مقبوضہ کشمیر ٹرمپ ثالثی کے لیے قدم بڑھائیں
وقت آ گیا ہے کہ ٹرمپ ثالثی کے بیانات تک محدود رہنے کے بجائے مسئلہ کشمیر پر کردار ادا کریں
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے امریکا کے دورے کے دوران غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عالمی برادری مداخلت کرے، مودی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں چھپانا چاہتا ہے، اس لیے ثالثی سے انکاری ہے۔
اس وقت انتہا پسند آر ایس ایس بھارت پر حکومت کر رہی ہے، مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا وہ بہت تشویش ناک ہے، جانوروں کو بھی 50 دن قید کر دیں تو دنیا ردعمل دیں گے ، بھارت نے80 لاکھ لوگوں کو مقبوضہ وادی میں قید کر دیا ہے، ایسا ہولناک لاک ڈاؤن حالیہ تاریخ میں کہیں نہیں ہوا، مقبوضہ کشمیر کی صورت حال سے دنیا کے بڑے لیڈران کو آگاہ کر دیا ہے، بھارت کشمیریوں سے جو کر رہا ہے کوئی انسانوں سے ایسا کیسے کر سکتا ہے؟ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے نام پر کشمیریوں کو روندا جا رہا ہے۔
ادھر امریکی نیوز چینل سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا مقبوضہ کشمیر کی کشیدہ صورت حال کو سمجھنے سے قاصر ہے، وہاں جو ہو رہا ہے وہ بد سے بدتر ہوتا جائے گا ، یہ انتہائی خطرناک ہے، جب کرفیو ہٹے گا تو وادی کے حالات کھل کر دنیا کے سامنے آ جائیں گے، بھارتی فورسز اور کشمیریوں کے درمیان تصادم ہو گا، مجھے خطرہ ہے کہ بھارتی فورسز کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر کشمیریوں کا قتل عام ہوگا۔
اسے مظلوم کشمیریوں کا بلڈ باتھ قرار دیا جا رہا ہے۔ اگر حالات اس نہج تک پہنچ گئے اور مزید بگڑ گئے تو نہ میرے اور نہ امریکی صدر ہی کے قابو میں آئیں گے۔ انھوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ثالثی کی گئی تو دنیا کو معلوم ہو جائے گا کشمیری حق خودارادیت سے محروم ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں لوگوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وزیر اعظم عمر ان خان کے خطاب کے بعد بھر پور جشن منایا۔ بھارتی فوجیوں کی بھاری تعیناتی کے باوجود عمرا ن خان کی تقریر ختم ہوتے ہی کئی مقامات پر سیکڑوں کشمیری گھروں سے باہر نکل آئے، انھوں نے پٹاخے چلائے اور خوشی سے رقص کیا، انھوں نے پاکستان اور آزادی کے حق میں اور بھارت کے خلاف فلک شگاف نعرے لگائے۔
عوام کے اس جوش و خروش کے بعد قابض انتظامیہ نے لوگوں کو مظاہروں سے روکنے کے لیے سرینگر میں پابندیاں مزید سخت کر دیں۔ مقبوضہ کشمیر میںبھارتی فوج نے ریاستی دہشت گردی کی تازہ کارروائیوں کے دوران گاندر بل اور رام بن کے اضلاع میں مزید 7 کشمیری نوجوان شہید کر دیے۔
اس طرح شہید کیے جانے ولے معصوم کشمیر ی نوجوانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی فوجیوں نے تین کشمیری نوجوانوں کو ضلع گاندر بل کے علاقے نارہ ناگ جب کہ دیگر تین کو جموں خطے میں ضلع رمبان کے علاقے بٹوٹ میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران شہید کیا۔ بھارت کی سب سے زیادہ ظالمانہ کارروائیوں میں بے گناہ کشمیریوں کے گھروں میں کسی نہ کسی بہانے سے چھاپہ مار کر نوجوانوں کو حراست میں لے لینا جن کا بعد میں کوئی سراغ ہی نہیں ملتا کہ انھیں زمین کھا گئی یا آسمان نے نگل لیا۔
بے بس والدین در در کی ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں مگر انھیں اپنے جگر کے ٹکڑوں کا کوئی سراغ نہیں ملتا اور ان کی اپنی زندگی ویران ہو جاتی ہے۔ ایسے نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں مل جاتی ہیں یا وہ تشدد سے زندگی بھر کے لیے معذور ہوجاتے ہیں۔ بھارتی فوج نے ایک مسافر بس کے اغوا کا ڈرامہ رچا کر ضلع گاندربل میں داخلی و خارجی راستوں کو بند کر کے نام نہاد سرچ آپریشن کیا اور چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے گھر گھر تلاشی کے دوران بنیادی انسانی حقوق کی سنگین پامالی کی اور تین نوجوانوں کو شہید کر دیا۔ بھارتی فوجیوں کا طریقہ واردات ہی یہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پابندیوں کے باعث ہفتہ کو مسلسل 55 ویں روز بھی نظام زندگی مفلوج رہا اور دکانیں، کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے بند جب کہ سڑکوں پر ٹریفک کی آمد و رفت معطل رہی۔ مقبوضہ وادی کشمیر اور جموں خطے کے مسلم اکثریتی علاقوں میں موبائل فون، انٹرنیٹ سروسز اور ٹیلی ویژن نشریات مسلسل بند ہیں جس سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ سرکاری اسکولوں کے ساتھ ساتھ نجی تعلیمی ادارے بھی پانچ اگست سے بند ہیں اور اساتذہ تنخواہوں سے محروم ہیں۔ بھارتی قبضے اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف ڈوڈہ، بھدرواہ اور کشتواڑ میں مکمل ہڑتال کی گئی اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف احتجاجی مارچ کرتے ہوئے بھارت سے علاقے میں پابندیاں اور مواصلاتی نظام کی معطلی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کی طرف سے کشمیر کا کیس بھر پور طریقے سے پیش کرنے کے بعد ملائیشیا اور چین نے بھی مظلوم کشمیریوں کے حق میں کلمہ حق بلندکر دیا اور بھارت پر زور دیا کہ مسئلہ کشمیرکو پر امن طور پر حل کرنے کے لیے پاکستان سے مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ چین اور ملائیشیا قبل ازیں بھی کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرچکے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران نہ صرف مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا بلکہ فلسطین سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں اور یورپ میں پھیلے اسلامو فوبیا پر بھی سیر حاصل بات کی اور اسلام کے بارے میں پھیلائے گئے دہشت گردی کے نظریات کی بھرپور نفی کی۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ اہل یورپ کو حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کیا کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر انھوں نے روایتی بے حسی اور منافقت کا مظاہرہ جاری رکھا تو ان کا یہ عمل جنوبی ایشیا کی سلامتی اور بقا کے لیے خطرے کا پیش خیمہ ثابت ہو گا جس کا ذکر وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنی تقریر میں کیا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ثالثی کے بیانات تک محدود رہنے کے بجائے آگے بڑھتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر اپنا کردار ادا کریں۔بھارت کو مجبور کیا جانا چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات کا سلسلہ بحال کرے۔ان مذاکرات میں تنازعہ کشمیر کو اولیت دی جائے ۔اگر تنازعہ کشمیر پر امریکا اپنا کردار ادا کرے تو اسے حل کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔تنازعہ کشمیر حل ہوگیا تو پاک بھارت دیگر تنازعات خود بخود حل ہوجائیں گے اور جنوبی ایشیا تعمیر وترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔
اس وقت انتہا پسند آر ایس ایس بھارت پر حکومت کر رہی ہے، مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا وہ بہت تشویش ناک ہے، جانوروں کو بھی 50 دن قید کر دیں تو دنیا ردعمل دیں گے ، بھارت نے80 لاکھ لوگوں کو مقبوضہ وادی میں قید کر دیا ہے، ایسا ہولناک لاک ڈاؤن حالیہ تاریخ میں کہیں نہیں ہوا، مقبوضہ کشمیر کی صورت حال سے دنیا کے بڑے لیڈران کو آگاہ کر دیا ہے، بھارت کشمیریوں سے جو کر رہا ہے کوئی انسانوں سے ایسا کیسے کر سکتا ہے؟ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے نام پر کشمیریوں کو روندا جا رہا ہے۔
ادھر امریکی نیوز چینل سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا مقبوضہ کشمیر کی کشیدہ صورت حال کو سمجھنے سے قاصر ہے، وہاں جو ہو رہا ہے وہ بد سے بدتر ہوتا جائے گا ، یہ انتہائی خطرناک ہے، جب کرفیو ہٹے گا تو وادی کے حالات کھل کر دنیا کے سامنے آ جائیں گے، بھارتی فورسز اور کشمیریوں کے درمیان تصادم ہو گا، مجھے خطرہ ہے کہ بھارتی فورسز کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر کشمیریوں کا قتل عام ہوگا۔
اسے مظلوم کشمیریوں کا بلڈ باتھ قرار دیا جا رہا ہے۔ اگر حالات اس نہج تک پہنچ گئے اور مزید بگڑ گئے تو نہ میرے اور نہ امریکی صدر ہی کے قابو میں آئیں گے۔ انھوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ثالثی کی گئی تو دنیا کو معلوم ہو جائے گا کشمیری حق خودارادیت سے محروم ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں لوگوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وزیر اعظم عمر ان خان کے خطاب کے بعد بھر پور جشن منایا۔ بھارتی فوجیوں کی بھاری تعیناتی کے باوجود عمرا ن خان کی تقریر ختم ہوتے ہی کئی مقامات پر سیکڑوں کشمیری گھروں سے باہر نکل آئے، انھوں نے پٹاخے چلائے اور خوشی سے رقص کیا، انھوں نے پاکستان اور آزادی کے حق میں اور بھارت کے خلاف فلک شگاف نعرے لگائے۔
عوام کے اس جوش و خروش کے بعد قابض انتظامیہ نے لوگوں کو مظاہروں سے روکنے کے لیے سرینگر میں پابندیاں مزید سخت کر دیں۔ مقبوضہ کشمیر میںبھارتی فوج نے ریاستی دہشت گردی کی تازہ کارروائیوں کے دوران گاندر بل اور رام بن کے اضلاع میں مزید 7 کشمیری نوجوان شہید کر دیے۔
اس طرح شہید کیے جانے ولے معصوم کشمیر ی نوجوانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی فوجیوں نے تین کشمیری نوجوانوں کو ضلع گاندر بل کے علاقے نارہ ناگ جب کہ دیگر تین کو جموں خطے میں ضلع رمبان کے علاقے بٹوٹ میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران شہید کیا۔ بھارت کی سب سے زیادہ ظالمانہ کارروائیوں میں بے گناہ کشمیریوں کے گھروں میں کسی نہ کسی بہانے سے چھاپہ مار کر نوجوانوں کو حراست میں لے لینا جن کا بعد میں کوئی سراغ ہی نہیں ملتا کہ انھیں زمین کھا گئی یا آسمان نے نگل لیا۔
بے بس والدین در در کی ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں مگر انھیں اپنے جگر کے ٹکڑوں کا کوئی سراغ نہیں ملتا اور ان کی اپنی زندگی ویران ہو جاتی ہے۔ ایسے نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں مل جاتی ہیں یا وہ تشدد سے زندگی بھر کے لیے معذور ہوجاتے ہیں۔ بھارتی فوج نے ایک مسافر بس کے اغوا کا ڈرامہ رچا کر ضلع گاندربل میں داخلی و خارجی راستوں کو بند کر کے نام نہاد سرچ آپریشن کیا اور چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے گھر گھر تلاشی کے دوران بنیادی انسانی حقوق کی سنگین پامالی کی اور تین نوجوانوں کو شہید کر دیا۔ بھارتی فوجیوں کا طریقہ واردات ہی یہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پابندیوں کے باعث ہفتہ کو مسلسل 55 ویں روز بھی نظام زندگی مفلوج رہا اور دکانیں، کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے بند جب کہ سڑکوں پر ٹریفک کی آمد و رفت معطل رہی۔ مقبوضہ وادی کشمیر اور جموں خطے کے مسلم اکثریتی علاقوں میں موبائل فون، انٹرنیٹ سروسز اور ٹیلی ویژن نشریات مسلسل بند ہیں جس سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ سرکاری اسکولوں کے ساتھ ساتھ نجی تعلیمی ادارے بھی پانچ اگست سے بند ہیں اور اساتذہ تنخواہوں سے محروم ہیں۔ بھارتی قبضے اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف ڈوڈہ، بھدرواہ اور کشتواڑ میں مکمل ہڑتال کی گئی اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف احتجاجی مارچ کرتے ہوئے بھارت سے علاقے میں پابندیاں اور مواصلاتی نظام کی معطلی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کی طرف سے کشمیر کا کیس بھر پور طریقے سے پیش کرنے کے بعد ملائیشیا اور چین نے بھی مظلوم کشمیریوں کے حق میں کلمہ حق بلندکر دیا اور بھارت پر زور دیا کہ مسئلہ کشمیرکو پر امن طور پر حل کرنے کے لیے پاکستان سے مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ چین اور ملائیشیا قبل ازیں بھی کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرچکے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران نہ صرف مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا بلکہ فلسطین سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں اور یورپ میں پھیلے اسلامو فوبیا پر بھی سیر حاصل بات کی اور اسلام کے بارے میں پھیلائے گئے دہشت گردی کے نظریات کی بھرپور نفی کی۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ اہل یورپ کو حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کیا کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر انھوں نے روایتی بے حسی اور منافقت کا مظاہرہ جاری رکھا تو ان کا یہ عمل جنوبی ایشیا کی سلامتی اور بقا کے لیے خطرے کا پیش خیمہ ثابت ہو گا جس کا ذکر وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنی تقریر میں کیا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ثالثی کے بیانات تک محدود رہنے کے بجائے آگے بڑھتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر اپنا کردار ادا کریں۔بھارت کو مجبور کیا جانا چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات کا سلسلہ بحال کرے۔ان مذاکرات میں تنازعہ کشمیر کو اولیت دی جائے ۔اگر تنازعہ کشمیر پر امریکا اپنا کردار ادا کرے تو اسے حل کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔تنازعہ کشمیر حل ہوگیا تو پاک بھارت دیگر تنازعات خود بخود حل ہوجائیں گے اور جنوبی ایشیا تعمیر وترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔