قتل کی اجرت وصول ازمقتول
جب مسافر کی جان میں جان آئی تواس نے اس خستہ حالی اور جگہ جگہ سے ادھیڑنے کی وجہ پوچھی۔
یہ قول زریں یا ڈاکٹرائن چونکہ ہمارا نہیں ہے، قہرخداوندی چشم گل چشم عرف سوائن فلو کا ہے، اس لیے اس کاجوبھی ثواب وعذاب یاحساب کتاب بنتاہے وہ اسی کوجانا چاہیے۔ ویسے تویہ قول زریں یامقتولین یا ڈاکٹراین خاص ہے یعنی اس نے خاص طورپر ڈاکٹرامرود، مردود کے بارے میں لانچ کیا ہواہے لیکن اسے عمومی بھی کہا جا سکتا ہے۔
قہرخداوندی نے اس ضمن میں جوبیان بزبان عیان اعلان کیاہے، اس میں کہاگیاہے کہ اجرتی قاتل کئی اقسام اور کیٹگری کے ہوتے ہیں جو طرح طرح کے آلات قتل سے واردات سرانجام دیتے ہیں یعنی قتل بذریعہ ترازو،قتل بذریعہ بازو اور قتل بذریعہ ''مازو''یعنی ملاوٹ وغیرہ کے کرتے ہیں لیکن دو اقسام کے اجرتی قاتل زیادہ مشہور ومعروف اور مصرف فی شغوف ہوتے ہیں ایک تو وہ جوقتل کا معاوضہ کسی اور سے لے کرکسی اور کوقتل کرتے ہیں۔
یہ سیدھے اور عام اجرتی ہوتے ہیں اور بہت پرانے زمانے سے چلے آرہے ہیں لیکن دوسری قسم کے جونسبتاً جدیداور ماڈرن اجرتی ہیں، یہ قتل کا معاوضہ مقتول ہی سے وصول کرتے ہیں اور پیشگی وصول کرتے ہیں اور ان کے آلات قتل بھی مختلف ہوتے ہیں جسے ڈاکٹر امرود مردود دوائیوںکے ذریعے وارداتیں کرتاہے یاجیسے علامہ بریانی تعویزات اور عملیات سے کرتاہے یالیڈر ٹائپ لوگ کچھ اور نادیدہ آلات استعمال کرتے ہیں۔
یہ تو وہ خود بھی جانتا ہے، ہم بھی جانتے ہیں اور مانتے ہیں کیونکہ اس کو پہچانتے ہیں اور اس کے اقوال وافعال واعمال کو چھانٹے اورچھانتے ہیں،کہ اس کا اصل نشانہ علامہ اور ڈاکٹر ہی ہوتے ہیں لیکن بات کو عمومی جامہ حجامہ بلکہ پجامہ پہناکر مشتہرعامہ کردیتاہے۔یہ اس دن کی بات ہے جب ڈاکٹر امرود مردود نے مفت''کارمنیو''مکسچر پلانے سے انکار کر دیاتھا ۔
ڈاکٹرامردو نے خود یہ مکسچرایجاد کیاہواہے جس میں ایک مشہور اشتہاری دوا کی طرح صرف آٹے کا سوڈا ہوتاہے لیکن اسے رنگارنگ فیلور کے شربتوں سے ایک خوش ذائقہ مشروب بنایاہواہے اور بعض لوگوں کو مفت پلاتاہے خاص طور پرقہرخداوندی یا علامہ بریانی جب کسی خانہ بربادی جمعہ جمعرات یا چہلم، برسی سے اوور لوڈ ہوکر آتے ہیں، ایک دن ہم نے علامہ بریانی سے پوچھا بھی تھا کہ آپ کے پاس تواپنا جدی پشتی اور ڈویلپ کیاہوا چورن''سب کچھ ہضم''بھی ہے توبولے کہ وہ کم ازکم مفت سے تو مہنگا پڑتا ہے۔
اس لیے یہاں وہاں پیرٹکانے کی کوشش کرے گا لیکن میں بھی اسے چھوڑنے والا نہیں ہوں، پیر کے انگوٹھے تک اس کا پیچھاکروں گا اور اس نے واقعی پیچھا کیا۔ مرض نے بھی یہاں وہاں دوڑا دوڑا ،بھاگم بھاگ کا سلسلہ جاری رکھا۔کان سے آنکھوں پھرناک میں پھر یکے بعد دیگرے نتھنوں، آنتوں میں، ٹھوڑی میں،گردن میں گلے میں یہاں تک کہ زبان میں چھپنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی ڈاکٹر امرود تھا اور پھر مردود بھی تھا۔چنانچہ دل جگر گردوں پھیپھڑوں اور آنتوں میں یہ تعاقب جاری رہا۔آخرکار دس سال گزرنے کے بعد وہ گھٹنوں تک جاچکاہے اور ڈاکٹرامرود کا یہ دعویٰ اپنی جگہ قائم ہے کہ میں اسے پیر کے انگوٹھے میں پہنچا کر دم لوں گا۔
اور مرض کادم نکالوں گا، چاہے اس کے ساتھ مریض کابھی دم کیوں نہ نکل جائے کیونکہ''دام'' تواسے برابرمل رہے ہیں۔ چنانچہ اسی مریض کودیکھتے ہوئے بظاہرہم سے لیکن حقیقت میں ڈاکٹرپر ضرب لگائے ہوئے کہنے لگا، یہ کیازمانہ آگیا، کیسے کیسے اجرتی قاتل پیدا ہوگئے کہ قتل بھی کرتے ہیں اور اجرت کسی دشمن کے بجائے اسی مقتول یا ہونے والے مقتول سے لیتے ہیں۔ پھر اسی موضوع کوہدف مان کر وہ تیراندازی کی کہ ڈاکٹر امرود مردود کی بجائے کوئی اور ہوتا تویا تواس کا جبڑا توڑ چکا ہوتا یا اپنی دکان چھوڑ چکاہوتا۔اجرتی قاتلوں کے اس موضوع کے گرد حکایتوں اور لطیفوں کے جال بھی بنتاچلا گیا، پھر ایک اجرتی کی حکایت بیان کرتے ہوئے بولا،اس اجرتی قاتل نے نناوے قتل کیے تھے۔
آخر میں وہ توبہ تائب ہوکر کفارہ ادا کرنے کی کوشش کرنے لگا، اس نے لق ودق صحرا میں زرکثیر صرف کرکے ایک باغ لگایا جس میں خربوز تربوز کے ساتھ دوسرے بہت سارے پھل بھی تھے، یہاں تک کہ اس میں امرود جیسے فضول اور کیڑوں بھرے پھل کے درخت بھی تھے، یہاں اس نے امرود پر اچھا خاصا ''کودم کود'' کرتے ہوئے اسے دنیا کا سب سے مردود پھل قرار دیا۔پھر کہانی کو آگے کوبڑھاتے بولا کہ وہ اجرتی قاتل جس نے صرف نناوے قتل کیے تھے۔
آج کے اجرتیوں (ڈاکٹر امرود کی طرف دیکھ) مردودوں کی طرح کشتوں کے پشتے نہیں لگاتے تھے، اپنے گناہوں کا کفارہ اس طرح ادا کرنے لگا کہ راہ چلتے مسافروں کو پھل کھلاتا، پانی پلاتا اور ہرطرح کی خدمت کرتا۔ایک دن ایک نہایت ہی خستہ حال اور جگہ جگہ سے زخمی مسافرآیا تو اس نے جلدی سے پانی پلایااور پھل کاٹ کرکھلانے لگا۔
جب مسافر کی جان میں جان آئی تواس نے اس خستہ حالی اور جگہ جگہ سے ادھیڑنے کی وجہ پوچھی۔مسافر نے کہا،کیا بتاؤں، میں اس ایک گاؤں میں ڈاکٹری کی دکان کرتا تھا۔ لوگوں کو ان کے بوڑھے ''بوجھوں'' سے نجات دلاتا تھا لیکن ایک میری اور اس کی بدقسمتی سے ایک ایسی بڑھیا زد میں آئی جو اپنی اولاد پربوجھ تھی لیکن مجھے کیاپتہ تھا، میں نے تواس کی اولادوں پراحسان کی غرض سے انجکشن کے نشانے پرلیا اور وہ ٹیں ہوگئی۔ اس پر گاؤں والے میرے خلاف ہوگئے اور سب اپنے اپنے بوڑھوں کے مدعی ہوگئے۔ میں بھاگا لیکن پھر بھی پتھروں کانشانہ بن گیا۔اب ارادہ ہے کہ اگلے گاؤں میں اپنی دکان کھولوں گا۔
اتفاق سے وہ اگلا گاؤں اس سابق اجرتی قاتل کاتھا جس میں اس کے والدین بھی تھے جن کی دعاؤں کی اسے سخت ضرورت تھی۔چنانچہ اس نے تلوار نکالی اور اس ڈاکٹر کا بھٹہ سا سر اڑادیا اور قتل الموذی قبل الایزا پرعمل کیا۔ کہتے ہیں، خدانے اس آخری قتل پراس کے سابقہ نناوے قتلوں کومعاف کردیا۔ وللہ اعلم۔
قہرخداوندی نے اس ضمن میں جوبیان بزبان عیان اعلان کیاہے، اس میں کہاگیاہے کہ اجرتی قاتل کئی اقسام اور کیٹگری کے ہوتے ہیں جو طرح طرح کے آلات قتل سے واردات سرانجام دیتے ہیں یعنی قتل بذریعہ ترازو،قتل بذریعہ بازو اور قتل بذریعہ ''مازو''یعنی ملاوٹ وغیرہ کے کرتے ہیں لیکن دو اقسام کے اجرتی قاتل زیادہ مشہور ومعروف اور مصرف فی شغوف ہوتے ہیں ایک تو وہ جوقتل کا معاوضہ کسی اور سے لے کرکسی اور کوقتل کرتے ہیں۔
یہ سیدھے اور عام اجرتی ہوتے ہیں اور بہت پرانے زمانے سے چلے آرہے ہیں لیکن دوسری قسم کے جونسبتاً جدیداور ماڈرن اجرتی ہیں، یہ قتل کا معاوضہ مقتول ہی سے وصول کرتے ہیں اور پیشگی وصول کرتے ہیں اور ان کے آلات قتل بھی مختلف ہوتے ہیں جسے ڈاکٹر امرود مردود دوائیوںکے ذریعے وارداتیں کرتاہے یاجیسے علامہ بریانی تعویزات اور عملیات سے کرتاہے یالیڈر ٹائپ لوگ کچھ اور نادیدہ آلات استعمال کرتے ہیں۔
یہ تو وہ خود بھی جانتا ہے، ہم بھی جانتے ہیں اور مانتے ہیں کیونکہ اس کو پہچانتے ہیں اور اس کے اقوال وافعال واعمال کو چھانٹے اورچھانتے ہیں،کہ اس کا اصل نشانہ علامہ اور ڈاکٹر ہی ہوتے ہیں لیکن بات کو عمومی جامہ حجامہ بلکہ پجامہ پہناکر مشتہرعامہ کردیتاہے۔یہ اس دن کی بات ہے جب ڈاکٹر امرود مردود نے مفت''کارمنیو''مکسچر پلانے سے انکار کر دیاتھا ۔
ڈاکٹرامردو نے خود یہ مکسچرایجاد کیاہواہے جس میں ایک مشہور اشتہاری دوا کی طرح صرف آٹے کا سوڈا ہوتاہے لیکن اسے رنگارنگ فیلور کے شربتوں سے ایک خوش ذائقہ مشروب بنایاہواہے اور بعض لوگوں کو مفت پلاتاہے خاص طور پرقہرخداوندی یا علامہ بریانی جب کسی خانہ بربادی جمعہ جمعرات یا چہلم، برسی سے اوور لوڈ ہوکر آتے ہیں، ایک دن ہم نے علامہ بریانی سے پوچھا بھی تھا کہ آپ کے پاس تواپنا جدی پشتی اور ڈویلپ کیاہوا چورن''سب کچھ ہضم''بھی ہے توبولے کہ وہ کم ازکم مفت سے تو مہنگا پڑتا ہے۔
اس لیے یہاں وہاں پیرٹکانے کی کوشش کرے گا لیکن میں بھی اسے چھوڑنے والا نہیں ہوں، پیر کے انگوٹھے تک اس کا پیچھاکروں گا اور اس نے واقعی پیچھا کیا۔ مرض نے بھی یہاں وہاں دوڑا دوڑا ،بھاگم بھاگ کا سلسلہ جاری رکھا۔کان سے آنکھوں پھرناک میں پھر یکے بعد دیگرے نتھنوں، آنتوں میں، ٹھوڑی میں،گردن میں گلے میں یہاں تک کہ زبان میں چھپنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی ڈاکٹر امرود تھا اور پھر مردود بھی تھا۔چنانچہ دل جگر گردوں پھیپھڑوں اور آنتوں میں یہ تعاقب جاری رہا۔آخرکار دس سال گزرنے کے بعد وہ گھٹنوں تک جاچکاہے اور ڈاکٹرامرود کا یہ دعویٰ اپنی جگہ قائم ہے کہ میں اسے پیر کے انگوٹھے میں پہنچا کر دم لوں گا۔
اور مرض کادم نکالوں گا، چاہے اس کے ساتھ مریض کابھی دم کیوں نہ نکل جائے کیونکہ''دام'' تواسے برابرمل رہے ہیں۔ چنانچہ اسی مریض کودیکھتے ہوئے بظاہرہم سے لیکن حقیقت میں ڈاکٹرپر ضرب لگائے ہوئے کہنے لگا، یہ کیازمانہ آگیا، کیسے کیسے اجرتی قاتل پیدا ہوگئے کہ قتل بھی کرتے ہیں اور اجرت کسی دشمن کے بجائے اسی مقتول یا ہونے والے مقتول سے لیتے ہیں۔ پھر اسی موضوع کوہدف مان کر وہ تیراندازی کی کہ ڈاکٹر امرود مردود کی بجائے کوئی اور ہوتا تویا تواس کا جبڑا توڑ چکا ہوتا یا اپنی دکان چھوڑ چکاہوتا۔اجرتی قاتلوں کے اس موضوع کے گرد حکایتوں اور لطیفوں کے جال بھی بنتاچلا گیا، پھر ایک اجرتی کی حکایت بیان کرتے ہوئے بولا،اس اجرتی قاتل نے نناوے قتل کیے تھے۔
آخر میں وہ توبہ تائب ہوکر کفارہ ادا کرنے کی کوشش کرنے لگا، اس نے لق ودق صحرا میں زرکثیر صرف کرکے ایک باغ لگایا جس میں خربوز تربوز کے ساتھ دوسرے بہت سارے پھل بھی تھے، یہاں تک کہ اس میں امرود جیسے فضول اور کیڑوں بھرے پھل کے درخت بھی تھے، یہاں اس نے امرود پر اچھا خاصا ''کودم کود'' کرتے ہوئے اسے دنیا کا سب سے مردود پھل قرار دیا۔پھر کہانی کو آگے کوبڑھاتے بولا کہ وہ اجرتی قاتل جس نے صرف نناوے قتل کیے تھے۔
آج کے اجرتیوں (ڈاکٹر امرود کی طرف دیکھ) مردودوں کی طرح کشتوں کے پشتے نہیں لگاتے تھے، اپنے گناہوں کا کفارہ اس طرح ادا کرنے لگا کہ راہ چلتے مسافروں کو پھل کھلاتا، پانی پلاتا اور ہرطرح کی خدمت کرتا۔ایک دن ایک نہایت ہی خستہ حال اور جگہ جگہ سے زخمی مسافرآیا تو اس نے جلدی سے پانی پلایااور پھل کاٹ کرکھلانے لگا۔
جب مسافر کی جان میں جان آئی تواس نے اس خستہ حالی اور جگہ جگہ سے ادھیڑنے کی وجہ پوچھی۔مسافر نے کہا،کیا بتاؤں، میں اس ایک گاؤں میں ڈاکٹری کی دکان کرتا تھا۔ لوگوں کو ان کے بوڑھے ''بوجھوں'' سے نجات دلاتا تھا لیکن ایک میری اور اس کی بدقسمتی سے ایک ایسی بڑھیا زد میں آئی جو اپنی اولاد پربوجھ تھی لیکن مجھے کیاپتہ تھا، میں نے تواس کی اولادوں پراحسان کی غرض سے انجکشن کے نشانے پرلیا اور وہ ٹیں ہوگئی۔ اس پر گاؤں والے میرے خلاف ہوگئے اور سب اپنے اپنے بوڑھوں کے مدعی ہوگئے۔ میں بھاگا لیکن پھر بھی پتھروں کانشانہ بن گیا۔اب ارادہ ہے کہ اگلے گاؤں میں اپنی دکان کھولوں گا۔
اتفاق سے وہ اگلا گاؤں اس سابق اجرتی قاتل کاتھا جس میں اس کے والدین بھی تھے جن کی دعاؤں کی اسے سخت ضرورت تھی۔چنانچہ اس نے تلوار نکالی اور اس ڈاکٹر کا بھٹہ سا سر اڑادیا اور قتل الموذی قبل الایزا پرعمل کیا۔ کہتے ہیں، خدانے اس آخری قتل پراس کے سابقہ نناوے قتلوں کومعاف کردیا۔ وللہ اعلم۔