محکمہ ڈاک اعلیٰ شخصیات کیلیے خطوط اور پارسل وصول کرنے سے انکار
خطوط میں گولیاں اور مغلظات تحریر ہونے پرسادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے ملازمین کو غیرقانونی حراست میں لے لیا
محکمہ ڈاک نے صدر، وزیراعظم و اعلیٰ حکومتی شخصیات سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہوں کو بھیجے جانے والے خطوط اور پارسل وصول کرنے سے انکار کردیا ۔
گزشتہ چند دنوں کے دوران صدر مملکت اور آئی جی سندھ کو بھیجے جانے والے خطوط میں پستول کی گولیاں اور مغلظات تحریر ہونے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سارا نزلہ محکمہ ڈاک کے عملے پر گرادیا، دوران تفتیش اذیت اور تشدد سے خوفزدہ ہو کر محکمہ ڈاک کے عملے نے اعلیٰ شخصیات کیلیے ڈاک وصول کرنی بند کردی، ذرائع کے مطابق آئی آئی چند ریگر روڈ پر کراچی کے مرکزی جنرل پوسٹ آفس (جی پی او) سے آئی جی سندھ کو بھیجے جانیوالے خط سے پستول کی گولیاں برآمد ہونے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جی پی او کے متعلقہ کلرک کو تفتیش کے نام پر کئی دنوں تک حراست میں رکھا اور دوران حراست اس پر تشدد بھی کیا گیا۔
جی پی او میں کام کرنیوالے ایک اور اہلکار نے بتایا کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار کلرک کو دفتری اوقات میں تشدد کرتے ہوئے لیکر گئے اور اپنی شناخت بھی ظاہر نہیں کرائی، متعلقہ کلرک 2 دن بعد واپس آیا اور اس دوران اس کے خاندان کے افراد اعلیٰ پولیس افسران کے دفاتر کے دھکے کھاتے رہے تاہم ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی، کلرک کے مطابق تفتیش کے دوران تفتیشی اہلکار اس سے خط بھیجے جانے کے وقت کی وڈیو فوٹیج طلب کرتے رہے جبکہ اس نے انھیں بتایا کہ جی پی او میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب نہیں۔
تاہم وہ یہ یقین کرنے کو تیار نہیں تھے، ذرائع نے بتایا کہ اس سے کچھ عرصہ قبل صدر مملکت کو بھیجے جانے والے ایک خط میں نازیبا زبان استعمال کی گئی تھی جس کی تحقیقات کیلیے اسلام آباد سے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی ٹیم آئی تھی اس معاملے کی تحقیقات کے دوران بھی متعلقہ کلرک اور دیگر عملے کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا، جی پی او کے ملازمین کا کہنا ہے کہ حکومت اس طرح کے واقعات کی روک تھام چاہتی ہے تو وہ نجی کوریئر سروسز کی طرز پر ڈاکخانوں میں بھی سی سی ٹی وی کیمرے نصب کردے تاہم اس وقت تک وہ کسی بھی اعلی شخصیت کیلیے ڈاک وصول نہیں کریں گے۔
گزشتہ چند دنوں کے دوران صدر مملکت اور آئی جی سندھ کو بھیجے جانے والے خطوط میں پستول کی گولیاں اور مغلظات تحریر ہونے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سارا نزلہ محکمہ ڈاک کے عملے پر گرادیا، دوران تفتیش اذیت اور تشدد سے خوفزدہ ہو کر محکمہ ڈاک کے عملے نے اعلیٰ شخصیات کیلیے ڈاک وصول کرنی بند کردی، ذرائع کے مطابق آئی آئی چند ریگر روڈ پر کراچی کے مرکزی جنرل پوسٹ آفس (جی پی او) سے آئی جی سندھ کو بھیجے جانیوالے خط سے پستول کی گولیاں برآمد ہونے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جی پی او کے متعلقہ کلرک کو تفتیش کے نام پر کئی دنوں تک حراست میں رکھا اور دوران حراست اس پر تشدد بھی کیا گیا۔
جی پی او میں کام کرنیوالے ایک اور اہلکار نے بتایا کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار کلرک کو دفتری اوقات میں تشدد کرتے ہوئے لیکر گئے اور اپنی شناخت بھی ظاہر نہیں کرائی، متعلقہ کلرک 2 دن بعد واپس آیا اور اس دوران اس کے خاندان کے افراد اعلیٰ پولیس افسران کے دفاتر کے دھکے کھاتے رہے تاہم ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی، کلرک کے مطابق تفتیش کے دوران تفتیشی اہلکار اس سے خط بھیجے جانے کے وقت کی وڈیو فوٹیج طلب کرتے رہے جبکہ اس نے انھیں بتایا کہ جی پی او میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب نہیں۔
تاہم وہ یہ یقین کرنے کو تیار نہیں تھے، ذرائع نے بتایا کہ اس سے کچھ عرصہ قبل صدر مملکت کو بھیجے جانے والے ایک خط میں نازیبا زبان استعمال کی گئی تھی جس کی تحقیقات کیلیے اسلام آباد سے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی ٹیم آئی تھی اس معاملے کی تحقیقات کے دوران بھی متعلقہ کلرک اور دیگر عملے کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا، جی پی او کے ملازمین کا کہنا ہے کہ حکومت اس طرح کے واقعات کی روک تھام چاہتی ہے تو وہ نجی کوریئر سروسز کی طرز پر ڈاکخانوں میں بھی سی سی ٹی وی کیمرے نصب کردے تاہم اس وقت تک وہ کسی بھی اعلی شخصیت کیلیے ڈاک وصول نہیں کریں گے۔