بچپن میں خودکشی کی ناکام کوشش کی شیخ رشید
گھر والوں نے صفائی کا موقع نہ دیا بلکہ گھر کا کوئی فرد ایسا نہ تھا جس نے 2 ہاتھ مجھ پر نہ چلائے ہوں، شیخ رشید
ہم سب بھائی ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے۔ اس لیے مجھ پر بڑا بوجھ تھا چونکہ تمام معاملات پر بڑے بھائیوں کی نظر ہوتی تھی اس لیے سکول میں کُھل کھیلنے کا موقع نہ ملتا تھا۔
چودہ اگست کو جشن مری ہوتا تھا اس دن بسوں میں بہت بھیڑ ہوتی تھی۔ ایک دفعہ میں بغیر پوچھے یوم آزادی کا جشن دیکھنے مری چلا گیا۔ جب مری پہنچا تو 14 اگست کو ہمیشہ کی طرح بے پناہ رش کی وجہ سے رات کو واپسی پر بس رات دیر گئے ملی۔ چھت پر بیٹھ کر آنا پڑا، گھر رات 2 بجے پہنچا تو سارا گھر منتظر تھا۔ بڑے بھائی شیخ رفیق احمد نے داخل ہوتے ہی مجھے پکڑلیا۔ تختی ان کے ہاتھ لگ گئی مجھے اتنا مارا کہ تختی ٹوٹ گئی۔
گھر کا کوئی آدمی چھڑانے کے لیے نہ آیا بلکہ دکھ اس بات کا تھا کہ والدہ بھی ''مار مار ہور مار'' کہتی رہیں۔ مجھے زندگی میں اتنی مار کبھی نہیں پڑی تھی۔ کسی نے مجھے صفائی کا موقع نہ دیا تھا بلکہ گھر کا کوئی فرد ایسا نہ تھا جس نے 2 ہاتھ مجھ پر نہ چلائے ہوں۔ تمام اہل خانہ نے غصہ مجھ پر اتارا۔ میری جلد بہت نازک تھی، صبح اٹھا تو منہ سوجا ہوا تھا، رات سوتے ہی فیصلہ کرلیا کہ اپنے آپ کو ختم کرلینا ہے۔ یہ زندگی بیکار ہے۔ کسی نے مجھ غریب کو صفائی کا موقع نہ دیا، میرے گھر کے نیچے بھابڑا بازار میں برتنوں کی دکانیں تھیں اور وہاں تانبے کے سکے بھی ہوتے تھے۔ مجھے سکے جمع کرنے کا شوق تھا۔ میں نے صبح اٹھتے ہی تمام سکے بیچ دیئے اور مرنے کے لیے نیلا تھوتھا دہی میں ملا کر کھانے کا فیصلہ کیا۔
محلے میں بشیر گلکٹا کی دکان تھی۔ اس سے کہا کہ نیلا تھوتھا چاہیے۔ مقدار کا مجھے اندازہ نہ تھا۔ اسے شک گزرا۔ اس نے پوچھا کہ کیا کرنا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ سفیدی کروانی ہے اس میں ڈالنا ہے۔ گھر سامنے تھا سفیدی کا نام و نشان نہ تھا۔ اس نے گھر کی طرف دیکھا اتنے میں میرا بھائی پاس سے گزرا اس نے پوچھا کہ کیا گھر والوں نے نیلا تھوتھا منگوایا ہے۔
اس نے جواباً کہا کہ پوچھ کر بتاتا ہوں جب گھر والوں کو پتہ چلا تو وہ بھی گھر سے آگئے اور رات کی مار میں اور اضافہ کیا۔ حالانکہ رات کافی مار پیٹ ہوچکی تھی۔ لیکن اب ذرا کم مارا گیا تاہم میں نے اپنے آپ کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اس لیے میں ہار ماننے والا نہیں تھا۔ دوسرے دن میں نے کمرے کو اندر سے کنڈی لگائی۔ بستر کی چادر کو گلے میں ڈالا اور کرسی پر کھڑے ہوکر پنکھے کے کنڈے پر اپنے آپ کو باندھ دیا۔ ابھی چند ہی سیکنڈ گزرے ہوں گے کہ آنکھوں میں تارے چمکنے لگے میں نے خود ہی چلانا شروع کردیا۔
مجھے آج تک یاد ہے کہ کس طرح محلے میں شور پڑا اور میرے بھائیوں نے دروازہ تو ڑکر مجھے نیچے اتارا۔ اس وقت میری والدہ بال نوچ نوچ کر برا حال کرچکی تھیں اور میں بھی اپنا شوق پورا کرچکا تھا۔ اس وقت ابھی میں ساتویں یا آٹھویں کا طالب علم تھا۔ موت کتنی اذیت ناک ہے اس کا تجربہ میں کرچکا ہوں۔ اس کے بعد گھر والوں نے مجھے کچھ کہا نہ میں نے کبھی مرنے کا سوچا۔
(''فرزند ِپاکستان'' سے اقتباس)
چودہ اگست کو جشن مری ہوتا تھا اس دن بسوں میں بہت بھیڑ ہوتی تھی۔ ایک دفعہ میں بغیر پوچھے یوم آزادی کا جشن دیکھنے مری چلا گیا۔ جب مری پہنچا تو 14 اگست کو ہمیشہ کی طرح بے پناہ رش کی وجہ سے رات کو واپسی پر بس رات دیر گئے ملی۔ چھت پر بیٹھ کر آنا پڑا، گھر رات 2 بجے پہنچا تو سارا گھر منتظر تھا۔ بڑے بھائی شیخ رفیق احمد نے داخل ہوتے ہی مجھے پکڑلیا۔ تختی ان کے ہاتھ لگ گئی مجھے اتنا مارا کہ تختی ٹوٹ گئی۔
گھر کا کوئی آدمی چھڑانے کے لیے نہ آیا بلکہ دکھ اس بات کا تھا کہ والدہ بھی ''مار مار ہور مار'' کہتی رہیں۔ مجھے زندگی میں اتنی مار کبھی نہیں پڑی تھی۔ کسی نے مجھے صفائی کا موقع نہ دیا تھا بلکہ گھر کا کوئی فرد ایسا نہ تھا جس نے 2 ہاتھ مجھ پر نہ چلائے ہوں۔ تمام اہل خانہ نے غصہ مجھ پر اتارا۔ میری جلد بہت نازک تھی، صبح اٹھا تو منہ سوجا ہوا تھا، رات سوتے ہی فیصلہ کرلیا کہ اپنے آپ کو ختم کرلینا ہے۔ یہ زندگی بیکار ہے۔ کسی نے مجھ غریب کو صفائی کا موقع نہ دیا، میرے گھر کے نیچے بھابڑا بازار میں برتنوں کی دکانیں تھیں اور وہاں تانبے کے سکے بھی ہوتے تھے۔ مجھے سکے جمع کرنے کا شوق تھا۔ میں نے صبح اٹھتے ہی تمام سکے بیچ دیئے اور مرنے کے لیے نیلا تھوتھا دہی میں ملا کر کھانے کا فیصلہ کیا۔
محلے میں بشیر گلکٹا کی دکان تھی۔ اس سے کہا کہ نیلا تھوتھا چاہیے۔ مقدار کا مجھے اندازہ نہ تھا۔ اسے شک گزرا۔ اس نے پوچھا کہ کیا کرنا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ سفیدی کروانی ہے اس میں ڈالنا ہے۔ گھر سامنے تھا سفیدی کا نام و نشان نہ تھا۔ اس نے گھر کی طرف دیکھا اتنے میں میرا بھائی پاس سے گزرا اس نے پوچھا کہ کیا گھر والوں نے نیلا تھوتھا منگوایا ہے۔
اس نے جواباً کہا کہ پوچھ کر بتاتا ہوں جب گھر والوں کو پتہ چلا تو وہ بھی گھر سے آگئے اور رات کی مار میں اور اضافہ کیا۔ حالانکہ رات کافی مار پیٹ ہوچکی تھی۔ لیکن اب ذرا کم مارا گیا تاہم میں نے اپنے آپ کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اس لیے میں ہار ماننے والا نہیں تھا۔ دوسرے دن میں نے کمرے کو اندر سے کنڈی لگائی۔ بستر کی چادر کو گلے میں ڈالا اور کرسی پر کھڑے ہوکر پنکھے کے کنڈے پر اپنے آپ کو باندھ دیا۔ ابھی چند ہی سیکنڈ گزرے ہوں گے کہ آنکھوں میں تارے چمکنے لگے میں نے خود ہی چلانا شروع کردیا۔
مجھے آج تک یاد ہے کہ کس طرح محلے میں شور پڑا اور میرے بھائیوں نے دروازہ تو ڑکر مجھے نیچے اتارا۔ اس وقت میری والدہ بال نوچ نوچ کر برا حال کرچکی تھیں اور میں بھی اپنا شوق پورا کرچکا تھا۔ اس وقت ابھی میں ساتویں یا آٹھویں کا طالب علم تھا۔ موت کتنی اذیت ناک ہے اس کا تجربہ میں کرچکا ہوں۔ اس کے بعد گھر والوں نے مجھے کچھ کہا نہ میں نے کبھی مرنے کا سوچا۔
(''فرزند ِپاکستان'' سے اقتباس)