عالمی کانفرنس برائے بچوں کی ابتدائی تربیت و نشوونما

پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں کی تقریباً 44 فیصد تعداد ایسی ہے جن کی ابتدائی عمر میں بہتر نشوونما نہیں ہوپاتی

’’پاکستان میں بچوں کی ابتدائی تربیت و نشوونما‘‘ کے موضوع پر دو روزہ کانفرنس منعقد کی گئی۔ (فوٹو: بلاگر)

کراچی سے دو روزہ کانفرنس میں شرکت کےلیے جب میں اسلام آباد روانہ ہوا، تو میرے ذہن میں اس کانفرنس کے حوالے سے وہی خیالات تھے، جو زیادہ تر پاکستان میں ہونے والی کانفرنس کےلیے کسی بھی عام شخص کے ہوتے ہیں، یعنی نشستم، گفتم، برخاستم۔

جب میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد کے گیٹ سے اندر داخل ہورہا تھا، تو اس یونیورسٹی نے مجھے اپنے قدرتی حسن میں پہلے ہی جکڑلیا تھا۔ یونیورسٹی ہاسٹل میں رہائش کےلیے دیئے گئے کمرے، ان کا ماحول، کسی بھی ایک عالمی یونیورسٹی کے ماحول سے کسی قدر مختلف نہیں تھا۔ اور ان گزرے دو دنوں میں علامہ اقبال یونیورسٹی پاکستان میں فروغ تعلیم اور خاص کر بچوں کی ابتدائی تربیت و نشوونما کے موضوع پر جتنا منظم طریقے سے کام کر رہی ہے اس کے بارے میں جان کر نہ صرف خوشی بلکہ فخر محسوس ہوا۔

25 ستمبر کو ہونے والی اس عالمی کانفرنس کا موضوع ''پاکستان میں بچوں کی ابتدائی تربیت و نشوونما'' تھا۔ یہ کانفرنس اپنے انعقاد کی تاریخ کے حساب سے تیسری سالانہ کانفرنس تھی۔ اس سے پہلے اس حوالے سے ملکی سطح پر دو سالانہ کانفرنسز کروائی جاچکی تھیں، لیکن اس موضوع پر عالمی سطح کی پاکستان میں یہ پہلی کانفرنس تھی۔ یہ کانفرنس، پاکستان الائنس فار ارلی چائلڈہوڈ کے زیر انتظام منعقد کی گئی جن میں پاکستانی اداروں کے ساتھ عالمی اداروں کا تعاون بھی شامل تھا۔ اس کانفرنس کی خاص باتوں میں سے ایک خاص بات علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی، وفاقی وزارت برائے تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت اور وفاقی وزارت برائے منصوبہ بندی، ترقی اور اصلاح کا اشتراک بھی تھا۔

پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں کی تقریباً 44 فیصد تعداد ایسی ہے جن کی ابتدائی عمر میں بہتر نشوونما نہیں ہوپاتی۔ اور ان کی دماغی و ذہنی صحت دنیا کے باقی ممالک کے بچوں کے مقابلے میں کافی پیچھے ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی اپنے کئی انٹرویوز میں یہ بات کرچکے ہیں۔ کانفرنس کے منتظمین، مقررین اور ماہرین تعلیم نے پاکستان میں بچوں کی ابتدائی تربیت و نشوونما کے حوالے سے اپنی ریسرچ، ماہرانہ رائے، تجاویز، مشورے اور وہ تمام پالیسی لیول کے موضوعات کا احاطہ کیا، جو اس حوالے سے اہم تھیں۔ اس کانفرنس میں شفقت محمود، وفاقی وزیر برائے تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت، حکومت پاکستان، اعظم سواتی، فیڈرل منسٹر برائے پارلیمانی امور نے خاص طور پر شرکت کی۔


پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25 اے ''تعلیم کے حق کے مطابق''، ''اب یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ 5 سے 16 سال تک کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرے''۔ وفاقی وزیر برائے تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت شفقت محمود نے اس بات کی ضرورت کو نہ صرف محسوس کیا کہ بچوں کی ابتدائی نشوونما و تربیت تو اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی ماں کے بطن میں شروع ہوجاتی ہے، جس میں خصوصاً ماں کی ذہنی اور جسمانی حالت خاص طور پر زیر بحث آتی ہے۔ اب اس بات کو دیکھنے کی ضرورت ہوگی کہ اس کو کس طرح سے ٓائین کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس کانفرنس میں علامہ اقبال یونیورسٹی میں اس حوالے ایک سینٹر کے قیام کے لیے ایم او یو بھی سائن ہوا، جو پاکستان میں بچوں کی ابتدائی تربیت و نشوونما پر تحقیقی کاموں کے ساتھ حکومت کو مشاورت بھی فراہم کرے گا۔

اس کانفرنس کے روح رواں نصرالدین روپانی تھے، جو کہ ایک پرعزم پاکستانی ہیں۔ اپنی کاروباری مصروفیات کی بنا پر امریکا میں رہائش پذیر ہیں لیکن دل پاکستان اور پاکستانیوں کےلیے دھڑکتا ہے۔ اس اہم موضوع پر اگر حکومت پاکستان، پاکستانی اداروں، عالمی اداروں، ماہرین تعلیم، اور یونیورسٹیز کو ایک فورم پر جمع کیا گیا، تو ان سب میں ان کی انتھک محنت، پاکستان سے محبت، خلوص اور عزم شامل ہے۔ روپانی صاحب ایک پرعزم پاکستانی کے طور پر اس مشن کو آگے لے کر چل رہے ہیں۔

ان جیسے کئی پاکستانی پتہ نہیں کہاں کہاں، خاموشی سے اس ملک کےلیے، بنا کسی صلے یا ستائش کے اپنے کاموں میں مصروف عمل ہیں، اور ان کے سامنے آج کا نہیں کل کا پاکستان ہے۔ آئیں ان کے ساتھ کھڑے ہوں، آج کے پاکستان کے ساتھ کل کے پاکستان کےلیے مل کر کام کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story