پنجاب اور سندھ میں ریبیز وائرس کی تشخیص کی سہولت ناپید
اسپتالوں میں مریضوں میں موجودعلامات کی بنیاد پر ریبیز کا علاج کیا جا رہا ہے
پنجاب اور سندھ سمیت ملک بھر میں کتے کے کاٹنے سے ''پاگل پن'' یعنی RABIES کی بیماری میں غیر معمولی اضافے کے باوجود ملک بھر میں سرکاری یا نجی سطح پر انسانوں میں''ریبیز وائرس'' کی کھوج اور پہچان کیلیے لیبارٹری ٹیسٹ کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔
اسپتالوں میں مریضوں میں موجودعلامات کی بنیاد پر ریبیز کا علاج کیا جارہا ہے جبکہ پاگل کتے کے کاٹے کے علاج کیلیے یورپ کی تیار کردہ ویکسین کو دنیا بھر میں سب سے بہتر تصور جبکہ دوسرے نمبر پر بھارت کی تیار کردہ ویکسین کو طبی حلقوں میں موثر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن گزشتہ چند برسوں سے حکومت پاکستان نے سستی ہونے کی بنیاد پر چین سے ویکسین منگوانا شروع کیا ہوا ہے جس پر طبی ماہرین اپنے تحفظات ظاہر کر چکے ہیں۔
کتے کے کاٹے کے مرض''ریبیز'' سے عوام کو آگاہ کرنے کیلیے 28 ستمبر کو ملک بھر میں ''ورلڈ ریبیز ڈے'' منایا جارہا ہے۔علاوہ ازیں پنجاب کے محکمہ پرائمری ہیلتھ نے بھی ایک سرکاری مراسلے میں ریبیز ویکسین پر خرچ ہونے والی خطیر رقم کی بچت کیلیے آوارہ کتوں کو مارنے کی مہم کوسب سے کم خرچ اور فوری طریقہ قرار دیتے ہوئے اسے مزید تیز اور موثر بنانے کیلیے تمام اضلاع کے حکام کو احکام جاری کیے ہیں۔
اس مراسلے میں یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں سرکاری سطح پر ''کتے مار'' مہم غیر موثر ثابت ہونے سے آوارہ کتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب ملکی و غیر ملکی این جی اوز نے حکومت کی''کتے مار پالیسی'' کو غیر فائدہ مند اور بے رحم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا بھر میں آوارہ کتوں کی ویکسینیشن اور ان کی تولیدی صلاحیت ختم کر کے ''ریبز وائرس'' پر قابو پایا گیا ہے۔
مزید برآں کتوں سمیت دیگر جانوروں کے ذریعے پھیلنے والے 33 وبائی امراض کی روک تھام کیلیے تیار کردہ ''پنجاب انیمل ہیلتھ بل 2019 '' ابھی تک منظور نہیں کیا جا سکا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ساتھ کام کرنے والے اور پاکستان میں ریبیز کنٹرول پروگرام کے منیجر ڈاکٹر محمد آفتاب گوہر نے''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت تشویشناک امر ہے کہ پاکستان میں ریبیز وائرس کی شناخت کیلیے لیبارٹری سہولتیں موجود نہیں ہیں۔علاوہ ازیں میڈیا سے گفتگو میں وزیر اعظم کے مشیر برائے صحت ظفر مرزا نے کہا ہے کہ ملک بھر میں کتے کے کاٹے کی ویکسین موجود ہے اور حکومت اس جانب مکمل توجہ کیے ہوئے ہے ۔
اسپتالوں میں مریضوں میں موجودعلامات کی بنیاد پر ریبیز کا علاج کیا جارہا ہے جبکہ پاگل کتے کے کاٹے کے علاج کیلیے یورپ کی تیار کردہ ویکسین کو دنیا بھر میں سب سے بہتر تصور جبکہ دوسرے نمبر پر بھارت کی تیار کردہ ویکسین کو طبی حلقوں میں موثر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن گزشتہ چند برسوں سے حکومت پاکستان نے سستی ہونے کی بنیاد پر چین سے ویکسین منگوانا شروع کیا ہوا ہے جس پر طبی ماہرین اپنے تحفظات ظاہر کر چکے ہیں۔
کتے کے کاٹے کے مرض''ریبیز'' سے عوام کو آگاہ کرنے کیلیے 28 ستمبر کو ملک بھر میں ''ورلڈ ریبیز ڈے'' منایا جارہا ہے۔علاوہ ازیں پنجاب کے محکمہ پرائمری ہیلتھ نے بھی ایک سرکاری مراسلے میں ریبیز ویکسین پر خرچ ہونے والی خطیر رقم کی بچت کیلیے آوارہ کتوں کو مارنے کی مہم کوسب سے کم خرچ اور فوری طریقہ قرار دیتے ہوئے اسے مزید تیز اور موثر بنانے کیلیے تمام اضلاع کے حکام کو احکام جاری کیے ہیں۔
اس مراسلے میں یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں سرکاری سطح پر ''کتے مار'' مہم غیر موثر ثابت ہونے سے آوارہ کتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب ملکی و غیر ملکی این جی اوز نے حکومت کی''کتے مار پالیسی'' کو غیر فائدہ مند اور بے رحم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا بھر میں آوارہ کتوں کی ویکسینیشن اور ان کی تولیدی صلاحیت ختم کر کے ''ریبز وائرس'' پر قابو پایا گیا ہے۔
مزید برآں کتوں سمیت دیگر جانوروں کے ذریعے پھیلنے والے 33 وبائی امراض کی روک تھام کیلیے تیار کردہ ''پنجاب انیمل ہیلتھ بل 2019 '' ابھی تک منظور نہیں کیا جا سکا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ساتھ کام کرنے والے اور پاکستان میں ریبیز کنٹرول پروگرام کے منیجر ڈاکٹر محمد آفتاب گوہر نے''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت تشویشناک امر ہے کہ پاکستان میں ریبیز وائرس کی شناخت کیلیے لیبارٹری سہولتیں موجود نہیں ہیں۔علاوہ ازیں میڈیا سے گفتگو میں وزیر اعظم کے مشیر برائے صحت ظفر مرزا نے کہا ہے کہ ملک بھر میں کتے کے کاٹے کی ویکسین موجود ہے اور حکومت اس جانب مکمل توجہ کیے ہوئے ہے ۔