تقریر تو ہوگئی اب کیا ہوگا
گزشتہ ایک سال میں سوائے اندھیرے اور ناامیدی کے کچھ نظر ہی نہیں آرہا۔ بلکہ ملکی صورتحال پہلے سے بھی بدتر ہوگئی ہے
میں نے جب وزیراعظم عمران خان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب سنا تو خوشی اور فخر سے میرا سر بلند ہوگیا۔ چاروں جانب بس خوشی ہی خوشی محسوس ہونے لگی، حتیٰ کہ اپنے اردگرد بے جان اشیاء بھی مجھے مسکراتی محسوس ہورہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے بس اب مسلمانوں پر جاری ذلت کا دور ختم ہونے والا ہے۔ کشمیر، فلسطین، افغانستان، عراق، لیبیا، شام، یمن اور دنیا بھر میں انتہائی تکلیف میں زندگی گزارنے والے مسلمانوں کو ایک رہنما مل گیا ہے۔ ایسا رہنما جو طیب اردگان اور مہاتیر محمد جیسے زبردست مسلم رہنماؤں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کےلیے نکلے گا، چاہے وہ انٹارکٹیکا میں ہی کیوں نہ ہوں۔ وہ مسلمانوں کی حفاظت کےلیے دنیا کی کسی طاقت کو خاطر میں نہیں لائے گا۔ اور بس اب ظلم کی رات کا اختتام ہونے ہی والا ہے۔ فلسطین پر قابض صہیونی سہم گئے ہوں گے، ہندوستان میں مسلمان شانے چوڑے کرکے بغیر کسی خوف کے نکلیں گے۔ خدائے بزرگ و برتر نے پسے ہوئے مظلوم مسلمانوں کی سن لی اور بالآخر وزیراعظم پاکستان عمران خان کی صورت میں نجات دہندہ اس قوم کو ذلتوں، ناکامیوں اور ظلم سے بچانے کےلیے بھیج ہی دیا۔
عمران خان نے جس بے خوفی اور جرأتمدانہ انداز میں اقوم عالم سمیت عالمی رہنماؤں پر براہ راست تنقید کی، اس کی ہمت میں نے کسی اور میں نہیں دیکھی۔ وزیراعظم پاکستان نے اپنے خطاب میں کہا کہ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ ایک اعشاریہ دو ارب کی آبادی والی مارکیٹ کو خوش کرنے کے بجائے انڈیا کو کشمیر کی پالیسی بدلنے پر مجبور کرے۔ کشمیر کی صورتحال دو ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ شروع کروا سکتی ہے۔ یہ جنگ ہوئی تو پاکستان آخری حد تک جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا 'یہ دھمکی نہیں بلکہ وارننگ ہے'۔
پاکستان سمیت شائد کوئی بھی پاکستان کی جانب سے اس طرح کے بیان کی توقع نہیں کررہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا مقبوضہ کشمیر کی کشیدہ صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ 50 روز سے زائد ہوگئے ہیں اور 80 لاکھ افراد لاک ڈاؤن کا شکار ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جو ہورہا ہے، وہ بد سے بدتر ہوتا جائے گا اور یہ انتہائی خطرناک ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کو درست طور پر سمجھ میں نہیں آرہا کہ کشمیر میں ہو کیا رہا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ جب سے نریندر مودی کی حکومت آئی کشمیریوں پر جبر مزید بڑھا دیا گیا ہے، کشمیری کئی سال سے حق خودارادیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جب کرفیو ہٹے گا تو وادی کے حالات کھل کر دنیا کے سامنے آجائیں ۔ے، بھارتی فورسز اور کشمیریوں کے درمیان تصادم ہوگا۔ مجھے خطرہ ہے کہ بھارتی فورسز کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر کشمیریوں کا قتل عام ہوگا۔ اگر حالات مزید بگڑ گئے تو نہ میرے اور نہ ہی امریکی صدر کے قابو میں آئیں گے۔ وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ پاکستان کو معاشی بدحالی سے نکالنے کےلیے کوشاں ہیں، ملکی معاشی صورتحال کے باوجود مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے یو این آیا ہوں۔
وزیراعظم پاکستان کی اس زبردست تقریر پر اپوزیشن نے بلاجواز تنقید کی یا یہ کہا جائے کہ حماقت کی تو بے جا نہیں ہوگا۔ عمران خان کی جذبات سے بھرپور بلکہ امریکا، اسرائیل اور بھارت کے ہوش اڑا دینے والی بہترین تقریر پر اپوزیشن کی تنقید پر قسم سے مجھے تو بہت غصہ آیا اور دل چاہا کہ ٹھوک دوں ایک غداری کا فیس بک اسٹیٹس، لیکن پھر خود کو بڑی مشکل سے روکا۔ وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرنے گئے تھے، کوئی جنگ لڑنے نہیں۔ وہاں تقریر ہی کی جاتی ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ تقریر کیسی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے یا شبہ نہیں کہ جنرل اسمبلی میں عمران خان کی تقریر ان کی زندگی کی بہترین تقریر تھی۔ انہوں نے اعتماد کے ساتھ اپنی بات سامعین تک پہنچائی اور دنیا بھر کو متاثر کیا۔ اس پر وہ داد کے مستحق ہیں۔ موجودہ حالات میں کشمیر پر جو کہا جاسکتا تھا، وہ انہوں نے کہہ دیا۔
بین الاقوامی فورمز پر خطیب کا سامعین سے براہ راست تعلق قائم رہتا ہے، اس لیے اہم مواقعوں پر یہ اہتمام کیا جاتا ہے کہ کوئی ایسا لفظ ادا نہ ہوجائے جس کا دفاع مشکل ہوجائے۔ اس لیے روایت رہی ہے کہ لکھی ہوئی عبارت پڑھی جائے۔ عمران خان نے براہ راست کلام کرکے جہاں اس روایت کو توڑا، وہیں تقریر کی روح کے مطابق بہت عمدہ اور موثر گفتگو کی۔
میں اعتراف کرتا ہوں کہ موجودہ حالات میں اس سے بہتر تقریر شائد ہی کوئی ہو۔ میں بار بار اس بات کا اعتراف کررہا ہوں کہ عمران خان نے اپنے زندگی کی بہترین تقریر کی اور دشمنان اسلام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جب اپوزیشن نے عمران خان پر تنقید شروع کی تو ایک لمحے پر غصہ تو آیا لیکن پھر سوچا کہ کیا اپوزیشن والے اتنے ننھے ہیں کہ ایک ایسے خطاب پر تنقید کریں جو دنیا بھر میں سراہا جارہا ہے۔ اگر اپوزیشن ایسا کررہی ہے تو اپنا ہی مذاق بنوارہی ہے۔ سو میں نے اب اس خطاب پر دوسرے زاویے سے غور کرنا شروع کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں میرا بلڈ پریشر 160 سے بڑھ گیا اور ہر وہ شے جو ایک روز قبل تک مسکراتی ہوئی لگ رہی تھی اب دیکھتے ہی غصہ آنے لگا۔
پی ٹی آئی کی عینک اترتے ہی میرے اٹھارہ طبق روشن ہوگئے اور مسٹر ہینڈسم کی ایک سالہ کارکردگی نے میرا خون جلا کر رکھ دیا۔ وزیراعظم جب اپوزیشن میں تھے تو یہ کہتے تھے کہ ملک میں کرپشن اس لیے عام ہے کیونکہ حکمران کرپٹ ہیں، مگر اب تو ایک سال سے ایمانداروں اور دیانتداروں کی حکومت ہے مگر جس بھی دفتر میں جاؤ کرپشن کا کاروبار دھڑلے سے جاری ہے۔ تھانوں میں مقدمہ درج کروانے کےلیے آج بھی رشوت دینی پڑتی ہے۔ بدعنوانی کا کاروبار اسی طرح جاری ہے۔ اسپتالوں اور اسکولوں میں صورتحال پہلے سے بھی بدتر ہے۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کو کام نہیں مل رہا۔ معیشت گزشتہ ایک سال سے مزید تیزی سے گراوٹ کا شکار ہے، جس میں ادائیگیوں کا عدم توازن، تجارتی خسارہ اور سرمایہ کاری میں کمی نمایاں مسائل ہیں۔ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے مالی تعاون کے باوجود بھی ملک کی معاشی صورت حال بہتر نہیں ہوسکی۔
حکومت کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پہلے ہی پیداوار پچاس فیصد کم ہوچکی ہے اور اب کشیدگی کی وجہ سے امپورٹرز آڈرز نہیں دے رہے، کیونکہ صورت حال غیر یقینی ہے اور انہیں نہیں معلوم کہ ہم وقت پر ان کی اشیاء انہیں دے بھی سکیں گے یا نہیں۔ یہ ساری صورتحال اپنی جگہ ہنوز موجود ہے لیکن اس تقریر نے ایک اہم کام کردیا وہ یہ کہ اس تقریر نے جہاں عمران خان کو بین الاقوامی میڈیا میں ایک بار پھر نمایاں کردیا ہے وہیں وابستگان عمران خان کو تقویت ضرورملی ہے، جن کےلیے عمران خان کی بدترین کارکردگی والی حکومت کا دفاع انتہائی دشوار ہوگیا تھا۔ عمران خان کے سپورٹر اس تقریر کو پی ٹی آئی اور عمران خان کی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ کو سہارے کے طورپر استعمال کررہے ہیں۔ عمران خان کی اس تقریر کو لے کر اگر ذوالفقار علی بھٹو سے عمران خان کا موازنہ کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ با ت بہت واضح ہوجاتی ہے کہ صرف تقریریں کسی رہنما اور حکومت کو سہارا ہرگز بھی نہیں دے سکتی، جبکہ وہ اندرونی محاذ پر ناکام ہوجائیں۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کا ہدف کشمیر کا معاملہ تھا تو واضح ہے کہ بھارت نے کشمیر پر بڑا غیر قانونی اقدام کیا اور ہم نے اس کے جواب میں تقریر۔ تقریر کسی بھی اقدام کا کبھی بھی اقدام نہیں ہوسکتی۔ اقوام متحدہ کی تاریخ میں یہ پہلی متاثر کن تقریر ہرگز نہیں تھی۔ اس سے قبل 1960 میں کیوبا کے سربراہ فیڈل کاسترو نے چار گھنٹوں پر مشتمل جذباتی تقریر کی۔ ایک متاثر کن طویل تقریر فلسطین کے یاسر عرفات نے 1974 میں کی۔ جس میں انہوں نے امریکا سمیت اسرائیل کو رگڑ کر رکھ دیا۔ ایک بہترین، طویل اور متاثر کن تقریر وینزویلا کے صدر ہوگوشاویز نے کی، جس میں جارج بش کو بین الاقوامی فورم پر شیطان اور دنیا میں ہر برائی کی جڑ کہا گیا اور ایک ایسی ہی تباہ کن طویل اور دشمنان اسلام کو دہلا دینے والی تقریر لیبیا کے معمر قذافی نے کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اقوام متحدہ اور دشمنان اسلام کو سہما دیا تھا، جبکہ حالیہ قطر کے امیر نے بھی اسرائیل کے خلاف ایک پراثر تقریر کی۔ اس کے ساتھ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان بھی تواتر سے مظلوم مسلمانوں کے حق اور امریکا و اسرائیل کے خلاف کھل کر تقاریر کرچکے ہیں۔
لیکن تاریخ کا طالب علم ہونے کے ناتے جو کچھ میں نے پڑھا اس کی روشنی میں ان تمام سربراہوں کی عمدہ، بہترین، طویل اور متاثر کن تقاریر صرف اقوام متحدہ کی تاریخ کا حصہ بنی، لیکن کسی ایک بھی بہترین تقریر کے باعث نہ تو وینزویلا عالمی تنہائی سے نکلا، نہ لیبیا پر امریکی حملوں اور پھر اس کے اثاثوں پر امریکی قبضے کو روکنے کی کوشش کی، نہ فلسطین پر سے قابض اسرائیل کو دھکیلا گیا اور نہ ہی کشمیر کی ایک انچ زمین واگزار کرائی جاسکی۔ تاہم یہ ضرور ہوا کہ ان تقاریر کے بعد عالمی بدمعاشوں نے ان ممالک کا مزید گھیراؤ کرلیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان بذات خود ایک ایماندار انسان ہیں اور وہ پاکستان کو ترقی کی بلندیوں پر لے جانے کےلیے پرعزم اور انتھک محنت کررہے ہیں لیکن گزشتہ ایک سال میں سوائے اندھیرے اور ناامیدی کے کچھ نظر ہی نہیں آرہا۔ بلکہ ملکی صورتحال پہلے سے بھی بدتر ہوگئی ہے۔
ہٹلر اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ میں اتنی بڑی تعداد میں انسانوں کے قتل کے حق میں نہیں تھا لیکن جو وعدے وہ اپنی قوم سے کرچکا تھا ان کو پورا کرنا ہٹلر کےلیے ناگزیر ہوگیا تھا۔ کیونکہ اگر وہ اپنے وعدے جو اس نے کئے تھے، پورے نہ کرتا تو اس کی قوم اس کو نکال کر قتل کردیتی اور یہی کچھ بھارت کے موجودہ وزیراعظم مودی کے ساتھ ہورہا ہے کہ وہ انتہاپسند ہندوؤں سے اتنے وعدے کرچکا ہے کہ اگر اب وہ چاہے بھی تو ان سے منحرف نہیں ہوسکتا۔ اگر وہ ان سے منحرف ہوتا ہے تو انتہاپسند ہندو اس کو نہیں چھوڑیں گے۔ تو میں پریشان ہوں کہ جو وعدے وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کے اجلاس میں کرکے آئے ہیں، کیا وہ ان کو پورا کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟
پاکستان کی ایک طویل ترین سرحد بھارت کے ساتھ ہے، جس کے ساتھ تعلقات ہم سب کے سامنے ہیں۔ ایک اور بڑی سرحد افغانستان کے ساتھ ہے۔ اس کے ساتھ تعلقات سے بھی آگاہ ہیں۔ ایران کے ساتھ تعلقات بھی متاثر کن نہیں ہیں۔ جبکہ پاکستان میں دنیا بھر کی ایجنسیاں تباہی کےلیے ہر وقت تیار ہیں۔ معاشی پالیسیز پریشان کن حد تک خراب ہیں۔ خارجہ پالیسی میں بھی کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا جارہا، بلکہ جو خارجی امور کے ذمے دار ہیں وہ نئی شیروانی سلوانے کےلیے بے چین ہیں۔ اس طرح کی صورتحال میں ایک محب وطن پاکستانی کی پریشنانی حق بجانب ہے۔
میرا دل کہتا ہے کہ عمران خان ایک ایماندار سیاستدان ہیں، بس کچھ مجبوریاں ہیں۔ بہرحال میری دعا ہے خدائے ذوالجلال عمران خان کو ہدایت اور ہمت دے کہ وہ درست فیصلے کریں تاکہ آئندہ بھی ان کو اس ملک کی خدمت کا موقع ملے اور پاکستان ترقی کی بلندیوں تک پہنچے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
عمران خان نے جس بے خوفی اور جرأتمدانہ انداز میں اقوم عالم سمیت عالمی رہنماؤں پر براہ راست تنقید کی، اس کی ہمت میں نے کسی اور میں نہیں دیکھی۔ وزیراعظم پاکستان نے اپنے خطاب میں کہا کہ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ ایک اعشاریہ دو ارب کی آبادی والی مارکیٹ کو خوش کرنے کے بجائے انڈیا کو کشمیر کی پالیسی بدلنے پر مجبور کرے۔ کشمیر کی صورتحال دو ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ شروع کروا سکتی ہے۔ یہ جنگ ہوئی تو پاکستان آخری حد تک جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا 'یہ دھمکی نہیں بلکہ وارننگ ہے'۔
پاکستان سمیت شائد کوئی بھی پاکستان کی جانب سے اس طرح کے بیان کی توقع نہیں کررہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا مقبوضہ کشمیر کی کشیدہ صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ 50 روز سے زائد ہوگئے ہیں اور 80 لاکھ افراد لاک ڈاؤن کا شکار ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جو ہورہا ہے، وہ بد سے بدتر ہوتا جائے گا اور یہ انتہائی خطرناک ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کو درست طور پر سمجھ میں نہیں آرہا کہ کشمیر میں ہو کیا رہا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ جب سے نریندر مودی کی حکومت آئی کشمیریوں پر جبر مزید بڑھا دیا گیا ہے، کشمیری کئی سال سے حق خودارادیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جب کرفیو ہٹے گا تو وادی کے حالات کھل کر دنیا کے سامنے آجائیں ۔ے، بھارتی فورسز اور کشمیریوں کے درمیان تصادم ہوگا۔ مجھے خطرہ ہے کہ بھارتی فورسز کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر کشمیریوں کا قتل عام ہوگا۔ اگر حالات مزید بگڑ گئے تو نہ میرے اور نہ ہی امریکی صدر کے قابو میں آئیں گے۔ وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ پاکستان کو معاشی بدحالی سے نکالنے کےلیے کوشاں ہیں، ملکی معاشی صورتحال کے باوجود مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے یو این آیا ہوں۔
وزیراعظم پاکستان کی اس زبردست تقریر پر اپوزیشن نے بلاجواز تنقید کی یا یہ کہا جائے کہ حماقت کی تو بے جا نہیں ہوگا۔ عمران خان کی جذبات سے بھرپور بلکہ امریکا، اسرائیل اور بھارت کے ہوش اڑا دینے والی بہترین تقریر پر اپوزیشن کی تنقید پر قسم سے مجھے تو بہت غصہ آیا اور دل چاہا کہ ٹھوک دوں ایک غداری کا فیس بک اسٹیٹس، لیکن پھر خود کو بڑی مشکل سے روکا۔ وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرنے گئے تھے، کوئی جنگ لڑنے نہیں۔ وہاں تقریر ہی کی جاتی ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ تقریر کیسی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے یا شبہ نہیں کہ جنرل اسمبلی میں عمران خان کی تقریر ان کی زندگی کی بہترین تقریر تھی۔ انہوں نے اعتماد کے ساتھ اپنی بات سامعین تک پہنچائی اور دنیا بھر کو متاثر کیا۔ اس پر وہ داد کے مستحق ہیں۔ موجودہ حالات میں کشمیر پر جو کہا جاسکتا تھا، وہ انہوں نے کہہ دیا۔
بین الاقوامی فورمز پر خطیب کا سامعین سے براہ راست تعلق قائم رہتا ہے، اس لیے اہم مواقعوں پر یہ اہتمام کیا جاتا ہے کہ کوئی ایسا لفظ ادا نہ ہوجائے جس کا دفاع مشکل ہوجائے۔ اس لیے روایت رہی ہے کہ لکھی ہوئی عبارت پڑھی جائے۔ عمران خان نے براہ راست کلام کرکے جہاں اس روایت کو توڑا، وہیں تقریر کی روح کے مطابق بہت عمدہ اور موثر گفتگو کی۔
میں اعتراف کرتا ہوں کہ موجودہ حالات میں اس سے بہتر تقریر شائد ہی کوئی ہو۔ میں بار بار اس بات کا اعتراف کررہا ہوں کہ عمران خان نے اپنے زندگی کی بہترین تقریر کی اور دشمنان اسلام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جب اپوزیشن نے عمران خان پر تنقید شروع کی تو ایک لمحے پر غصہ تو آیا لیکن پھر سوچا کہ کیا اپوزیشن والے اتنے ننھے ہیں کہ ایک ایسے خطاب پر تنقید کریں جو دنیا بھر میں سراہا جارہا ہے۔ اگر اپوزیشن ایسا کررہی ہے تو اپنا ہی مذاق بنوارہی ہے۔ سو میں نے اب اس خطاب پر دوسرے زاویے سے غور کرنا شروع کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں میرا بلڈ پریشر 160 سے بڑھ گیا اور ہر وہ شے جو ایک روز قبل تک مسکراتی ہوئی لگ رہی تھی اب دیکھتے ہی غصہ آنے لگا۔
پی ٹی آئی کی عینک اترتے ہی میرے اٹھارہ طبق روشن ہوگئے اور مسٹر ہینڈسم کی ایک سالہ کارکردگی نے میرا خون جلا کر رکھ دیا۔ وزیراعظم جب اپوزیشن میں تھے تو یہ کہتے تھے کہ ملک میں کرپشن اس لیے عام ہے کیونکہ حکمران کرپٹ ہیں، مگر اب تو ایک سال سے ایمانداروں اور دیانتداروں کی حکومت ہے مگر جس بھی دفتر میں جاؤ کرپشن کا کاروبار دھڑلے سے جاری ہے۔ تھانوں میں مقدمہ درج کروانے کےلیے آج بھی رشوت دینی پڑتی ہے۔ بدعنوانی کا کاروبار اسی طرح جاری ہے۔ اسپتالوں اور اسکولوں میں صورتحال پہلے سے بھی بدتر ہے۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کو کام نہیں مل رہا۔ معیشت گزشتہ ایک سال سے مزید تیزی سے گراوٹ کا شکار ہے، جس میں ادائیگیوں کا عدم توازن، تجارتی خسارہ اور سرمایہ کاری میں کمی نمایاں مسائل ہیں۔ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے مالی تعاون کے باوجود بھی ملک کی معاشی صورت حال بہتر نہیں ہوسکی۔
حکومت کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پہلے ہی پیداوار پچاس فیصد کم ہوچکی ہے اور اب کشیدگی کی وجہ سے امپورٹرز آڈرز نہیں دے رہے، کیونکہ صورت حال غیر یقینی ہے اور انہیں نہیں معلوم کہ ہم وقت پر ان کی اشیاء انہیں دے بھی سکیں گے یا نہیں۔ یہ ساری صورتحال اپنی جگہ ہنوز موجود ہے لیکن اس تقریر نے ایک اہم کام کردیا وہ یہ کہ اس تقریر نے جہاں عمران خان کو بین الاقوامی میڈیا میں ایک بار پھر نمایاں کردیا ہے وہیں وابستگان عمران خان کو تقویت ضرورملی ہے، جن کےلیے عمران خان کی بدترین کارکردگی والی حکومت کا دفاع انتہائی دشوار ہوگیا تھا۔ عمران خان کے سپورٹر اس تقریر کو پی ٹی آئی اور عمران خان کی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ کو سہارے کے طورپر استعمال کررہے ہیں۔ عمران خان کی اس تقریر کو لے کر اگر ذوالفقار علی بھٹو سے عمران خان کا موازنہ کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ با ت بہت واضح ہوجاتی ہے کہ صرف تقریریں کسی رہنما اور حکومت کو سہارا ہرگز بھی نہیں دے سکتی، جبکہ وہ اندرونی محاذ پر ناکام ہوجائیں۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کا ہدف کشمیر کا معاملہ تھا تو واضح ہے کہ بھارت نے کشمیر پر بڑا غیر قانونی اقدام کیا اور ہم نے اس کے جواب میں تقریر۔ تقریر کسی بھی اقدام کا کبھی بھی اقدام نہیں ہوسکتی۔ اقوام متحدہ کی تاریخ میں یہ پہلی متاثر کن تقریر ہرگز نہیں تھی۔ اس سے قبل 1960 میں کیوبا کے سربراہ فیڈل کاسترو نے چار گھنٹوں پر مشتمل جذباتی تقریر کی۔ ایک متاثر کن طویل تقریر فلسطین کے یاسر عرفات نے 1974 میں کی۔ جس میں انہوں نے امریکا سمیت اسرائیل کو رگڑ کر رکھ دیا۔ ایک بہترین، طویل اور متاثر کن تقریر وینزویلا کے صدر ہوگوشاویز نے کی، جس میں جارج بش کو بین الاقوامی فورم پر شیطان اور دنیا میں ہر برائی کی جڑ کہا گیا اور ایک ایسی ہی تباہ کن طویل اور دشمنان اسلام کو دہلا دینے والی تقریر لیبیا کے معمر قذافی نے کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اقوام متحدہ اور دشمنان اسلام کو سہما دیا تھا، جبکہ حالیہ قطر کے امیر نے بھی اسرائیل کے خلاف ایک پراثر تقریر کی۔ اس کے ساتھ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان بھی تواتر سے مظلوم مسلمانوں کے حق اور امریکا و اسرائیل کے خلاف کھل کر تقاریر کرچکے ہیں۔
لیکن تاریخ کا طالب علم ہونے کے ناتے جو کچھ میں نے پڑھا اس کی روشنی میں ان تمام سربراہوں کی عمدہ، بہترین، طویل اور متاثر کن تقاریر صرف اقوام متحدہ کی تاریخ کا حصہ بنی، لیکن کسی ایک بھی بہترین تقریر کے باعث نہ تو وینزویلا عالمی تنہائی سے نکلا، نہ لیبیا پر امریکی حملوں اور پھر اس کے اثاثوں پر امریکی قبضے کو روکنے کی کوشش کی، نہ فلسطین پر سے قابض اسرائیل کو دھکیلا گیا اور نہ ہی کشمیر کی ایک انچ زمین واگزار کرائی جاسکی۔ تاہم یہ ضرور ہوا کہ ان تقاریر کے بعد عالمی بدمعاشوں نے ان ممالک کا مزید گھیراؤ کرلیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان بذات خود ایک ایماندار انسان ہیں اور وہ پاکستان کو ترقی کی بلندیوں پر لے جانے کےلیے پرعزم اور انتھک محنت کررہے ہیں لیکن گزشتہ ایک سال میں سوائے اندھیرے اور ناامیدی کے کچھ نظر ہی نہیں آرہا۔ بلکہ ملکی صورتحال پہلے سے بھی بدتر ہوگئی ہے۔
ہٹلر اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ میں اتنی بڑی تعداد میں انسانوں کے قتل کے حق میں نہیں تھا لیکن جو وعدے وہ اپنی قوم سے کرچکا تھا ان کو پورا کرنا ہٹلر کےلیے ناگزیر ہوگیا تھا۔ کیونکہ اگر وہ اپنے وعدے جو اس نے کئے تھے، پورے نہ کرتا تو اس کی قوم اس کو نکال کر قتل کردیتی اور یہی کچھ بھارت کے موجودہ وزیراعظم مودی کے ساتھ ہورہا ہے کہ وہ انتہاپسند ہندوؤں سے اتنے وعدے کرچکا ہے کہ اگر اب وہ چاہے بھی تو ان سے منحرف نہیں ہوسکتا۔ اگر وہ ان سے منحرف ہوتا ہے تو انتہاپسند ہندو اس کو نہیں چھوڑیں گے۔ تو میں پریشان ہوں کہ جو وعدے وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کے اجلاس میں کرکے آئے ہیں، کیا وہ ان کو پورا کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟
پاکستان کی ایک طویل ترین سرحد بھارت کے ساتھ ہے، جس کے ساتھ تعلقات ہم سب کے سامنے ہیں۔ ایک اور بڑی سرحد افغانستان کے ساتھ ہے۔ اس کے ساتھ تعلقات سے بھی آگاہ ہیں۔ ایران کے ساتھ تعلقات بھی متاثر کن نہیں ہیں۔ جبکہ پاکستان میں دنیا بھر کی ایجنسیاں تباہی کےلیے ہر وقت تیار ہیں۔ معاشی پالیسیز پریشان کن حد تک خراب ہیں۔ خارجہ پالیسی میں بھی کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا جارہا، بلکہ جو خارجی امور کے ذمے دار ہیں وہ نئی شیروانی سلوانے کےلیے بے چین ہیں۔ اس طرح کی صورتحال میں ایک محب وطن پاکستانی کی پریشنانی حق بجانب ہے۔
میرا دل کہتا ہے کہ عمران خان ایک ایماندار سیاستدان ہیں، بس کچھ مجبوریاں ہیں۔ بہرحال میری دعا ہے خدائے ذوالجلال عمران خان کو ہدایت اور ہمت دے کہ وہ درست فیصلے کریں تاکہ آئندہ بھی ان کو اس ملک کی خدمت کا موقع ملے اور پاکستان ترقی کی بلندیوں تک پہنچے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔