میں نے اسم محمدؐ کو لکھا بہت اور چوما بہت
یہ بات ہے کوئی 30 برس پہلے کی جب میری سلیم کوثر سے ملاقات ہوئی تھی۔
یہ بات ہے کوئی تیس برس پہلے کی۔ جب میری سلیم کوثر سے ملاقات ہوئی تھی۔ یہ بانکا سجیلا،خوبرو شاعر مجھے اپنے ہم عصر شاعر صابر ظفرکے ساتھ ملا تھا۔ صابر ظفر اور سلیم کوثر اوپر تلے کے شاعر ہیں۔ مشاعروں میں بھی ان دونوں شاعروں کی ترتیب یوں ہی رہتی ہے کہ پہلے سلیم کوثر پڑھتا ہے، پھر صابر ظفر کی باری آتی ہے۔ خیر سلیم کوثر سے ملاقات کے بعد دوستی بڑھتی ہی گئی ہم لوگ گھومتے پھرتے، گھنٹوں باتیں بھی ہوتیں اور محبتوں کے یہ سلسلے چلتے رہے کبھی محبتوں کے شاعر عبید اللہ علیم کے گھر تو کبھی آرٹس کونسل و پریس کلب یا ریگل کے چائے خانوں میں۔
آج کل میرا یار سلیم کوثر کینسر سے لڑ رہا ہے۔ وہ پچھلے سال دسمبر کے مہینے میں چنگا بھلا آرٹس کونسل کے سالانہ الیکشن کے موقعے پر ملا تھا۔ احمد شاہ کی طرف سے ناشتے کی دعوت دی گئی تھی اس روز میں سلیم کوثر، صابر ظفر اور شاعر صفدر صدیق رضی ایک ہی میز پر بیٹھے تھے۔ ہم سب نے حلوہ پوری کا ناشتہ کیا، چائے پی، خوش گپیوں میں مصروف رہے۔ صابر ظفر کے لطیفے بھی چل رہے تھے۔ سب کچھ بہت اچھا تھا کہ دس پندرہ روز بعد صابر ظفر کا فون آیا وہ کہہ رہا تھا۔ سعید پرویز ! وہ آپ کا دوست سلیم کوثر اسپتال میں داخل ہے۔ اسے کینسر بتایا جارہا ہے۔'' میں یہ خبر سن کر پریشان ہوگیا اور میرے دل سے بے ساختہ سلیم کوثر کے لیے دعا نکلی۔
پچھلے آٹھ دس ماہ سے شاعر ایک اور محاذ پر لڑ رہا ہے۔ شاعر کا بڑا بیٹا ڈاکٹر علی اسپتال کا قابل نوجوان ڈاکٹر ہے۔ بیمار باپ کے لیے بیٹا گرانقدر سہارا ہے۔ خدا سلیم کو صحت کلی عطا فرمائے۔
سلیم کوثر کو یاد کرتے ہوئے ماضی کے بہت سے واقعات بھی مجھے یاد آرہے ہیں۔ میں اس بات پر بڑا نازاں ہوں کہ سلیم کوثر نے اپنی شہرہ آفاق غزل کا مطلع کہا تو بقول اس کے اس نے سب سے پہلے مجھے وہ شعر سنایا تھا اور ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ ابھی یہ مطلع کسی کو سنانا نہیں ہے وہ مطلع تھا۔
میں خیال ہوں کسی اورکا' مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر ِآئینہ میرا عکس ہے' پس آئینہ کوئی اور ہے
پھر وہ غزل مکمل ہوئی تو اس کا ہر شعر ایک سے ایک بڑھ کر تھا۔ سلیم کوثر خوش نصیب شاعر نکلا کہ اللہ نے اسے اتنی خوبصورت اور رواں دواں غزل عطا فرمائی کہ جس نے اسے بین الاقوامی سطح پر مقبول شاعر بنادیا ۔ سلیم کوثر نے دنیا گھومی امریکا، برطانیہ، کینیڈا، دبئی، سعودی عرب وغیرہ۔ وہ جہاں بھی گیا مشاعرے لوٹتا گیا۔ اسی غزل کا ایک اور شعر دیکھیے:
بلا تبصرہ نذر قارئین:
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں' دیکھنا انھیں غور سے
جنھیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
سلیم کوثر نے دنیا کے نشیب و فراز دیکھے ہی نہیں برتے بھی ہیں۔ حالات کا بہاؤ اسے بھی اپنے گاؤں سے کراچی جیسے بڑے شہر میں لے آیا۔ اس شہر نے ''محنت کش'' سلیم کوثر کو بھی خوب بڑھاوا دیا۔ ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی'' بندے میں آگے بڑھنے کی لگن ہو، تو شہر کراچی کی زرخیز مٹی میں صلاحیتوں کی کھیتی لہلہانے لگتی ہے ۔ یہ اس شہر کا مزاج ہے۔ یہ اس شہر کا اعجاز ہے کہ لوگ خالی ہاتھ اس شہر میں داخل ہوتے ہیں اور پھر ارض و سماں خالی ہاتھوں میں سمٹ آتی ہے۔ سلیم کوثر نے اپنے پہلے شعری مجموعے کا نام ''خالی ہاتھوں میں ارض و سماں'' رکھا تھا۔
پھر اس شہر الفت میں نفرت اگلنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے پیار و ایثار کی کھیتیاں اجڑنے لگیں اور تقسیم در تقسیم کے جزیرے بننے لگے۔ شاعر یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ شاعر اپنے عہد کا بڑا خاص منصب دار ہوتا ہے۔ سلیم کوثر بھی شہر کی بدلتی فضا میں دل مضطر کو سنبھالے کبھی اس گلی میں کبھی اس گلی میں گھومتا پھرتا تھا۔ اس نے دل کا بوجھ یوں ہلکا کیا:
اب یہ موسم مری پہچان طلب کرتے ہیں
میں جب آیا تھا یہاں' تازہ ہوا لایا تھا
شہرکی فضا میں بڑی تیزی سے زہر گھل رہا تھا، دوستوں کی ملاقاتوں میں لمبے لمبے وقفے آنے لگے، چائے خانے سرشام ویرانے بننے لگے، لوگ شام سے پہلے ہی گھروں کو لوٹ جاتے۔ شاعر اس صورت حال سے پریشان، مگر حالات کا جبر تھا۔ تو اس نے دوست سے کہا:
کبھی کبھار ملا کر' دکھ سکھ بانٹ لیا کر
کس قدرکرب ہے اس مصرعے میں، کیسی فریاد ہے، کیسا جبر ہے، مگر سلیم کوثر زندگی کے سارے غم اٹھائے چلتا رہا۔ وہ زمین کا آدمی تھا اور زندگی بھر زمین کا آدمی ہی رہا۔ اس نے مٹی سے ناتا توڑنے کا کبھی نہیں سوچا۔ اسی خیال کو سلیم کوثر نے یوں بیان کیا ہے:
غرور جاہ بھی' دولت بھی' اور دنیا بھی
یہ چیزیں پاؤں تلے آئیں' اور اٹھائیں نہیں
وہ چاند ہے تو عکس بھی پانی میں آئے گا
کردار خود ابھر کے کہانی میں آئے گا
ایک دن سلیم کوثر میرے دفتر آیا۔ ''پیارے صاحب! بس سارے کام چھوڑ دو'' اس نے اپنی آستینوں کے بٹن کھولے۔ آستینیں چڑھائیں اور سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ بہت خوش تھا اور دیوانہ وار گردن گھما رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا۔ ''ہائے ہائے! کیا شعر میری سرکار نے عطا کردیا ہے ہائے ہائے!'' اور پھر اسی جذب کے عالم میں اس نے نظریں میرے چہرے پر مرکوزکردیں'' سعید پرویز! نعت شریف کا شعر سنو''اور یوں گویا ہوا:
میرے ہاتھوں سے اور میرے ہونٹوں سے خوشبوئیں جاتی نہیں
میں نے اسم محمدؐ کو لکھا بہت' اور چوما بہت
عالم سرشاری اور جذب کی کیفیت میں سلیم کوثر یہ نعتیہ شعر سناتا رہا اور کہتا رہا بس اب اور کچھ نہیں ہوگا۔
سلیم کوثر کو کینسر ہوگیا ہے۔وہ منی پاکستان کی شکار گاہ انسانیت میں اکیلا ہے۔ کتنے ہی خوبصورت شعروں کا خالق جان لیوا بیماری کا مقابلہ کر رہا ہے۔ میں اپنے پیارے شاعر کو محبتوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے دعا گو ہوں ..... بلکہ ہم سب دعاگو ہیں کہ خدا سلیم کوثر کو صحت عطا فرمائے۔ (آمین!)
آج کل میرا یار سلیم کوثر کینسر سے لڑ رہا ہے۔ وہ پچھلے سال دسمبر کے مہینے میں چنگا بھلا آرٹس کونسل کے سالانہ الیکشن کے موقعے پر ملا تھا۔ احمد شاہ کی طرف سے ناشتے کی دعوت دی گئی تھی اس روز میں سلیم کوثر، صابر ظفر اور شاعر صفدر صدیق رضی ایک ہی میز پر بیٹھے تھے۔ ہم سب نے حلوہ پوری کا ناشتہ کیا، چائے پی، خوش گپیوں میں مصروف رہے۔ صابر ظفر کے لطیفے بھی چل رہے تھے۔ سب کچھ بہت اچھا تھا کہ دس پندرہ روز بعد صابر ظفر کا فون آیا وہ کہہ رہا تھا۔ سعید پرویز ! وہ آپ کا دوست سلیم کوثر اسپتال میں داخل ہے۔ اسے کینسر بتایا جارہا ہے۔'' میں یہ خبر سن کر پریشان ہوگیا اور میرے دل سے بے ساختہ سلیم کوثر کے لیے دعا نکلی۔
پچھلے آٹھ دس ماہ سے شاعر ایک اور محاذ پر لڑ رہا ہے۔ شاعر کا بڑا بیٹا ڈاکٹر علی اسپتال کا قابل نوجوان ڈاکٹر ہے۔ بیمار باپ کے لیے بیٹا گرانقدر سہارا ہے۔ خدا سلیم کو صحت کلی عطا فرمائے۔
سلیم کوثر کو یاد کرتے ہوئے ماضی کے بہت سے واقعات بھی مجھے یاد آرہے ہیں۔ میں اس بات پر بڑا نازاں ہوں کہ سلیم کوثر نے اپنی شہرہ آفاق غزل کا مطلع کہا تو بقول اس کے اس نے سب سے پہلے مجھے وہ شعر سنایا تھا اور ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ ابھی یہ مطلع کسی کو سنانا نہیں ہے وہ مطلع تھا۔
میں خیال ہوں کسی اورکا' مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر ِآئینہ میرا عکس ہے' پس آئینہ کوئی اور ہے
پھر وہ غزل مکمل ہوئی تو اس کا ہر شعر ایک سے ایک بڑھ کر تھا۔ سلیم کوثر خوش نصیب شاعر نکلا کہ اللہ نے اسے اتنی خوبصورت اور رواں دواں غزل عطا فرمائی کہ جس نے اسے بین الاقوامی سطح پر مقبول شاعر بنادیا ۔ سلیم کوثر نے دنیا گھومی امریکا، برطانیہ، کینیڈا، دبئی، سعودی عرب وغیرہ۔ وہ جہاں بھی گیا مشاعرے لوٹتا گیا۔ اسی غزل کا ایک اور شعر دیکھیے:
بلا تبصرہ نذر قارئین:
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں' دیکھنا انھیں غور سے
جنھیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
سلیم کوثر نے دنیا کے نشیب و فراز دیکھے ہی نہیں برتے بھی ہیں۔ حالات کا بہاؤ اسے بھی اپنے گاؤں سے کراچی جیسے بڑے شہر میں لے آیا۔ اس شہر نے ''محنت کش'' سلیم کوثر کو بھی خوب بڑھاوا دیا۔ ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی'' بندے میں آگے بڑھنے کی لگن ہو، تو شہر کراچی کی زرخیز مٹی میں صلاحیتوں کی کھیتی لہلہانے لگتی ہے ۔ یہ اس شہر کا مزاج ہے۔ یہ اس شہر کا اعجاز ہے کہ لوگ خالی ہاتھ اس شہر میں داخل ہوتے ہیں اور پھر ارض و سماں خالی ہاتھوں میں سمٹ آتی ہے۔ سلیم کوثر نے اپنے پہلے شعری مجموعے کا نام ''خالی ہاتھوں میں ارض و سماں'' رکھا تھا۔
پھر اس شہر الفت میں نفرت اگلنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے پیار و ایثار کی کھیتیاں اجڑنے لگیں اور تقسیم در تقسیم کے جزیرے بننے لگے۔ شاعر یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ شاعر اپنے عہد کا بڑا خاص منصب دار ہوتا ہے۔ سلیم کوثر بھی شہر کی بدلتی فضا میں دل مضطر کو سنبھالے کبھی اس گلی میں کبھی اس گلی میں گھومتا پھرتا تھا۔ اس نے دل کا بوجھ یوں ہلکا کیا:
اب یہ موسم مری پہچان طلب کرتے ہیں
میں جب آیا تھا یہاں' تازہ ہوا لایا تھا
شہرکی فضا میں بڑی تیزی سے زہر گھل رہا تھا، دوستوں کی ملاقاتوں میں لمبے لمبے وقفے آنے لگے، چائے خانے سرشام ویرانے بننے لگے، لوگ شام سے پہلے ہی گھروں کو لوٹ جاتے۔ شاعر اس صورت حال سے پریشان، مگر حالات کا جبر تھا۔ تو اس نے دوست سے کہا:
کبھی کبھار ملا کر' دکھ سکھ بانٹ لیا کر
کس قدرکرب ہے اس مصرعے میں، کیسی فریاد ہے، کیسا جبر ہے، مگر سلیم کوثر زندگی کے سارے غم اٹھائے چلتا رہا۔ وہ زمین کا آدمی تھا اور زندگی بھر زمین کا آدمی ہی رہا۔ اس نے مٹی سے ناتا توڑنے کا کبھی نہیں سوچا۔ اسی خیال کو سلیم کوثر نے یوں بیان کیا ہے:
غرور جاہ بھی' دولت بھی' اور دنیا بھی
یہ چیزیں پاؤں تلے آئیں' اور اٹھائیں نہیں
وہ چاند ہے تو عکس بھی پانی میں آئے گا
کردار خود ابھر کے کہانی میں آئے گا
ایک دن سلیم کوثر میرے دفتر آیا۔ ''پیارے صاحب! بس سارے کام چھوڑ دو'' اس نے اپنی آستینوں کے بٹن کھولے۔ آستینیں چڑھائیں اور سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ بہت خوش تھا اور دیوانہ وار گردن گھما رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا۔ ''ہائے ہائے! کیا شعر میری سرکار نے عطا کردیا ہے ہائے ہائے!'' اور پھر اسی جذب کے عالم میں اس نے نظریں میرے چہرے پر مرکوزکردیں'' سعید پرویز! نعت شریف کا شعر سنو''اور یوں گویا ہوا:
میرے ہاتھوں سے اور میرے ہونٹوں سے خوشبوئیں جاتی نہیں
میں نے اسم محمدؐ کو لکھا بہت' اور چوما بہت
عالم سرشاری اور جذب کی کیفیت میں سلیم کوثر یہ نعتیہ شعر سناتا رہا اور کہتا رہا بس اب اور کچھ نہیں ہوگا۔
سلیم کوثر کو کینسر ہوگیا ہے۔وہ منی پاکستان کی شکار گاہ انسانیت میں اکیلا ہے۔ کتنے ہی خوبصورت شعروں کا خالق جان لیوا بیماری کا مقابلہ کر رہا ہے۔ میں اپنے پیارے شاعر کو محبتوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے دعا گو ہوں ..... بلکہ ہم سب دعاگو ہیں کہ خدا سلیم کوثر کو صحت عطا فرمائے۔ (آمین!)