فیصلے کی گھڑی آن پہنچی
شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا ہو جب لاہورمیں مقامی اورغیر ملکی آرٹسٹوں کی پینٹنگز کی نمائش نہ ہوتی ہو۔
لاہور میں اس وقت ایک درجن سے زیادہ آرٹ گیلریز ہیں، شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا ہو جب ان میں مقامی اور غیر ملکی آرٹسٹوں کی پینٹنگز کی نمائش نہ ہوتی ہو ۔گزشتہ بدھ کی شام حمائل آرٹ گیلری میں 49 سالہ ڈھاکہ انسٹی ٹیوٹ آف فائن آرٹس یونیورسٹی، بنگلہ دیش سے فارغ التحصیل آرٹسٹ جہانگیر حسین کی 53 پینٹنگز کی نمائش تھی جس کا افتتاح پاکستان کے معروف آرٹسٹ اور نیشنل کالج آف آرٹس کے سابق پروفیسر سعید اختر نے کیا۔ میرے لیے اس آرٹ گیلری میں کشش کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اگرچہ آرٹ گیلری چلانے کا اہتمام جمیل احمد اور نصرت جمیل کرتے ہیں لیکن اس کے اصل روح رواں میرے سابق ہم سروس گلزار محمد بھٹی ہیں جو نصرت جمیل کے والد ہیں اور ہر نمائش کے افتتاح کے دن گیٹ پر مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔
نمائش دکھانے کے بعد گلزار صاحب نے چائے کے پیالے پر میرا تعارف آرٹسٹ جہانگیر حسین سے کروایا تو اختتام ملاقات پر جہانگیر صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا میں اس نمائش کے بارے میں کچھ لکھوں گا۔ ان کا انداز ایک طرح سے فرمائش ہی تھی۔ میرا جواب تھا کہ نمائش کی بابت کچھ لکھنے کا میرا قطعی کوئی ارادہ نہ تھا لیکن پاکستان جس کا امیج دنیا میں اس وقت ایک Terrorist State کا بن چکا ہے تو اب میرا یہ فرض ہو گیا کہ اس کے Soft Image کو اس خوبصورت شام کے حوالے سے Project کرنے کی کوشش کروں۔
سن 1989ء میں فائن آرٹس میں ڈھاکہ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد سے جہانگیر حسین نے یورپ' امریکا' کینیڈا میں تو سولو اور گروپ نمائشوں میں حصہ لیا ہی لیکن دسمبر 1971ء میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے باوجود جہانگیر حسین کی 2 اکتوبر 2013ء کے روز لاہور میں دوسری اور پاکستان میں دسویں پینٹنگز کی نمائش تھی۔ اس سے قبل کراچی اور اسلام آباد میں نہ صرف اس کی پینٹنگز کو جن میں جذبات کی عکاسی کے ساتھ یہ پیغام بھی تھا کہ ''انسان کو زندہ رہنے کے لیے محبت کی ضرورت ہوتی ہے'' بے حد سراہا گیا۔ نوجوان بنگلہ دیشی پاکستان میں جو دس بار اپنی پینٹنگز کی نمائش کے لیے آیا یہاں یقینا اسے محبت اور ستائش ہی ملی ہو گی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانیوں کی انسانیت ابھی زندہ ہے لیکن اس میں آ گھسے ہیں درندے جن کی جلد اصلاح نہایت ضروری ہے یا پھر ملک کو ان سے پاک کرنا ہو گا تا کہ یہ جناح اور اقبال کا پاکستان کہلانے کے قابل ہو جائے اور دنیا میں باعزت مقام پائے۔
ڈیڑھ ماہ قبل میرا لاہور پریس کلب جانا ہوا تو وہاں مسلم لیگ (ن) کی انتخاب جیت کر آئی حکومت اور روزانہ کی بنیاد پر جاری دہشت گرد حملوں پر سخت تنقید ہوئی اور ملک کے مستقبل کے بارے میں شدید مایوسی کا اظہار سننے کو ملا۔ وہاں سے رخصت ہوتے ہوئے میں نے کہا کہ صرف چھ ماہ انتظار کر لیں' معاملہ آر یا پار ہو جائے گا۔ متفقہ آئین اور دنیا کی ساتویں فوجی طاقت رکھنے والے ملک کی فوجی قیادت اور سول حکومت کو ایک پیج پر آنے اور برداشت کی حد پار ہونے میں چند ماہ لگیں گے لیکن معاملہ پار نہیں ہو گا آر ہو گا اور حکومت دہشت گردوں سے اسی طرح نمٹے گی جو وقت کا تقاضا ہے۔
ڈھاکہ سے آئے ہوئے آرٹسٹ جہانگیر حسین جس کی سترہ سال کے دوران کراچی' اسلام آباد' لاہور کی آرٹ گیلریز میں یہ دسویں نمائش تھی' اس کا عنوان تھا The Colour of Mind۔ اس کے فن پاروں کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ مصور آج کی دنیا کو درپیش چیلنجز سے بخوبی واقف ہے اور ادھر ہم ہیں کہ ہر روز بارود' لہو میں لتھڑے انسانی اجسام اور تباہ شدہ عمارتیں دیکھ دیکھ کر خدا کے عظیم شاہکار انسان کی بے حرمتی پر فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ کافر کون ہیں۔ خودکش بمبار یا مساجد' مدرسوں' اسپتالوں اور مارکیٹوں میں مرنے والے لیکن جیسا کہ میرا وجدان کہہ رہا ہے یہ غیر انسانی کھیل اپنے انجام کو پہنچنے کو ہے۔ پریس کلب میں میری دی ہوئی مدت میں ابھی ساڑھے چار ماہ باقی ہیں۔
مجھے معلوم نہیں کہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد کون کون سے آرٹسٹوں نے پاکستان سے بنگلہ دیش جا کر کس کس شہر میں کتنی بار اپنے فن پاروں کی نمائش سجائی۔ جہانگیر حسین کو جو پذیرائی لاہور کی نمائش میں ملی اورجس طرح انھوں نے اپنی مسکراہٹوں سے مداحوں کا شکریہ ادا کیا اس سے باہمی خلوص و محبت عیاں تھی۔ پاکستان سے علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش نے تعلیم و تجارت میں ترقی کے علاوہ بدامنی اور بدعنوانی پر بھی قابو پایا۔ دو طرفہ تجارت اور کلچرل وجود کے تبادلے پرانی رنجشیں کم کرنے کا سبب بنیں گے اور بنگلہ دیش تو کبھی ہمارا ایک بازو تھا۔ نئی نسل بنگلہ دیش کے مصائب اور محرومیوں کی ذمے دار نہیں اس لیے تعلقات میں گرمجوشی لانا دونوں ممالک کے لیے سود مند ہی ہو گا۔
مشرقی پاکستان ایک نیا ملک یعنی بنگلہ دیش بننے جا رہا تھا تو معروف صحافی عباس اطہر نے اپنے اخبار میں ہیڈلائن ''ادھر تم ادھر ہم'' لگائی تھی۔ دراصل انھوں نے دیوار پر لکھی تحریر پڑھ لی تھی۔ آج کل 43 سال بعد پاکستان کے عوام بھی با آواز بلند یہی کہتے پائے جاتے ہیں ''ادھر تم حکمران ادھر ہم مفلوک الحال عوام'' اور وہ جو خودکش بمباروں کے نرغے میں ہیں، یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ''ادھر تم طالبان ادھر ہم عوام بے امان''۔
میرے وجدان کے دیے ہوئے چھ ماہ میں سے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے۔ مجھے خوشی ہو گی کہ طالبان سے کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں ملک میں جلد امن قائم ہو اور اس کا کریڈٹ ہر دو فریقین کو جائے لیکن اس کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ بڑے دکھ کی بات ہو گی اگر مجبوراً امن کے لیے متبادل آپشن اپنانا پڑا البتہ امن اور خوشحالی کے لیے جو بھی راہ اپنائی جائے اس میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔بنگلہ دیشی مصور کی پینٹنگز کی نمائش پر یہ کالم اپنی اختتامی سطور پر تھا جب 8 اکتوبر 2013ء کو The Collectors Galleria میں ہونے والی ساجدہ حسین کی پینٹنگز کی نمائش کا دعوت نامہ ملا ہے۔ اے دنیا والو جو ہمیں صرف Terrorist ہی سمجھتے ہو دیکھو ہم ڈھاکہ سے آنے والے جہانگیر حسین کی پینٹنگز دیکھنے سے فارغ نہیں ہوئے کہ ساجدہ حسین کی پینٹنگز کی نمائش ہماری منتظر ہے اور اے حکمرانو تمہارے لیے فیصلے کی گھڑی بھی آن پہنچی ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کر دو۔
نمائش دکھانے کے بعد گلزار صاحب نے چائے کے پیالے پر میرا تعارف آرٹسٹ جہانگیر حسین سے کروایا تو اختتام ملاقات پر جہانگیر صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا میں اس نمائش کے بارے میں کچھ لکھوں گا۔ ان کا انداز ایک طرح سے فرمائش ہی تھی۔ میرا جواب تھا کہ نمائش کی بابت کچھ لکھنے کا میرا قطعی کوئی ارادہ نہ تھا لیکن پاکستان جس کا امیج دنیا میں اس وقت ایک Terrorist State کا بن چکا ہے تو اب میرا یہ فرض ہو گیا کہ اس کے Soft Image کو اس خوبصورت شام کے حوالے سے Project کرنے کی کوشش کروں۔
سن 1989ء میں فائن آرٹس میں ڈھاکہ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد سے جہانگیر حسین نے یورپ' امریکا' کینیڈا میں تو سولو اور گروپ نمائشوں میں حصہ لیا ہی لیکن دسمبر 1971ء میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے باوجود جہانگیر حسین کی 2 اکتوبر 2013ء کے روز لاہور میں دوسری اور پاکستان میں دسویں پینٹنگز کی نمائش تھی۔ اس سے قبل کراچی اور اسلام آباد میں نہ صرف اس کی پینٹنگز کو جن میں جذبات کی عکاسی کے ساتھ یہ پیغام بھی تھا کہ ''انسان کو زندہ رہنے کے لیے محبت کی ضرورت ہوتی ہے'' بے حد سراہا گیا۔ نوجوان بنگلہ دیشی پاکستان میں جو دس بار اپنی پینٹنگز کی نمائش کے لیے آیا یہاں یقینا اسے محبت اور ستائش ہی ملی ہو گی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانیوں کی انسانیت ابھی زندہ ہے لیکن اس میں آ گھسے ہیں درندے جن کی جلد اصلاح نہایت ضروری ہے یا پھر ملک کو ان سے پاک کرنا ہو گا تا کہ یہ جناح اور اقبال کا پاکستان کہلانے کے قابل ہو جائے اور دنیا میں باعزت مقام پائے۔
ڈیڑھ ماہ قبل میرا لاہور پریس کلب جانا ہوا تو وہاں مسلم لیگ (ن) کی انتخاب جیت کر آئی حکومت اور روزانہ کی بنیاد پر جاری دہشت گرد حملوں پر سخت تنقید ہوئی اور ملک کے مستقبل کے بارے میں شدید مایوسی کا اظہار سننے کو ملا۔ وہاں سے رخصت ہوتے ہوئے میں نے کہا کہ صرف چھ ماہ انتظار کر لیں' معاملہ آر یا پار ہو جائے گا۔ متفقہ آئین اور دنیا کی ساتویں فوجی طاقت رکھنے والے ملک کی فوجی قیادت اور سول حکومت کو ایک پیج پر آنے اور برداشت کی حد پار ہونے میں چند ماہ لگیں گے لیکن معاملہ پار نہیں ہو گا آر ہو گا اور حکومت دہشت گردوں سے اسی طرح نمٹے گی جو وقت کا تقاضا ہے۔
ڈھاکہ سے آئے ہوئے آرٹسٹ جہانگیر حسین جس کی سترہ سال کے دوران کراچی' اسلام آباد' لاہور کی آرٹ گیلریز میں یہ دسویں نمائش تھی' اس کا عنوان تھا The Colour of Mind۔ اس کے فن پاروں کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ مصور آج کی دنیا کو درپیش چیلنجز سے بخوبی واقف ہے اور ادھر ہم ہیں کہ ہر روز بارود' لہو میں لتھڑے انسانی اجسام اور تباہ شدہ عمارتیں دیکھ دیکھ کر خدا کے عظیم شاہکار انسان کی بے حرمتی پر فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ کافر کون ہیں۔ خودکش بمبار یا مساجد' مدرسوں' اسپتالوں اور مارکیٹوں میں مرنے والے لیکن جیسا کہ میرا وجدان کہہ رہا ہے یہ غیر انسانی کھیل اپنے انجام کو پہنچنے کو ہے۔ پریس کلب میں میری دی ہوئی مدت میں ابھی ساڑھے چار ماہ باقی ہیں۔
مجھے معلوم نہیں کہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد کون کون سے آرٹسٹوں نے پاکستان سے بنگلہ دیش جا کر کس کس شہر میں کتنی بار اپنے فن پاروں کی نمائش سجائی۔ جہانگیر حسین کو جو پذیرائی لاہور کی نمائش میں ملی اورجس طرح انھوں نے اپنی مسکراہٹوں سے مداحوں کا شکریہ ادا کیا اس سے باہمی خلوص و محبت عیاں تھی۔ پاکستان سے علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش نے تعلیم و تجارت میں ترقی کے علاوہ بدامنی اور بدعنوانی پر بھی قابو پایا۔ دو طرفہ تجارت اور کلچرل وجود کے تبادلے پرانی رنجشیں کم کرنے کا سبب بنیں گے اور بنگلہ دیش تو کبھی ہمارا ایک بازو تھا۔ نئی نسل بنگلہ دیش کے مصائب اور محرومیوں کی ذمے دار نہیں اس لیے تعلقات میں گرمجوشی لانا دونوں ممالک کے لیے سود مند ہی ہو گا۔
مشرقی پاکستان ایک نیا ملک یعنی بنگلہ دیش بننے جا رہا تھا تو معروف صحافی عباس اطہر نے اپنے اخبار میں ہیڈلائن ''ادھر تم ادھر ہم'' لگائی تھی۔ دراصل انھوں نے دیوار پر لکھی تحریر پڑھ لی تھی۔ آج کل 43 سال بعد پاکستان کے عوام بھی با آواز بلند یہی کہتے پائے جاتے ہیں ''ادھر تم حکمران ادھر ہم مفلوک الحال عوام'' اور وہ جو خودکش بمباروں کے نرغے میں ہیں، یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ''ادھر تم طالبان ادھر ہم عوام بے امان''۔
میرے وجدان کے دیے ہوئے چھ ماہ میں سے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے۔ مجھے خوشی ہو گی کہ طالبان سے کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں ملک میں جلد امن قائم ہو اور اس کا کریڈٹ ہر دو فریقین کو جائے لیکن اس کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ بڑے دکھ کی بات ہو گی اگر مجبوراً امن کے لیے متبادل آپشن اپنانا پڑا البتہ امن اور خوشحالی کے لیے جو بھی راہ اپنائی جائے اس میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔بنگلہ دیشی مصور کی پینٹنگز کی نمائش پر یہ کالم اپنی اختتامی سطور پر تھا جب 8 اکتوبر 2013ء کو The Collectors Galleria میں ہونے والی ساجدہ حسین کی پینٹنگز کی نمائش کا دعوت نامہ ملا ہے۔ اے دنیا والو جو ہمیں صرف Terrorist ہی سمجھتے ہو دیکھو ہم ڈھاکہ سے آنے والے جہانگیر حسین کی پینٹنگز دیکھنے سے فارغ نہیں ہوئے کہ ساجدہ حسین کی پینٹنگز کی نمائش ہماری منتظر ہے اور اے حکمرانو تمہارے لیے فیصلے کی گھڑی بھی آن پہنچی ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کر دو۔