احتساب کی راہ میں رکاوٹیں
عوام کے مال سے اپنی جیبیں بھرنے والے کرپشن کی تباہ کاریوں کا ادراک ہی نہیں رکھتے۔
دہائیوں سے کرپشن ہمارے ریاستی اداروں میں اس طرح سرائیت کر چکی ہے کہ اس کے خاتمے کے لیے بنائے گئے ادارے بھی اس سے محفوظ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے کرپشن کے خاتمے کو اپنے بنیادی اہداف میں شامل کیا۔کرپشن کے نقصانات سے پاکستانی ریاست، سماجی تانہ بانہ، معیشت اور قومی سلامتی کچھ بھی محفوظ نہیں۔ آج حکومت کو بھی سب سے بڑا چیلنج یہی درپیش ہے۔ گزشتہ حکومت نے بھی یہ مشکل کام کرنے کی کوشش کی لیکن نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
کرپشن، بددیانتی یا مجرمانہ سرگرمیوں کی ایک قسم ہے جس کے مرتکب ایسے افراد یا ادارے ہوتے ہیں جو اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں، اکثر اپنے پست تر یا ذاتی مفادات کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ لیکن کیا کرپشن صرف پاکستان ہی کا مسئلہ ہے؟ انسانی کردار کی کمزوریوں اور حرص و لالچ نے ہر معاشرے اور ملک کو اس مرض میں مبتلا کیا۔ حرص اور لالچ انسان کو صرف اپنے اور اپنے قریبی لوگوں کے مفاد تک محدود کر دیتی ہے چاہے اس کے لیے معاشرے کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جائے، رحم اور خدا ترسی سے اس مرض کا مقابلہ ممکن ہے۔
دنیا کے تمام مذاہب حرص و لالچ کو گناہ قرار دیتے ہیں اور کمزوروں اور ناداروں کی مدد اور انھیں اپنی حاصل کردہ نعمتوں میں شریک کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ لیکن جس معاشرے میں کسی انسان کی قدر اس کے مال جائیداد، لباس، گاڑی وغیرہ کو دیکھ کر کی جاتی ہو تو کئی لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ حق حلال کی کمائی ''مزید'' کی طلب پوری کرنے کے لیے کافی نہیں۔
عوام کے مال سے اپنی جیبیں بھرنے والے کرپشن کی تباہ کاریوں کا ادراک ہی نہیں رکھتے۔ پاکستانی ریاست کی خراب کارکردگی کا بنیادی ترین سبب یہ ہے کہ اسے چلانے والے پاکستان کو ملک نہیں بلکہ دکان سمجھتے ہیں، جہاں انھیں اپنی جیبیں بھرنے، ٹیکس چوری کرنے اور من مرضی کی کھلی چھٹی ہے۔ پاکستان وسائل کے اعتبار سے کوئی غریب ملک نہیں اور سب سے بڑھ کر اس کے عوام اس کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ لیکن اس عوام کے لیے صنعت و زراعت کو فروغ دے کر روزگار کے مواقع پیدا کرنے، انھیں تعلیم فراہم کر کے پیروں پر کھڑا کرنے، انھیں صحت، سر پر چھت فراہم کرنے اور بہتر طرز زندگی دینے کے بجائے، ان مقاصد کے لیے مختص رقوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ لیا جاتا ہے۔
پاکستان میں انسداد بدعنوانی کے لیے سب سے پہلا ادارہ احتساب سیل نومبر 1996 میں نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد کے جاری کردہ احتساب آرڈیننس کے نتیجے میں قائم ہوا۔ اس کے بعد نواز شریف کی حکومت نے اسے احتساب ایکٹ 1997 کی شکل میں نافذ کیا۔ نومبر 1999 میں قومی احتساب آرڈیننس جاری کر کے اس ادارے کو قومی احتساب بیور (نیب) بنا دیا گیا۔ اس کے بعد مشرف حکومت نے سیاست دانوں اور سرکاری عمال کا ''بے رحمانہ'' احتساب کرنے کا دعوی کیا۔
بعد میں آنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے نیب کے ذریعے کرپشن کا خاتمہ کرنے کے بجائے اسے اپنے سیاسی حریفوں کو سبق سکھانے کے لیے استعمال کیا۔ اس حکومتی رویے نے نیب کو بدنام کیا۔ یہاں تک کہ موجودہ پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی اس تاثر کا ذکر کیا۔ چیف جسٹس عدالت کو گمراہ کرنے والوں کو سزائیں دے کر اس عمل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
نیب سے متعلق اسی دیرینہ تاثر کی وجہ سے موجودہ حکومت کو بھی یہ ثابت کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے کہ آیندہ شفاف احتساب کیا جائے گا۔ برسوں سے کرپشن ہمارے نظام کی جڑوں میں اس قدر سرائیت کرگئی ہے کہ اب اس کے مرتکب افراد کا طریقہ واردات اور ذرایع تلاش کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ اپنی ناک کے نیچے ہونے والی کرپشن سے غفلت برتنے والے سزا کے خوف سے اپنی غلطیوں کا اعتراف نہیں کرتے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف مقدمات اس کی واضح مثال ہیں، ان کی کرپشن کے بارے میں سبھی جانتے ہیں لیکن اسے عدالت کے سامنے ثابت کرنے میں کیسی کیسی مشکلات کا سامنا ہوا۔ عدالتوں کے پاس سوائے تاریخیں دینے کے اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ اگر وہ اقتدار سے باہر رہ کر یہ سب کچھ کر سکتے ہیں تو برسر اقتدار ہوتے ہوئے تو ان پر فردِ جرم بھی عائد نہیں ہو سکتی تھی۔ اسی لیے انھیں کسی مجرمانہ عمل کے ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے اخلاقی بنیادوں پر مستعفی ہونے کے لیے مجبور کیا گیا۔
نیب کو اپنے زیر تفتیش ہزاروں مقدمات میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ شواہد کی کمی کی بنا پر بہت سے معاملات پلی بارگین کے ذریعے نمٹا دیے جاتے ہیں۔ ٹیکس چوری کر کے عوام کا حق مارنے والے برائے نام رقم ادا کر کے اپنا دامن صاف کر لیتے ہیں۔ پلی بارگین سے ان کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں اور وہ معزز شہری بن جاتے ہیں۔ بعض مقدمات میں لوگ کرپشن کے ذرایع کی تفصیلات فراہم کر کے عدالت کے سامنے وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں۔ اس کے لیے ان پر قائم مقدمات بھی ختم کر دیے جاتے ہیں یا انھیں انعام کے طور پر ترقی یا بہتز تعیناتی وغیرہ دے دی جاتی ہے۔
اگرچہ ایسے حربوں کا استعمال کبھی کبھی ناگزیر بھی ہو جاتا ہے اور شاید چھوٹے چور کی مدد سے بڑے چور کو گرفت میں لانے کا کوئی جواز بھی فراہم کیا جا سکتا ہو لیکن اس میں کچھ مسائل تو ہیں۔ پہلا مسئلہ تو یہی ہے کہ ایسے چور بہر حال عوام کی نظر میں چور ہی رہتے ہیں۔ حق حلال کی روزی کمانے والے اور ٹیکس دینے والے عوام جنھوں نے کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا ہوتا انھیں یہ بات کیسے سمجھائی جا سکتی ہے کہ کوئی شخص بہ آسانی اپنے جرائم کی سزا سے بچ سکتا ہے۔ مسئلہ اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے جب عدالت میں پلی بارگین کرنے والا شخص ''پاک صاف'' قرار دیا جاتا ہے اور اسے کسی سرکاری محکمے، بیوروکریسی، پارلیمنٹ یا سیاسی جماعتوں میں اہم مناصب اپنے پاس رکھنے کی اجازت بھی دے دی جاتی ہے۔
پاکستان کے عوام احتساب کے عمل پر اسی لیے اعتماد نہیں کرتے۔ کون اس کی توقع کر سکتا ہے کہ قانون کے اندر ہی کسی چور کو معزز بنا دینے کا راستہ موجود ہے؟ ایسے لوگ اداروں اور مناصب کی بے توقیری کا باعث بنتے ہیں اور حکومت پر عوامی اعتماد کو بری طرح مجروح کرتے ہیں۔ اس سے رشوت ستانی کی نئی راہیں کھلتی ہیں اور قومی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس لیے وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کہ قانون کو للکارنے والے سرکاری افسران، منتخب نمائندوں یا دیگر کو کسی قسم کی رعایت نہیں ملنی چاہیے۔ کرپٹ لوگوں کو سرکاری یا سیاسی عہدے دینے سے جمہورت کا چہرہ داغ دار ہوتا ہے۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور
دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
کرپشن، بددیانتی یا مجرمانہ سرگرمیوں کی ایک قسم ہے جس کے مرتکب ایسے افراد یا ادارے ہوتے ہیں جو اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں، اکثر اپنے پست تر یا ذاتی مفادات کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ لیکن کیا کرپشن صرف پاکستان ہی کا مسئلہ ہے؟ انسانی کردار کی کمزوریوں اور حرص و لالچ نے ہر معاشرے اور ملک کو اس مرض میں مبتلا کیا۔ حرص اور لالچ انسان کو صرف اپنے اور اپنے قریبی لوگوں کے مفاد تک محدود کر دیتی ہے چاہے اس کے لیے معاشرے کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جائے، رحم اور خدا ترسی سے اس مرض کا مقابلہ ممکن ہے۔
دنیا کے تمام مذاہب حرص و لالچ کو گناہ قرار دیتے ہیں اور کمزوروں اور ناداروں کی مدد اور انھیں اپنی حاصل کردہ نعمتوں میں شریک کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ لیکن جس معاشرے میں کسی انسان کی قدر اس کے مال جائیداد، لباس، گاڑی وغیرہ کو دیکھ کر کی جاتی ہو تو کئی لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ حق حلال کی کمائی ''مزید'' کی طلب پوری کرنے کے لیے کافی نہیں۔
عوام کے مال سے اپنی جیبیں بھرنے والے کرپشن کی تباہ کاریوں کا ادراک ہی نہیں رکھتے۔ پاکستانی ریاست کی خراب کارکردگی کا بنیادی ترین سبب یہ ہے کہ اسے چلانے والے پاکستان کو ملک نہیں بلکہ دکان سمجھتے ہیں، جہاں انھیں اپنی جیبیں بھرنے، ٹیکس چوری کرنے اور من مرضی کی کھلی چھٹی ہے۔ پاکستان وسائل کے اعتبار سے کوئی غریب ملک نہیں اور سب سے بڑھ کر اس کے عوام اس کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ لیکن اس عوام کے لیے صنعت و زراعت کو فروغ دے کر روزگار کے مواقع پیدا کرنے، انھیں تعلیم فراہم کر کے پیروں پر کھڑا کرنے، انھیں صحت، سر پر چھت فراہم کرنے اور بہتر طرز زندگی دینے کے بجائے، ان مقاصد کے لیے مختص رقوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ لیا جاتا ہے۔
پاکستان میں انسداد بدعنوانی کے لیے سب سے پہلا ادارہ احتساب سیل نومبر 1996 میں نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد کے جاری کردہ احتساب آرڈیننس کے نتیجے میں قائم ہوا۔ اس کے بعد نواز شریف کی حکومت نے اسے احتساب ایکٹ 1997 کی شکل میں نافذ کیا۔ نومبر 1999 میں قومی احتساب آرڈیننس جاری کر کے اس ادارے کو قومی احتساب بیور (نیب) بنا دیا گیا۔ اس کے بعد مشرف حکومت نے سیاست دانوں اور سرکاری عمال کا ''بے رحمانہ'' احتساب کرنے کا دعوی کیا۔
بعد میں آنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے نیب کے ذریعے کرپشن کا خاتمہ کرنے کے بجائے اسے اپنے سیاسی حریفوں کو سبق سکھانے کے لیے استعمال کیا۔ اس حکومتی رویے نے نیب کو بدنام کیا۔ یہاں تک کہ موجودہ پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی اس تاثر کا ذکر کیا۔ چیف جسٹس عدالت کو گمراہ کرنے والوں کو سزائیں دے کر اس عمل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
نیب سے متعلق اسی دیرینہ تاثر کی وجہ سے موجودہ حکومت کو بھی یہ ثابت کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے کہ آیندہ شفاف احتساب کیا جائے گا۔ برسوں سے کرپشن ہمارے نظام کی جڑوں میں اس قدر سرائیت کرگئی ہے کہ اب اس کے مرتکب افراد کا طریقہ واردات اور ذرایع تلاش کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ اپنی ناک کے نیچے ہونے والی کرپشن سے غفلت برتنے والے سزا کے خوف سے اپنی غلطیوں کا اعتراف نہیں کرتے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف مقدمات اس کی واضح مثال ہیں، ان کی کرپشن کے بارے میں سبھی جانتے ہیں لیکن اسے عدالت کے سامنے ثابت کرنے میں کیسی کیسی مشکلات کا سامنا ہوا۔ عدالتوں کے پاس سوائے تاریخیں دینے کے اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ اگر وہ اقتدار سے باہر رہ کر یہ سب کچھ کر سکتے ہیں تو برسر اقتدار ہوتے ہوئے تو ان پر فردِ جرم بھی عائد نہیں ہو سکتی تھی۔ اسی لیے انھیں کسی مجرمانہ عمل کے ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے اخلاقی بنیادوں پر مستعفی ہونے کے لیے مجبور کیا گیا۔
نیب کو اپنے زیر تفتیش ہزاروں مقدمات میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ شواہد کی کمی کی بنا پر بہت سے معاملات پلی بارگین کے ذریعے نمٹا دیے جاتے ہیں۔ ٹیکس چوری کر کے عوام کا حق مارنے والے برائے نام رقم ادا کر کے اپنا دامن صاف کر لیتے ہیں۔ پلی بارگین سے ان کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں اور وہ معزز شہری بن جاتے ہیں۔ بعض مقدمات میں لوگ کرپشن کے ذرایع کی تفصیلات فراہم کر کے عدالت کے سامنے وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں۔ اس کے لیے ان پر قائم مقدمات بھی ختم کر دیے جاتے ہیں یا انھیں انعام کے طور پر ترقی یا بہتز تعیناتی وغیرہ دے دی جاتی ہے۔
اگرچہ ایسے حربوں کا استعمال کبھی کبھی ناگزیر بھی ہو جاتا ہے اور شاید چھوٹے چور کی مدد سے بڑے چور کو گرفت میں لانے کا کوئی جواز بھی فراہم کیا جا سکتا ہو لیکن اس میں کچھ مسائل تو ہیں۔ پہلا مسئلہ تو یہی ہے کہ ایسے چور بہر حال عوام کی نظر میں چور ہی رہتے ہیں۔ حق حلال کی روزی کمانے والے اور ٹیکس دینے والے عوام جنھوں نے کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا ہوتا انھیں یہ بات کیسے سمجھائی جا سکتی ہے کہ کوئی شخص بہ آسانی اپنے جرائم کی سزا سے بچ سکتا ہے۔ مسئلہ اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے جب عدالت میں پلی بارگین کرنے والا شخص ''پاک صاف'' قرار دیا جاتا ہے اور اسے کسی سرکاری محکمے، بیوروکریسی، پارلیمنٹ یا سیاسی جماعتوں میں اہم مناصب اپنے پاس رکھنے کی اجازت بھی دے دی جاتی ہے۔
پاکستان کے عوام احتساب کے عمل پر اسی لیے اعتماد نہیں کرتے۔ کون اس کی توقع کر سکتا ہے کہ قانون کے اندر ہی کسی چور کو معزز بنا دینے کا راستہ موجود ہے؟ ایسے لوگ اداروں اور مناصب کی بے توقیری کا باعث بنتے ہیں اور حکومت پر عوامی اعتماد کو بری طرح مجروح کرتے ہیں۔ اس سے رشوت ستانی کی نئی راہیں کھلتی ہیں اور قومی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس لیے وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کہ قانون کو للکارنے والے سرکاری افسران، منتخب نمائندوں یا دیگر کو کسی قسم کی رعایت نہیں ملنی چاہیے۔ کرپٹ لوگوں کو سرکاری یا سیاسی عہدے دینے سے جمہورت کا چہرہ داغ دار ہوتا ہے۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور
دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)