نمرتا سے نوتن تک
یہ دونوں واقعات کہیں کسی ایک کڑی کا سلسلہ ہیں جس نے سندھ کو کچھ اس طرح جگایا کہ جو بھی یہ کام کریگا۔
کتنے رنگ بکھیرتی، ہنستی، مسکراتی اور چہچہاتی نمرتا، مسکان تو ایسی کہ جیسے جھرنوں سے بہتا پانی، اس کے گالوں پر پڑتے ڈمپل وہ جب باتیں کرتی، چاہے کتنی ہی بے وجہ ہوں مگر سننے کو جی چاہے۔ جب چلتی تو یوں محسوس ہوتا کہ جیسے پائوں زمین پر نہیں۔
کتنی ساری ویڈیوز ہیں اس کی جو اس وقت سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ اس کے جھومنے ناچنے، ہنسنے اور باتیں کرتے رہنے کی۔ نازک ٹہنیوں جیسی تھی۔ جہاں پرندوں کے گھونسلے بنے ہوتے ہیں۔ جہاں پو پھوٹنے پر سورج کی کرنیں ٹھر سی جاتی ہیں اور پتا پتا چمک سا جاتا ہے۔ جہاں چڑیاں چہچاتی ہیں۔ اور ساتھ میں جھیل کی سْریلی، بہتے پانی کی آوازیں کانوں میں سرکتی ہیں۔ زندگی تھی نمرتا بھرپور زندگی۔ اس کا ہر لمحہ، ہر سانس، ٹمٹاتی آنکھیں، گھنی اور گلناروں جیسی زلفیں۔ نمرتا سندھ تھی...سندھ!!! وہ شاہ لطیف کی سْورمی تھی۔ سچل کی وائی کی طرح ''ننگڑا نما ڑ یندا جیویں تیویں پالڑاں'' (ترجمہ: یا رب ان معصوم بچوں کو اپنی امان میں رکھنا)۔
یہ وائی سچل نے بچوں کے لیے کہی، جو بچوں کے معصومیت کا عکس ہے۔ یہ وائی سندھ کی مائیں جب بچوں کو جھولے میں سْلاتی ہیں تو گاتی ہیں۔ وہ مائیں جن کے خواب ہوتے ہیں کہ ان کے بچے جب بڑے ہونگے تو کیسے ہونگے، کیا، بیٹی ہو گی تو کیسی ہو گی، کیا بنے گی وہ ان کو فولاد کی طرح مضبوط دیکھنے کا خواب دیکھتی ہیں وہ ان کی خوشیوں کے لیے دعا کرتی ہیں، منتیں مانگتی ہیں۔ کیسے کیا ہو گا نمرتا نے اپنا انت، آپ گھات یوں ہنستے ہنستے کھیلتے کھیلتے کیسے بھلا کوئی کر سکتا ہے اپنا خاتمہ۔ اور اگر مارا بھی تو کیوں مارا اپنے آپ کو۔ اور اگر کسی اور نے بھی مارا تو کیوں مارا ایسی معصوم مسکان کو، جیسے پورا باغ اجاڑ دیا اور ستم ظریفی تو دیکھیے ہماری حکومت کی، یہ ہے پیپلز پارٹی کی حکومت جس نے اس پورے سانحے پر مٹی ڈال دی۔
اس کی ایف آئی آر تک نہ کاٹی، معاملہ ہی رفع دفع کر دیا۔ بینظیر نہ سہی کوئی اور سہی۔ بھٹو کی نواسی نہ سہی کسی عام معمولی نانا کی نواسی ہی سہی۔ وہ مسلمان نہ سہی ہندو ہی سہی مگر ایک انسان۔ کیا نمرتا سندھ کی بیٹی نہ تھی کہ اس کے قتل کے پندرہ دن بعد بھی ایف آئی آر تک نہ کٹ سکی اور بات آ گئی جوڈیشل کمیشن پر۔ لاڑکانہ کی انتظامیہ اس پورے ماجرے کو گھماتی رہی ہے کبھی الٹا تو کبھی سیدھا، ابھی تک نمرتا کے موبائیل فون کا فورینسک نہ ہو سکا۔ یہ تمام باب کھلنے چاہئیں اور جس طرح پورا سندھ نمرتا کے نام پر اکٹھا ہوا ہے یہ بھی عجیب بات ہے۔
کتنا مختلف ہے سندھ پورے پاکستان سے۔ اگر نمرتا کو ہم تقسیم کرنا بھی چاہیں تو بھی ایسا نہیں ہو رہا۔ وہ ہندو تھی، مسلمان یا سکھ تھی یا پھر مسیح تھی وہ ان تمام مذاہب کی شناخت، ذات پات اور باقی تمام تضادات سے بالاتر ہو گئی۔ وہ مر تو گئی مگر سندھ کے تمام مذاہب کو یکجا کر گئی سندھیوں نے کہا کہ ہم پہلے سندھی ہیں ہم پہلے شاہ، سچل، سامی کے بیانیے کا عکس ہیں اور پھر پاکستانی۔ یہ ہے وہ سندھ جو آیندہ آنیوالے پاکستان کی رہنمائی کرتا ہے اور ہمارے آئین کے آرٹیکل بیس کی پاسداری۔
نمرتا سندھ اور پنجاب کے بارڈر پر بسے شہر میرپور ماتھیلو کی رہنے والی تھی۔ گھوٹکی ضلع سے تعلق تھا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں تھر کے بعد ہندئوں کی اکثریت رہائش پذیر ہے اور سب سے بڑی ہندئوں کی عبادت گاہیں بھی اسی شہر میں ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے تعلق ہے سندھ کے بہت بڑے انسان پرست بھگت کنور رام کا جو میرپور ماتھیلو کے گائوں جروار کے رہنے والے تھے۔ جب وہاں ایک دفعہ مسجد شہید ہوئی تو انھوں نے خود چند ہ اکھٹا کر کے اور سر پر تغاریاں اٹھا کر اس کی مرمت کی۔
وہ روزانہ مٹکے بھرتے اور خود اٹھا کر اور مسافر کی پیاس بجھاتے۔ بھگت کنور رام جب بڑے ہوئے تو پائوں میں گھنگرو پہن کر سندھ کے نگر نگر میں طبلے اور سارنگ کے ساتھ رقص کرتے ہر جگہ بھگتی کرتے اور لوگوں کو انسانیت کا پاٹ پڑھاتے۔ یہ وہ ہی کام کرتے جو کہ صدیوں سے سندھ کے صوفی اور اولیاء کرتے تھے کہ مذہب کا بٹوارہ نہ کرو سب کے مذہب کا احترام کرو اور تعظیم کرو کہ کون صحیح ہے اور کون غلط یہ فیصلہ خدا پر چھوڑ دو۔ بھگت کنور کی آواز میں عجیب درد اور اثر تھا کہ سنتے سنتے آنکھوں میں نمی سی آ جاتی تھی۔ اس کے کئی گیت ہیں جو لکھے گئے اور دھن بنائی گئی۔
عابدہ پروین نے بھی گائے، بھگت کنور پوری رات بھگتی کرتے اور جب صبح پو پھٹتی تو وہ گھنگرو باندھ کر خود رقص کرتے۔ پیروں میں گھنگرو، ہاتھوں میں کڑے، انگلیوں میں انگھوٹھیاں، سر پر لال پگڑی اور لال چولی، کوئل جیسی آواز، جب بھگتی ختم ہوتی تو وہ لوگوں سے پیسے جمع کرتے اور ان پیسوں کو اسی وقت غریبوں میںبانٹتے۔ اس کی آواز میں عجیب درد اور رقت تھی۔ ان کے گیتوں کے ریکارڈ آج بھی موجود ہیں۔
یکم نومبر 1939ء کی صبح سکھر کے نواح میں رْک اسٹیشن پر پچاس سال کی عمر میں بھگت کنور کو مار دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ جب ٹرین رْکی تو باہر نکل کر جہاں سے پانی بھرا وہاں اس نے اپنے قاتل کو پہچانا جو کہ اس کے ساتھ سفر کر رہا تھا اور کہا کہ اگر مجھے مارنے سے تمہارا مسئلا حل ہوتا ہے تو چلائو بندوق اور قاتل نے بھی اسی گلے کو نشانہ بنایا جس گلے کے سوز نے پوری سندھ کو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا۔ پوری سندھ بھگت کنور کے قتل سے اسی طرح غمزدہ ہوئی تھی جس طرح آج نمرتا کے لیے۔ کوئی تفریق نہ تھی کہ بھگت کنور مسلمان تھے یا پھر ہندو۔
میرے والد نے بھگت کنور کی بھگتیاں دیکھیں اور سنیں تھیں اپنے بچپن میں وہ اسقدر سحر میںتھے کہ خود گانا شروع کر دیا۔ میلادوں پر مولود پڑھنا شروع کیے اور پھر خود راگ بھی سیکھا۔ میرے پرانے نوابشاہ کے گھر میں استاد بڑے غلام علی جیسے گائک بھی آتے تھے۔
بنیادی طور پر یہ ایک دکان ہے مذاہب کے نام پر تفریق پھیلانے کی، نفرت پھیلانے کی، اس سے اس کو لڑوانا اور اس کو اس سے لڑوانا یہ وہ ہی دکان ہے جو ہندوستان میں آج کل موڈی نے سجا کر رکھی ہے۔ بہت آسان ہے اس دکان کو چلانا کہ نفرت کی آگ لگائو اور لڑو لڑوائو ۔
گھوٹکی کے پروفیسر نوتن بھی اسی سازش کا شکار ہوئے۔ میں نوتن کو طالبعلمی کے زمانے سے جانتا ہوں، ہم دونوں ایک ہی تنظیم میں تھے۔ وہ کتنا نفیس اور حساس شخص ہے، کتنا انسان پرست اور انسان دوست ہے۔ وہ کیسے کر سکتا ہے ایسا کام مجھے یقین نہ آیا۔ وہ الیکشن میں ورک کرتا تھا پیپلز پارٹی کے لیے۔ مگر پیپلز پارٹی گھوٹکی سے غائب تھی، اس میں اتنی بھی اخلاقی جرات بھی نہ تھی کہ وہ سندھ اسمبلی میں قراداد پیش کرتی۔ ہاں یہ کام مگر پھر بھی غلام مصطفیٰ جتوئی کے بیٹے عارف جتوئی نے کیا۔ سندھ اسمبلی نے قراداد منظور کی گھوٹکی میں مندر ٹوٹنے کی مذمت کی۔
نمرتا کی موت بھی عین گھوٹکی کے دوسرے دن واقع ہوئی۔ یہ دونوں واقعات کہیں کسی ایک کڑی کا سلسلہ ہیں جس نے سندھ کو کچھ اس طرح جگایا کہ جو بھی یہ کام کریگا یعنی مذہب کے نام پر نفرتیں پھیلائے گا اس کو بھٹائی، سچل، کنور رام کے اس دیس میں ناکامی ہی نصیب ہو گی۔
کتنی ساری ویڈیوز ہیں اس کی جو اس وقت سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ اس کے جھومنے ناچنے، ہنسنے اور باتیں کرتے رہنے کی۔ نازک ٹہنیوں جیسی تھی۔ جہاں پرندوں کے گھونسلے بنے ہوتے ہیں۔ جہاں پو پھوٹنے پر سورج کی کرنیں ٹھر سی جاتی ہیں اور پتا پتا چمک سا جاتا ہے۔ جہاں چڑیاں چہچاتی ہیں۔ اور ساتھ میں جھیل کی سْریلی، بہتے پانی کی آوازیں کانوں میں سرکتی ہیں۔ زندگی تھی نمرتا بھرپور زندگی۔ اس کا ہر لمحہ، ہر سانس، ٹمٹاتی آنکھیں، گھنی اور گلناروں جیسی زلفیں۔ نمرتا سندھ تھی...سندھ!!! وہ شاہ لطیف کی سْورمی تھی۔ سچل کی وائی کی طرح ''ننگڑا نما ڑ یندا جیویں تیویں پالڑاں'' (ترجمہ: یا رب ان معصوم بچوں کو اپنی امان میں رکھنا)۔
یہ وائی سچل نے بچوں کے لیے کہی، جو بچوں کے معصومیت کا عکس ہے۔ یہ وائی سندھ کی مائیں جب بچوں کو جھولے میں سْلاتی ہیں تو گاتی ہیں۔ وہ مائیں جن کے خواب ہوتے ہیں کہ ان کے بچے جب بڑے ہونگے تو کیسے ہونگے، کیا، بیٹی ہو گی تو کیسی ہو گی، کیا بنے گی وہ ان کو فولاد کی طرح مضبوط دیکھنے کا خواب دیکھتی ہیں وہ ان کی خوشیوں کے لیے دعا کرتی ہیں، منتیں مانگتی ہیں۔ کیسے کیا ہو گا نمرتا نے اپنا انت، آپ گھات یوں ہنستے ہنستے کھیلتے کھیلتے کیسے بھلا کوئی کر سکتا ہے اپنا خاتمہ۔ اور اگر مارا بھی تو کیوں مارا اپنے آپ کو۔ اور اگر کسی اور نے بھی مارا تو کیوں مارا ایسی معصوم مسکان کو، جیسے پورا باغ اجاڑ دیا اور ستم ظریفی تو دیکھیے ہماری حکومت کی، یہ ہے پیپلز پارٹی کی حکومت جس نے اس پورے سانحے پر مٹی ڈال دی۔
اس کی ایف آئی آر تک نہ کاٹی، معاملہ ہی رفع دفع کر دیا۔ بینظیر نہ سہی کوئی اور سہی۔ بھٹو کی نواسی نہ سہی کسی عام معمولی نانا کی نواسی ہی سہی۔ وہ مسلمان نہ سہی ہندو ہی سہی مگر ایک انسان۔ کیا نمرتا سندھ کی بیٹی نہ تھی کہ اس کے قتل کے پندرہ دن بعد بھی ایف آئی آر تک نہ کٹ سکی اور بات آ گئی جوڈیشل کمیشن پر۔ لاڑکانہ کی انتظامیہ اس پورے ماجرے کو گھماتی رہی ہے کبھی الٹا تو کبھی سیدھا، ابھی تک نمرتا کے موبائیل فون کا فورینسک نہ ہو سکا۔ یہ تمام باب کھلنے چاہئیں اور جس طرح پورا سندھ نمرتا کے نام پر اکٹھا ہوا ہے یہ بھی عجیب بات ہے۔
کتنا مختلف ہے سندھ پورے پاکستان سے۔ اگر نمرتا کو ہم تقسیم کرنا بھی چاہیں تو بھی ایسا نہیں ہو رہا۔ وہ ہندو تھی، مسلمان یا سکھ تھی یا پھر مسیح تھی وہ ان تمام مذاہب کی شناخت، ذات پات اور باقی تمام تضادات سے بالاتر ہو گئی۔ وہ مر تو گئی مگر سندھ کے تمام مذاہب کو یکجا کر گئی سندھیوں نے کہا کہ ہم پہلے سندھی ہیں ہم پہلے شاہ، سچل، سامی کے بیانیے کا عکس ہیں اور پھر پاکستانی۔ یہ ہے وہ سندھ جو آیندہ آنیوالے پاکستان کی رہنمائی کرتا ہے اور ہمارے آئین کے آرٹیکل بیس کی پاسداری۔
نمرتا سندھ اور پنجاب کے بارڈر پر بسے شہر میرپور ماتھیلو کی رہنے والی تھی۔ گھوٹکی ضلع سے تعلق تھا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں تھر کے بعد ہندئوں کی اکثریت رہائش پذیر ہے اور سب سے بڑی ہندئوں کی عبادت گاہیں بھی اسی شہر میں ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے تعلق ہے سندھ کے بہت بڑے انسان پرست بھگت کنور رام کا جو میرپور ماتھیلو کے گائوں جروار کے رہنے والے تھے۔ جب وہاں ایک دفعہ مسجد شہید ہوئی تو انھوں نے خود چند ہ اکھٹا کر کے اور سر پر تغاریاں اٹھا کر اس کی مرمت کی۔
وہ روزانہ مٹکے بھرتے اور خود اٹھا کر اور مسافر کی پیاس بجھاتے۔ بھگت کنور رام جب بڑے ہوئے تو پائوں میں گھنگرو پہن کر سندھ کے نگر نگر میں طبلے اور سارنگ کے ساتھ رقص کرتے ہر جگہ بھگتی کرتے اور لوگوں کو انسانیت کا پاٹ پڑھاتے۔ یہ وہ ہی کام کرتے جو کہ صدیوں سے سندھ کے صوفی اور اولیاء کرتے تھے کہ مذہب کا بٹوارہ نہ کرو سب کے مذہب کا احترام کرو اور تعظیم کرو کہ کون صحیح ہے اور کون غلط یہ فیصلہ خدا پر چھوڑ دو۔ بھگت کنور کی آواز میں عجیب درد اور اثر تھا کہ سنتے سنتے آنکھوں میں نمی سی آ جاتی تھی۔ اس کے کئی گیت ہیں جو لکھے گئے اور دھن بنائی گئی۔
عابدہ پروین نے بھی گائے، بھگت کنور پوری رات بھگتی کرتے اور جب صبح پو پھٹتی تو وہ گھنگرو باندھ کر خود رقص کرتے۔ پیروں میں گھنگرو، ہاتھوں میں کڑے، انگلیوں میں انگھوٹھیاں، سر پر لال پگڑی اور لال چولی، کوئل جیسی آواز، جب بھگتی ختم ہوتی تو وہ لوگوں سے پیسے جمع کرتے اور ان پیسوں کو اسی وقت غریبوں میںبانٹتے۔ اس کی آواز میں عجیب درد اور رقت تھی۔ ان کے گیتوں کے ریکارڈ آج بھی موجود ہیں۔
یکم نومبر 1939ء کی صبح سکھر کے نواح میں رْک اسٹیشن پر پچاس سال کی عمر میں بھگت کنور کو مار دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ جب ٹرین رْکی تو باہر نکل کر جہاں سے پانی بھرا وہاں اس نے اپنے قاتل کو پہچانا جو کہ اس کے ساتھ سفر کر رہا تھا اور کہا کہ اگر مجھے مارنے سے تمہارا مسئلا حل ہوتا ہے تو چلائو بندوق اور قاتل نے بھی اسی گلے کو نشانہ بنایا جس گلے کے سوز نے پوری سندھ کو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا۔ پوری سندھ بھگت کنور کے قتل سے اسی طرح غمزدہ ہوئی تھی جس طرح آج نمرتا کے لیے۔ کوئی تفریق نہ تھی کہ بھگت کنور مسلمان تھے یا پھر ہندو۔
میرے والد نے بھگت کنور کی بھگتیاں دیکھیں اور سنیں تھیں اپنے بچپن میں وہ اسقدر سحر میںتھے کہ خود گانا شروع کر دیا۔ میلادوں پر مولود پڑھنا شروع کیے اور پھر خود راگ بھی سیکھا۔ میرے پرانے نوابشاہ کے گھر میں استاد بڑے غلام علی جیسے گائک بھی آتے تھے۔
بنیادی طور پر یہ ایک دکان ہے مذاہب کے نام پر تفریق پھیلانے کی، نفرت پھیلانے کی، اس سے اس کو لڑوانا اور اس کو اس سے لڑوانا یہ وہ ہی دکان ہے جو ہندوستان میں آج کل موڈی نے سجا کر رکھی ہے۔ بہت آسان ہے اس دکان کو چلانا کہ نفرت کی آگ لگائو اور لڑو لڑوائو ۔
گھوٹکی کے پروفیسر نوتن بھی اسی سازش کا شکار ہوئے۔ میں نوتن کو طالبعلمی کے زمانے سے جانتا ہوں، ہم دونوں ایک ہی تنظیم میں تھے۔ وہ کتنا نفیس اور حساس شخص ہے، کتنا انسان پرست اور انسان دوست ہے۔ وہ کیسے کر سکتا ہے ایسا کام مجھے یقین نہ آیا۔ وہ الیکشن میں ورک کرتا تھا پیپلز پارٹی کے لیے۔ مگر پیپلز پارٹی گھوٹکی سے غائب تھی، اس میں اتنی بھی اخلاقی جرات بھی نہ تھی کہ وہ سندھ اسمبلی میں قراداد پیش کرتی۔ ہاں یہ کام مگر پھر بھی غلام مصطفیٰ جتوئی کے بیٹے عارف جتوئی نے کیا۔ سندھ اسمبلی نے قراداد منظور کی گھوٹکی میں مندر ٹوٹنے کی مذمت کی۔
نمرتا کی موت بھی عین گھوٹکی کے دوسرے دن واقع ہوئی۔ یہ دونوں واقعات کہیں کسی ایک کڑی کا سلسلہ ہیں جس نے سندھ کو کچھ اس طرح جگایا کہ جو بھی یہ کام کریگا یعنی مذہب کے نام پر نفرتیں پھیلائے گا اس کو بھٹائی، سچل، کنور رام کے اس دیس میں ناکامی ہی نصیب ہو گی۔