کراچی میں تجہیز و تکفین کے مسائل
کراچی جیسے بین الاقوامی شہر میں ہر چند کہ عزیز واقارب ایک دوسرے کے غم میں برابر شریک ہوتے ہیں
روز مرہ زندگی میں جس طرح لوگ مختلف مسائل کے ہاتھوں پریشان ہیں اسی طرح تجہیز و تکفین کے مسئلے میں بھی گرفتار نظر آتے ہیں۔ جی ہاں! جب زندگی دامن چھڑاتی ہے اور موت گلے لگاتی ہے تو بچھڑ جانے والوں کی جدائی کا صدمہ دل میں لیے ان کے لواحقین ان کی سفر آخرت کی تیاریوں کے لیے پریشان نظر آتے ہیں۔ میت کو کون غسل دے گا؟ کفن دفن کا انتظام کہاں سے اور کیسے ہوگا؟ نماز جنازہ کے لیے کس مولوی کا انتخاب کیاجائے؟ کس وقت جنازہ اٹھایا جائے؟ نماز جنازہ کہاں پڑھوانی ہے؟ قبرستان کون سا ہوگا؟ قبر کے لیے جگہ دستیاب بھی ہے کہ نہیں؟ گورکن آسانی سے ملے گا بھی یا نہیں؟ قبرستان کا مسئلہ حل ہوا تو ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیسے ہوگا؟ تعزیت کے لیے آنے والوں کو کھانا کہاں کھلایا جائے؟ وغیرہ وغیرہ۔
کراچی جیسے بین الاقوامی شہر میں ہر چند کہ عزیز واقارب ایک دوسرے کے غم میں برابر شریک ہوتے ہیں لیکن پھر بھی غربت، مہنگائی اور دیگر مسائل و عوامل لواحقین کے لیے پریشانی کا باعث ہوتے ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر مسائل معاشرتی روایات، رسم و رواج اور محکمہ بلدیات کے ناقص انتظامات کے پیدا کردہ ہیں، مذہب (دین اسلام) اس سلسلے میں آسانیاں فراہم کرتا ہے۔
ہم کراچی میں رہنے والے امیروں کی نہیں، غریبوں، مسکینوں، مستحقین اور لاوارثوں کی بات کررہے ہیں جو تجہیز و تکفین سے متعلق مسائل سے دو چار ہیں۔ غسل دینے والے اور دعا فاتحہ پڑھنے والے معتبر حضرات کے مخصوص ریٹ ایک ہزار روپے سے شروع ہوتے ہیں، نماز جنازہ پڑھانے والے مولوی کا ہدیہ اور کفن دفن کا سامان ایک ہزار روپے سے بھی زائد ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں گورکنوں نے قبر کی من مانی فیس وصول کرنی شروع کردی ہے، قبر کے حصول کے لیے20ہزار روپے تک وصول کیے جارہے ہیں، جب کہ سرکاری فیس ڈھائی ہزار روپے ہے۔ بند کیے جانے والے قبرستانوں میں بھی تدفین کا سلسلہ جاری ہے۔ 28قبرستانوں کو بھر جانے کے بعد بند کردیا گیا ہے۔ طارق روڈ قبرستان کمائی کا بہت بڑا ذریعہ سمجھا جاتاہے جہاں فی قبر 50ہزار روپے فیس طلب کی جاتی ہے۔
شہر کے بعض قبرستانوں میں ٹھیکیداری نظام قائم ہے۔ قبرستانوں میں تعینات عملے نے قبرستانوں کو ٹھیکے پر دے دیا ہے اور کمائی کا ایک بڑا ذریعہ بنالیاہے جس گھر میں کسی شخص کی موت واقع ہوتی ہے وہ گھرانہ پہلے ہی افسردہ اور پریشان ہوتاہے دوسری جانب قبرستان کی صورت حال دیکھ کر اس گھرانے کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی قبرستانوں میں گورکنوں کو سرکاری نرخ کا پابند بنائے اور رشوت کی وصولی کا سخت نوٹس لیں، قبر کی فیس بلدیہ عظمیٰ کراچی کی مقرر کردہ ہی وصول کی جائے، گورکنوں کی جانب سے قبروں کو توڑ کر نئی قبریں تیار کرنے کا فوری نوٹس لیاجائے اور ایسے گورکنوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
ان مسائل کے علاوہ ٹرانسپورٹ، شامیانہ، لائٹنگ کے کرائے۔ علاوہ ازیں دور دراز سے آنے والے مہمانوں کی خاطر تواضع کے اخراجات، مزید برآں اول، سوئم، دسویں اور چالیسواں کی فاتحہ خوانی کے اخراجات ایسے معاملات ہیں جو کراچی میں مرنے والوں کے لواحقین کے لیے پریشانیوں کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ یہ مسائل دینی، معاشرتی اور انتظامی شعور و آگہی کے متقاضی ہیں تاکہ کم علم اور غریب لوگ بے جا اخراجات کے چنگل سے باہر نکل سکیں اور اپنے استحقاق کے مطابق معاملات سے نمٹ سکیں، اس ضمن میں سماجی اداروں کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے۔
سچ پوچھیں تو گنجان آبادی کے اس شہر میں ایسے بھی علاقے ہیں جہاں کے مکینوں کو یہ بھی علم نہیں کہ قریبی مقامی قبرستان کہاں واقع ہے۔ تجہیزو تکفین کا سامان کہاں سے ملتاہے اور غسل دینے والے کا بندوبست کہاں سے ہوسکتاہے۔ اسی طرح وہ میت کے دیگر امور و معاملات سے بھی بے خبر ہوتے ہیں۔ اس طرح کے مناظر کا مشاہدہ ان آبادیوں میں کیا جاسکتا ہے جہاں دولت کی ہوس اور ریل پیل نے انسان کو گوشت نما مشین بنادیاہے۔ یا ان کچی آبادیوں میں یہ مسئلہ دیکھا جاسکتا ہے جہاں کے مکین خانہ بندوشی کی زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں۔ جن کا تعلق بیرون کراچی سے ہوتاہے۔ عرف عام میں جنھیں مزدور طبقہ کہاجاتاہے۔
یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ اگر میت کسی بالائی منزل یا تنگ گلی میں ہو تو اسے با احترام نیچے لانا اور نکالنا بھی ایک مسئلہ بنا ہواہے۔ جو غلط تعمیرات اور تجاوزات کا شاخسانہ ہے۔
ہر چند کہ مرنے کے بعد انسانوں کو منوں مٹی تلے دفن ہونا ہے جہاں صرف اعمال ہی کام آنے والے ہیں، لیکن ہمارے طبقاتی معاشرے کے اثرات قبرستانوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ جہاں ایک طرف غریب کو قبر کے لیے مفت جگہ نہیں ملتی، اگر ملتی ہے تو وہ اسے پختہ نہیں کرواسکتا جس کے باعث بارش یا نرم مٹی ہونے کے باعث قبرزمین بوس ہوجاتی ہے، تو دوسری طرف شاندار محل نما قبریں مرنے والے کی خاندانی حیثیت کی نشاند ہی کررہی ہوتی ہیں۔ یہ ایک حساس صورتحال ہے جو ہمت اور جرأت پر مبنی اقدامات کی متقاضی ہے۔ کراچی کے مختلف قبرستان لینڈ مافیا کے تصرف میں ہیں جو قبر کے لیے مہنگے داموں جگہ فروخت کرتے ہیں۔ اس خرید و فروخت کو سفارش کا نام دیاجاتاہے۔ مختلف برادریوں اور خاندانوں کے لوگوں نے اپنے لیے بڑے بڑے احاطے مختص کرارکھے ہیں جہاں کسی اور کو دفن کرنے کی ہر گز اجازت نہیں۔
شہر کراچی کا قدیم ترین میوہ شاہ قبرستان وسیع تر رقبے پر محیط ہے۔ ایک قبر میں کئی مردے دفن کرنا عرصہ دراز سے معمول بنا ہوا ہے۔ اب یہ قبرستان ہنگامہ خیز زندگی میں تبدیل ہوتا جارہاہے۔ قبرستان کے بعض حصوں پر چھوٹے بڑے مکانات، بلند وبالا عمارتیں اور دیگر تجاوزات قائم ہیں۔ اس قبرستان کو رہزنوں کی پناہ گاہ کا بھی شرف حاصل رہا ہے۔ اس کی مٹی مردے کھاکھاکر اتنی بے جان اور بھربھری ہوچکی ہے کہ گورکن زمین کھودتے ہیں تو ارد گرد کی قبریں زمین بوس ہوجاتی ہیں اور مردوں کی ہڈیاں باہر نکل آتی ہیں۔ آس پاس کے مکین قبرستان کو چراگاہ کے طورپر بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہاں کی تازہ قبروں پر چڑھائے ہوئے پھول اور سبزہ بکریوں سے محفوظ نہیں، بعض کھلی ہوئی قبروں میں کتے اور بلیوں کا بسیرا بھی نظر آتاہے۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ شہر کے بعض قبرستانوں میں کھلے عام چرس اور افیون کا استعمال جاری رہتاہے جس کی وجہ سے جائے عبرت کا مقام عیاشی کا نمونہ پیش کررہا ہوتاہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے شہر میں مزید قبرستانوں میں اضافہ اور غریب پرور اقدامات کی ضرورت ہے۔
کراچی جیسے بین الاقوامی شہر میں ہر چند کہ عزیز واقارب ایک دوسرے کے غم میں برابر شریک ہوتے ہیں لیکن پھر بھی غربت، مہنگائی اور دیگر مسائل و عوامل لواحقین کے لیے پریشانی کا باعث ہوتے ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر مسائل معاشرتی روایات، رسم و رواج اور محکمہ بلدیات کے ناقص انتظامات کے پیدا کردہ ہیں، مذہب (دین اسلام) اس سلسلے میں آسانیاں فراہم کرتا ہے۔
ہم کراچی میں رہنے والے امیروں کی نہیں، غریبوں، مسکینوں، مستحقین اور لاوارثوں کی بات کررہے ہیں جو تجہیز و تکفین سے متعلق مسائل سے دو چار ہیں۔ غسل دینے والے اور دعا فاتحہ پڑھنے والے معتبر حضرات کے مخصوص ریٹ ایک ہزار روپے سے شروع ہوتے ہیں، نماز جنازہ پڑھانے والے مولوی کا ہدیہ اور کفن دفن کا سامان ایک ہزار روپے سے بھی زائد ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں گورکنوں نے قبر کی من مانی فیس وصول کرنی شروع کردی ہے، قبر کے حصول کے لیے20ہزار روپے تک وصول کیے جارہے ہیں، جب کہ سرکاری فیس ڈھائی ہزار روپے ہے۔ بند کیے جانے والے قبرستانوں میں بھی تدفین کا سلسلہ جاری ہے۔ 28قبرستانوں کو بھر جانے کے بعد بند کردیا گیا ہے۔ طارق روڈ قبرستان کمائی کا بہت بڑا ذریعہ سمجھا جاتاہے جہاں فی قبر 50ہزار روپے فیس طلب کی جاتی ہے۔
شہر کے بعض قبرستانوں میں ٹھیکیداری نظام قائم ہے۔ قبرستانوں میں تعینات عملے نے قبرستانوں کو ٹھیکے پر دے دیا ہے اور کمائی کا ایک بڑا ذریعہ بنالیاہے جس گھر میں کسی شخص کی موت واقع ہوتی ہے وہ گھرانہ پہلے ہی افسردہ اور پریشان ہوتاہے دوسری جانب قبرستان کی صورت حال دیکھ کر اس گھرانے کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی قبرستانوں میں گورکنوں کو سرکاری نرخ کا پابند بنائے اور رشوت کی وصولی کا سخت نوٹس لیں، قبر کی فیس بلدیہ عظمیٰ کراچی کی مقرر کردہ ہی وصول کی جائے، گورکنوں کی جانب سے قبروں کو توڑ کر نئی قبریں تیار کرنے کا فوری نوٹس لیاجائے اور ایسے گورکنوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
ان مسائل کے علاوہ ٹرانسپورٹ، شامیانہ، لائٹنگ کے کرائے۔ علاوہ ازیں دور دراز سے آنے والے مہمانوں کی خاطر تواضع کے اخراجات، مزید برآں اول، سوئم، دسویں اور چالیسواں کی فاتحہ خوانی کے اخراجات ایسے معاملات ہیں جو کراچی میں مرنے والوں کے لواحقین کے لیے پریشانیوں کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ یہ مسائل دینی، معاشرتی اور انتظامی شعور و آگہی کے متقاضی ہیں تاکہ کم علم اور غریب لوگ بے جا اخراجات کے چنگل سے باہر نکل سکیں اور اپنے استحقاق کے مطابق معاملات سے نمٹ سکیں، اس ضمن میں سماجی اداروں کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے۔
سچ پوچھیں تو گنجان آبادی کے اس شہر میں ایسے بھی علاقے ہیں جہاں کے مکینوں کو یہ بھی علم نہیں کہ قریبی مقامی قبرستان کہاں واقع ہے۔ تجہیزو تکفین کا سامان کہاں سے ملتاہے اور غسل دینے والے کا بندوبست کہاں سے ہوسکتاہے۔ اسی طرح وہ میت کے دیگر امور و معاملات سے بھی بے خبر ہوتے ہیں۔ اس طرح کے مناظر کا مشاہدہ ان آبادیوں میں کیا جاسکتا ہے جہاں دولت کی ہوس اور ریل پیل نے انسان کو گوشت نما مشین بنادیاہے۔ یا ان کچی آبادیوں میں یہ مسئلہ دیکھا جاسکتا ہے جہاں کے مکین خانہ بندوشی کی زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں۔ جن کا تعلق بیرون کراچی سے ہوتاہے۔ عرف عام میں جنھیں مزدور طبقہ کہاجاتاہے۔
یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ اگر میت کسی بالائی منزل یا تنگ گلی میں ہو تو اسے با احترام نیچے لانا اور نکالنا بھی ایک مسئلہ بنا ہواہے۔ جو غلط تعمیرات اور تجاوزات کا شاخسانہ ہے۔
ہر چند کہ مرنے کے بعد انسانوں کو منوں مٹی تلے دفن ہونا ہے جہاں صرف اعمال ہی کام آنے والے ہیں، لیکن ہمارے طبقاتی معاشرے کے اثرات قبرستانوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ جہاں ایک طرف غریب کو قبر کے لیے مفت جگہ نہیں ملتی، اگر ملتی ہے تو وہ اسے پختہ نہیں کرواسکتا جس کے باعث بارش یا نرم مٹی ہونے کے باعث قبرزمین بوس ہوجاتی ہے، تو دوسری طرف شاندار محل نما قبریں مرنے والے کی خاندانی حیثیت کی نشاند ہی کررہی ہوتی ہیں۔ یہ ایک حساس صورتحال ہے جو ہمت اور جرأت پر مبنی اقدامات کی متقاضی ہے۔ کراچی کے مختلف قبرستان لینڈ مافیا کے تصرف میں ہیں جو قبر کے لیے مہنگے داموں جگہ فروخت کرتے ہیں۔ اس خرید و فروخت کو سفارش کا نام دیاجاتاہے۔ مختلف برادریوں اور خاندانوں کے لوگوں نے اپنے لیے بڑے بڑے احاطے مختص کرارکھے ہیں جہاں کسی اور کو دفن کرنے کی ہر گز اجازت نہیں۔
شہر کراچی کا قدیم ترین میوہ شاہ قبرستان وسیع تر رقبے پر محیط ہے۔ ایک قبر میں کئی مردے دفن کرنا عرصہ دراز سے معمول بنا ہوا ہے۔ اب یہ قبرستان ہنگامہ خیز زندگی میں تبدیل ہوتا جارہاہے۔ قبرستان کے بعض حصوں پر چھوٹے بڑے مکانات، بلند وبالا عمارتیں اور دیگر تجاوزات قائم ہیں۔ اس قبرستان کو رہزنوں کی پناہ گاہ کا بھی شرف حاصل رہا ہے۔ اس کی مٹی مردے کھاکھاکر اتنی بے جان اور بھربھری ہوچکی ہے کہ گورکن زمین کھودتے ہیں تو ارد گرد کی قبریں زمین بوس ہوجاتی ہیں اور مردوں کی ہڈیاں باہر نکل آتی ہیں۔ آس پاس کے مکین قبرستان کو چراگاہ کے طورپر بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہاں کی تازہ قبروں پر چڑھائے ہوئے پھول اور سبزہ بکریوں سے محفوظ نہیں، بعض کھلی ہوئی قبروں میں کتے اور بلیوں کا بسیرا بھی نظر آتاہے۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ شہر کے بعض قبرستانوں میں کھلے عام چرس اور افیون کا استعمال جاری رہتاہے جس کی وجہ سے جائے عبرت کا مقام عیاشی کا نمونہ پیش کررہا ہوتاہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے شہر میں مزید قبرستانوں میں اضافہ اور غریب پرور اقدامات کی ضرورت ہے۔