پاکستانی دستاویزی فلم ’’آرمڈ ود فیتھ‘‘ کے لیے ایمی ایوارڈ
اس فلم کے نتیجے میں پاکستان اور سیکیورٹی فورسز کا ایک مثبت امیج دنیا کے سامنے آیا ہے۔
صوبہ خیبرپختونخوا کے بم ڈسپوزل یونٹ (بی ڈی یو) پر بنی دستاویزی فلم ''آرمڈ ود فیتھ'' سب سے اعلیٰ ''ایمی'' ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
یہ خبر تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے، اس فلم کو بنانے والی ٹیم مبارکبادکی مستحق ہے۔ اس دستاویزی فلم میں خیبرپختونخوا بم ڈسپوزل یونٹ کے اہلکاروں کی جان پر کھیل کر بموں کو ناکارہ بنانے کی خدمات کو دکھایا گیا تھا۔ ایمی نیوز اینڈ ڈاکیو مینٹری ایوارڈز کی تقریب امریکا میں ہوئی جس میں مجموعی طور پر 30 کیٹیگریز میں دستاویزی فلموں کو ایوارڈز دیے گئے۔
یقینا اس فلم کے نتیجے میں پاکستان اور سیکیورٹی فورسز کا ایک مثبت امیج دنیا کے سامنے آیا ہے۔ اس سے قبل افغانستان اور نیٹو فورسز پر جو فلمیں بنائی گئی ہیں، ان میں غیر ملکی پروپیگنڈا بھی شامل ہوتا تھا، جس کا توڑ اس فلم نے حقائق کے آئینے میں پیش کر دیا ہے کہ ہم دہشتگرد نہیں بلکہ دہشتگردی کا شکار ہیں۔
ایک المیہ یہ ہے کہ اس ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنیوالے افراد کی تنخواہیں بہت کم ہیں اور کام بہت مشکل ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ خطرے کے دہانے پر موجود ہوتے ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بی ڈی یو اہلکاروں کو دیا جانے والا خطرناک ملازمت کا الاؤنس 'ڈینجر الاؤنس' محض 50 روپے ہے، جو انگریزوں کے زمانے سے چلا آ رہا ہے اور اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ سپاہی اپنی جان خطرے میں ڈال کر دیگر بے شمار لوگوں کی جانیں بچاتے ہیں اور اس کے بدلے میں انھیں کچھ نہیں ملتا، سوائے زخموں اور معذوری کے۔ اس فلم کا عالمی مقابلہ جیتنے کے وسیلے سے ہی خیبرپختونخوا پولیس کے اس شعبے میں اصلاحات کا عمل حکومت شروع کرے، یہی اس دستاویزی فلم کا مطمع نظر ہو گا۔
یہ خبر تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے، اس فلم کو بنانے والی ٹیم مبارکبادکی مستحق ہے۔ اس دستاویزی فلم میں خیبرپختونخوا بم ڈسپوزل یونٹ کے اہلکاروں کی جان پر کھیل کر بموں کو ناکارہ بنانے کی خدمات کو دکھایا گیا تھا۔ ایمی نیوز اینڈ ڈاکیو مینٹری ایوارڈز کی تقریب امریکا میں ہوئی جس میں مجموعی طور پر 30 کیٹیگریز میں دستاویزی فلموں کو ایوارڈز دیے گئے۔
یقینا اس فلم کے نتیجے میں پاکستان اور سیکیورٹی فورسز کا ایک مثبت امیج دنیا کے سامنے آیا ہے۔ اس سے قبل افغانستان اور نیٹو فورسز پر جو فلمیں بنائی گئی ہیں، ان میں غیر ملکی پروپیگنڈا بھی شامل ہوتا تھا، جس کا توڑ اس فلم نے حقائق کے آئینے میں پیش کر دیا ہے کہ ہم دہشتگرد نہیں بلکہ دہشتگردی کا شکار ہیں۔
ایک المیہ یہ ہے کہ اس ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنیوالے افراد کی تنخواہیں بہت کم ہیں اور کام بہت مشکل ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ خطرے کے دہانے پر موجود ہوتے ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بی ڈی یو اہلکاروں کو دیا جانے والا خطرناک ملازمت کا الاؤنس 'ڈینجر الاؤنس' محض 50 روپے ہے، جو انگریزوں کے زمانے سے چلا آ رہا ہے اور اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ سپاہی اپنی جان خطرے میں ڈال کر دیگر بے شمار لوگوں کی جانیں بچاتے ہیں اور اس کے بدلے میں انھیں کچھ نہیں ملتا، سوائے زخموں اور معذوری کے۔ اس فلم کا عالمی مقابلہ جیتنے کے وسیلے سے ہی خیبرپختونخوا پولیس کے اس شعبے میں اصلاحات کا عمل حکومت شروع کرے، یہی اس دستاویزی فلم کا مطمع نظر ہو گا۔