سیاسی زلزلوں کی امید کون لگائے بیٹھا ہے
کیا مولانا فضل الرحمٰن سے کسی زلزلہ کی کوئی امید رکھی جا سکتی ہے۔
میرپور میں آنے والے زلزلہ نے پرانے زلزلہ کی یاد تازہ کر دی ہے۔ کس طرح اس زلزلہ کی آڑ میں لوگوں نے اپنے پیٹ بھرے۔ عوام نے دل کھول کر مدد کی اور ارباب اقتدار نے دل کھول کر لوٹ مار کی۔ خدا کا شکر ہے کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر نے فوری اعلان کر دیا کہ ہمیں کسی بھی قسم کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔
ورنہ اب تک ملک بھر میں امدادی کیمپ لگ چکے ہوتے۔ 2005ء کے زلزلہ میں دنیا نے اور پاکستانیوں نے زلزلہ متاثرین کی دل کھول کر مدد کی تھی لیکن آج سب جانتے ہیں کہ بحالی کا کام اس طرح نہیں ہو سکا جس کی امید تھی۔لیکن گزشتہ روز کے زلزلہ کے بعد حکومت کے ابتدائی رویہ سے صاف ظاہر ہے کہ کہیں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ مجھے یاد ہے تب حکومت کے ترجمان شیخ رشید تھے ان کا ابتدائی رد عمل بھی آج کے حکومتی ترجمان سے کوئی خاص مختلف نہیں تھا۔
بہر حال اس زلزلہ کی تو کسی کو توقع نہیں تھے اور یہ اچانک آیا ہے۔ لیکن پاکستان میں سیاسی زلزلہ کی اب سب توقع کر رہے ہیں۔ ایک عمومی رائے بنتی جا رہی ہے کہ پرانی تبدیلی کی ناکامی کے بعد نئی تبدیلی کے آثار واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگ سیاسی زلزلہ کا مرکز بھی تلاش کر رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی زلزلوں کا مرکز کہاں ہے۔
لیکن میرے کچھ دوستوں کا یہ بھی خیال ہے کہ زلزلہ کا مرکز ڈھونڈنے والے غلط سمت میں زلزلہ کا مرکز تلاش کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ابھی جو بھی زلزلہ آئے گا اس کا مرکز اسلام آباد ہی ہوگا۔ ابھی پنڈی سے زلزلہ کا ماحول نہیں ہے۔ ابھی ایسی کوئی ماحولیاتی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آرہے جس سے کسی زلزلہ کا کوئی امکان نظر آئے۔ ہلکی پھلکی موسیقی تو چلتی رہتی ہے۔ لیکن زلزلہ کی امید رکھنے والے حالات کا صحیح اندازہ نہیں رکھتے۔
کیا مولانا فضل الرحمٰن سے کسی زلزلہ کی کوئی امید رکھی جا سکتی ہے۔ کیا ان کا آزادی مارچ ملکی سیاست میں کوئی زلزلہ لا سکے گا۔ ابھی تک ایسا ماحول نہیں بن سکا ہے۔ پیپلزپارٹی کے انکار نے مولانا کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ حالانکہ میری رائے میں پی پی پی کے انکار سے اس مارچ کی عددی اکثریت کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ میرا نہیں خیال اس وقت پی پی پی کسی دھرنے کے لیے بہت زیادہ لوگ لانے کی پوزیشن میں ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ پی پی پی کو اندازہ ہے کہ ان کے لوگوں کی تعداد اتنی کم ہوگی کہ وہ اس دھرنے میں جے یو آئی کے مقابلے میں ایک چھوٹی جماعت لگیں گے۔ ان کے جھنڈے کم ہونگے۔ ان کے لوگ کم ہونگے۔ پھر پی پی پی اور مولانا فضل الرحمٰن کے سیاسی کلچر میں بھی بہت فرق ہے۔ ایک اسٹیج پر بہت زیادہ دن اکٹھے گزارنا مشکل بھی ہو جائے گا۔
ایسا پاکستان میں پہلی دفعہ نہیں ہو گا ۔ سیاسی جلسوں میں جھنڈوں اور کارکنوں کا مقابلہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ عمران خان کے دھرنے میں ڈاکٹر طاہر القادری ہر وقت یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے کہ ان کے لوگوں کی تعداد عمران خان سے زیادہ ہے۔ اسی طرح طاہر القادری چوہدری برادران کو بھی ہر وقت یہ باور کرواتے رہتے تھے کہ ان کے لوگوں کی تعداد بھی ان سے کم ہے۔ حالانکہ سب ایک ہی مقصد کے لیے نکلے ہوئے تھے۔ اسی طرح متحدہ مجلس عمل کے جلسوں میں بھی جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے درمیان تعداد کا مقابلہ رہتا تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن قاضی حسین احمد سے پہلے تقریر کرتے تھے اور جے یو آئی کے لوگ اپنے لیڈر کی تقریر سن کر نکل جاتے تھے اور قاضی حسین احمد کی تقریر کے وقت جلسہ گاہ میں لوگ کم ہو جاتے تھے۔ اسی طرح لاہور کے مال روڈ پر ڈاکٹر طاہر القادری نے دو سال قبل تمام سیاسی جماعتوں کا ایک مشترکہ جلسہ رکھا تھا لیکن اس میں بھی لیڈر زیادہ تھے اور لوگوں کی تعداد کم تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سیاسی جماعتوں کے مشترکہ احتجاج بہت بڑے سیاسی زلزلہ کا باعث نہیں بنتے۔ بلکہ ان کے درمیان اکثر اسی بات پر لڑائی ہو جاتی ہے کہ کون زیادہ بندے لایا اور کون کم۔ اس لیے اپوزیشن کی جانب سے اس آزادی مارچ کی حمائت مولانا کے لیے سیاسی اہمیت کا باعث تو ہو سکتی ہے لیکن طاقت اور زور سارا مولانا کو ہی لگانا ہوگا۔ اس تناظر میں مولانا کے مارچ کی گونج تو ہے لیکن اس سے زلزلہ کی امید نہیں ہے۔
میں نے پوچھا کہ جب اصل مرکز سے زلزلہ کی کوئی امید نہیں ہے تو اسلام آباد سے کیسے زلزلہ کی امید ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزارتوں میں رد و بدل کی توقع کی جا رہی ہے۔میں نے کہا یہ تو کوئی زلزلہ نہیں ہے ۔ یہ تو معمول کی بات ہے۔ عمران خان نے ملک کو ایک نیا طرز حکومت دیا ہے جس میں وزارتوں سے الزامات لگا کر نکالا بھی جاتا ہے۔ اور پھر باعزت طور پر واپس بھی لے لیا جاتا ہے۔ اگر اسد عمر کے نکالنے سے کوئی زلزلہ نہیں آیا تو اب کس کے نکالنے سے کونسا زلزلہ آجائے گا۔ اس میں زلزلے والی کوئی بات نہیں ہے۔
لیکن دوستوں کا خیال ہے کہ اس بار زلزلہ کا مرکز تو اسلام آباد ہو گا لیکن زلزلہ محسوس لاہور میں کیا جائے گا۔ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ زلزلے کا مرکز کہیں اور ہوتا ہے اور زلزلہ محسوس کہیں اور ہوتا ہے۔ اس لیے جس زلزلہ کا مرکز اسلام آباد ہو اس کے جھٹکے لاہور میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن لاہور میں کیا وزراء کی تبدیلیوں کو زلزلہ کہا جاسکتا ہے۔آج کل پنجاب میں وزیروں کی تبدیلی کی بہت خبریں چل رہی ہیں۔ ہر طرف میڈیا میں نام چل رہے ہیں۔
بیچارے وزیروں کو میڈیا میں سوال کیے جا رہے ہیں کہ کیا آپ کی وزارت کی چھٹی ہو رہی ہے۔ وہ حکومت کا دفاع کرنے کے بجائے اپنے دفاع میں لگ جاتے ہیں۔ جب سے تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت بنی ہے یہاں سیاسی جھٹکے محسوس کیے جا رہے ہیں۔ کبھی کسی کی چھٹی ہو جاتی کبھی وہ واپس آجاتا ہے۔ کبھی کوئی وزیر اعلیٰ کا امیدوار بن جاتا ہے اور پھر یا تو وہ اپنی اہم وزارت سے غیر اہم وزارت کی طرف چلا جاتا ہے یا نیب اس کو گرفتار کر لیتی ہے۔
اب بھی پنجاب میں دو تین وزیر اعلیٰ پھر رہے ہیں۔ یہ روز گھر سے نکلتے ہیں اور ایک نئے سیاسی زلزلے کی نوید سناتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف سردار عثمان بزدار جنھوں نے گزشتہ ایک سال میں ان گنت حملوں کو ناکام بنایا ہے۔ اب بھی پر اعتماد دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کے انداز سے لگتا ہے کہ وہ پھر ان سب کا سر لے جائیں گے جو وزیر اعلیٰ بننے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔
اس بار سب کہانی مختلف بیان کر رہے ہیں۔ زلزلہ کی امید رکھنے والوں نے بھی قبلہ تبدیل کیا ہے۔ وہ بھی اسلام آباد سے مایوس ہو کر اصل مرکز کی طرف مڑ گئے ہیں۔ اس بار پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے امیدواروں نے اسلام آباد کے بجائے اصل مرکز میں سرنگ لگانے کی کوشش کی ہے لیکن اسلام آبادکو یہ بات پسند نہیں آئی ہے۔ عثمان بزدار اسلام آباد کی پسند ہیں۔ اور یہی ان کی طاقت ہے۔ اسلام آباد سے پیدا ہونے والے زلزلوں میں اس بات کا احتمال رکھا جا رہا ہے کہ عثمان بزدار کمزور ہونے کے بجائے طاقتور ہو جائیں۔
اس وقت عثمان بزدار سیاسی طور پر طاقتور ترین ہو گئے ہیں۔ حالیہ زلزلہ نے انھیں کمزور کرنے کے بجائے طاقتور کر دیا ہے۔ شہباز گل کی چھٹی اس بات کی مثال ہے۔ ڈینگی پر عثمان بزدار کا یاسمین راشد کو ایک طرف کر کے خود کمان سنبھالنا صاف ظاہر کر رہا ہے کہ عثمان بزدار مزید طاقتور ہو گئے ہیں۔ اس لیے لاہور میں کسی بڑے زلزلہ کی امید نہیں۔ چند معمولی جھٹکے محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
سندھ میں بڑے زلزلے کی تیاری تو بہت کی جا رہی ہے۔ لیکن ابھی تیاری مکمل نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ سندھ کے زلزلہ کا مرکز اسلام آباد نہیں کہیں اور ہوگا۔ اصل مرکز اور پی پی پی کے درمیان جو معاملات چل رہے ہیں وہی سندھ میں زلزلہ کو روکے ہوئے ہیں۔ لیکن کب تک، یہ سوال سب پوچھ رہے ہیں۔اور سب کے پاس اپنی اپنی ٹائمنگ ہے۔ ویسے بھی سندھ میں کچرا صاف کرنے کا کام شروع ہو گیا۔ اب سیاسی کچرا کب صاف ہوگا یہ سوال اہم ہے۔
ورنہ اب تک ملک بھر میں امدادی کیمپ لگ چکے ہوتے۔ 2005ء کے زلزلہ میں دنیا نے اور پاکستانیوں نے زلزلہ متاثرین کی دل کھول کر مدد کی تھی لیکن آج سب جانتے ہیں کہ بحالی کا کام اس طرح نہیں ہو سکا جس کی امید تھی۔لیکن گزشتہ روز کے زلزلہ کے بعد حکومت کے ابتدائی رویہ سے صاف ظاہر ہے کہ کہیں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ مجھے یاد ہے تب حکومت کے ترجمان شیخ رشید تھے ان کا ابتدائی رد عمل بھی آج کے حکومتی ترجمان سے کوئی خاص مختلف نہیں تھا۔
بہر حال اس زلزلہ کی تو کسی کو توقع نہیں تھے اور یہ اچانک آیا ہے۔ لیکن پاکستان میں سیاسی زلزلہ کی اب سب توقع کر رہے ہیں۔ ایک عمومی رائے بنتی جا رہی ہے کہ پرانی تبدیلی کی ناکامی کے بعد نئی تبدیلی کے آثار واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگ سیاسی زلزلہ کا مرکز بھی تلاش کر رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی زلزلوں کا مرکز کہاں ہے۔
لیکن میرے کچھ دوستوں کا یہ بھی خیال ہے کہ زلزلہ کا مرکز ڈھونڈنے والے غلط سمت میں زلزلہ کا مرکز تلاش کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ابھی جو بھی زلزلہ آئے گا اس کا مرکز اسلام آباد ہی ہوگا۔ ابھی پنڈی سے زلزلہ کا ماحول نہیں ہے۔ ابھی ایسی کوئی ماحولیاتی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آرہے جس سے کسی زلزلہ کا کوئی امکان نظر آئے۔ ہلکی پھلکی موسیقی تو چلتی رہتی ہے۔ لیکن زلزلہ کی امید رکھنے والے حالات کا صحیح اندازہ نہیں رکھتے۔
کیا مولانا فضل الرحمٰن سے کسی زلزلہ کی کوئی امید رکھی جا سکتی ہے۔ کیا ان کا آزادی مارچ ملکی سیاست میں کوئی زلزلہ لا سکے گا۔ ابھی تک ایسا ماحول نہیں بن سکا ہے۔ پیپلزپارٹی کے انکار نے مولانا کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ حالانکہ میری رائے میں پی پی پی کے انکار سے اس مارچ کی عددی اکثریت کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ میرا نہیں خیال اس وقت پی پی پی کسی دھرنے کے لیے بہت زیادہ لوگ لانے کی پوزیشن میں ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ پی پی پی کو اندازہ ہے کہ ان کے لوگوں کی تعداد اتنی کم ہوگی کہ وہ اس دھرنے میں جے یو آئی کے مقابلے میں ایک چھوٹی جماعت لگیں گے۔ ان کے جھنڈے کم ہونگے۔ ان کے لوگ کم ہونگے۔ پھر پی پی پی اور مولانا فضل الرحمٰن کے سیاسی کلچر میں بھی بہت فرق ہے۔ ایک اسٹیج پر بہت زیادہ دن اکٹھے گزارنا مشکل بھی ہو جائے گا۔
ایسا پاکستان میں پہلی دفعہ نہیں ہو گا ۔ سیاسی جلسوں میں جھنڈوں اور کارکنوں کا مقابلہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ عمران خان کے دھرنے میں ڈاکٹر طاہر القادری ہر وقت یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے کہ ان کے لوگوں کی تعداد عمران خان سے زیادہ ہے۔ اسی طرح طاہر القادری چوہدری برادران کو بھی ہر وقت یہ باور کرواتے رہتے تھے کہ ان کے لوگوں کی تعداد بھی ان سے کم ہے۔ حالانکہ سب ایک ہی مقصد کے لیے نکلے ہوئے تھے۔ اسی طرح متحدہ مجلس عمل کے جلسوں میں بھی جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے درمیان تعداد کا مقابلہ رہتا تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن قاضی حسین احمد سے پہلے تقریر کرتے تھے اور جے یو آئی کے لوگ اپنے لیڈر کی تقریر سن کر نکل جاتے تھے اور قاضی حسین احمد کی تقریر کے وقت جلسہ گاہ میں لوگ کم ہو جاتے تھے۔ اسی طرح لاہور کے مال روڈ پر ڈاکٹر طاہر القادری نے دو سال قبل تمام سیاسی جماعتوں کا ایک مشترکہ جلسہ رکھا تھا لیکن اس میں بھی لیڈر زیادہ تھے اور لوگوں کی تعداد کم تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سیاسی جماعتوں کے مشترکہ احتجاج بہت بڑے سیاسی زلزلہ کا باعث نہیں بنتے۔ بلکہ ان کے درمیان اکثر اسی بات پر لڑائی ہو جاتی ہے کہ کون زیادہ بندے لایا اور کون کم۔ اس لیے اپوزیشن کی جانب سے اس آزادی مارچ کی حمائت مولانا کے لیے سیاسی اہمیت کا باعث تو ہو سکتی ہے لیکن طاقت اور زور سارا مولانا کو ہی لگانا ہوگا۔ اس تناظر میں مولانا کے مارچ کی گونج تو ہے لیکن اس سے زلزلہ کی امید نہیں ہے۔
میں نے پوچھا کہ جب اصل مرکز سے زلزلہ کی کوئی امید نہیں ہے تو اسلام آباد سے کیسے زلزلہ کی امید ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزارتوں میں رد و بدل کی توقع کی جا رہی ہے۔میں نے کہا یہ تو کوئی زلزلہ نہیں ہے ۔ یہ تو معمول کی بات ہے۔ عمران خان نے ملک کو ایک نیا طرز حکومت دیا ہے جس میں وزارتوں سے الزامات لگا کر نکالا بھی جاتا ہے۔ اور پھر باعزت طور پر واپس بھی لے لیا جاتا ہے۔ اگر اسد عمر کے نکالنے سے کوئی زلزلہ نہیں آیا تو اب کس کے نکالنے سے کونسا زلزلہ آجائے گا۔ اس میں زلزلے والی کوئی بات نہیں ہے۔
لیکن دوستوں کا خیال ہے کہ اس بار زلزلہ کا مرکز تو اسلام آباد ہو گا لیکن زلزلہ محسوس لاہور میں کیا جائے گا۔ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ زلزلے کا مرکز کہیں اور ہوتا ہے اور زلزلہ محسوس کہیں اور ہوتا ہے۔ اس لیے جس زلزلہ کا مرکز اسلام آباد ہو اس کے جھٹکے لاہور میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن لاہور میں کیا وزراء کی تبدیلیوں کو زلزلہ کہا جاسکتا ہے۔آج کل پنجاب میں وزیروں کی تبدیلی کی بہت خبریں چل رہی ہیں۔ ہر طرف میڈیا میں نام چل رہے ہیں۔
بیچارے وزیروں کو میڈیا میں سوال کیے جا رہے ہیں کہ کیا آپ کی وزارت کی چھٹی ہو رہی ہے۔ وہ حکومت کا دفاع کرنے کے بجائے اپنے دفاع میں لگ جاتے ہیں۔ جب سے تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت بنی ہے یہاں سیاسی جھٹکے محسوس کیے جا رہے ہیں۔ کبھی کسی کی چھٹی ہو جاتی کبھی وہ واپس آجاتا ہے۔ کبھی کوئی وزیر اعلیٰ کا امیدوار بن جاتا ہے اور پھر یا تو وہ اپنی اہم وزارت سے غیر اہم وزارت کی طرف چلا جاتا ہے یا نیب اس کو گرفتار کر لیتی ہے۔
اب بھی پنجاب میں دو تین وزیر اعلیٰ پھر رہے ہیں۔ یہ روز گھر سے نکلتے ہیں اور ایک نئے سیاسی زلزلے کی نوید سناتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف سردار عثمان بزدار جنھوں نے گزشتہ ایک سال میں ان گنت حملوں کو ناکام بنایا ہے۔ اب بھی پر اعتماد دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کے انداز سے لگتا ہے کہ وہ پھر ان سب کا سر لے جائیں گے جو وزیر اعلیٰ بننے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔
اس بار سب کہانی مختلف بیان کر رہے ہیں۔ زلزلہ کی امید رکھنے والوں نے بھی قبلہ تبدیل کیا ہے۔ وہ بھی اسلام آباد سے مایوس ہو کر اصل مرکز کی طرف مڑ گئے ہیں۔ اس بار پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے امیدواروں نے اسلام آباد کے بجائے اصل مرکز میں سرنگ لگانے کی کوشش کی ہے لیکن اسلام آبادکو یہ بات پسند نہیں آئی ہے۔ عثمان بزدار اسلام آباد کی پسند ہیں۔ اور یہی ان کی طاقت ہے۔ اسلام آباد سے پیدا ہونے والے زلزلوں میں اس بات کا احتمال رکھا جا رہا ہے کہ عثمان بزدار کمزور ہونے کے بجائے طاقتور ہو جائیں۔
اس وقت عثمان بزدار سیاسی طور پر طاقتور ترین ہو گئے ہیں۔ حالیہ زلزلہ نے انھیں کمزور کرنے کے بجائے طاقتور کر دیا ہے۔ شہباز گل کی چھٹی اس بات کی مثال ہے۔ ڈینگی پر عثمان بزدار کا یاسمین راشد کو ایک طرف کر کے خود کمان سنبھالنا صاف ظاہر کر رہا ہے کہ عثمان بزدار مزید طاقتور ہو گئے ہیں۔ اس لیے لاہور میں کسی بڑے زلزلہ کی امید نہیں۔ چند معمولی جھٹکے محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
سندھ میں بڑے زلزلے کی تیاری تو بہت کی جا رہی ہے۔ لیکن ابھی تیاری مکمل نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ سندھ کے زلزلہ کا مرکز اسلام آباد نہیں کہیں اور ہوگا۔ اصل مرکز اور پی پی پی کے درمیان جو معاملات چل رہے ہیں وہی سندھ میں زلزلہ کو روکے ہوئے ہیں۔ لیکن کب تک، یہ سوال سب پوچھ رہے ہیں۔اور سب کے پاس اپنی اپنی ٹائمنگ ہے۔ ویسے بھی سندھ میں کچرا صاف کرنے کا کام شروع ہو گیا۔ اب سیاسی کچرا کب صاف ہوگا یہ سوال اہم ہے۔