کراچی شوہر کی وفات پر باہمت خاتون سڑک کنارے کھانا فروخت کرنے لگی
شوہر سڑک حادثے کا شکار ہوئے علاج پر تمام جمع پونجی لگ گئی لیکن وہ جانبر نہ ہوئے تو گھر کی کفالت کیلیے یہ کام شروع کیا
شہر قائد کی رہائشی خاتون نے شوہر کی وفات کے بعد بچوں کی کفالت کی ذمہ داری نبھانے کے لیے سڑک کنارے گھر کا پکا کھانا فروخت کرنا شروع کردیا، خاتون کا کہنا ہے کہ خواتین گھر میں بنے کھانے فروخت کرکے غربت اور مہنگائی سے مقابلہ کرسکتی ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق گلستان جوہر کی رہائشی خاتون نے اپنے بچوں کی تعلیم اور گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے سڑک کنارے اوپن ایئر ہوٹل بنالیا۔ گھر کے پکے ہوئے صاف ستھرے اور ذائقے دار کھانے کھانے کے لیے شہری دور دور سے کھنچے چلے آرہے ہیں۔ اوپن ایئر ہوٹل چلانے والی سلمی زبیر 12 افراد پر مشتمل کنبے کی سربراہ ہیں جنہوں نے مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے کھانے پکانے کی صلاحیت کو روزگار کا ذریعہ بنالیا ہے۔
یونیورسٹی روڈ پر سماما شاپنگ سینٹر کے سروس روڈ پر 11 بجے دن سلمی زبیر ایک چھوٹے تخت پر گھر سے تیار کردہ کھانوں کے برتن سجانا شروع کردیتی ہیں، ہوٹل کھلتے ہیں ہی گاہکوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، گاہکوں میں زیادہ تر کم آمدن طبقہ سے تعلق رکھنے والے یومیہ اجرت کمانے والے افراد شامل ہیں۔ علاوہ ازیں صفائی ستھرائی اور سلیقے سے کھانے پیش کرنے کے انداز پر کاروباری افراد اور ملازمت پیشہ افراد بھی ان کے کھانے شوق سے کھاتے ہیں۔
سلمی زبیر کے مطابق وہ روزانہ 16 کے قریب کھانے تیار کرکے فروخت کرتی ہیں تمام کھانے گھر پر صبح سویرے تیار کیے جاتے ہیں اور ان کے کھانوں کی مقبولیت کی وجہ بھی تازہ اور صاف ہونا ہے۔ سلمی زبیر پانچ بیٹوں پر مشتمل 12 افراد کے کنبے کی سربراہ ہیں جن میں دو شادی شدہ بیٹے و بہوئیں، پوتے پوتیاں اور تین زیر تعلیم بیٹے بھی شامل ہیں۔
شوہر ٹریفک حادثے کا شکار ہوئے تو کفالت کا بوجھ اٹھایا
سلمی زبیر پر اس ذمہ داری کا بوجھ تین سال قبل اس وقت پڑا جب ان کے شوہر ایک سڑک حادثے کا شکار ہوگئے انہیں کئی دنوں تک شہر کے مہنگے ترین ہسپتال میں زیر علاج رکھا گیا۔ سلمی زبیر کے مطابق انہوں نے ایک دن میں دو لاکھ روپے تک کا بل ادا کیا جس پر گھر کی تمام جمع پونجی ختم ہوگئی اور شوہر جو ایکسڈنٹ کے باعث بے ہوش تھے اسی حالت میں خالق حقیقی سے جا ملے، خاندان کی کفالت کا بوجھ ان کے کاندھوں پر آگیا۔
خاتون کے مطابق ایک بڑے لڑکے کی شادی شوہر کی زندگی میں کردی تھی جو اپنے اخراجات خود اٹھانے لگا دوسرے بیٹے کی شادی کی ذمہ داری خود سلمی زبیر نے ادا کی دونوں بہوئیں بھی کھانا تیار کرنے میں ان کی مدد کرتی ہیں۔
صرف تین ہزار روپے سے یہ کام شروع کیا
سلمی زبیر نے ایکسپریس کو بتایا کہ وہ اپنے تین چھوٹے بیٹوں کی تعلیم کا خرچ اور گھریلو اخراجات پورا کرنے کے لیے کھانے فروخت کررہی ہیں یہ سلسلہ ڈیڑھ سال سے جاری ہے۔ تینوں لڑکے تعلیم مکمل کرکے روزگار پر لگ جائیں تو پھر یہ سلسلہ جاری رکھنے کا ارادہ نہیں۔ سلمی زبیر نے بتایا کہ انہوں نے یہ کام تین ہزار روپے سے شروع کیا ان کے پاس اتنی ہی رقم بچی تھی جس سے کھانے گھر سے اوپن ایئر ہوٹل تک لانے کے لیے پلاسٹک کے بڑے ڈبے، پتیلے، پلیٹیں، پانی کا کولر اور ایک تخت خریدا یہ رقم بھی انہیں ایک سال تک سرکاری انجینئرنگ یونیورسٹی کے کینٹین میں ملازمت کے دوران حاصل ہوئی۔
ابتدا میں دال چاول تھے اب 16 کھانے فروخت کرتی ہوں
خاتون نے ابتداء میں دال چاول اور نسبتاً سستے کھانوں سے آغاز کیا اور اب 16 طرح کے کھانوں کی پوری رینج تیار ہوتی ہے جن میں پیر کے روز پائے بھی شامل ہوتے ہیں۔ عام دنوں میں دال چاول، سبزی، بریانی، پلاﺅ، چکن اور بیف کے سالن فروخت کرتی ہیں جبکہ میٹھے میں زردہ کے چاول بھی مینو میں شامل ہوتے ہیں۔
کھانے کی قیمت 60 روپے سے 140 روپے تک ہوتی ہے اور ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کھانا کھاتے اور تعریف کرتے ہیں ہفتہ کے روز دفاتر اور جامعا ت میں حاضری کم ہونے کی وجہ سے کھانے کی مقدار کم رکھتی ہیں ہفتہ کو ڈیڑھ بجے تک کھانا ختم ہوجاتاہے جبکہ عام دنوں میں تین بجے تک کھانا فروخت ہوتا ہے جو لوگ کھانے کی قیمت ادا کرنے کی گنجائش نہیں رکھتے وہ بھی سلمی زبیر کے اوپن ایئر ہوٹل سے اپنی بھوک مٹاتے ہیں۔
غریب آجائے تو اسے آدھی قیمت پر کھانا دیتی ہوں
سلمی زبیر کے گاہک ان کے شفیق انداز کی وجہ سے ان کی بے حد عزت کرتے ہیں اور انہیں اماں یا آنٹی کہہ کر پکارتے ہیں۔ سلمی زبیر کا کہنا ہے کہ شوہر کی وفات کے بعد بچوں کی ذمہ داریوں میں انہیں غریب طبقہ اور بے روزگار افراد کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہوا اس لیے کوشش کرتی ہوں کہ کوئی بھی فرد بھوکا نہ رہے اس لیے غریب افراد کو آدھی قیمت پر کھانا فراہم کرتی ہیں۔ یومیہ 150 سے 200 روٹیاں فروخت ہوجاتی ہیں جو گھر پر تیار کی جاتی ہیں اسی طرح پانچ کلو سے زائد چاول بھی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتے ہیں۔
بچے تعلیم مکمل کرکے برسر روزگار ہوجائیں تو یہ کام چھوڑ دوں گی
سلمی زبیر کہتی ہیں کہ بچے تعلیم مکمل کرکے برسرروزگار ہوجائیں تو اس کام کی ضرورت نہیں رہے گی لیکن ان کے گاہک اور گزرنے والے افراد ان کی بہت حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ وہ خود بھی دیگر خواتین کو سکھانے کے لیے تیار رہتی ہیں کہ کس طرح اپنا روزگار حاصل کیا جائے۔
خاتون کا کہنا ہے کہ جو خواتین گھروں پر بیٹھی ہیں غربت یا وسائل کی کمی کا شکار ہیں وہ اگر دال چاول بناکر بھی فروخت کریں تو خوب فروخت ہوگا کیونکہ ہر شخص گھر کے بنے صاف ستھرے کھانوں کو ترجیح دیتا ہے۔ سلمی زبیر کے مطابق ان کے پاس ایسے بہت سے لوگ آتے ہیں جو ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن میں ان کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ محنت کے ساتھ عزت کی روزی مل رہی ہے جو کافی ہے۔
میری مدد کے خواہشمند کسی مستحق کی مدد کریں
سلمی زبیر کہتی ہیں کہ جو لوگ میری مدد کرنے کی پیش کش کرتے ہیں تو میں انہیں کہتی ہوں کہ اپنے اردگرد ایسے ضرورت مند خاندانوں کو تلاش کریں جو وسائل کی کمی کا شکار ہوں، انہیں کھانے پکا کر اسی طرح فروخت کرنے کے لیے وسائل مہیا کریں اور میں خود بھی ایسی خواتین کو سکھانے کے لیے تیار ہوں حال ہی میں کچھ لوگوں نے ان سے رابطہ کرکے خواتین کی منظم انداز میں مدد کرنے اور انہیں کھانے فروخت کرکے روزگار کا ذریعہ بنانے کے لیے چلتی پھرتی کینٹین بناکر دینے کی پیشکش کی ہے، اگر شہر کے کسی حصے میں کوئی بھی خاتون اس پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہوں تو وہ ان سے رجوع کریں۔
معاشرے میں محنت کرکے کمانے والوں کی عزت ہے
سلمی زبیر کا خواتین کے لیے پیغام ہے کہ اپنے مسائل کو اپنی کمزوری نہ بننے دیں، معاشرہ میں محنت کرکے کمانے والوں کی عزت ہے۔ ان کے گاہک ان کی ہمت کی تعریف کرتے ہیں اور عزت بھی ملتی ہے اس لیے جو خواتین اپنے خاندانوں کی کفالت میں ہاتھ بٹانا چاہتی ہیں وہ گھر میں کھانے پکاکر فروخت کریں اور کچھ نہ ہوتو دال چاول پکاکر فروخت کرنا شروع کردیں۔
خواتین کے لیے ان کا مشورہ ہے کہ کسی بھی حالت میں ہمت نہیں ہارنی چاہیے انسانی عزم اور ہمت سے زیادہ کوئی جذبہ طاقتور نہیں ہوتا، سلمی زبیر ایسی تمام خواتین کی مدد اور انہیں سکھانے کے لیے تیار ہیں کہ کس طرح کھانے تیار اور پیک کیے جائیں اور کس طرح عارضی دکان لگاکر فروخت کی جائے۔
خاتون چھوٹے پیمانے کی تقریب کیلیے بھی کھانا بناتی ہیں
سلمی زبیر آرڈر پر بھی کھانے تیار کرتی ہیں ان کے گاہک شہر بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ان کے پاس زیادہ سے زیادہ 50 سے 60 افراد کے لیے کھانا پکانے کا انتظام ہے اس لیے چھوٹی تقاریب کے لیے کھانے تیار کرتی ہیں۔ جو خاندان ایک مرتبہ ان سے کھانا تیار کرواتا ہے ان کے جاننے والے اور دیگر اقارب بھی ان سے کھانا تیار کرواتے ہیں جس سے اضافی آمدن ہوتی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق گلستان جوہر کی رہائشی خاتون نے اپنے بچوں کی تعلیم اور گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے سڑک کنارے اوپن ایئر ہوٹل بنالیا۔ گھر کے پکے ہوئے صاف ستھرے اور ذائقے دار کھانے کھانے کے لیے شہری دور دور سے کھنچے چلے آرہے ہیں۔ اوپن ایئر ہوٹل چلانے والی سلمی زبیر 12 افراد پر مشتمل کنبے کی سربراہ ہیں جنہوں نے مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے کھانے پکانے کی صلاحیت کو روزگار کا ذریعہ بنالیا ہے۔
یونیورسٹی روڈ پر سماما شاپنگ سینٹر کے سروس روڈ پر 11 بجے دن سلمی زبیر ایک چھوٹے تخت پر گھر سے تیار کردہ کھانوں کے برتن سجانا شروع کردیتی ہیں، ہوٹل کھلتے ہیں ہی گاہکوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، گاہکوں میں زیادہ تر کم آمدن طبقہ سے تعلق رکھنے والے یومیہ اجرت کمانے والے افراد شامل ہیں۔ علاوہ ازیں صفائی ستھرائی اور سلیقے سے کھانے پیش کرنے کے انداز پر کاروباری افراد اور ملازمت پیشہ افراد بھی ان کے کھانے شوق سے کھاتے ہیں۔
سلمی زبیر کے مطابق وہ روزانہ 16 کے قریب کھانے تیار کرکے فروخت کرتی ہیں تمام کھانے گھر پر صبح سویرے تیار کیے جاتے ہیں اور ان کے کھانوں کی مقبولیت کی وجہ بھی تازہ اور صاف ہونا ہے۔ سلمی زبیر پانچ بیٹوں پر مشتمل 12 افراد کے کنبے کی سربراہ ہیں جن میں دو شادی شدہ بیٹے و بہوئیں، پوتے پوتیاں اور تین زیر تعلیم بیٹے بھی شامل ہیں۔
شوہر ٹریفک حادثے کا شکار ہوئے تو کفالت کا بوجھ اٹھایا
سلمی زبیر پر اس ذمہ داری کا بوجھ تین سال قبل اس وقت پڑا جب ان کے شوہر ایک سڑک حادثے کا شکار ہوگئے انہیں کئی دنوں تک شہر کے مہنگے ترین ہسپتال میں زیر علاج رکھا گیا۔ سلمی زبیر کے مطابق انہوں نے ایک دن میں دو لاکھ روپے تک کا بل ادا کیا جس پر گھر کی تمام جمع پونجی ختم ہوگئی اور شوہر جو ایکسڈنٹ کے باعث بے ہوش تھے اسی حالت میں خالق حقیقی سے جا ملے، خاندان کی کفالت کا بوجھ ان کے کاندھوں پر آگیا۔
خاتون کے مطابق ایک بڑے لڑکے کی شادی شوہر کی زندگی میں کردی تھی جو اپنے اخراجات خود اٹھانے لگا دوسرے بیٹے کی شادی کی ذمہ داری خود سلمی زبیر نے ادا کی دونوں بہوئیں بھی کھانا تیار کرنے میں ان کی مدد کرتی ہیں۔
صرف تین ہزار روپے سے یہ کام شروع کیا
سلمی زبیر نے ایکسپریس کو بتایا کہ وہ اپنے تین چھوٹے بیٹوں کی تعلیم کا خرچ اور گھریلو اخراجات پورا کرنے کے لیے کھانے فروخت کررہی ہیں یہ سلسلہ ڈیڑھ سال سے جاری ہے۔ تینوں لڑکے تعلیم مکمل کرکے روزگار پر لگ جائیں تو پھر یہ سلسلہ جاری رکھنے کا ارادہ نہیں۔ سلمی زبیر نے بتایا کہ انہوں نے یہ کام تین ہزار روپے سے شروع کیا ان کے پاس اتنی ہی رقم بچی تھی جس سے کھانے گھر سے اوپن ایئر ہوٹل تک لانے کے لیے پلاسٹک کے بڑے ڈبے، پتیلے، پلیٹیں، پانی کا کولر اور ایک تخت خریدا یہ رقم بھی انہیں ایک سال تک سرکاری انجینئرنگ یونیورسٹی کے کینٹین میں ملازمت کے دوران حاصل ہوئی۔
ابتدا میں دال چاول تھے اب 16 کھانے فروخت کرتی ہوں
خاتون نے ابتداء میں دال چاول اور نسبتاً سستے کھانوں سے آغاز کیا اور اب 16 طرح کے کھانوں کی پوری رینج تیار ہوتی ہے جن میں پیر کے روز پائے بھی شامل ہوتے ہیں۔ عام دنوں میں دال چاول، سبزی، بریانی، پلاﺅ، چکن اور بیف کے سالن فروخت کرتی ہیں جبکہ میٹھے میں زردہ کے چاول بھی مینو میں شامل ہوتے ہیں۔
کھانے کی قیمت 60 روپے سے 140 روپے تک ہوتی ہے اور ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کھانا کھاتے اور تعریف کرتے ہیں ہفتہ کے روز دفاتر اور جامعا ت میں حاضری کم ہونے کی وجہ سے کھانے کی مقدار کم رکھتی ہیں ہفتہ کو ڈیڑھ بجے تک کھانا ختم ہوجاتاہے جبکہ عام دنوں میں تین بجے تک کھانا فروخت ہوتا ہے جو لوگ کھانے کی قیمت ادا کرنے کی گنجائش نہیں رکھتے وہ بھی سلمی زبیر کے اوپن ایئر ہوٹل سے اپنی بھوک مٹاتے ہیں۔
غریب آجائے تو اسے آدھی قیمت پر کھانا دیتی ہوں
سلمی زبیر کے گاہک ان کے شفیق انداز کی وجہ سے ان کی بے حد عزت کرتے ہیں اور انہیں اماں یا آنٹی کہہ کر پکارتے ہیں۔ سلمی زبیر کا کہنا ہے کہ شوہر کی وفات کے بعد بچوں کی ذمہ داریوں میں انہیں غریب طبقہ اور بے روزگار افراد کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہوا اس لیے کوشش کرتی ہوں کہ کوئی بھی فرد بھوکا نہ رہے اس لیے غریب افراد کو آدھی قیمت پر کھانا فراہم کرتی ہیں۔ یومیہ 150 سے 200 روٹیاں فروخت ہوجاتی ہیں جو گھر پر تیار کی جاتی ہیں اسی طرح پانچ کلو سے زائد چاول بھی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتے ہیں۔
بچے تعلیم مکمل کرکے برسر روزگار ہوجائیں تو یہ کام چھوڑ دوں گی
سلمی زبیر کہتی ہیں کہ بچے تعلیم مکمل کرکے برسرروزگار ہوجائیں تو اس کام کی ضرورت نہیں رہے گی لیکن ان کے گاہک اور گزرنے والے افراد ان کی بہت حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ وہ خود بھی دیگر خواتین کو سکھانے کے لیے تیار رہتی ہیں کہ کس طرح اپنا روزگار حاصل کیا جائے۔
خاتون کا کہنا ہے کہ جو خواتین گھروں پر بیٹھی ہیں غربت یا وسائل کی کمی کا شکار ہیں وہ اگر دال چاول بناکر بھی فروخت کریں تو خوب فروخت ہوگا کیونکہ ہر شخص گھر کے بنے صاف ستھرے کھانوں کو ترجیح دیتا ہے۔ سلمی زبیر کے مطابق ان کے پاس ایسے بہت سے لوگ آتے ہیں جو ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن میں ان کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ محنت کے ساتھ عزت کی روزی مل رہی ہے جو کافی ہے۔
میری مدد کے خواہشمند کسی مستحق کی مدد کریں
سلمی زبیر کہتی ہیں کہ جو لوگ میری مدد کرنے کی پیش کش کرتے ہیں تو میں انہیں کہتی ہوں کہ اپنے اردگرد ایسے ضرورت مند خاندانوں کو تلاش کریں جو وسائل کی کمی کا شکار ہوں، انہیں کھانے پکا کر اسی طرح فروخت کرنے کے لیے وسائل مہیا کریں اور میں خود بھی ایسی خواتین کو سکھانے کے لیے تیار ہوں حال ہی میں کچھ لوگوں نے ان سے رابطہ کرکے خواتین کی منظم انداز میں مدد کرنے اور انہیں کھانے فروخت کرکے روزگار کا ذریعہ بنانے کے لیے چلتی پھرتی کینٹین بناکر دینے کی پیشکش کی ہے، اگر شہر کے کسی حصے میں کوئی بھی خاتون اس پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہوں تو وہ ان سے رجوع کریں۔
معاشرے میں محنت کرکے کمانے والوں کی عزت ہے
سلمی زبیر کا خواتین کے لیے پیغام ہے کہ اپنے مسائل کو اپنی کمزوری نہ بننے دیں، معاشرہ میں محنت کرکے کمانے والوں کی عزت ہے۔ ان کے گاہک ان کی ہمت کی تعریف کرتے ہیں اور عزت بھی ملتی ہے اس لیے جو خواتین اپنے خاندانوں کی کفالت میں ہاتھ بٹانا چاہتی ہیں وہ گھر میں کھانے پکاکر فروخت کریں اور کچھ نہ ہوتو دال چاول پکاکر فروخت کرنا شروع کردیں۔
خواتین کے لیے ان کا مشورہ ہے کہ کسی بھی حالت میں ہمت نہیں ہارنی چاہیے انسانی عزم اور ہمت سے زیادہ کوئی جذبہ طاقتور نہیں ہوتا، سلمی زبیر ایسی تمام خواتین کی مدد اور انہیں سکھانے کے لیے تیار ہیں کہ کس طرح کھانے تیار اور پیک کیے جائیں اور کس طرح عارضی دکان لگاکر فروخت کی جائے۔
خاتون چھوٹے پیمانے کی تقریب کیلیے بھی کھانا بناتی ہیں
سلمی زبیر آرڈر پر بھی کھانے تیار کرتی ہیں ان کے گاہک شہر بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ان کے پاس زیادہ سے زیادہ 50 سے 60 افراد کے لیے کھانا پکانے کا انتظام ہے اس لیے چھوٹی تقاریب کے لیے کھانے تیار کرتی ہیں۔ جو خاندان ایک مرتبہ ان سے کھانا تیار کرواتا ہے ان کے جاننے والے اور دیگر اقارب بھی ان سے کھانا تیار کرواتے ہیں جس سے اضافی آمدن ہوتی ہے۔