حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹی فکیشن واپس لے لیا
حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لئے اپنی پالیسی بنائے، عدالت کو مت گھسیٹے، چیف جسٹس
سپریم کورٹ کی مداخلت پر حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹی فکیشن واپس لے لیا۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور نرخوں میں حالیہ اضافے کے خلاف سپریم کورٹ ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی، دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافےکی تجویز نیپرا نے دی تھی یا نہیں، چیئرمین نیپرا نے کہا کہ معلوم نہیں قیمتوں کے نرخ کیسے متعین کئے جاتے ہیں، اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت نیپرا کو دوبارہ قیمتوں کے تعین کے لئے سمری بھیجنا چاہ رہی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست کرنے کا مطلب ہے کہ حکومت نے نیپرا کو آزاد نہیں رہنے دیا، پہلے آپ حالیہ اضافے کے نوٹی فکیشن کو منسوخ کریں ورنہ عدالت کو منسوخ کرنا پڑے گا۔
دوران سماعت وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف نے کہا کہ نیپرا کو درخواست دیں گے کہ قانون کے تحت قیمتوں کا تعین کرے، ہم جب نیپرا کو درخواست کریں گے تو نوٹی فکیشن خود بخود ختم ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ریلیف دینے کے لیے وقت درکار ہے، 40 سال کی خرابیاں دور کرنے میں 4 سے 5 سال تو لگیں گے۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لئے اپنی پالیسی بنائے، عدالت کو مت گھسیٹے، رینٹل پاور کیس میں آپ نے خود کہا تھا کہ ٹیرف کا تعین حکومت کا نہیں بلکہ نیپرا کا اختیار ہے، ہم نے آپ کے دلائل کو اس وقت تسلیم کیا تھا لیکن آج آپ اپنے دلائل کے خلاف کام کررہے ہیں، عوام پر بم گرادیا گیا، اس کا کیا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیپرا کو اعتماد میں لئے بغیر جو نوٹی فکیشن جاری ہوا کیا حکومت اس سے واقف ہے کہ اس کی قانونی حیثیت اور نتائج کیا ہوں گے، صنعتوں کو گیس سبسڈی پر دی جاتی ہے مگر عام کسان کا کیا فائدہ ہوتا ہے۔
اس موقع پر نیپرا کے چیئرمین نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ گیس سے بجلی پیدا کرنے سے اس کے نرخ 25 سے 30 فیصد کم ہو جائیں گے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان پلانٹس کو گیس دی جائے جو اس سے بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کھاد فیکٹریوں کو بہت زیادہ سبسڈی دی جارہی ہے جس پر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ کھاد فیکٹریوں کو سبسڈی دینے کی پالیسی پرانی ہے جس پر حکومت نظر ثانی کر رہی ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے دوران سماعت ریمارکس دیئے حکومت نے نادہندگان سے ریکوری کی پالیسی نہیں بنائی، بل نادہندگان سے 1400 ارب روپے سے زائد لینے ہیں لیکن حکومت اس سے متعلق سنجیدہ نظر نہیں آتی جو استحصال کے زمرے میں آتا ہے اور یہ آرٹیکل 9 اور 14 کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے حکومت کی جانب سے نوٹی فکیشن واپس لینے کے فیصلے پر کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لئے ملتوی کردی۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور نرخوں میں حالیہ اضافے کے خلاف سپریم کورٹ ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی، دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافےکی تجویز نیپرا نے دی تھی یا نہیں، چیئرمین نیپرا نے کہا کہ معلوم نہیں قیمتوں کے نرخ کیسے متعین کئے جاتے ہیں، اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت نیپرا کو دوبارہ قیمتوں کے تعین کے لئے سمری بھیجنا چاہ رہی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست کرنے کا مطلب ہے کہ حکومت نے نیپرا کو آزاد نہیں رہنے دیا، پہلے آپ حالیہ اضافے کے نوٹی فکیشن کو منسوخ کریں ورنہ عدالت کو منسوخ کرنا پڑے گا۔
دوران سماعت وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف نے کہا کہ نیپرا کو درخواست دیں گے کہ قانون کے تحت قیمتوں کا تعین کرے، ہم جب نیپرا کو درخواست کریں گے تو نوٹی فکیشن خود بخود ختم ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ریلیف دینے کے لیے وقت درکار ہے، 40 سال کی خرابیاں دور کرنے میں 4 سے 5 سال تو لگیں گے۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لئے اپنی پالیسی بنائے، عدالت کو مت گھسیٹے، رینٹل پاور کیس میں آپ نے خود کہا تھا کہ ٹیرف کا تعین حکومت کا نہیں بلکہ نیپرا کا اختیار ہے، ہم نے آپ کے دلائل کو اس وقت تسلیم کیا تھا لیکن آج آپ اپنے دلائل کے خلاف کام کررہے ہیں، عوام پر بم گرادیا گیا، اس کا کیا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیپرا کو اعتماد میں لئے بغیر جو نوٹی فکیشن جاری ہوا کیا حکومت اس سے واقف ہے کہ اس کی قانونی حیثیت اور نتائج کیا ہوں گے، صنعتوں کو گیس سبسڈی پر دی جاتی ہے مگر عام کسان کا کیا فائدہ ہوتا ہے۔
اس موقع پر نیپرا کے چیئرمین نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ گیس سے بجلی پیدا کرنے سے اس کے نرخ 25 سے 30 فیصد کم ہو جائیں گے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان پلانٹس کو گیس دی جائے جو اس سے بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کھاد فیکٹریوں کو بہت زیادہ سبسڈی دی جارہی ہے جس پر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ کھاد فیکٹریوں کو سبسڈی دینے کی پالیسی پرانی ہے جس پر حکومت نظر ثانی کر رہی ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے دوران سماعت ریمارکس دیئے حکومت نے نادہندگان سے ریکوری کی پالیسی نہیں بنائی، بل نادہندگان سے 1400 ارب روپے سے زائد لینے ہیں لیکن حکومت اس سے متعلق سنجیدہ نظر نہیں آتی جو استحصال کے زمرے میں آتا ہے اور یہ آرٹیکل 9 اور 14 کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے حکومت کی جانب سے نوٹی فکیشن واپس لینے کے فیصلے پر کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لئے ملتوی کردی۔