بھارت چین جنگ 1962ء اور پاک بھارت جنگ 1965 ء
خود کو عظیم سلطنت کہنے والے انڈیا کو دونوں جنگوں میں شکست ہوئی
(قسط نمبر2)
1492 ء میں یورپی اقوام کی جانب سے امریکہ کی دریافت اور ہندوستان کا نیا بحری راستہ ڈھونڈنے کے بعد تاریخِ انسانی نے قوموں، ملکوں کی جنگوں کے لحاظ سے ایک نئے انداز کا دور دیکھا جسے نوآبادیاتی نظام کا دور کہا جاتا ہے۔ یہ ماضی کی تاریخ کے ہزاروں سال پرانے دیگر ادوار سے یوں مختلف تھا کہ 1492 کے بعد پوری دنیا اپنے مجموعی رقبے کے ساتھ انسان کے سامنے تھی پھر جو یورپی اقوام جدید سائنس و ٹیکنالوجی سے لیس تھیں وہ صنعت و تجارت کو مدنظر رکھتے ہو ئے دنیا کے اُن ممالک پر قبضہ کر رہی تھیں جہاں اُن کو تجارتی طور پر فائدہ تھا۔ وہ اِن ملکوں کے خام مال کو مصنوعات میں تبدیل کرکے اِنہی ملکوں کو منڈیوں کے طور پر استعمال کرتی تھیں۔
یہ نوآباد یاتی نظام اپنی انتہا کو پہلی جنگ عظیم سے ذرا پہلے پہنچ گیا، پھر1914-18میں پہلی عالمی جنگ لڑی گئی جس کے اختتام پر خلافت عثمانیہ ترکی سلطنت ختم ہوگئی، اس سے ایک برس قبل روس میں اشتراکی انقلاب کے بعد زار بادشاہت کی جگہ کیمونسٹ آمریت قائم ہوئی، برطانیہ جو فرانس کی ہم پلہ عالمی قوت تھا اگرچہ فاتح قرار پا کر دنیا کے 25 فیصد رقبے اور24 فیصد آبادی پر حکومت کرنے والا بڑا ملک بن گیا مگر امریکہ کے مقابلے اپنی سپر پاور کی حیثیت کھونے لگا اور امریکہ جسے عظیم فرانسیسی جنرل نپولین نے لاوسیانا Louisana کی ریاست کو 1803 میں فروخت کیا تھا دنیا کی سب سے مضبوط عسکری اور اقتصادی قوت بن گیا۔
اس عالمی منظر نامے میں مفکرین نئے اور ایک دوسرے سے مختلف سیاسی، سماجی، اقتصادی نظریات کے ساتھ پوری دنیا پر اثرانداز ہو چکے تھے اور یہ بھی تلخ حقیقت تھی کہ دنیا پہلی عالمی جنگ کے بعد ہی دوسری عالمی جنگ کی بنیاد رکھ چکی تھی، تو نوآبادیاتی نظام کی حامل اور سرمایہ دارانہ طرزکے معاشی نظام پر یقین رکھنے والی قوتیں اور ممالک اقتصادی، تجارتی، عسکری اور سیاسی بنیادوں پر نئے انداز کے عالمی نظام کا جال تیار کر چکی تھیں، 1945 ء میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر دنیا کی نئی تشکیل تھی تو فرانس اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک جو جنگ کی وجہ سے ملبے کے ڈھیروں پر فوری طور پر اور اپنے اتحادی امریکہ کی مدد سے تعمیر ِنو کے عمل میں مصروف ہو گئے۔
سوویت یونین بھی تعمیر نوکے ساتھ ایک خود مختار قوت کی حیثیت سے اِن قوتوںکے سامنے آیا، اور چین جو برطانیہ، فرانس، جاپان کی اقتصادی تجارتی عسکری جاریت سہہ کر جدوجہد آزادی کرتا موزے تنگ کی سربراہی ہی میں کیمونسٹ انقلاب کے ساتھ 1949 ء میں آزاد ہوا تو یہ بھی اُس وقت ایک خوددار اور خود مختار ملک تھا، دنیا میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے ملک اور رقبے کے لحاظ سے روس اور کینیڈا کے بعد اپنے 9596961 مربع کلومیٹر بڑے رقبے کی بنیاد پر دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ اس بڑے رقبے اور آبادی کے معاشرے کو عظیم لیڈر شپ ماوزے تنگ اور چواین لائی نے دنیا کا سب سے منظم معاشرہ بنا دیا۔
جس پر اگرچہ کیمونسٹ پارٹی لیڈر شپ کے اعتبار سے آمرانہ حکومت رہی لیکن اس کے تحت یکساں اور برابری کی بنیاد پر پورے چین میں زبردست حب الوطنی واضح انداز میں پوری دنیا کے سامنے ہے، 1949 ء میں چین میں کیمونسٹ انقلاب اور ملک کی آزادی کے وقت بھارت اور چین کے درمیان بہت مضبوط اور گہرے دوستانہ تعلقات تھے، بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو بہت ذہین اور شاطر سیاستدان تھے اور وہ پاکستان کے اعتبار سے یہ جانتے تھے کہ قائد اعظم ہی وہ شخصیت تھے جو نہ صرف اُن کا مقابلہ کرتے بلکہ انہیں شکست بھی دیتے رہے، قائد اعظم کی وفات کے بعد انہوں نے پاکستان کو اُس وقت علاقائی سطح پر چین، روس اور افغانستان سے بہتر تعلقات قائم کرکے تنہا کر نے کی قدرے کا میاب کو شش کی تھی۔
جب 1953میں روس کے اسٹالن کی وفات کے بعد روس چین تعلقات کشیدگی اور کھچاؤ کا شکار ہوئے تو دوسری جانب 1946 ء سے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس کے علاوہ اِن میں پانچواں ملک عوامی جمہوریہ چین کی بجائے تائیوان کی بنیاد پر جمہوریہ چین تھا، اگرچہ آج بھی امریکہ کو اپنے اتحادی فرانس اور برطانیہ کی سپورٹ کی وجہ سے سکیورٹی کونسل کے ویٹوپاور کے لحاظ سے تین ووٹوںکی صورت میں 60% حمایت اکثر حاصل ہوتی رہتی ہے مگر اُس وقت یعنی 1946 سے 1971 تک یہ تناسب 80 فیصد تھا کیونکہ چین کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا، نوآبادیاتی دور میں ہندوستان کے ساتھ چین بھی متاثر رہا، جاپان نے بھی یہاں جارحیت کی تو فرانس اور برطانیہ نے بھی، برطانیہ نے انپی مشہور تجارتی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت یہاں افیون کی تجارت کو فروغ دیا تھا،اور چین میںافیون کی تجارت کی بنیادپر دو مشہور جنگیں بھی ہوئیں جن کو افیون وار کہتے ہیں۔
چین کے جنوب اور برصغیر بھارت، نیپال بھوٹان، سکھم ، مینیمارکشمیر، لداخ ، پاکستان میں آزاد کشمیر اور خصوصاً گلگت بلتستان کے شمال میں ہمالیائی علاقے میںتبت واقع ہے جو تاریخی، نسلی اور جغرافیائی اعتبار سے ہزاروں سال سے چین کا حصہ رہا ہے، اس کا رقبہ 1220800 مربع کلو میٹر ہے اور آبادی 3180000 ہے، اِن 31 لاکھ 80 ہزار افراد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سطح سمندر سے انتہائی بلند مقام تبت میں رہتے ہیں جس کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے، یہاں3700 میٹر کی بلندی تک بدھ مت کے ماننے والوں کی عبادت گاہ ہے ، اس کی ایک سرحد نیپال دوسری بھوٹان تیسری اکسائی چین سے بھارت سے اور چوتھی سنکیانگ سے ہوتی پاکستان سے ملتی ہے، واضح رہے کہ پہلے سطح سمندر سے ساڑھے بارہ ہزار فٹ بلندی کو سنولائن کہا جاتا تھا کہ یہاں سال کے با رہ مہینوں میں برف جمی رہتی ہے مگر اب پوری دنیا میں کلائمیٹ چینج اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سنو لائن 4500 میٹر یا 15000 فٹ بلندی کے معیار پر مقرر کر دی گئی ہے۔
اس بلندی پر جنگلات نہیں ہو تے، چینی تبت اور برصغیر کے درمیان برطانوی سیکر ٹری Mc Mahon میک موہن نے ایک سرحدی لائن بنا دی اور معاہدے پر میک موہن اور اس وقت کی تبت کی حکومت کے سربراہ Lonchen Satra لانچین ستارا نے دستخط کئے اور پھرکچھ عرصے بعد 24 مارچ 1914 کو ایک نقشہ جاری کیا جس میں یہ لائن نقشے پر 8 میل فی انچ کے حساب سے 550 میل یعنی 890 کلومیٹر تھی اس کو اگرچہ شروع ہی میں ہندوستان کی جانب سے بھی درج کیا گیا مگر بعد میں 1935 تک دنیا جیسے اِس میک موہن لائن کو بھول گئی اور جب 1935 میں انڈیا میں تعینات ایک انگریز بیوروکریٹ Olaf Caroe الاف کارو نے شملہ میک موہن، لانچین مذاکرات کے مطابق نقشہ جاری کیا تو چین، ہندوستان کو اس پر اعتراضات تھے اور چین کا دعویٰ لداخ پر بھی آگے 65000 مربع کلو میٹر رقبے پر ہے۔
چین کا موقف یہ ہے کہ جب معاہدے کے مطابق یہ میک موہن لائن طے کی گئی اُس وقت تبت کوئی آزاد خود مختار ریاست نہیں تھی، چین کا لداخ کے علاقے پر دعوٰی تھا مگر 1949ء میں اشتراکی انقلاب اور آزادی کے فوراً بعد بھارت کے نہرو اور چینی قیادت موزے تنگ اور چو این لائی کے درمیان تعلقات انتہائی مضبوط اور دوستانہ تھے اس لیے تبت اور لداخ کے مسائل پس پردہ رہے، پنڈت جواہر لال نہرو عالمی صور تحال پر ہمیشہ سے بڑی گہری نظر رکھتے تھے، اُن کا مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ اس لحاظ سے بہت وسیع تھا۔ بھارت اورچین تعلقات کے تناظر میں اُن کی پالیسی وقت کے مطابق تبدیل ہوتی رہی، نہرو نے 19 اکتوبر تا31 اکتوبر 1954ء چین کا دورہ کیا تھا جہاں اُن کا پُرتپا ک استقبال ہوا تھا، نہرو نے اسٹالن کی زندگی میں روس کا دورہ بطور بھارتی وزیر اعظم نہیں کیا بلکہ اسٹا لن کی وفات کے دوسال بعد 7 جون تا 23 جون 1955 میں روس کا دورہ کیا جب چین اور روس میں خلیج بڑھ رہی تھی۔
وزیر اعظم نہرو نے اس کے بعد امریکہ کا دوسرا دورہ 16 تا 20 دسمبر1956 میں کیا تھا اور پھر امریکی صدر 9 دسمبر1959 میں افغانستان گئے اور کابل میں بادشاہ ظاہرشاہ سے ملاقات کے بعد امریکی صدر آئزئن ہاور نے 9 تا 14 دسمبر1959 بھارت کا دورہ کیا، یہی وہ زمانہ ہے جب سوویت یونین کے ساتھ چین کے سرحدی تنازعا ت بھی سامنے آئے تو پنڈت جواہر لال نہرو امریکہ اور روس جیسی بڑی سپر پاور کو خوش کرتے ہو ئے، اس لیے بھارت کو چین کے مقابل لے آئے کہ وہ اِس پورے علاقے میں بھارتی بالا دستی چاہتے تھے۔
اُس وقت عالمی سطح پر چین روس تنازعہ کی وجہ سے چین جو پہلے ہی اقوام متحدہ میں اپنی حیثیت کے مطابق پوزیشن نہ ملنے پر رکنیت سے محروم تھا سوویت یونین کی وجہ سے دنیا کے کیمونسٹ بلاک کے ممالک سے بھی قدرے دور ہو گیا تھا، اور پھر چین میں آبادی کے اضا فے پر کو ئی کنٹرول نہیں تھا اس لیے اندازہ یہ تھا کہ چین مستقبل قریب میں اتنی ترقی نہ کر سکے گا جتنی اُس نے 1980 کی دہائی سے آبادی پر مکمل کنٹرول کر کے حاصل کر لی۔
جب بیرونی طاقتوں کی پشت پناہی سے تبت میں ایک سیاسی بحران پیدا ہوا تو بھارتی حکومت نے بغاوت کے بعد تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کو بھارت میں پناہ دیدی اور ساتھ ہی دونوںملکوں کے درمیان لداخ کے مسئلے پر کشیدگی میں اضافہ ہونے لگا اور یوں تبت کے نزدیک مقبوضہ جموں وکشمیر اور لداخ پر پاکستانی علاقے گلگت بلتستان کے قریب بلند ترین علاقہ بھارت اور چین کے درمیان محاذ جنگ بنا، یہ جنگ 1962 میں 20 اکتوبر سے21 نومبر تک جاری رہی، بھارتی فوج کی جنگ میں تعداد 120000 کے قریب تھی اور اس کے مقابلے میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی تعداد 280000 تھی۔
چینی فوج کے چیف جنرل Luo Ruiqing لُو رُیکینگ اور کمانڈر Zhang Guohua زہانگ گُوہا تھے جب کہ بھارتی آرمی چیف جنرل موہن کاؤل اورجنرل پران ناتھ تھاپار تھے، اِس جنگ میں چین کے 722 فوجی مارے گئے اور 1697 زخمی ہوئے جب کہ اس کے مقابلے میں 1383 بھارتی فوجی ہلاک 1047 زخمی ہوئے اور 1696 فوجی لاپتہ ہوئے اور 3968 بھارتی فوجیوں کو چینی فوج نے جنگی قیدی بنا لیا، لداخ کے علاقے میں چین نے 11754 مربع کلومیٹر علاقہ بھارت سے چھین لیا۔ یوں بھارت کو اس جنگ میں عبرت ناک شکست ہوئی۔ پاکستان نے اس موقع پر بھارت سے جنگ نہیں کی، لیکن یہ واضح ہو گیا تھا کہ بھارت جموں وکشمیر اور لداخ کے علاقے پر پہلی جنگ 1947-48 میں پاکستان سے ہارا اور پھر دوسری مرتبہ لداخ میں اُسے چین سے شکست ہوئی، یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ نہرو ایک زیرک سیاستدان اور خصوصاً امور خارجہ کے ماہر تو ضرور تھے مگر وہ عسکری شعبے میں مقابل کی صلاحیتوں کا ٹھیک سے اندازہ نہیں کر سکتے تھے یا یو ں بھی کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کی فوج بہادری یا فنِ سپاہ گری کے اعتبار سے کمزور واقع ہوئی۔
بھارت چین جنگ کے ٹھیک تین سال بعد 6 ستمبر1965 کو دوسری پاک بھارت جنگ ہوئی جو 17 روز جاری رہی، اس جنگ سے کچھ عرصہ قبل کشمیری مجاہدین نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے خلا ف گوریلا طرز کی جنگ شروع کر دی تھی اور سرد جنگ کے اس دور میں دنیا کے کئی علاقوں میں اس طرح کی حریت پسند تحریکیں جاری تھیں، یہاں بعض حلقو ں کی جانب سے یہ بھی کہا جاتا رہا کہ آپریشن جبرالٹر کی بنیاد پر اس تحریک کو پاکستان کی جانب سے امداد جاری تھی اور صدر جنرل ایوب خان کو یہ یقین تھا یا یقین دلایا گیا تھا کہ اس صورتحال میں بھارت متواتر اور دھیر ے دھیرے کمزور ہو گا، پھر یہ بھی تھا کہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو 1964 میں انتقال کر گئے تھے۔
اس کے بعد لال بہادر شاستری بھارت کے وزیر اعظم بنے جو کمزورشخصیت کے مالک تھے اور عالمی سطح پر جو مقام نہر و کا تھا وہ بہرحال شاستری کا ہرگز نہیں تھا، پھر یہ بھی ہے کہ انڈیا نے 1947 سے 1964 تک سترا برسوں میں جہاں زبردست استحکام حاصل کیا تھا وہاں واقعی اتنی بڑی شخصیت کے چلے جانے کے بعد اُس خلا کو پُر کرنا آسان نہیں تھا مگر اس موقع پر بھارتی فوجی قیادت اور اُن کے دفتر خارجہ نے یہ فیصلہ کیا کہ کشمیر میں سیز فائر لائن کے ساتھ مغربی پاکستان پر ورکنگ باونڈری اور سندھ اور پنجاب کی سرحدوں پر پوری زمینی اور فضائی قوت کے ساتھ حملہ کر دیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ بحری قوت کو متحرک کرتے ہوئے کراچی کو نشانہ بنایا جائے۔
اُس وقت صدر مملکت فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان تھے، تو بھارت نے بھی خصوصی طور پر بھارت کے واحد فائیو اسٹار جنرل فیلڈ مارشل جے این چوہدری کو جو فوج سے ریٹائر ہو چکے تھے سپریم کمانڈر بنایا، دوسرے کمانڈ ورں میں لفٹیننٹ جنرل ہر بنش سنگھ لفٹیننٹ جنرل جوگند ڈلفلان لفٹیننٹ جنرل کشمیر کاٹوج ائیرمارشل ارجن سنگھ الاکھا، ایڈمرل بھاسکارسومان تھے، بھارتی فوجی کی تعداد 700000 تھی اُن کے پاس 700 لڑا کا طیارے 720 ٹینک اور 680 بڑی توپیں تھیں، پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ خان تھے باقی اہم کمانڈروں میں لیفٹننٹ جنرل بختیار رانا، لفٹینٹ جنرل عتیق الرحمن، لیفٹینٹ جنرل اے ایچ مالک، میجر جنرل یحییٰ خان، ائیر مارشل نور خان، وائس ایڈ مرل اے آر خان اور ایس ایم احسان شامل تھے، پاکستانی فوج کی تعداد 260000 تھی، پاکستان کے پاس 280 لڑاکا طیارے، 756 ٹینک اور552 توپیں تھیں۔
اس جنگ میں دونوں جانب سے لڑنے والے فوجی جنرل اور سینئر افسران مقامی تھے یعنی کو ئی انگریز کمانڈر نہیں تھا البتہ یہ ضرور تھا کہ یہ تمام سینئر فوجی افسران وہ تھے جو اگست 1947 سے پہلے برٹش آرمی میں جونیئر افسران کے طور پر ایک ساتھ کام کر چکے تھے اور اب ایک دوسرے کے مقابل تھے۔ بیشتر بھارتی فوجی ایسے بھی تھے جو تقسیم ہند سے قبل پاکستانی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے یا دوران فوجی ملازمت پاکستانی علاقوں میں تعینا ت بھی رہے تھے، یہی صورت بہت سے پاکستانی سینئر فوجی افسران کی تھی یوں بعض بھارتی فوجیوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ حملہ کرتے ہی لاہور کو فتح کر لیں گے اور پھر اس کا جشن لاہور کے جم خانہ میں منائیںگے، یہ فوجی افسران ایک دوسرے سے واقف بھی تھے اور اب ایک دوسرے کے مقابل اپنے اپنے ملکوں کی فوج میں شامل اپنی قومی شناخت کے ساتھ کھڑے تھے۔
یہ جنگ 1947-48 کی پہلی پاک بھارت جنگ سے مختلف تھی، اس میں فتح اور شکست کی ذمہ داری بھی خودہی اٹھانی تھی، اب دونوں ملک مکمل طور پر آزاد ا ورخود مختار تھے، اگرچہ یہ جنگ صرف سترا روز جا ری رہی اور پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی فوج عدد ی اعتبار سے اور اسلحہ اور سامانِ جنگ کے لحا ظ سے کم ازکم تین گنا زیادہ تھی، مگر اللہ کے فضل وکرم سے پاکستان کی افواج نے سندھ، پنجاب سرحد، ورکنگ باونڈری یعنی سیالکوٹ اور کشمیر میں اُس وقت کی سیز فائر لائن اورآج کی کنٹرول لائن پر مجموعی طور پر بھارت سے دو گنی سے زیادہ فتوحات حاصل کیں۔
سیالکوٹ چونڈا کے محاذ پر انڈیا نے اپنے 600 ٹینکوںکے ساتھ حملہ کیا جس کو پاکستانی افواج نے کامیابی سے پسپا کردیا۔ یہ دوسری جنگ عظیم کی نارمنڈی کی ٹینکوں کی لڑائی کے بعد تاریخ کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ تھی، اسی طرح پاکستان کی فضائیہ نے بھارتی فضائیہ کو بالکل ناکام کر دیا اور اور 116 سے زیادہ بھارتی طیارے تباہ کئے، اس کو پوری دنیا نے تسلیم کیا، اس جنگ میں پاکستانی پائیلٹ ایم ایم عالم نے ایک منٹ میں سات طیارے گرانے کا ایسا عالمی ریکارڈ قائم کیا جو اب تک دنیا کا کو ئی اور پائلٹ نہیں تو ڑ سکا۔ اس جنگ میں میجر عزیر بھٹی شہید نے محاذ پر دفاعِ وطن کا ایسا دلیرانہ ریکارڈ قائم کیا جو جنگی تاریخ میں یادگار بن گیا۔ اس عظیم قربانی اور جذبہ شجاعت پر انہیں سب سے بڑا فوجی اعزاز نشانِ حیدر عطا کیا گیا۔
یوں 1965 تک بھارت نے تین جنگیں لڑیں اور شکستیں کھائیں، بدقسمتی سے ہمیں 17 روز بعد جنگ روکنی پڑی کہ اقوام متحدہ نے جنگ بندی کا حکمنامہ جاری کر دیا، اس کے علاوہ یہ بھی تھا کہ امریکہ نے بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کی امداد اور فوجی سازوسامان کی سپلائی روکنے کا اعلان کردیا تھا،اب جہاں تک تعلق بھارت کا تھا تو وہ سوویت اور فرانس سے بھی اسلحہ اور فوجی ساز وسامان لیتا تھا اور اِن ملکوں کی طرف سے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا، یہ پاکستان کے لیے مشکل وقت تھا، ایک دوسرا پہلو یہ بھی تھا کہ اُس وقت پاکستان کی آبادی دس کروڑ اور بھارت کی آبادی تقریباً ساٹھ سے پینسٹھ کروڑ کے درمیان ہو گئی تھی اور اُس زمانے میں اِن دونوں ملکوں میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار بہت ہی کم تھی اور خطرہ تھا کہ برصغیر میں قحط نہ پڑ جا ئے اور اسی سال امریکہ کے سائنسدانوں نے میکسی پاک کے نام سے گندم کا ایک ایسا بیج ایجاد کیا تھا جس سے گندم کی فی ایکڑ پیداوار تین گنا ہو گئی تھی۔
یہ گندم کے بیج بحری جہاز امریکہ سے لے کر بھارت اور پاکستا ن آرہے تھے کہ جنگ کی وجہ سے سمندر میں روک دئیے گئے تھے، یہاں تک بھی اندازے تھے اگر یہ صورتحال ایک دو برس مزید رہتی تو قحط کی وجہ سے بھارت اور پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ افراد کے ہلاک ہونے کے اندیشے تھے، یہ جنگ مغربی پاکستان اور کشمیر میں لڑی گئی اور مشرقی پاکستان کے محاذ نہیں کھولے گئے یعنی بھارت نے اس جنگ کو مشرقی پاکستان کے محاذ پر نہیں لڑا، یوں بھارت نے ایک تاثر یہ دیا کہ اُس کی یہ جنگ صرف مغربی پاکستا ن سے تھی، اگر چہ پاکستان اس جنگ میں مشرقی محاذ سے بھی بالکل بے خبر نہیں تھا مگر جنگ کا مثالی جوش وجذبہ مغربی پاکستان میں کہیں زیادہ تھا۔ اس جنگ میں فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی جیسے بائیں بازو کے ادیب و شاعر بھی بطور پاکستانی پورے جو ش وجذبے سے شامل تھے۔
بچہ بچہ روزانہ اپنے جیب خرچ میں سے ایک پیسہ ضرور دیتا تھا کہ یہ بتایا گیا تھا ایک ٹینک کی قیمت دس لاکھ روپے ہے اور اگر دس کروڑ پاکستانی ایک پیسہ فی کس دیں تو ایک ٹینک خریدا جا سکتا ہے، جوش وجذبے کا یہ عالم تھا کہ پوری قوم محاذ ِجنگ پر لڑنے کے لیے تیار تھی، وہ بچیاں جن کی شادیاں ہونے والی تھیں اور جہیز کے لیے والدین نے زیورات خریدے تھے اُنہوں نے وہ زیور تک قومی دفاعی فنڈ میں دے دئیے۔ پاکستان کے میڈیا نے بھی مثالی کردار ادا کیا، ریڈیو پاکستا ن اور ملک کے واحد پی ٹی وی اسٹیشن لاہور نے ایسا جوش ولولہ پیدا کیا کہ دیدنی تھا، ملکہ ترنم نور جہاں، شہنشاہ غزل مہدی حسن سمیت کئی گلوکاروں نے وہ لازوال قومی نغمات گائے کہ آج بھی وہ کانوںمیں رس گھولتے ہیں۔
1965 کا سال پاکستان اور خصوصاً صدر ایوب خان کے لیے عجیب ثابت ہوا،جنرل ایوب خان نے 28 اکتوبر 1958 میں ملک میں مارشل لا نافذ کر کے اقتدار حاصل کیا تھا جب ملک کے سیاستدان اور اقتدار پر مسلط ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا جیسے بیوروکریٹ خود ناکام ہوکر قوم کو مایوس کر چکے تھے۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل آخری انتخابات دسمبر1945 اور جنوری1946 میں جداگا نہ طرز انتخاب پر ہوئے تھے، اس کے بعد قومی سطح پر عام انتخابات 1970 میں ہوئے، البتہ ایوب خان نے اقتدار میں آنے کے بعد 1962 کا صدارتی آئین متعارف کروایا اور بنیادی جمہوریت کی بنیاد پر انتخابات کرائے۔
جس میں پاکستان کی قومی اور مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں اور صدر کے انتخاب کے لیے مشرقی اور مغربی پاکستان میں کونسلر وں کی سطح پر چالیس چالیس ہزارانتخابی حلقے بنائے گئے تھے، ان پر جو امیدوار انتخاب جیتے تھے وہ بی ڈی ممبر یعنی بنیاد جمہوریت کے منتخب ممبر کہلاتے تھے، یوں پہلے مرحلے میں چالیس چالیس ہزار ممبران مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو منتخب کرتے تھے، پھر یہی اسی ہزار بی ڈی ممبر قومی اسمبلی کے اراکین کا انتخاب کرتے تھے اور آخری مرحلے میں اسی ہزار بی ڈی ممبران صدراتی نظام کی سب سے مضبوط شخصیت یعنی صدر کا انتخاب کرتے اور پھر آئندہ الیکشن تک یہ بی ڈی ممبران آج کے بلدیاتی کونسلروں کی طرح اپنے اپنے وارڈوں میں نالیاں، گلیاں پختہ کرواتے، محلے میں خانگی نوعیت کے جھگڑوں کے فیصلے پنچائیت کے انداز میں طے کرواتے تھے۔ اُس وقت ملک کی آبادی کا تقربیاً چھہتر فیصد حصہ دیہاتوں میں رہتا تھا مگر ایوب خان کی تیز رفتار صنعتی، اقتصادی ترقی کی وجہ سے کراچی ایک بڑے شہر کے طور پر دنیا کے بڑے شہروں میں شمارہونے لگا تھا جبکہ مشرقی پاکستان ڈھاکہ، چٹاگانگ،کھلنا اور مغربی پاکستان میں لاہور، فیصل آباد اور حیدر آباد بھی بڑے شہر ہو گئے تھے۔
یوں 2 جنوری 1965 کو ایوب خان نے ملک میں صدارتی انتخاب کا اعلان کیا اور خود اپنی سیاسی جماعت کنونشنل مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار ہوئے تو مشترکہ حزب اختلاف جن میں پانچ بڑی جماعتیں زیادہ نمایاں تھیں نے اپنا مشترکہ امیدوار قائد اعظم کی چھوٹی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو بنایا، جنرل ایوب خان کی حکومت میں بیوروکریسی قابل بھی تھی اور اس کے پاس آئینی طور پر طاقت اور بہت زیادہ اختیارات بھی تھے، یوں یہ درست ہے کہ اِن انتخابات میں بیوروکریسی اور صوبائی اور وفاقی کابینہ میں شامل وزراء نے ایو ب خان کے حق میں اپنا اثرورسوخ استعمال کیا، ایوب خان نے 62.43% ووٹ حاصل کئے اور محترمہ فاطمہ جناح کو 35.86% ووٹ ملے، یوں اسی ہزار بی ڈی ممبران میں سے ایوب خان کے 449951 بی ڈی ممبراور محترمہ فاطمہ جناح کے 28691 ممبر کامیاب ہوئے لیکن اپوزیشن کی جانب سے صدرایوب خان پر خصوصاً مشرقی پاکستان اور کراچی کے حوالے سے دھاندلی کے الزامات عائد کئے گئے اور احتجاج بھی کیا گیا مگر یہ احتجاج اتنا کارگر ثابت نہ ہوا اورایوب خان کو ملکی اور عالمی سطح پر مقبول منتخب صدر کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا، اور پھر1965 کی جنگ کے شروع ہوتے ہی جب انہوں نے قوم سے خطاب کیا توپوری قوم اُن کے ساتھ کھڑی تھی۔
جنگ کے خاتمے پر پاکستان کے عوام اس جنگ کے جیتنے پر خوشیاں منا رہے تھے کہ جنوری1966 میں اقوام متحدہ امریکہ اور سوویت یونین کے مشترکہ اور شدید دباؤ کے تحت پاکستان کو اُس وقت کی سوویت یونین کے ازبکستان کی ریاست کے شہر تاشقند میں 4 جنوری تا10 جنوری1966 مذاکرات کرنا پڑے۔ پاکستا ن کی جانب سے صدر ایوب خا ن اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور بھارت کی جانب سے وزیراعظم لال بہادر شاستری اور وزیرخارجہ سردار سورن سنگھ نے شرکت کی۔ جب کہ سہو لت کار یا ثالث کے طور پر روسی وزیراعظم Alexei Kosygin الیسی کوسجن تھے۔
اس تاشقند اعلانیے میں یہ کہا گیا کہ دونوں ملکوں کی فوجیں اگست 1965 کے امن کے مقامات پر واپس جائیں ۔کشمیر میں بھی فوجیں 1949 ء میں اقوام متحد ہ کی طے کردہ سیز فائر لائن یعنی جنگ بندی لائن پر واپس ہو جائیں اور یہ عمل 25 فروری 1966 تک ہر صورت میں مکمل کر لیا جائے،اس تاشقند معاہدہ میں یہ بھی کہا گیا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اندرونی معاملا ت میں مداخلت نہیں کریں گے، فوری طور پر آپس کے اقتصادی اور سفارتی تعلقات بحال کریں گے، مگر اس معاہدہ میں کشمیر میں گوریلا جنگ نہ کرنے یا آپس میں یعنی پاکستان اور بھات میں جنگ نہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں تھا، اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد رات کو بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی موت پُراسرا رانداز میں ہوئی، ویسے تو سرکاری طور پر یہ کہا گیا کہ اُن کی موت ہارٹ ایٹک کی وجہ سے ہو ئی مگر ساتھ ہی میڈیا نے یہ بھی کہا کہ اُن کو زہر دیا گیا تھا۔ بھارتی سرکار نے اِن رپورٹوں پر سرکاری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ جب کہ میڈیا میں یہ تبصرے ہوئے کہ بھارت نے اس لیے خاموشی اختیار کی کہ اس طرح عالمی سطح پر بھارت کے اقوام متحدہ سمیت امریکہ اور روس سے تعلقات خراب ہونے کے اندیشے تھے۔
پاکستان کے بعض اخبارات نے اپنے تبصروں میں یہ لکھا کہ بھارتی وزیر اعظم کی موت انتہائی اور یکدم خوشی کے سبب واقع ہوئی، ان تبصروں کی ایک وجہ یہ تھی کہ واقعی بھارت پاکستان کے مقابلے میں تین گنا زیادہ فوجی طاقت رکھتا تھا اور اُسے شکست ہوئی تھی پھر معاہدہ تاشقند پر وزیرِخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے صدر ایوب خان سے اختلاف کیا تھا، اُن کا موقف جو انہوں نے بعد میں بیان بھی کیا وہ یہ تھا کہ جہاں تک تعلق دونوں ملکوں کے درمیان امن کے قیام اور فوجوں کی زمانہ امن کی پوزیشن پر واپسی کا تھا تو وہ اس بات پر اتفاق کرتے تھے کہ سندھ اور پنجاب اور سیالکوٹ ورکنگ باونڈری انٹرنیشنل بارڈر ہیں، اِن مقامات سے دونوں ملک اپنی انپی فوجیں زمانہ امن پر لے آتے ہیں مگر جہاں تک تعلق کشمیر میں سیزفائر لائن کا ہے تو کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے جس کے عوام نے حق رائے دہی کی بنیاد پر پاکستان یا بھارت دونوں ملکوں میں سے کسی ایک میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنا ہے اور پاکستان برسوں سے اس کا تقاضا کرتا رہا ہے، اور پھر 1947-48 کی جنگ میں اقوام متحدہ کی جانب سے جب جنگ بند کراوئی گئی تھی تو جہاں جس مقام پر جنگ بند ہوئی تھی اسے اقوام متحدہ نے جنگ بندی لائن تسلیم کیا تھا۔
اس لیے اب کشمیر میں جہاں جنگ بند ہوئی ہے وہاں نئی جنگ بندی لائن کا اعلان کیا جائے، بھٹو اور صدر ایوب خان کے اختلافات بڑھے اور پھر بھٹو نے وزارت خارجہ سے استعفیٰ دے دیا، یا صدر ایوب خان نے اُن سے ستعفیٰ لے لیا، پھر بھٹو نے 30 نومبر 1967 کو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی بنا کر ایوب خان کی حکومت کے خلاف عوامی سطح پر تحریک شروع کردی۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس کے بعد نہ صرف پاکستان کی ترقی متاثر ہوئی بلکہ پاکستان کے خلاف علاقائی اور عالمی سطح پر سازشیں شروع ہو گئیں، اس جنگ میں ہماری کمزوری یہ رہی کہ ہمارے پاس امریکہ کے علاوہ دوسری کوئی ایسی قوت یا طاقتور ملک نہیں تھا کہ ہم امریکہ سے تعلقات اور اپنی اسٹرٹیجک پو زشن کے حوالے سے کو ئی بارگین کر سکتے۔
1962 میں چین نے لداخ میں بھارت سے جو علاقے چھینے تھے وہ آج بھی اس کے پاس ہیں جب کہ وہاں چین عوامی سطح پر کسی رائے شماری کا پابند بھی نہیں اورچین 2006 میں تبت اور اس علاقے میں سطح سمندر سے 17000 فٹ سے زیادہ بلندی پر 4 ارب ڈالر کی مالیت سے دس سال کے اندر یعنی 2016 تک دنیا کی بلند ترین ریلوے لائن بچھا چکا ہے۔ ایوب خان نے بھی آخر '' فرینڈز ناٹ ماسٹر،، کتاب لکھی کیونکہ اُس وقت عجیب سی صورتحال تھی توپوں ٹینکوں کے گولوں، طیاروں کے بموں اور پرزہ جات تمام کا سو فیصد انحصا ر امریکہ پر تھا جس نے فوجی سازوسان کی سپلائی روک دی تھی، پھر جہاں بات معاہدہ تاشقند کے بعد رات کو ہی بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری کے انتقا ل کی ہے اور جو یہ کہا گیا تھا کہ اُن کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا ہے تو اس سے فائد بھارت کو ہی ہوا تھا۔
یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر لال بہادر شاستری جنگ ہارے ہوئے بھارتی وزیر اعظم کی حیثیت اور اور کانگریس کے بڑے لیڈر کے طور پر معاہد ہ تاشقند کرکے واپس بھارت آتے تو اُن کی شخصیت کو سامنے رکھتے اور سوچئے کہ جب سوال وجواب ہوتے تو کانگریس اور بھارت کو کتنا نقصان ہوتا اور اگر خصوصاً کشمیر کے اعتبار سے نئی سیز فائر لائن قرار دی جاتی تو حالات اور بھی خراب ہوتے، یوں ایسا معاہدہ جو صدر ایوب خان سے کر وایا گیا اس میں سوویت یونین اور امریکہ کی چین سے دشمنی واضح تھی کیونکہ اُس وقت امریکہ اور روس دونوں ہی کے چین کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں تھے اور جنگ 1965ء سے ایک سال قبل ہی چین نے کامیاب ایٹمی تجربہ کیا تھا اور امریکہ ، برطانیہ، روس اور فرانس کے بعد دنیا کی پانچویں ایٹمی قوت بن گیا تھا، اس لیے اس مفروضے کو راقم الحروف دنیا کے سامنے رکھتا ہے کہ جنگ 1965 کے بعد پاکستان، امریکہ اور سوویت یونین دونوں ہی کی نظروںمیں اپنی فوجی صلاحیت اور چین سے تعلقات کے اعتبار سے کھٹکتا تھا۔ بھارت کے دوسرے وزیر اعظم لال بہادر شاستری سولہ سال کی عمر میں کانگریس کے پلیٹ فارم سے بھارت کی جد وجہد آزادی میں گاندھی اور نہر و کے پیرو کار تھے۔
1920 سے وہ جدوجہد میں مصروف تھے ، نہرو نے اپنے باپ موتی لال نہرو کی وراثت پائی تھی اور اسی طرح انہوں نے اپنی بیٹی اندرا گاندھی کی سیاسی تربیت بھی شروع سے کی تھی۔ کانگریس کی سربراہی کے بعد وہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم بنے تو انہوں نے بھی اپنی بیٹی اندرا گاندھی کو کانگریس میں نمایاں رکھا، البتہ وہ اپنے بعد فوراً ہی اندرا گاندھی کو بھارت کا وزیر اعظم نہیں دیکھنا چاہتے تھے، خصوصاً جب وہ بیمارہوئے اور جون 1964 میں اُنہیں معلوم ہو گیا تھا کہ اب موت قریب ہے تو اسٹریچر پر اُن سے ایک غیر ملکی صحافی نے یہ سوال کیا کہ آپ کے بعد کون آپ کا جانشین ہو گا؟ تو نہرو نے جواب دیا کہ جمہوریت، پھر یہی سوال کیا تو، انہوں نے سے جواب دیا کہ آپ نے یہ سوال چرچل یا کسی اور برطانوی وزیر اعظم سے کیا تھا۔ یوں شاتری کی موت کے بعد اندراگاندھی بھارت کی وزیر اعظم بنیں تو یہ ایک ایسی شخصیت تھی جو موازنے کے اعتبار سے شاستری کے مقابلے میں نہرو خاندان کے لحاظ سے اور اپنی قابلیت اور ظاہری شخصیت کی بنیاد پر بھارتی عوام میں مقبول تھیں۔
اُس وقت کے تناظر میں دیکھیں تو بھارتی اژدھامی نفسیات کے اعتبار سے ایک جانب کمزور شخصیت کے حامل بھارتی وزیراعظم شاستری کے مرنے کا بھارتی عوام کو کوئی دکھ نہیں تھا بلکہ اندرا گاندھی کے بطور نئے بھارتی وزیر اعظم بننے کی خوشی تھی، اندراگاندھی بھی اپنے والد نہرو کی طرح نہ صرف طویل عرصے تک بھارت کی وزیر اعظم رہیں بلکہ صر ف چھ سال بعد انہوں نے جو کیا وہ سب کے سامنے تھا، اب جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو اُس کی قیادت اور امریکہ اور سوویت یونین نے بھی ادراک کر لیا تھا کہ اگر پاکستان میں قومی یکجہتی اسی جنگ 1965 کے جوش وجذبے سے قائم رہتی ہے تو ایسی صورت میں کم از کم بھارت کا پاکستان کو شکست دینا ممکن نہیں، یوں خصوصاً بھارت اور سوویت یونین نے یہ طے کرلیا کہ پاکستان کے اندر انتشار پیدا کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر پاکستان کو جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی۔
1492 ء میں یورپی اقوام کی جانب سے امریکہ کی دریافت اور ہندوستان کا نیا بحری راستہ ڈھونڈنے کے بعد تاریخِ انسانی نے قوموں، ملکوں کی جنگوں کے لحاظ سے ایک نئے انداز کا دور دیکھا جسے نوآبادیاتی نظام کا دور کہا جاتا ہے۔ یہ ماضی کی تاریخ کے ہزاروں سال پرانے دیگر ادوار سے یوں مختلف تھا کہ 1492 کے بعد پوری دنیا اپنے مجموعی رقبے کے ساتھ انسان کے سامنے تھی پھر جو یورپی اقوام جدید سائنس و ٹیکنالوجی سے لیس تھیں وہ صنعت و تجارت کو مدنظر رکھتے ہو ئے دنیا کے اُن ممالک پر قبضہ کر رہی تھیں جہاں اُن کو تجارتی طور پر فائدہ تھا۔ وہ اِن ملکوں کے خام مال کو مصنوعات میں تبدیل کرکے اِنہی ملکوں کو منڈیوں کے طور پر استعمال کرتی تھیں۔
یہ نوآباد یاتی نظام اپنی انتہا کو پہلی جنگ عظیم سے ذرا پہلے پہنچ گیا، پھر1914-18میں پہلی عالمی جنگ لڑی گئی جس کے اختتام پر خلافت عثمانیہ ترکی سلطنت ختم ہوگئی، اس سے ایک برس قبل روس میں اشتراکی انقلاب کے بعد زار بادشاہت کی جگہ کیمونسٹ آمریت قائم ہوئی، برطانیہ جو فرانس کی ہم پلہ عالمی قوت تھا اگرچہ فاتح قرار پا کر دنیا کے 25 فیصد رقبے اور24 فیصد آبادی پر حکومت کرنے والا بڑا ملک بن گیا مگر امریکہ کے مقابلے اپنی سپر پاور کی حیثیت کھونے لگا اور امریکہ جسے عظیم فرانسیسی جنرل نپولین نے لاوسیانا Louisana کی ریاست کو 1803 میں فروخت کیا تھا دنیا کی سب سے مضبوط عسکری اور اقتصادی قوت بن گیا۔
اس عالمی منظر نامے میں مفکرین نئے اور ایک دوسرے سے مختلف سیاسی، سماجی، اقتصادی نظریات کے ساتھ پوری دنیا پر اثرانداز ہو چکے تھے اور یہ بھی تلخ حقیقت تھی کہ دنیا پہلی عالمی جنگ کے بعد ہی دوسری عالمی جنگ کی بنیاد رکھ چکی تھی، تو نوآبادیاتی نظام کی حامل اور سرمایہ دارانہ طرزکے معاشی نظام پر یقین رکھنے والی قوتیں اور ممالک اقتصادی، تجارتی، عسکری اور سیاسی بنیادوں پر نئے انداز کے عالمی نظام کا جال تیار کر چکی تھیں، 1945 ء میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر دنیا کی نئی تشکیل تھی تو فرانس اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک جو جنگ کی وجہ سے ملبے کے ڈھیروں پر فوری طور پر اور اپنے اتحادی امریکہ کی مدد سے تعمیر ِنو کے عمل میں مصروف ہو گئے۔
سوویت یونین بھی تعمیر نوکے ساتھ ایک خود مختار قوت کی حیثیت سے اِن قوتوںکے سامنے آیا، اور چین جو برطانیہ، فرانس، جاپان کی اقتصادی تجارتی عسکری جاریت سہہ کر جدوجہد آزادی کرتا موزے تنگ کی سربراہی ہی میں کیمونسٹ انقلاب کے ساتھ 1949 ء میں آزاد ہوا تو یہ بھی اُس وقت ایک خوددار اور خود مختار ملک تھا، دنیا میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے ملک اور رقبے کے لحاظ سے روس اور کینیڈا کے بعد اپنے 9596961 مربع کلومیٹر بڑے رقبے کی بنیاد پر دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ اس بڑے رقبے اور آبادی کے معاشرے کو عظیم لیڈر شپ ماوزے تنگ اور چواین لائی نے دنیا کا سب سے منظم معاشرہ بنا دیا۔
جس پر اگرچہ کیمونسٹ پارٹی لیڈر شپ کے اعتبار سے آمرانہ حکومت رہی لیکن اس کے تحت یکساں اور برابری کی بنیاد پر پورے چین میں زبردست حب الوطنی واضح انداز میں پوری دنیا کے سامنے ہے، 1949 ء میں چین میں کیمونسٹ انقلاب اور ملک کی آزادی کے وقت بھارت اور چین کے درمیان بہت مضبوط اور گہرے دوستانہ تعلقات تھے، بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو بہت ذہین اور شاطر سیاستدان تھے اور وہ پاکستان کے اعتبار سے یہ جانتے تھے کہ قائد اعظم ہی وہ شخصیت تھے جو نہ صرف اُن کا مقابلہ کرتے بلکہ انہیں شکست بھی دیتے رہے، قائد اعظم کی وفات کے بعد انہوں نے پاکستان کو اُس وقت علاقائی سطح پر چین، روس اور افغانستان سے بہتر تعلقات قائم کرکے تنہا کر نے کی قدرے کا میاب کو شش کی تھی۔
جب 1953میں روس کے اسٹالن کی وفات کے بعد روس چین تعلقات کشیدگی اور کھچاؤ کا شکار ہوئے تو دوسری جانب 1946 ء سے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس کے علاوہ اِن میں پانچواں ملک عوامی جمہوریہ چین کی بجائے تائیوان کی بنیاد پر جمہوریہ چین تھا، اگرچہ آج بھی امریکہ کو اپنے اتحادی فرانس اور برطانیہ کی سپورٹ کی وجہ سے سکیورٹی کونسل کے ویٹوپاور کے لحاظ سے تین ووٹوںکی صورت میں 60% حمایت اکثر حاصل ہوتی رہتی ہے مگر اُس وقت یعنی 1946 سے 1971 تک یہ تناسب 80 فیصد تھا کیونکہ چین کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا، نوآبادیاتی دور میں ہندوستان کے ساتھ چین بھی متاثر رہا، جاپان نے بھی یہاں جارحیت کی تو فرانس اور برطانیہ نے بھی، برطانیہ نے انپی مشہور تجارتی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت یہاں افیون کی تجارت کو فروغ دیا تھا،اور چین میںافیون کی تجارت کی بنیادپر دو مشہور جنگیں بھی ہوئیں جن کو افیون وار کہتے ہیں۔
چین کے جنوب اور برصغیر بھارت، نیپال بھوٹان، سکھم ، مینیمارکشمیر، لداخ ، پاکستان میں آزاد کشمیر اور خصوصاً گلگت بلتستان کے شمال میں ہمالیائی علاقے میںتبت واقع ہے جو تاریخی، نسلی اور جغرافیائی اعتبار سے ہزاروں سال سے چین کا حصہ رہا ہے، اس کا رقبہ 1220800 مربع کلو میٹر ہے اور آبادی 3180000 ہے، اِن 31 لاکھ 80 ہزار افراد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سطح سمندر سے انتہائی بلند مقام تبت میں رہتے ہیں جس کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے، یہاں3700 میٹر کی بلندی تک بدھ مت کے ماننے والوں کی عبادت گاہ ہے ، اس کی ایک سرحد نیپال دوسری بھوٹان تیسری اکسائی چین سے بھارت سے اور چوتھی سنکیانگ سے ہوتی پاکستان سے ملتی ہے، واضح رہے کہ پہلے سطح سمندر سے ساڑھے بارہ ہزار فٹ بلندی کو سنولائن کہا جاتا تھا کہ یہاں سال کے با رہ مہینوں میں برف جمی رہتی ہے مگر اب پوری دنیا میں کلائمیٹ چینج اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سنو لائن 4500 میٹر یا 15000 فٹ بلندی کے معیار پر مقرر کر دی گئی ہے۔
اس بلندی پر جنگلات نہیں ہو تے، چینی تبت اور برصغیر کے درمیان برطانوی سیکر ٹری Mc Mahon میک موہن نے ایک سرحدی لائن بنا دی اور معاہدے پر میک موہن اور اس وقت کی تبت کی حکومت کے سربراہ Lonchen Satra لانچین ستارا نے دستخط کئے اور پھرکچھ عرصے بعد 24 مارچ 1914 کو ایک نقشہ جاری کیا جس میں یہ لائن نقشے پر 8 میل فی انچ کے حساب سے 550 میل یعنی 890 کلومیٹر تھی اس کو اگرچہ شروع ہی میں ہندوستان کی جانب سے بھی درج کیا گیا مگر بعد میں 1935 تک دنیا جیسے اِس میک موہن لائن کو بھول گئی اور جب 1935 میں انڈیا میں تعینات ایک انگریز بیوروکریٹ Olaf Caroe الاف کارو نے شملہ میک موہن، لانچین مذاکرات کے مطابق نقشہ جاری کیا تو چین، ہندوستان کو اس پر اعتراضات تھے اور چین کا دعویٰ لداخ پر بھی آگے 65000 مربع کلو میٹر رقبے پر ہے۔
چین کا موقف یہ ہے کہ جب معاہدے کے مطابق یہ میک موہن لائن طے کی گئی اُس وقت تبت کوئی آزاد خود مختار ریاست نہیں تھی، چین کا لداخ کے علاقے پر دعوٰی تھا مگر 1949ء میں اشتراکی انقلاب اور آزادی کے فوراً بعد بھارت کے نہرو اور چینی قیادت موزے تنگ اور چو این لائی کے درمیان تعلقات انتہائی مضبوط اور دوستانہ تھے اس لیے تبت اور لداخ کے مسائل پس پردہ رہے، پنڈت جواہر لال نہرو عالمی صور تحال پر ہمیشہ سے بڑی گہری نظر رکھتے تھے، اُن کا مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ اس لحاظ سے بہت وسیع تھا۔ بھارت اورچین تعلقات کے تناظر میں اُن کی پالیسی وقت کے مطابق تبدیل ہوتی رہی، نہرو نے 19 اکتوبر تا31 اکتوبر 1954ء چین کا دورہ کیا تھا جہاں اُن کا پُرتپا ک استقبال ہوا تھا، نہرو نے اسٹالن کی زندگی میں روس کا دورہ بطور بھارتی وزیر اعظم نہیں کیا بلکہ اسٹا لن کی وفات کے دوسال بعد 7 جون تا 23 جون 1955 میں روس کا دورہ کیا جب چین اور روس میں خلیج بڑھ رہی تھی۔
وزیر اعظم نہرو نے اس کے بعد امریکہ کا دوسرا دورہ 16 تا 20 دسمبر1956 میں کیا تھا اور پھر امریکی صدر 9 دسمبر1959 میں افغانستان گئے اور کابل میں بادشاہ ظاہرشاہ سے ملاقات کے بعد امریکی صدر آئزئن ہاور نے 9 تا 14 دسمبر1959 بھارت کا دورہ کیا، یہی وہ زمانہ ہے جب سوویت یونین کے ساتھ چین کے سرحدی تنازعا ت بھی سامنے آئے تو پنڈت جواہر لال نہرو امریکہ اور روس جیسی بڑی سپر پاور کو خوش کرتے ہو ئے، اس لیے بھارت کو چین کے مقابل لے آئے کہ وہ اِس پورے علاقے میں بھارتی بالا دستی چاہتے تھے۔
اُس وقت عالمی سطح پر چین روس تنازعہ کی وجہ سے چین جو پہلے ہی اقوام متحدہ میں اپنی حیثیت کے مطابق پوزیشن نہ ملنے پر رکنیت سے محروم تھا سوویت یونین کی وجہ سے دنیا کے کیمونسٹ بلاک کے ممالک سے بھی قدرے دور ہو گیا تھا، اور پھر چین میں آبادی کے اضا فے پر کو ئی کنٹرول نہیں تھا اس لیے اندازہ یہ تھا کہ چین مستقبل قریب میں اتنی ترقی نہ کر سکے گا جتنی اُس نے 1980 کی دہائی سے آبادی پر مکمل کنٹرول کر کے حاصل کر لی۔
جب بیرونی طاقتوں کی پشت پناہی سے تبت میں ایک سیاسی بحران پیدا ہوا تو بھارتی حکومت نے بغاوت کے بعد تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کو بھارت میں پناہ دیدی اور ساتھ ہی دونوںملکوں کے درمیان لداخ کے مسئلے پر کشیدگی میں اضافہ ہونے لگا اور یوں تبت کے نزدیک مقبوضہ جموں وکشمیر اور لداخ پر پاکستانی علاقے گلگت بلتستان کے قریب بلند ترین علاقہ بھارت اور چین کے درمیان محاذ جنگ بنا، یہ جنگ 1962 میں 20 اکتوبر سے21 نومبر تک جاری رہی، بھارتی فوج کی جنگ میں تعداد 120000 کے قریب تھی اور اس کے مقابلے میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی تعداد 280000 تھی۔
چینی فوج کے چیف جنرل Luo Ruiqing لُو رُیکینگ اور کمانڈر Zhang Guohua زہانگ گُوہا تھے جب کہ بھارتی آرمی چیف جنرل موہن کاؤل اورجنرل پران ناتھ تھاپار تھے، اِس جنگ میں چین کے 722 فوجی مارے گئے اور 1697 زخمی ہوئے جب کہ اس کے مقابلے میں 1383 بھارتی فوجی ہلاک 1047 زخمی ہوئے اور 1696 فوجی لاپتہ ہوئے اور 3968 بھارتی فوجیوں کو چینی فوج نے جنگی قیدی بنا لیا، لداخ کے علاقے میں چین نے 11754 مربع کلومیٹر علاقہ بھارت سے چھین لیا۔ یوں بھارت کو اس جنگ میں عبرت ناک شکست ہوئی۔ پاکستان نے اس موقع پر بھارت سے جنگ نہیں کی، لیکن یہ واضح ہو گیا تھا کہ بھارت جموں وکشمیر اور لداخ کے علاقے پر پہلی جنگ 1947-48 میں پاکستان سے ہارا اور پھر دوسری مرتبہ لداخ میں اُسے چین سے شکست ہوئی، یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ نہرو ایک زیرک سیاستدان اور خصوصاً امور خارجہ کے ماہر تو ضرور تھے مگر وہ عسکری شعبے میں مقابل کی صلاحیتوں کا ٹھیک سے اندازہ نہیں کر سکتے تھے یا یو ں بھی کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کی فوج بہادری یا فنِ سپاہ گری کے اعتبار سے کمزور واقع ہوئی۔
بھارت چین جنگ کے ٹھیک تین سال بعد 6 ستمبر1965 کو دوسری پاک بھارت جنگ ہوئی جو 17 روز جاری رہی، اس جنگ سے کچھ عرصہ قبل کشمیری مجاہدین نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے خلا ف گوریلا طرز کی جنگ شروع کر دی تھی اور سرد جنگ کے اس دور میں دنیا کے کئی علاقوں میں اس طرح کی حریت پسند تحریکیں جاری تھیں، یہاں بعض حلقو ں کی جانب سے یہ بھی کہا جاتا رہا کہ آپریشن جبرالٹر کی بنیاد پر اس تحریک کو پاکستان کی جانب سے امداد جاری تھی اور صدر جنرل ایوب خان کو یہ یقین تھا یا یقین دلایا گیا تھا کہ اس صورتحال میں بھارت متواتر اور دھیر ے دھیرے کمزور ہو گا، پھر یہ بھی تھا کہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو 1964 میں انتقال کر گئے تھے۔
اس کے بعد لال بہادر شاستری بھارت کے وزیر اعظم بنے جو کمزورشخصیت کے مالک تھے اور عالمی سطح پر جو مقام نہر و کا تھا وہ بہرحال شاستری کا ہرگز نہیں تھا، پھر یہ بھی ہے کہ انڈیا نے 1947 سے 1964 تک سترا برسوں میں جہاں زبردست استحکام حاصل کیا تھا وہاں واقعی اتنی بڑی شخصیت کے چلے جانے کے بعد اُس خلا کو پُر کرنا آسان نہیں تھا مگر اس موقع پر بھارتی فوجی قیادت اور اُن کے دفتر خارجہ نے یہ فیصلہ کیا کہ کشمیر میں سیز فائر لائن کے ساتھ مغربی پاکستان پر ورکنگ باونڈری اور سندھ اور پنجاب کی سرحدوں پر پوری زمینی اور فضائی قوت کے ساتھ حملہ کر دیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ بحری قوت کو متحرک کرتے ہوئے کراچی کو نشانہ بنایا جائے۔
اُس وقت صدر مملکت فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان تھے، تو بھارت نے بھی خصوصی طور پر بھارت کے واحد فائیو اسٹار جنرل فیلڈ مارشل جے این چوہدری کو جو فوج سے ریٹائر ہو چکے تھے سپریم کمانڈر بنایا، دوسرے کمانڈ ورں میں لفٹیننٹ جنرل ہر بنش سنگھ لفٹیننٹ جنرل جوگند ڈلفلان لفٹیننٹ جنرل کشمیر کاٹوج ائیرمارشل ارجن سنگھ الاکھا، ایڈمرل بھاسکارسومان تھے، بھارتی فوجی کی تعداد 700000 تھی اُن کے پاس 700 لڑا کا طیارے 720 ٹینک اور 680 بڑی توپیں تھیں، پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ خان تھے باقی اہم کمانڈروں میں لیفٹننٹ جنرل بختیار رانا، لفٹینٹ جنرل عتیق الرحمن، لیفٹینٹ جنرل اے ایچ مالک، میجر جنرل یحییٰ خان، ائیر مارشل نور خان، وائس ایڈ مرل اے آر خان اور ایس ایم احسان شامل تھے، پاکستانی فوج کی تعداد 260000 تھی، پاکستان کے پاس 280 لڑاکا طیارے، 756 ٹینک اور552 توپیں تھیں۔
اس جنگ میں دونوں جانب سے لڑنے والے فوجی جنرل اور سینئر افسران مقامی تھے یعنی کو ئی انگریز کمانڈر نہیں تھا البتہ یہ ضرور تھا کہ یہ تمام سینئر فوجی افسران وہ تھے جو اگست 1947 سے پہلے برٹش آرمی میں جونیئر افسران کے طور پر ایک ساتھ کام کر چکے تھے اور اب ایک دوسرے کے مقابل تھے۔ بیشتر بھارتی فوجی ایسے بھی تھے جو تقسیم ہند سے قبل پاکستانی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے یا دوران فوجی ملازمت پاکستانی علاقوں میں تعینا ت بھی رہے تھے، یہی صورت بہت سے پاکستانی سینئر فوجی افسران کی تھی یوں بعض بھارتی فوجیوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ حملہ کرتے ہی لاہور کو فتح کر لیں گے اور پھر اس کا جشن لاہور کے جم خانہ میں منائیںگے، یہ فوجی افسران ایک دوسرے سے واقف بھی تھے اور اب ایک دوسرے کے مقابل اپنے اپنے ملکوں کی فوج میں شامل اپنی قومی شناخت کے ساتھ کھڑے تھے۔
یہ جنگ 1947-48 کی پہلی پاک بھارت جنگ سے مختلف تھی، اس میں فتح اور شکست کی ذمہ داری بھی خودہی اٹھانی تھی، اب دونوں ملک مکمل طور پر آزاد ا ورخود مختار تھے، اگرچہ یہ جنگ صرف سترا روز جا ری رہی اور پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی فوج عدد ی اعتبار سے اور اسلحہ اور سامانِ جنگ کے لحا ظ سے کم ازکم تین گنا زیادہ تھی، مگر اللہ کے فضل وکرم سے پاکستان کی افواج نے سندھ، پنجاب سرحد، ورکنگ باونڈری یعنی سیالکوٹ اور کشمیر میں اُس وقت کی سیز فائر لائن اورآج کی کنٹرول لائن پر مجموعی طور پر بھارت سے دو گنی سے زیادہ فتوحات حاصل کیں۔
سیالکوٹ چونڈا کے محاذ پر انڈیا نے اپنے 600 ٹینکوںکے ساتھ حملہ کیا جس کو پاکستانی افواج نے کامیابی سے پسپا کردیا۔ یہ دوسری جنگ عظیم کی نارمنڈی کی ٹینکوں کی لڑائی کے بعد تاریخ کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ تھی، اسی طرح پاکستان کی فضائیہ نے بھارتی فضائیہ کو بالکل ناکام کر دیا اور اور 116 سے زیادہ بھارتی طیارے تباہ کئے، اس کو پوری دنیا نے تسلیم کیا، اس جنگ میں پاکستانی پائیلٹ ایم ایم عالم نے ایک منٹ میں سات طیارے گرانے کا ایسا عالمی ریکارڈ قائم کیا جو اب تک دنیا کا کو ئی اور پائلٹ نہیں تو ڑ سکا۔ اس جنگ میں میجر عزیر بھٹی شہید نے محاذ پر دفاعِ وطن کا ایسا دلیرانہ ریکارڈ قائم کیا جو جنگی تاریخ میں یادگار بن گیا۔ اس عظیم قربانی اور جذبہ شجاعت پر انہیں سب سے بڑا فوجی اعزاز نشانِ حیدر عطا کیا گیا۔
یوں 1965 تک بھارت نے تین جنگیں لڑیں اور شکستیں کھائیں، بدقسمتی سے ہمیں 17 روز بعد جنگ روکنی پڑی کہ اقوام متحدہ نے جنگ بندی کا حکمنامہ جاری کر دیا، اس کے علاوہ یہ بھی تھا کہ امریکہ نے بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کی امداد اور فوجی سازوسامان کی سپلائی روکنے کا اعلان کردیا تھا،اب جہاں تک تعلق بھارت کا تھا تو وہ سوویت اور فرانس سے بھی اسلحہ اور فوجی ساز وسامان لیتا تھا اور اِن ملکوں کی طرف سے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا، یہ پاکستان کے لیے مشکل وقت تھا، ایک دوسرا پہلو یہ بھی تھا کہ اُس وقت پاکستان کی آبادی دس کروڑ اور بھارت کی آبادی تقریباً ساٹھ سے پینسٹھ کروڑ کے درمیان ہو گئی تھی اور اُس زمانے میں اِن دونوں ملکوں میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار بہت ہی کم تھی اور خطرہ تھا کہ برصغیر میں قحط نہ پڑ جا ئے اور اسی سال امریکہ کے سائنسدانوں نے میکسی پاک کے نام سے گندم کا ایک ایسا بیج ایجاد کیا تھا جس سے گندم کی فی ایکڑ پیداوار تین گنا ہو گئی تھی۔
یہ گندم کے بیج بحری جہاز امریکہ سے لے کر بھارت اور پاکستا ن آرہے تھے کہ جنگ کی وجہ سے سمندر میں روک دئیے گئے تھے، یہاں تک بھی اندازے تھے اگر یہ صورتحال ایک دو برس مزید رہتی تو قحط کی وجہ سے بھارت اور پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ افراد کے ہلاک ہونے کے اندیشے تھے، یہ جنگ مغربی پاکستان اور کشمیر میں لڑی گئی اور مشرقی پاکستان کے محاذ نہیں کھولے گئے یعنی بھارت نے اس جنگ کو مشرقی پاکستان کے محاذ پر نہیں لڑا، یوں بھارت نے ایک تاثر یہ دیا کہ اُس کی یہ جنگ صرف مغربی پاکستا ن سے تھی، اگر چہ پاکستان اس جنگ میں مشرقی محاذ سے بھی بالکل بے خبر نہیں تھا مگر جنگ کا مثالی جوش وجذبہ مغربی پاکستان میں کہیں زیادہ تھا۔ اس جنگ میں فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی جیسے بائیں بازو کے ادیب و شاعر بھی بطور پاکستانی پورے جو ش وجذبے سے شامل تھے۔
بچہ بچہ روزانہ اپنے جیب خرچ میں سے ایک پیسہ ضرور دیتا تھا کہ یہ بتایا گیا تھا ایک ٹینک کی قیمت دس لاکھ روپے ہے اور اگر دس کروڑ پاکستانی ایک پیسہ فی کس دیں تو ایک ٹینک خریدا جا سکتا ہے، جوش وجذبے کا یہ عالم تھا کہ پوری قوم محاذ ِجنگ پر لڑنے کے لیے تیار تھی، وہ بچیاں جن کی شادیاں ہونے والی تھیں اور جہیز کے لیے والدین نے زیورات خریدے تھے اُنہوں نے وہ زیور تک قومی دفاعی فنڈ میں دے دئیے۔ پاکستان کے میڈیا نے بھی مثالی کردار ادا کیا، ریڈیو پاکستا ن اور ملک کے واحد پی ٹی وی اسٹیشن لاہور نے ایسا جوش ولولہ پیدا کیا کہ دیدنی تھا، ملکہ ترنم نور جہاں، شہنشاہ غزل مہدی حسن سمیت کئی گلوکاروں نے وہ لازوال قومی نغمات گائے کہ آج بھی وہ کانوںمیں رس گھولتے ہیں۔
1965 کا سال پاکستان اور خصوصاً صدر ایوب خان کے لیے عجیب ثابت ہوا،جنرل ایوب خان نے 28 اکتوبر 1958 میں ملک میں مارشل لا نافذ کر کے اقتدار حاصل کیا تھا جب ملک کے سیاستدان اور اقتدار پر مسلط ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا جیسے بیوروکریٹ خود ناکام ہوکر قوم کو مایوس کر چکے تھے۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل آخری انتخابات دسمبر1945 اور جنوری1946 میں جداگا نہ طرز انتخاب پر ہوئے تھے، اس کے بعد قومی سطح پر عام انتخابات 1970 میں ہوئے، البتہ ایوب خان نے اقتدار میں آنے کے بعد 1962 کا صدارتی آئین متعارف کروایا اور بنیادی جمہوریت کی بنیاد پر انتخابات کرائے۔
جس میں پاکستان کی قومی اور مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں اور صدر کے انتخاب کے لیے مشرقی اور مغربی پاکستان میں کونسلر وں کی سطح پر چالیس چالیس ہزارانتخابی حلقے بنائے گئے تھے، ان پر جو امیدوار انتخاب جیتے تھے وہ بی ڈی ممبر یعنی بنیاد جمہوریت کے منتخب ممبر کہلاتے تھے، یوں پہلے مرحلے میں چالیس چالیس ہزار ممبران مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو منتخب کرتے تھے، پھر یہی اسی ہزار بی ڈی ممبر قومی اسمبلی کے اراکین کا انتخاب کرتے تھے اور آخری مرحلے میں اسی ہزار بی ڈی ممبران صدراتی نظام کی سب سے مضبوط شخصیت یعنی صدر کا انتخاب کرتے اور پھر آئندہ الیکشن تک یہ بی ڈی ممبران آج کے بلدیاتی کونسلروں کی طرح اپنے اپنے وارڈوں میں نالیاں، گلیاں پختہ کرواتے، محلے میں خانگی نوعیت کے جھگڑوں کے فیصلے پنچائیت کے انداز میں طے کرواتے تھے۔ اُس وقت ملک کی آبادی کا تقربیاً چھہتر فیصد حصہ دیہاتوں میں رہتا تھا مگر ایوب خان کی تیز رفتار صنعتی، اقتصادی ترقی کی وجہ سے کراچی ایک بڑے شہر کے طور پر دنیا کے بڑے شہروں میں شمارہونے لگا تھا جبکہ مشرقی پاکستان ڈھاکہ، چٹاگانگ،کھلنا اور مغربی پاکستان میں لاہور، فیصل آباد اور حیدر آباد بھی بڑے شہر ہو گئے تھے۔
یوں 2 جنوری 1965 کو ایوب خان نے ملک میں صدارتی انتخاب کا اعلان کیا اور خود اپنی سیاسی جماعت کنونشنل مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار ہوئے تو مشترکہ حزب اختلاف جن میں پانچ بڑی جماعتیں زیادہ نمایاں تھیں نے اپنا مشترکہ امیدوار قائد اعظم کی چھوٹی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو بنایا، جنرل ایوب خان کی حکومت میں بیوروکریسی قابل بھی تھی اور اس کے پاس آئینی طور پر طاقت اور بہت زیادہ اختیارات بھی تھے، یوں یہ درست ہے کہ اِن انتخابات میں بیوروکریسی اور صوبائی اور وفاقی کابینہ میں شامل وزراء نے ایو ب خان کے حق میں اپنا اثرورسوخ استعمال کیا، ایوب خان نے 62.43% ووٹ حاصل کئے اور محترمہ فاطمہ جناح کو 35.86% ووٹ ملے، یوں اسی ہزار بی ڈی ممبران میں سے ایوب خان کے 449951 بی ڈی ممبراور محترمہ فاطمہ جناح کے 28691 ممبر کامیاب ہوئے لیکن اپوزیشن کی جانب سے صدرایوب خان پر خصوصاً مشرقی پاکستان اور کراچی کے حوالے سے دھاندلی کے الزامات عائد کئے گئے اور احتجاج بھی کیا گیا مگر یہ احتجاج اتنا کارگر ثابت نہ ہوا اورایوب خان کو ملکی اور عالمی سطح پر مقبول منتخب صدر کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا، اور پھر1965 کی جنگ کے شروع ہوتے ہی جب انہوں نے قوم سے خطاب کیا توپوری قوم اُن کے ساتھ کھڑی تھی۔
جنگ کے خاتمے پر پاکستان کے عوام اس جنگ کے جیتنے پر خوشیاں منا رہے تھے کہ جنوری1966 میں اقوام متحدہ امریکہ اور سوویت یونین کے مشترکہ اور شدید دباؤ کے تحت پاکستان کو اُس وقت کی سوویت یونین کے ازبکستان کی ریاست کے شہر تاشقند میں 4 جنوری تا10 جنوری1966 مذاکرات کرنا پڑے۔ پاکستا ن کی جانب سے صدر ایوب خا ن اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور بھارت کی جانب سے وزیراعظم لال بہادر شاستری اور وزیرخارجہ سردار سورن سنگھ نے شرکت کی۔ جب کہ سہو لت کار یا ثالث کے طور پر روسی وزیراعظم Alexei Kosygin الیسی کوسجن تھے۔
اس تاشقند اعلانیے میں یہ کہا گیا کہ دونوں ملکوں کی فوجیں اگست 1965 کے امن کے مقامات پر واپس جائیں ۔کشمیر میں بھی فوجیں 1949 ء میں اقوام متحد ہ کی طے کردہ سیز فائر لائن یعنی جنگ بندی لائن پر واپس ہو جائیں اور یہ عمل 25 فروری 1966 تک ہر صورت میں مکمل کر لیا جائے،اس تاشقند معاہدہ میں یہ بھی کہا گیا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اندرونی معاملا ت میں مداخلت نہیں کریں گے، فوری طور پر آپس کے اقتصادی اور سفارتی تعلقات بحال کریں گے، مگر اس معاہدہ میں کشمیر میں گوریلا جنگ نہ کرنے یا آپس میں یعنی پاکستان اور بھات میں جنگ نہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں تھا، اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد رات کو بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی موت پُراسرا رانداز میں ہوئی، ویسے تو سرکاری طور پر یہ کہا گیا کہ اُن کی موت ہارٹ ایٹک کی وجہ سے ہو ئی مگر ساتھ ہی میڈیا نے یہ بھی کہا کہ اُن کو زہر دیا گیا تھا۔ بھارتی سرکار نے اِن رپورٹوں پر سرکاری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ جب کہ میڈیا میں یہ تبصرے ہوئے کہ بھارت نے اس لیے خاموشی اختیار کی کہ اس طرح عالمی سطح پر بھارت کے اقوام متحدہ سمیت امریکہ اور روس سے تعلقات خراب ہونے کے اندیشے تھے۔
پاکستان کے بعض اخبارات نے اپنے تبصروں میں یہ لکھا کہ بھارتی وزیر اعظم کی موت انتہائی اور یکدم خوشی کے سبب واقع ہوئی، ان تبصروں کی ایک وجہ یہ تھی کہ واقعی بھارت پاکستان کے مقابلے میں تین گنا زیادہ فوجی طاقت رکھتا تھا اور اُسے شکست ہوئی تھی پھر معاہدہ تاشقند پر وزیرِخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے صدر ایوب خان سے اختلاف کیا تھا، اُن کا موقف جو انہوں نے بعد میں بیان بھی کیا وہ یہ تھا کہ جہاں تک تعلق دونوں ملکوں کے درمیان امن کے قیام اور فوجوں کی زمانہ امن کی پوزیشن پر واپسی کا تھا تو وہ اس بات پر اتفاق کرتے تھے کہ سندھ اور پنجاب اور سیالکوٹ ورکنگ باونڈری انٹرنیشنل بارڈر ہیں، اِن مقامات سے دونوں ملک اپنی انپی فوجیں زمانہ امن پر لے آتے ہیں مگر جہاں تک تعلق کشمیر میں سیزفائر لائن کا ہے تو کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے جس کے عوام نے حق رائے دہی کی بنیاد پر پاکستان یا بھارت دونوں ملکوں میں سے کسی ایک میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنا ہے اور پاکستان برسوں سے اس کا تقاضا کرتا رہا ہے، اور پھر 1947-48 کی جنگ میں اقوام متحدہ کی جانب سے جب جنگ بند کراوئی گئی تھی تو جہاں جس مقام پر جنگ بند ہوئی تھی اسے اقوام متحدہ نے جنگ بندی لائن تسلیم کیا تھا۔
اس لیے اب کشمیر میں جہاں جنگ بند ہوئی ہے وہاں نئی جنگ بندی لائن کا اعلان کیا جائے، بھٹو اور صدر ایوب خان کے اختلافات بڑھے اور پھر بھٹو نے وزارت خارجہ سے استعفیٰ دے دیا، یا صدر ایوب خان نے اُن سے ستعفیٰ لے لیا، پھر بھٹو نے 30 نومبر 1967 کو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی بنا کر ایوب خان کی حکومت کے خلاف عوامی سطح پر تحریک شروع کردی۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس کے بعد نہ صرف پاکستان کی ترقی متاثر ہوئی بلکہ پاکستان کے خلاف علاقائی اور عالمی سطح پر سازشیں شروع ہو گئیں، اس جنگ میں ہماری کمزوری یہ رہی کہ ہمارے پاس امریکہ کے علاوہ دوسری کوئی ایسی قوت یا طاقتور ملک نہیں تھا کہ ہم امریکہ سے تعلقات اور اپنی اسٹرٹیجک پو زشن کے حوالے سے کو ئی بارگین کر سکتے۔
1962 میں چین نے لداخ میں بھارت سے جو علاقے چھینے تھے وہ آج بھی اس کے پاس ہیں جب کہ وہاں چین عوامی سطح پر کسی رائے شماری کا پابند بھی نہیں اورچین 2006 میں تبت اور اس علاقے میں سطح سمندر سے 17000 فٹ سے زیادہ بلندی پر 4 ارب ڈالر کی مالیت سے دس سال کے اندر یعنی 2016 تک دنیا کی بلند ترین ریلوے لائن بچھا چکا ہے۔ ایوب خان نے بھی آخر '' فرینڈز ناٹ ماسٹر،، کتاب لکھی کیونکہ اُس وقت عجیب سی صورتحال تھی توپوں ٹینکوں کے گولوں، طیاروں کے بموں اور پرزہ جات تمام کا سو فیصد انحصا ر امریکہ پر تھا جس نے فوجی سازوسان کی سپلائی روک دی تھی، پھر جہاں بات معاہدہ تاشقند کے بعد رات کو ہی بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری کے انتقا ل کی ہے اور جو یہ کہا گیا تھا کہ اُن کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا ہے تو اس سے فائد بھارت کو ہی ہوا تھا۔
یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر لال بہادر شاستری جنگ ہارے ہوئے بھارتی وزیر اعظم کی حیثیت اور اور کانگریس کے بڑے لیڈر کے طور پر معاہد ہ تاشقند کرکے واپس بھارت آتے تو اُن کی شخصیت کو سامنے رکھتے اور سوچئے کہ جب سوال وجواب ہوتے تو کانگریس اور بھارت کو کتنا نقصان ہوتا اور اگر خصوصاً کشمیر کے اعتبار سے نئی سیز فائر لائن قرار دی جاتی تو حالات اور بھی خراب ہوتے، یوں ایسا معاہدہ جو صدر ایوب خان سے کر وایا گیا اس میں سوویت یونین اور امریکہ کی چین سے دشمنی واضح تھی کیونکہ اُس وقت امریکہ اور روس دونوں ہی کے چین کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں تھے اور جنگ 1965ء سے ایک سال قبل ہی چین نے کامیاب ایٹمی تجربہ کیا تھا اور امریکہ ، برطانیہ، روس اور فرانس کے بعد دنیا کی پانچویں ایٹمی قوت بن گیا تھا، اس لیے اس مفروضے کو راقم الحروف دنیا کے سامنے رکھتا ہے کہ جنگ 1965 کے بعد پاکستان، امریکہ اور سوویت یونین دونوں ہی کی نظروںمیں اپنی فوجی صلاحیت اور چین سے تعلقات کے اعتبار سے کھٹکتا تھا۔ بھارت کے دوسرے وزیر اعظم لال بہادر شاستری سولہ سال کی عمر میں کانگریس کے پلیٹ فارم سے بھارت کی جد وجہد آزادی میں گاندھی اور نہر و کے پیرو کار تھے۔
1920 سے وہ جدوجہد میں مصروف تھے ، نہرو نے اپنے باپ موتی لال نہرو کی وراثت پائی تھی اور اسی طرح انہوں نے اپنی بیٹی اندرا گاندھی کی سیاسی تربیت بھی شروع سے کی تھی۔ کانگریس کی سربراہی کے بعد وہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم بنے تو انہوں نے بھی اپنی بیٹی اندرا گاندھی کو کانگریس میں نمایاں رکھا، البتہ وہ اپنے بعد فوراً ہی اندرا گاندھی کو بھارت کا وزیر اعظم نہیں دیکھنا چاہتے تھے، خصوصاً جب وہ بیمارہوئے اور جون 1964 میں اُنہیں معلوم ہو گیا تھا کہ اب موت قریب ہے تو اسٹریچر پر اُن سے ایک غیر ملکی صحافی نے یہ سوال کیا کہ آپ کے بعد کون آپ کا جانشین ہو گا؟ تو نہرو نے جواب دیا کہ جمہوریت، پھر یہی سوال کیا تو، انہوں نے سے جواب دیا کہ آپ نے یہ سوال چرچل یا کسی اور برطانوی وزیر اعظم سے کیا تھا۔ یوں شاتری کی موت کے بعد اندراگاندھی بھارت کی وزیر اعظم بنیں تو یہ ایک ایسی شخصیت تھی جو موازنے کے اعتبار سے شاستری کے مقابلے میں نہرو خاندان کے لحاظ سے اور اپنی قابلیت اور ظاہری شخصیت کی بنیاد پر بھارتی عوام میں مقبول تھیں۔
اُس وقت کے تناظر میں دیکھیں تو بھارتی اژدھامی نفسیات کے اعتبار سے ایک جانب کمزور شخصیت کے حامل بھارتی وزیراعظم شاستری کے مرنے کا بھارتی عوام کو کوئی دکھ نہیں تھا بلکہ اندرا گاندھی کے بطور نئے بھارتی وزیر اعظم بننے کی خوشی تھی، اندراگاندھی بھی اپنے والد نہرو کی طرح نہ صرف طویل عرصے تک بھارت کی وزیر اعظم رہیں بلکہ صر ف چھ سال بعد انہوں نے جو کیا وہ سب کے سامنے تھا، اب جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو اُس کی قیادت اور امریکہ اور سوویت یونین نے بھی ادراک کر لیا تھا کہ اگر پاکستان میں قومی یکجہتی اسی جنگ 1965 کے جوش وجذبے سے قائم رہتی ہے تو ایسی صورت میں کم از کم بھارت کا پاکستان کو شکست دینا ممکن نہیں، یوں خصوصاً بھارت اور سوویت یونین نے یہ طے کرلیا کہ پاکستان کے اندر انتشار پیدا کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر پاکستان کو جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی۔