکمیل اور فنڈز کی فراہمی کے لیے اپنا کردار ادا کرے، کراچی کے اسٹیک ہولڈر بھی میئر کراچی کے ساتھ تعاون میں اپنا کردار ادا کریں۔
ادھر سیاسی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ میئر کراچی کی یہ کوئی معمول کی ملاقاتیں نہیں تھیں۔آئندہ بلدیاتی انتخابات سے قبل کراچی کی سیاست میں ڈاکٹرعشرت العباد کو ایک مرتبہ پھر ''ان'' کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ ملاقاتیں اس وقت مختلف گروپوں میں تقسیم ایم کیو ایم کو متحد کرنے یا کسی نئے گروپ کی تشکیل کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہیں۔