کراچی دہشت گردوں کا شہر ہے

اسے ہم بدقسمتی کہیں یا ہتھیاروں کی سیاست کا آغاز کے ایک مذہبی جماعت نے سب سے پہلے تھنڈر اسکواڈ بنایا

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

مختلف حلقوں کی طرف سے کراچی پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ شہر دہشت گردوں کا شہر ہے اس میں شک نہیں کہ کراچی دہشت گردوں کا شہر بن گیا ہے، لیکن صرف کراچی ہی دہشت گردوں کا شہر نہیں بن گیا بلکہ پشاور کوئٹہ وغیرہ جیسے پرامن شہر بھی اب دہشت گردوں کے شہر بن گئے ہیں بلکہ سارا ملک ہی دہشت گردوں کا ملک بن گیا ہے۔ کیا کراچی کوئٹہ اور پشاور ہمیشہ سے دہشت گردوں کے شہر تھے؟ ایسا نہیں تھا بلکہ یہ سارے شہر امن محبت کے شہر تھے ان شہروں کو دہشت گردی کے شہر کس نے بنایا؟ اس سوال کا جواب اس لیے ضروری ہے کہ ''کراچی دہشت گردوں کا شہر ہے'' کہنے سے دہشت گردی کا الزام کراچی کے شہریوں پر عائد ہوجاتا ہے کراچی کو ہم تقریباً پچاس سال سے دیکھ رہے ہیں اور اسے روشنیوں کا شہر ہی دیکھتے آرہے تھے جہاں سندھی، پنجابی، بلوچ، پٹھان اور مہاجر سب مل جل کر رہتے تھے کوئی کسی سے نفرت نہیں کرتا تھا کوئی کسی سے ڈرتا نہیں تھا کاٹن ملوں، ٹیکسٹائل ملوں میں ایک ہی مشین پر مہاجر، پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچ کام کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی میں طبقاتی سیاست کرنے والے طاقتور تھے۔ سیاست، ٹریڈ یونین، طلبا تنظیموں ، دکلاء، ڈاکٹروں غرض مختلف پیشہ ورانہ تنظیموں میں طبقاتی سیاست کرنے والے فعال تھے اور اس پورے دور میں انسانوں کے درمیان نفرت پھیلانے والوں کا کوئی وجود نہ تھاسب طبقاتی استحصال کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے اور اس جرم میں لمبی لمبی جیلیں کاٹتے تھے۔

اسے ہم بدقسمتی کہیں یا ہتھیاروں کی سیاست کا آغاز کے ایک مذہبی جماعت نے سب سے پہلے تھنڈر اسکواڈ بنایا جو طلبابرادری میں تشدد کے فروغ کا باعث بنا۔ اس کے بعد کراچی کی یکجہتی کو نقصان ایوب خان کے فرزند محترم نے پہنچایا اپنے والد کی حکمرانی کا سہارا لے کر موصوف نے کراچی میں لسانی فسادات کروائے یہ کراچی میں لسانی سیاست کا آغاز تھا پھر بھی اہل کراچی نے طبقاتی سیاست کو کمزور نہیں ہونے دیا ایوب خان سے لے کر بھٹو کے دور تک پاکستان میں طبقاتی سیاست مضبوط رہی اس سیاست کو منصوبہ بند طریقے سے نقصان پہنچانے کا آغاز سہراب گوٹھ کے خونین واقعے سے ہوا جہاں ایک کمیونٹی کے غریب کارکنوں پر دوسری کمیونٹی کے سادہ لوح عوام کے ذریعے حملہ کرایا گیا یوں کراچی میں لسانی نفرتوں، لسانی سیاست کو فروغ دینے کا سلسلہ شروع ہوا اور علی گڑھ کالونی سے پکا قلعہ حیدر آباد تک لسانی فسادات کا ایک افسوسناک سلسلہ شروع ہوا اور کراچی میں رہنے والے محنت کش عوام لسانی سیاست کے بھنور میں پھنس گئے اس سیاست کو اس شدت سے فروغ دیا گیا کہ طبقاتی سیاست بے دست و پا ہوکر رہ گئی کاٹن ملوں، ٹیکسٹائل ملوں میں، دفتروں، کارخانوں میں مل جل کر بھائی چارے سے کام کرنے والے ایک دوسرے کے دشمن بننے لگے۔

دنیا بھر کے بڑے اور صنعتی شہروں میں پسماندہ علاقوں سے بے روزگاروں کے قافلے آنے لگتے ہیں اور اربنائزیشن کا عمل شروع ہوتا ہے لیکن جن ملکوں کے حکمران اپنے شہریوں کے ساتھ مخلص اور اپنے وطن کے ساتھ محب وطن ہوتے ہیں وہ اربنائزیشن کے اس عمل کو بے لگام نہیں ہونے دیتے اور ایک منظم اور منصوبہ بند طریقے سے اربنائزیشن کے پروسیس کو اس طرح جاری رکھتے ہیں کہ عوام میں محبت اور بھائی چارے کو نقصان نہ پہنچے۔ اول تو صاحب بصیرت حکمرانوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ پسماندہ دیہی علاقوں ہی میں صنعتوں کو اس طرح فروغ دیا جائے کہ دیہی علاقوں کے بروزگاروں کو حصول روزگار کے لیے شہروں کی طرف جانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

دوم یہ کہ اگر حکمران عوام کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں تو نقل آبادی کو بے لگام نہیں ہونے دیتے اور روزگار کے لیے شہروں میں آنے والوں کے لیے رہائش اور روزگار کا انتظام کرتے ہیں لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کراچی میں حکمران طبقات نے نہ صرف اربنائزیشن کو بے لگام کردیا بلکہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے دوسرے صوبوں سے آنے والوں کو استعمال کرنا شروع کیا اور ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہنا شروع کیا کہ ''کراچی سب کا شہر ہے'' کراچی کو سب کا شہر کہنے والے عوام سے مخلص نہ تھے بلکہ اپنے سیاسی مقاصد سے مخلص تھے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی انسانوں کے سمندر میں بدل گیا اور پھر آہستہ آہستہ اس خطرناک مقام تک پہنچ گیا جہاں عوام ایک دوسرے سے محبت کے بجائے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں، لیکن اس پورے دور میں اگرچہ لسانی سیاست کو فروغ بھی ہوا اور اس حوالے سے خون خرابا بھی ہوا لیکن کراچی پھر بھی دہشت گردوں کا شہر نہیں بنا۔ کراچی کو دہشت گردوں کا شہر کہنے والے اس کے پس پردہ عوامل اور عناصر کو نظرانداز کرکے اگر کراچی کو دہشت گردوں کا شہر کہیں گے تو یہ کراچی کے ساتھ زیادتی ہوگی۔


پاکستان میں دہشت گردی کا باضابطہ آغاز ضیا الحق کے دور سے ہوا۔ ضیا الحق نے جہاں اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے ملک میں مذہبی سیاست کو فروغ دیا اور اوٹ پٹانگ قسم کے مذہبی قوانین نافذ کرکے اپنے آپ کو مرد مومن ثابت کرنے کی کوشش کی وہیں اس نے امریکا کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے افغانستان سے روس کو نکالنے کے لیے اس سیاسی جہاد کا آغاز کیا جس کے لیے اس نے نہ صرف پاکستان کے قبائلی علاقوں کے سادہ لوح مذہب سے محبت کرنے والوں کو امریکی مجاہد بنایا بلکہ کئی مسلم ملکوں کے مجاہدین کو روس کے خلاف افغان جنگ میں جھونک دیا۔ اسی جہاد کے دوران جدید ترین اسلحہ اور منشیات کے کاروبار کو فروغ حاصل ہوا۔ مذہبی انتہاپسندی کے اس کلچر کو بھی فروغ حاصل ہوا جو آج دہشت گردی کی شکل میں پورے ملک پر مسلط ہے اور کراچی بھی دہشت گردوں کا شہر بن گیا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کراچی میں اسلحہ اور منشیات کا کاروبار کون کر رہا ہے، کراچی میں لینڈ گریبنگ میں کون ملوث ہے، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے کون ہیں؟ کیا یہ کراچی کے شہری ہیں؟ کراچی میں اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور بڑی بڑی بینک ڈکیتیوں کے کرداروں کا تعلق اہل کراچی سے ہے یا یہ ملک اور دنیا کے دوسرے ملکوں سے آنے والے لوگ ہیں؟ کیا یہ جرائم محض تفریح اور حصول دولت کے لیے ہورہے ہیں یا ان کے پیچھے کوئی گھناؤنے مقاصد ہیں؟ اگر ایسے گھناؤنے مقاصد ہیں تو کیا یہ مقاصد اہل کراچی کے ہیں یا ملک کے دوسرے علاقوں اور دنیا کے دوسرے ملکوں خصوصاً مسلم ملکوں کے جرائم پیشہ اور مذہبی انتہاپسند لوگوں کے مقاصد ہیں؟

کراچی کی ٹارگٹ کلنگ، خیبر پختونخوا میں ہر روز ہونے والی دہشت گردی جس کا حالیہ شکار پشاور کا ایک گرجا گھر بنا، پاکستانی فوج کے ایک میجر جنرل ایک لیفٹیننٹ کرنل کو پچھلے دنوں دہشت گردی کا شکار ہونا پڑا کراچی کے مہران بیس ، کامرہ بیس، پشاور ایئرپورٹ اور جی ایچ کیو۔ کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں ہونے والی بدترین دہشت گردی کراچی میں عباس ٹاؤن کی تباہی، بچوں کے اسکولوں ، مسجدوں، امام بارگاہوں، گرجا گھروں کو بارود سے اڑانے والوں خودکش حملوں میں سادہ لوح کم عمر لڑکوں لڑکیوں کو استعمال کرنے والوں، اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری، بڑی بڑی بینک ڈکیتیوں میں کیا کراچی کے لوگ ملوث ہیں کیا لاہور، پشاور، کوئٹہ کے غریب عوام ملوث ہیں؟ یہ ایسے سوال ہیں جن کا جواب ان لوگوں کو تلاش کرنا چاہیے جو بڑی سادگی سے ''کراچی کو دہشت گردوں کا شہر'' کہتے ہیں۔

آج کراچی کی آبادی لگ بھگ دو کروڑ ہے اس دو کروڑ کی آبادی میں کراچی والوں کی آبادی کا تناسب کیا ہے؟ کراچی کے باشندوں میں سندھی بھی ہیں، مہاجر بھی، پنجابی بھی، پختون بھی، بلوچ بھی، سرائیکی بھی، ہزارہ وال بھی، کشمیری بھی یہ سب دن بھر محنت کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں یہ دہشت گرد نہیں ہیں، یہ دہشت گردی کا شکار ہیں۔ دہشت گرد جن علاقوں جن ملکوں سے آرہے ہیں وہ علاقے وہ ملک کون سے ہیں؟ آج ریاست سے ریاست کے اداروں سے مسلح بغاوت کرنے والوں کی زبان قومیت نسل اور مقاصد کیا ہیں وہ کراچی کی کون سی بستیوں میں رہتے ہیں، کراچی کے چپے چپے پر انھیں کون بسا رہا ہے اور اس پھیلاؤ کے مقاصد کیا ہیں؟ آج بلا تفریق زبان اور نسل کراچی میں ہر سیاسی جماعت اور مذہبی جماعتوںکے کارکنوں اور عام بے گناہ شہریوں کا قتل عام کرنے والوں کی شناخت کے بغیر ''کراچی کو دہشت گردوں کا شہر'' کہنے والے کراچی کے پرامن شہریوں پر دہشت گردی کا بہتان لگا رہے ہیں یہ اہل کراچی سے کراچی میں رہنے والے اور ہر روز دہشت گردی کا شکار ہونے والے پرامن شہریوں کے ساتھ زیادتی ہے۔
Load Next Story