وزیر اعظم عمران خان کا جنرل اسمبلی سے فقید المثال خطاب
وزیر اعظم عمران خان نے اپنے پیش رو کی اہلیت و قابلیت پر اپنی نمایاں اور واضح برتری کا کھلا ثبوت پیش کردیا ہے۔
گزشتہ 27 ستمبر کو جمعہ کے مبارک دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74 ویں اجلاس سے تاریخ ساز خطاب کرکے وزیر اعظم عمران خان نے مظلوم کشمیریوں کے سفیر اور مسلم امہ کے ابھرتے ہوئے ترجمان کی حیثیت سے اپنی زبردست اور شاندار کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ سچ پوچھیے تو ادبی زبان میں انھوں نے ایک قادرالکلام شاعر کے طور پر پورا مشاعرہ لوٹ لیا۔ ان کی تقریر کا ایک ایک لفظ حقیقت کا ترجمان تھا ،اس لیے اس میں بلا کی اثر انگیزی تھی۔ بقول اقبال:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
تقریباً ایک گھنٹہ طویل دورانیے پر مشتمل ان کی یہ تقریر فکرانگیز تھی۔ اس تقریر کی ایک اور نمایاں اور قابل ذکر خوبی یہ تھی کہ مقرر نے اپنے انداز و بیان سے یہ ثابت کردیا کہ اسے انگریزی پر اہل زبان سے بھی زیادہ عبور حاصل ہے۔ سب سے بڑا کمال یہ کہ دنیا کے سب سے بڑے فورم سے وزیر اعظم عمران خان کا یہ تاریخی خطاب اولین بھی تھا اور فی البدیہ بھی۔ یوں لگتا تھا گویا:
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
فی البدیہ تقریر کو روایتی لکھی ہوئی تقریر پر ترجیح دے کر وزیر اعظم عمران خان نے اپنے پیش رو کی اہلیت و قابلیت پر اپنی نمایاں اور واضح برتری کا کھلا ثبوت پیش کردیا ہے اور شاعر بے بدل مرزا غالب کے اس مشہور شعر کی تائید کردی ہے:
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
اگرچہ وزیر اعظم عمران خان کی اس تقریر کو تین دن کا عرصہ گزر چکا ہے مگر ابھی تک اس کے چرچے جاری ہیں ۔ عمران خان کے مخالف حلقے بھی ان کی صلاحیت و کامیابی کا اعتراف کرنے پر مجبور دکھائی دے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والوں میں عمران خان کا نمبر بہ لحاظ ترتیب ساتواں تھا جب کہ ان کے حریف ہم منصب بھارتی پردھان منتری نریندر مودی ان سے قبل نہایت عیاری کے ساتھ چوتھے نمبر پر مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں کی حالت زار اور اپنی اور اپنی حکومت کی بربریت کا تذکرہ گول کرنے کے بعد اپنی حکومت کی امن و آشتی کا جھوٹا پرچار کرکے جاچکے تھے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اسٹیج پر آتے ہی ثابت کردیا کہ وہ اول درجے کی حیثیت کے حامل ہیں اور ان کا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے کوئی موازنہ نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے بلاتکلف اور بلاتامل نریندر مودی اور ان کی انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ المعروف آر ایس ایس کا کچا چٹھا کھول کر سب کے سامنے رکھ دیا اور ببانگ دہل اس حقیقت کا انکشاف کردیا کہ بی جے پی کی مادر جماعت آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والا سرگرم کارکن ناتھورام گوڈسے ہی گاندھی جی کا قاتل تھا جو سزائے موت پاکر اپنے کیفرکردار کو پہنچا تھا۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں 1925 میں قائم ہونے والی ''ہندوتوا'' کا نعرہ لگانے والی ہندو انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کے بانیوں اور سرغنوں گروگول والکر اور ساورکر کا مختصر حوالہ بھی دیا۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ بھارت کی موجودہ حکمران جماعت دراصل آر ایس ایس ہی کے بطن سے پیدا ہوئی ہے اور دیگر متعصب ہندو تنظیمیں بشمول شیو سینا اور بجرنگ دل بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے۔
شیواجی مرہٹہ ان تمام ہندو انتہا پسند جماعتوں کا ہیرو ہے۔ شیوا جی مرہٹہ نے طاقت کے بل بوتے پر ایک گروہ بنایا اور بالآخر کچھ علاقے پر قبضہ کرکے حکمران بن بیٹھا۔ مغل شہنشاہ اورنگزیب کے دور میں مغلیہ فوج نے اسے کافی تگ و دو کے بعد گرفتار کرلیا۔ مگر کچھ عرصے کے بعد یہ اپنی چالاکی اور عیاری سے مغلوں کی قید سے فرار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ کوئی بھوشتن نامی وزیر ہندی شاعر اس کا درباری شاعر تھا جس نے اس کی جھوٹی شان میں قصیدہ گوئی کرکے خوب خوب عزت، دولت اور شہرت پائی۔
وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74 ویں اجلاس میں اپنے تاریخی خطاب کے ذریعے جس غیر معمولی انداز میں مظلوم کشمیریوں کا مقدمہ لڑا ہے اس کی جتنی بھی تعریف و تحسین کی جائے وہ کم ہے۔ ان کی اس دلیرانہ اور بے مثل وکالت نے ایک جانب سوئے ہوئے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے تو دوسری جانب مظلوم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ وزیر اعظم نے ہٹلر اور مسولینی کے فسطائی فلسفے پر عمل پیرا بھارتی سفاک حکمرانوں کے مکروہ چہرے بھی بالکل بے نقاب کردیے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے معذرت خواہانہ روایت کو ترک کرکے مقبوضہ کشمیر کے تنازعے کے حوالے سے ایک جرأت مندانہ، حقیقت پسندانہ اور منصفانہ موقف پیش کرکے نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ اقوام عالم کو اس حقیقت کا احساس اور اعتراف کرنے پر مجبور کردیا کہ بھارت نہ صرف مقبوضہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرکے اس عالمی ادارے کے تقدس کو پامال کر رہا ہے بلکہ مظلوم کشمیریوں کا ناطقہ بند کرکے ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھا ڈھا کر ان پر عرصہ حیات تنگ کر رہا ہے۔
جابر و ظالم بھارتی حکمرانوں کا یہ طرز عمل انسانیت کی بدترین تذلیل اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے نہایت جرأت مندی اور حق گوئی کے ساتھ عالمی قوتوں کو ان کے دوغلے پن کا بھی خوب احساس دلایا ہے اور دو ٹوک الفاظ میں یہ باور کرایا ہے کہ عالم اسلام اور دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ انصاف کے معاملے میں ان کے رویے اور پیمانے قطعی مختلف ہیں۔ جب دیگر اقوام عالم پر کوئی افتاد پڑتی ہے تو ان کی انسانیت جاگ اٹھتی ہے اور جب مسلمانوں کو کوئی مشکل پیش آتی ہے اور ان کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے تو انھیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ عمران خان نے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کا بڑی حوصلہ مندی اور دل سوزی سے تذکرہ کیا۔ ان کا یہ شکوہ بالکل بجا، برمحل اور بروقت تھا کہ بزبان علامہ اقبال:
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
وزیر اعظم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دہشت گردی کے حوالے سے اسلام کو خواہ مخواہ بدنام کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے جو بھی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں وہ مغربی رہنماؤں کی متضاد باتوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ انھوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ اسلامو فوبیا کا تصور مغرب کا اپنا پیدا کردہ ہے۔
نائن الیون کے بعد اسلاموفوبیا کو بہت تیزی سے دنیا بھر میں پھیلایا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے باآواز بلند یہ بھی کہا کہ مغرب میں پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخیوں کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی سے تاریخی خطاب میں اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ انھوں نے جو کچھ بھی کہا حرف بہ حرف درست اور بالکل بجا اور ڈنکے کی چوٹ پر کہا۔ ان کا پورا خطاب حق گوئی اور ناقابل تردید حقائق کا آئینہ دار تھا۔
انھوں نے ضرورت سے زیادہ ایک لفظ بھی استعمال نہیں کیا اور قیمتی وقت کا ایک لمحہ بھی ضایع نہیں کیا۔ انھوں نے ایوان کے تقدس کا بھرپور احترام کرتے ہوئے ہر بات سلیقے اور انتہائی شائستگی سے کہی۔ ان کی ہر بات پوری دلچسپی اور توجہ سے سنی گئی اور ان کی تائید و تحسین میں کئی بار شرکائے مجلس نے تالیاں بھی بجائیں۔
تاہم بھارتی مندوبین کو وزیر اعظم کا شاندار خطاب ہضم نہیں ہوسکا۔ وہ اس میں کیڑے تو نہیں نکال سکے لیکن ان کے پیٹ میں یہ مروڑ اٹھ رہے ہیں کہ عمران خان کو خطاب کے لیے 15 منٹ کے بجائے 45 منٹ کیوں دیے گئے؟ اس کا جواب شاید پنجابی زبان کی کہاوت ''جیسا منہ ویسی چپیڑ'' کی صورت میں مضمر ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پہلی مرتبہ فی البدیہ رواں اور انتہائی متاثر کن خطاب کرکے نہ صرف ایک بلند پایہ اور ثقہ مقرر کی حیثیت سے اپنی غیر معمولی صلاحیت کا عالمی سطح پر لوہا منوالیا ہے بلکہ اندرون ملک اپنی گرتی ہوئی ساکھ اور کم ہوتی ہوئی مقبولیت کو بھی بچا لیا ہے۔ بے شک عزت بخشنے والی اور ذلت سے دوچار کرنے والی ذات اللہ اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
تقریباً ایک گھنٹہ طویل دورانیے پر مشتمل ان کی یہ تقریر فکرانگیز تھی۔ اس تقریر کی ایک اور نمایاں اور قابل ذکر خوبی یہ تھی کہ مقرر نے اپنے انداز و بیان سے یہ ثابت کردیا کہ اسے انگریزی پر اہل زبان سے بھی زیادہ عبور حاصل ہے۔ سب سے بڑا کمال یہ کہ دنیا کے سب سے بڑے فورم سے وزیر اعظم عمران خان کا یہ تاریخی خطاب اولین بھی تھا اور فی البدیہ بھی۔ یوں لگتا تھا گویا:
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
فی البدیہ تقریر کو روایتی لکھی ہوئی تقریر پر ترجیح دے کر وزیر اعظم عمران خان نے اپنے پیش رو کی اہلیت و قابلیت پر اپنی نمایاں اور واضح برتری کا کھلا ثبوت پیش کردیا ہے اور شاعر بے بدل مرزا غالب کے اس مشہور شعر کی تائید کردی ہے:
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
اگرچہ وزیر اعظم عمران خان کی اس تقریر کو تین دن کا عرصہ گزر چکا ہے مگر ابھی تک اس کے چرچے جاری ہیں ۔ عمران خان کے مخالف حلقے بھی ان کی صلاحیت و کامیابی کا اعتراف کرنے پر مجبور دکھائی دے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والوں میں عمران خان کا نمبر بہ لحاظ ترتیب ساتواں تھا جب کہ ان کے حریف ہم منصب بھارتی پردھان منتری نریندر مودی ان سے قبل نہایت عیاری کے ساتھ چوتھے نمبر پر مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں کی حالت زار اور اپنی اور اپنی حکومت کی بربریت کا تذکرہ گول کرنے کے بعد اپنی حکومت کی امن و آشتی کا جھوٹا پرچار کرکے جاچکے تھے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اسٹیج پر آتے ہی ثابت کردیا کہ وہ اول درجے کی حیثیت کے حامل ہیں اور ان کا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے کوئی موازنہ نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے بلاتکلف اور بلاتامل نریندر مودی اور ان کی انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ المعروف آر ایس ایس کا کچا چٹھا کھول کر سب کے سامنے رکھ دیا اور ببانگ دہل اس حقیقت کا انکشاف کردیا کہ بی جے پی کی مادر جماعت آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والا سرگرم کارکن ناتھورام گوڈسے ہی گاندھی جی کا قاتل تھا جو سزائے موت پاکر اپنے کیفرکردار کو پہنچا تھا۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں 1925 میں قائم ہونے والی ''ہندوتوا'' کا نعرہ لگانے والی ہندو انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کے بانیوں اور سرغنوں گروگول والکر اور ساورکر کا مختصر حوالہ بھی دیا۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ بھارت کی موجودہ حکمران جماعت دراصل آر ایس ایس ہی کے بطن سے پیدا ہوئی ہے اور دیگر متعصب ہندو تنظیمیں بشمول شیو سینا اور بجرنگ دل بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے۔
شیواجی مرہٹہ ان تمام ہندو انتہا پسند جماعتوں کا ہیرو ہے۔ شیوا جی مرہٹہ نے طاقت کے بل بوتے پر ایک گروہ بنایا اور بالآخر کچھ علاقے پر قبضہ کرکے حکمران بن بیٹھا۔ مغل شہنشاہ اورنگزیب کے دور میں مغلیہ فوج نے اسے کافی تگ و دو کے بعد گرفتار کرلیا۔ مگر کچھ عرصے کے بعد یہ اپنی چالاکی اور عیاری سے مغلوں کی قید سے فرار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ کوئی بھوشتن نامی وزیر ہندی شاعر اس کا درباری شاعر تھا جس نے اس کی جھوٹی شان میں قصیدہ گوئی کرکے خوب خوب عزت، دولت اور شہرت پائی۔
وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74 ویں اجلاس میں اپنے تاریخی خطاب کے ذریعے جس غیر معمولی انداز میں مظلوم کشمیریوں کا مقدمہ لڑا ہے اس کی جتنی بھی تعریف و تحسین کی جائے وہ کم ہے۔ ان کی اس دلیرانہ اور بے مثل وکالت نے ایک جانب سوئے ہوئے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے تو دوسری جانب مظلوم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ وزیر اعظم نے ہٹلر اور مسولینی کے فسطائی فلسفے پر عمل پیرا بھارتی سفاک حکمرانوں کے مکروہ چہرے بھی بالکل بے نقاب کردیے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے معذرت خواہانہ روایت کو ترک کرکے مقبوضہ کشمیر کے تنازعے کے حوالے سے ایک جرأت مندانہ، حقیقت پسندانہ اور منصفانہ موقف پیش کرکے نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ اقوام عالم کو اس حقیقت کا احساس اور اعتراف کرنے پر مجبور کردیا کہ بھارت نہ صرف مقبوضہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرکے اس عالمی ادارے کے تقدس کو پامال کر رہا ہے بلکہ مظلوم کشمیریوں کا ناطقہ بند کرکے ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھا ڈھا کر ان پر عرصہ حیات تنگ کر رہا ہے۔
جابر و ظالم بھارتی حکمرانوں کا یہ طرز عمل انسانیت کی بدترین تذلیل اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے نہایت جرأت مندی اور حق گوئی کے ساتھ عالمی قوتوں کو ان کے دوغلے پن کا بھی خوب احساس دلایا ہے اور دو ٹوک الفاظ میں یہ باور کرایا ہے کہ عالم اسلام اور دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ انصاف کے معاملے میں ان کے رویے اور پیمانے قطعی مختلف ہیں۔ جب دیگر اقوام عالم پر کوئی افتاد پڑتی ہے تو ان کی انسانیت جاگ اٹھتی ہے اور جب مسلمانوں کو کوئی مشکل پیش آتی ہے اور ان کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے تو انھیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ عمران خان نے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کا بڑی حوصلہ مندی اور دل سوزی سے تذکرہ کیا۔ ان کا یہ شکوہ بالکل بجا، برمحل اور بروقت تھا کہ بزبان علامہ اقبال:
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
وزیر اعظم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دہشت گردی کے حوالے سے اسلام کو خواہ مخواہ بدنام کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے جو بھی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں وہ مغربی رہنماؤں کی متضاد باتوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ انھوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ اسلامو فوبیا کا تصور مغرب کا اپنا پیدا کردہ ہے۔
نائن الیون کے بعد اسلاموفوبیا کو بہت تیزی سے دنیا بھر میں پھیلایا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے باآواز بلند یہ بھی کہا کہ مغرب میں پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخیوں کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی سے تاریخی خطاب میں اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ انھوں نے جو کچھ بھی کہا حرف بہ حرف درست اور بالکل بجا اور ڈنکے کی چوٹ پر کہا۔ ان کا پورا خطاب حق گوئی اور ناقابل تردید حقائق کا آئینہ دار تھا۔
انھوں نے ضرورت سے زیادہ ایک لفظ بھی استعمال نہیں کیا اور قیمتی وقت کا ایک لمحہ بھی ضایع نہیں کیا۔ انھوں نے ایوان کے تقدس کا بھرپور احترام کرتے ہوئے ہر بات سلیقے اور انتہائی شائستگی سے کہی۔ ان کی ہر بات پوری دلچسپی اور توجہ سے سنی گئی اور ان کی تائید و تحسین میں کئی بار شرکائے مجلس نے تالیاں بھی بجائیں۔
تاہم بھارتی مندوبین کو وزیر اعظم کا شاندار خطاب ہضم نہیں ہوسکا۔ وہ اس میں کیڑے تو نہیں نکال سکے لیکن ان کے پیٹ میں یہ مروڑ اٹھ رہے ہیں کہ عمران خان کو خطاب کے لیے 15 منٹ کے بجائے 45 منٹ کیوں دیے گئے؟ اس کا جواب شاید پنجابی زبان کی کہاوت ''جیسا منہ ویسی چپیڑ'' کی صورت میں مضمر ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پہلی مرتبہ فی البدیہ رواں اور انتہائی متاثر کن خطاب کرکے نہ صرف ایک بلند پایہ اور ثقہ مقرر کی حیثیت سے اپنی غیر معمولی صلاحیت کا عالمی سطح پر لوہا منوالیا ہے بلکہ اندرون ملک اپنی گرتی ہوئی ساکھ اور کم ہوتی ہوئی مقبولیت کو بھی بچا لیا ہے۔ بے شک عزت بخشنے والی اور ذلت سے دوچار کرنے والی ذات اللہ اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔