ڈسپوزایبل کلچر
ہمارا آبائی علاقہ اگرچہ ایک چھوٹے سے شہرکا روپ اختیارکرگیا ہے لیکن اب بھی میٹروپولیٹن طرزکی کئی آفات سے محفوظ ہے۔
گزشتہ ہفتے ہماری چھوٹی نانی کا انتقال ہوگیا۔خیر سے عمر رسیدہ تھیں،ایک باہمت اور بااصول خاتون۔ہمارا آبائی علاقہ اگرچہ بڑھتے بڑھتے ایک چھوٹے سے شہرکا روپ اختیارکرگیا ہے لیکن اب بھی میٹروپولیٹن طرزکی کئی آفات سے محفوظ ہے۔ وہاں کے اکثر لوگ اب بھی خریداری ،تعلیم اور معالجے کے لیے قریبی میٹرو پولیٹن کا رُخ کرتے ہیں۔خاص کر دنیا کے فیشن کی طرح اور بقول اکبر الہ آبادی ''کَٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جا کر''،اسپتال جا کر مرنا پسند کرنے لگے ہیں۔سو ہماری نانی جان اور متعلقین نے بھی یہ ہی فیصلہ کیا کہ بڑے شہر کے بڑے اسپتال میں معالجہ ہونا چاہیے۔ایسا ہی کیا گیا۔نانی کو اسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ اُن کے ساتھ تیمارداروں کی ایک فوج ظفر موج آنا چاہتی تھی ۔
کچھ لوگوں کو صرف تیمار داری سے غرض تھی،تو کسی کسی کے دل میںبڑے شہر کے چھوٹے بڑے پُل اور بڑے بڑے پلازوں کی سیر کا شوق بھی چُٹکیاں لیتا ہو گا۔شہروں کا سحر کس پر طاری نہیں۔القصہ جب اتنے بہت سے افراد کے سفر اور قیام و طعام پر غور کیا گیا اور شہری رشتے داروں سے مشاورت کی گئی تو اندازہ ہوا کہ اولاد اور ان کی اولاد مل ملا کر ڈیڑھ دو درجن ہوئی جاتی ہیں ان سب کی یا ان میں سے نصف ہی کی مراجعت مناسب نہیں۔قرعہ فال 5افراد کے نام نکلا دو خالائیں، دو ماموں اور صاحبزادگان میں سے ایک۔ ہم ایسوں نے سکون کا سانس لیا کہ اتنے بہت سے مہمانوں کی مدارات شاید ہمارے بس کی بات بھی نہیں۔بعد کے واقعات کے بارے میں ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اگرہم چشم دید گواہ نہ ہوتے تو ان میں سے کچھ کے قبول میں شاید ہمیںبھی تعامل ہو سکتا تھا۔
ماموں کو شدید شکایت تھی کہ اسپتال میں صفائی کے معیارات اچھے نہیں ہیں۔اس سے بھی بڑھ کر انھیں یہ شکایت بھی تھی کہ اسپتال کی کینٹین میں اُن کی پسند کی چائے نہیں ملتی۔جب کوئی گھر سے اسپتال جاتا تو آپ کے لیے خصوصی طور پر چائے تیارکر کے بھجوائی جاتی۔لیکن ظاہر ہے کہ تھرموس میں چائے کا رنگ اور ذائقہ کچھ ہی دیر بعد کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔عمدہ سے عمدہ چائے بھی حضرت ماموں جان کے لبوں تک پہنچتے پہنچتے ذائقہ کھو بیٹھتی۔ہم نے اُنھیں اطلاع دینے کی کوشش کی کہ اسپتال کے بڑے دروازے کے سامنے ،روڈ کے پار ایک چائے والا ہے۔آپ وہاں کی چائے ''ٹرائی'' کریں۔فوراً کہنے لگے''میاں پرانی خبر ہے۔میں کل صبح ہی وہاں گیا تھا۔ایک تو روڈ کراس کرنا ہی بہت دشوار ہے پھر وہاں کی جو چائے ہے وہ بس غنیمت ہی ہے۔''پھر انھوں نے چائے پی کر واپسی کا قصہ سنایا۔کہنے لگے'چائے والے سے اپنی فرمائش کی چائے اور ناشتا تیار کرواتے اور ناشتہ کرتے خاصا دن چڑھ آیا۔جب ہم اسپتال سے نکلے تھے تو رش کم تھا۔اب تو شاید دفتر اور اسکول کا وقت ہو گیا تھا۔
دو رویہ سڑک پر ہر دو جانب فراٹے بھرتا ٹریفک رواں دواں تھا۔بس میں نے اُسی لمحے فیصلہ کر لیا کہ جان پر کھیل کر چائے نہیں پی جا سکتی۔لیکن اب سوال تھا واپسی کا۔ خیراللہ مسبب الاسباب ہے۔ہم دنیا داری کے لیے تو نکلے نہیں تھے۔ہم تو گھر سے ماں کی خدمت کے لیے نکلے تھے۔سو ہم نے ایک رکشا روکا ، رکشے والے نے پوچھا کہاں جانا ہے؟ میں نے اشارہ کیا سامنے اسپتال کے دروازے تک۔نا لائق سمجھا میں نے مذاق کیا ہے۔وہ مجھے اور سی این جی کی طُول طویل قطاروں کو یکساں رفتار سے کوستا آگے بڑھ گیا۔میں کب ہمت ہارنے والا تھا۔ ایک اور رکشہ روکا اورکچھ کہے سُنے بغیر جھٹ اندر بیٹھ گیا۔یہ کوئی بھلا مانس تھا،میری مجبوری سمجھ گیا،اگلے موڑ سے رکشا گھما کر اسپتال کے دروازے پر چھوڑ دیا اور پیسے بھی نہیں لیے۔یوں وہ اسپتال تو خیر سے لَوٹ آئے لیکن چائے کا مسئلہ برقرار رہا۔بھلا ہو کوئٹہ ہوٹل والوںکا۔ہم نے اُنھیں وہاں لے جا کر چائے پلوا دی۔وہ تو گرویدہ ہو گئے۔دودھ پتی اُن سے بُھلائے نہیں بھولتی۔بعد کو وہ چائے سے زیادہ رقم آنے جانے پر خرچ کرتے اور چائے پیتے رہے۔
خالہ بھی اسپتال میں تھیں ۔نانی کی خدمت دل و جان سے کر رہی تھیں۔لیکن اُنھیں یہاں کا ماحول سمجھنے میں شدید دشواریوں کا سامنا تھا۔مثلاً ایک دن 'ویٹنگ ایریا' میں لگی 'اے ٹی ایم' مشین کو دیکھ کر کہنے لگیںکہ تم شہر والوں کو کیا ہو گیا ہے، سارے کام اُلٹے کرنے لگے ہو۔کچھ نہ سمجھتے ہوئے میں نے سوال کیا کہ اِس وقت کِس اُلٹے کام کی طرف اشارہ ہے۔کہنے لگیں اے خود ہی دیکھ لو ۔ایک تو اتنا سا ٹی وی لگایا ہے وہ بھی اوپر رُخ کر کے،اب کیا کوئی اس میں منہ ڈال کر ٹی وی دیکھے گا؟ میں نے کہا خالہ یہ ٹی وی نہیں،اے ٹی ایم مشین ہے کہنے لگیں وہ کیا ہوتی ہے ؟ میں نے کہا اس میں سے پیسے نکلتے ہیں؟کہنے لگیں کسی اور کو بے وقوف بناناکبھی مشینوں سے بھی پیسے نکلتے ہیں۔میں نے کہاہاں، کارڈ لگاتے ہیں تب۔کہنے لگیں مت بنائو۔ کوئی بھی کوئی سا بھی کارڈ لگا کر پیسے نکال کر لے جائے؟بڑی مشکل سے عملی مظاہرہ کر کے دکھایا پھر کچھ سمجھیں۔ابتداً وہ اسپتال کی ہر لڑکی کو سمجھتیں کہ وہ ڈاکٹر ہے۔اور پھر جب انھیں پتا چلا کہ سب ڈاکٹر نہیں ہیں،اور خود انھوں نے بھی عورتوں کو نرسنگ کیئر اور دیگر خدمات میں مصروف دیکھا تو بڑی دُکھی ہوتی تھیں۔انھیں عورتوں کی مظلومیت کا شدت سے احساس ہونے لگتا۔اور وہ کہتیں کہ ''یہ مَردوے،خود کام کرنے کے بجائے عورتوں سے غلامی کر وا رہے ہیں۔''
نانی جان کو بھی اسپتال کے ماحول کے ساتھ سمجھوتے کرنے میں دشواریوں کا سامنا تھا۔ مثال کے طور پر جب بڑے ڈاکٹر صاحب چیک اپ کے لیے آئے تو انھوں نے دستانے پہنے اور جانے سے قبل اُتار کر ڈسٹ بِن میں پھینکنے لگے۔نانی جان کو طیش آگیا۔وہ کئی باتوں پر ضبط کیے بیٹھی تھیں۔اب اُبل پڑیں''ڈاکٹر صاحب،ماف کرنا ،یہ آپ نے کیا کیا؟''ڈاکٹر کچھ نہ سمجھ پائے۔''اے یہ ہی یہ نئے کے نئے دستانے کیوں پھینک دیے؟''ڈاکٹر صاحب کو یہ بات سمجھانا مشکل لگا۔آپ خاموش رہے۔نانی شروع ہو گئیں۔''عجیب اسپتال ہے عجیب لوگ ہیں،پڑھ لکھ کر گنوایا۔ہر چیز نئی کھولیں گے،استعمال کی نہ کی پھینک دی۔ڈاکٹری سامان تو الگ یہ دیکھو۔''انھوں نے دراز کھولی اور پلاسٹک کے بہت سے ڈسپوز ایبل چمچ اور برتن نکال کر سامنے ڈھیر کر دیے۔''کتنا منع کرتی ہوں کہ میاں ہم گھر سے اپنے چمچ ،پلیٹیں، گلاس لے کر چلے ہیںلیکن سنتے ہی نہیں۔تین وقت کھانا نئے چمچوں اور برتنوں میں دے جاتا ہے۔اسپتال والوں نے یہ نیا دھندا کھول لیا ہے ۔بل بڑھانے کا۔استعمال ہوں نہ ہوں کہتے ہیں کوڑے دان میں پھینک دو۔بڑے بڑے کچرے کے ڈبے رکھے ہوئے ہیں دن رات انھیں بھرتے رہتے ہیں۔ پورے شہر کو ایک بہت بڑا کچرا گھر بنا دیا ہے۔'' نانی بولتی رہیں اور ڈاکٹر گردن ہلا کر آگے چلے گئے۔
نانی مرتے مرتے بھی سکھا گئیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہم جوں ہی اسپتال کا رُخ کرتے ہیں تیزی سے کچرا پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق صرف لاہور کے اسپتالوں سے ڈھائی لاکھ ٹن سے زائد کچرا ہر برس نکلتا ہے۔ارضِ پاک کے بڑے شہروں کے بڑے اسپتال روزانہ کی بنیاد پر صرف اور صرف پلاسٹک کے چمچوں اور برتنوں کی شکل میں جوکچرا اُگل رہے ہیں وہ ہماری ماحولیات کے لیے بڑا خطرہ ہے۔کُجا یہ کہ ہمارے ہاں تو متعدی و عفونت زدہ کچرے کے اتلاف کا بھی کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں۔سوال یہ ہے ہم اور ہماری علاج گاہیںکچرا اُگل اُگل کر زمین کو اور انسانوں کو بیمار کر رہی ہیں یا صحت مند؟
کچھ لوگوں کو صرف تیمار داری سے غرض تھی،تو کسی کسی کے دل میںبڑے شہر کے چھوٹے بڑے پُل اور بڑے بڑے پلازوں کی سیر کا شوق بھی چُٹکیاں لیتا ہو گا۔شہروں کا سحر کس پر طاری نہیں۔القصہ جب اتنے بہت سے افراد کے سفر اور قیام و طعام پر غور کیا گیا اور شہری رشتے داروں سے مشاورت کی گئی تو اندازہ ہوا کہ اولاد اور ان کی اولاد مل ملا کر ڈیڑھ دو درجن ہوئی جاتی ہیں ان سب کی یا ان میں سے نصف ہی کی مراجعت مناسب نہیں۔قرعہ فال 5افراد کے نام نکلا دو خالائیں، دو ماموں اور صاحبزادگان میں سے ایک۔ ہم ایسوں نے سکون کا سانس لیا کہ اتنے بہت سے مہمانوں کی مدارات شاید ہمارے بس کی بات بھی نہیں۔بعد کے واقعات کے بارے میں ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اگرہم چشم دید گواہ نہ ہوتے تو ان میں سے کچھ کے قبول میں شاید ہمیںبھی تعامل ہو سکتا تھا۔
ماموں کو شدید شکایت تھی کہ اسپتال میں صفائی کے معیارات اچھے نہیں ہیں۔اس سے بھی بڑھ کر انھیں یہ شکایت بھی تھی کہ اسپتال کی کینٹین میں اُن کی پسند کی چائے نہیں ملتی۔جب کوئی گھر سے اسپتال جاتا تو آپ کے لیے خصوصی طور پر چائے تیارکر کے بھجوائی جاتی۔لیکن ظاہر ہے کہ تھرموس میں چائے کا رنگ اور ذائقہ کچھ ہی دیر بعد کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔عمدہ سے عمدہ چائے بھی حضرت ماموں جان کے لبوں تک پہنچتے پہنچتے ذائقہ کھو بیٹھتی۔ہم نے اُنھیں اطلاع دینے کی کوشش کی کہ اسپتال کے بڑے دروازے کے سامنے ،روڈ کے پار ایک چائے والا ہے۔آپ وہاں کی چائے ''ٹرائی'' کریں۔فوراً کہنے لگے''میاں پرانی خبر ہے۔میں کل صبح ہی وہاں گیا تھا۔ایک تو روڈ کراس کرنا ہی بہت دشوار ہے پھر وہاں کی جو چائے ہے وہ بس غنیمت ہی ہے۔''پھر انھوں نے چائے پی کر واپسی کا قصہ سنایا۔کہنے لگے'چائے والے سے اپنی فرمائش کی چائے اور ناشتا تیار کرواتے اور ناشتہ کرتے خاصا دن چڑھ آیا۔جب ہم اسپتال سے نکلے تھے تو رش کم تھا۔اب تو شاید دفتر اور اسکول کا وقت ہو گیا تھا۔
دو رویہ سڑک پر ہر دو جانب فراٹے بھرتا ٹریفک رواں دواں تھا۔بس میں نے اُسی لمحے فیصلہ کر لیا کہ جان پر کھیل کر چائے نہیں پی جا سکتی۔لیکن اب سوال تھا واپسی کا۔ خیراللہ مسبب الاسباب ہے۔ہم دنیا داری کے لیے تو نکلے نہیں تھے۔ہم تو گھر سے ماں کی خدمت کے لیے نکلے تھے۔سو ہم نے ایک رکشا روکا ، رکشے والے نے پوچھا کہاں جانا ہے؟ میں نے اشارہ کیا سامنے اسپتال کے دروازے تک۔نا لائق سمجھا میں نے مذاق کیا ہے۔وہ مجھے اور سی این جی کی طُول طویل قطاروں کو یکساں رفتار سے کوستا آگے بڑھ گیا۔میں کب ہمت ہارنے والا تھا۔ ایک اور رکشہ روکا اورکچھ کہے سُنے بغیر جھٹ اندر بیٹھ گیا۔یہ کوئی بھلا مانس تھا،میری مجبوری سمجھ گیا،اگلے موڑ سے رکشا گھما کر اسپتال کے دروازے پر چھوڑ دیا اور پیسے بھی نہیں لیے۔یوں وہ اسپتال تو خیر سے لَوٹ آئے لیکن چائے کا مسئلہ برقرار رہا۔بھلا ہو کوئٹہ ہوٹل والوںکا۔ہم نے اُنھیں وہاں لے جا کر چائے پلوا دی۔وہ تو گرویدہ ہو گئے۔دودھ پتی اُن سے بُھلائے نہیں بھولتی۔بعد کو وہ چائے سے زیادہ رقم آنے جانے پر خرچ کرتے اور چائے پیتے رہے۔
خالہ بھی اسپتال میں تھیں ۔نانی کی خدمت دل و جان سے کر رہی تھیں۔لیکن اُنھیں یہاں کا ماحول سمجھنے میں شدید دشواریوں کا سامنا تھا۔مثلاً ایک دن 'ویٹنگ ایریا' میں لگی 'اے ٹی ایم' مشین کو دیکھ کر کہنے لگیںکہ تم شہر والوں کو کیا ہو گیا ہے، سارے کام اُلٹے کرنے لگے ہو۔کچھ نہ سمجھتے ہوئے میں نے سوال کیا کہ اِس وقت کِس اُلٹے کام کی طرف اشارہ ہے۔کہنے لگیں اے خود ہی دیکھ لو ۔ایک تو اتنا سا ٹی وی لگایا ہے وہ بھی اوپر رُخ کر کے،اب کیا کوئی اس میں منہ ڈال کر ٹی وی دیکھے گا؟ میں نے کہا خالہ یہ ٹی وی نہیں،اے ٹی ایم مشین ہے کہنے لگیں وہ کیا ہوتی ہے ؟ میں نے کہا اس میں سے پیسے نکلتے ہیں؟کہنے لگیں کسی اور کو بے وقوف بناناکبھی مشینوں سے بھی پیسے نکلتے ہیں۔میں نے کہاہاں، کارڈ لگاتے ہیں تب۔کہنے لگیں مت بنائو۔ کوئی بھی کوئی سا بھی کارڈ لگا کر پیسے نکال کر لے جائے؟بڑی مشکل سے عملی مظاہرہ کر کے دکھایا پھر کچھ سمجھیں۔ابتداً وہ اسپتال کی ہر لڑکی کو سمجھتیں کہ وہ ڈاکٹر ہے۔اور پھر جب انھیں پتا چلا کہ سب ڈاکٹر نہیں ہیں،اور خود انھوں نے بھی عورتوں کو نرسنگ کیئر اور دیگر خدمات میں مصروف دیکھا تو بڑی دُکھی ہوتی تھیں۔انھیں عورتوں کی مظلومیت کا شدت سے احساس ہونے لگتا۔اور وہ کہتیں کہ ''یہ مَردوے،خود کام کرنے کے بجائے عورتوں سے غلامی کر وا رہے ہیں۔''
نانی جان کو بھی اسپتال کے ماحول کے ساتھ سمجھوتے کرنے میں دشواریوں کا سامنا تھا۔ مثال کے طور پر جب بڑے ڈاکٹر صاحب چیک اپ کے لیے آئے تو انھوں نے دستانے پہنے اور جانے سے قبل اُتار کر ڈسٹ بِن میں پھینکنے لگے۔نانی جان کو طیش آگیا۔وہ کئی باتوں پر ضبط کیے بیٹھی تھیں۔اب اُبل پڑیں''ڈاکٹر صاحب،ماف کرنا ،یہ آپ نے کیا کیا؟''ڈاکٹر کچھ نہ سمجھ پائے۔''اے یہ ہی یہ نئے کے نئے دستانے کیوں پھینک دیے؟''ڈاکٹر صاحب کو یہ بات سمجھانا مشکل لگا۔آپ خاموش رہے۔نانی شروع ہو گئیں۔''عجیب اسپتال ہے عجیب لوگ ہیں،پڑھ لکھ کر گنوایا۔ہر چیز نئی کھولیں گے،استعمال کی نہ کی پھینک دی۔ڈاکٹری سامان تو الگ یہ دیکھو۔''انھوں نے دراز کھولی اور پلاسٹک کے بہت سے ڈسپوز ایبل چمچ اور برتن نکال کر سامنے ڈھیر کر دیے۔''کتنا منع کرتی ہوں کہ میاں ہم گھر سے اپنے چمچ ،پلیٹیں، گلاس لے کر چلے ہیںلیکن سنتے ہی نہیں۔تین وقت کھانا نئے چمچوں اور برتنوں میں دے جاتا ہے۔اسپتال والوں نے یہ نیا دھندا کھول لیا ہے ۔بل بڑھانے کا۔استعمال ہوں نہ ہوں کہتے ہیں کوڑے دان میں پھینک دو۔بڑے بڑے کچرے کے ڈبے رکھے ہوئے ہیں دن رات انھیں بھرتے رہتے ہیں۔ پورے شہر کو ایک بہت بڑا کچرا گھر بنا دیا ہے۔'' نانی بولتی رہیں اور ڈاکٹر گردن ہلا کر آگے چلے گئے۔
نانی مرتے مرتے بھی سکھا گئیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہم جوں ہی اسپتال کا رُخ کرتے ہیں تیزی سے کچرا پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق صرف لاہور کے اسپتالوں سے ڈھائی لاکھ ٹن سے زائد کچرا ہر برس نکلتا ہے۔ارضِ پاک کے بڑے شہروں کے بڑے اسپتال روزانہ کی بنیاد پر صرف اور صرف پلاسٹک کے چمچوں اور برتنوں کی شکل میں جوکچرا اُگل رہے ہیں وہ ہماری ماحولیات کے لیے بڑا خطرہ ہے۔کُجا یہ کہ ہمارے ہاں تو متعدی و عفونت زدہ کچرے کے اتلاف کا بھی کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں۔سوال یہ ہے ہم اور ہماری علاج گاہیںکچرا اُگل اُگل کر زمین کو اور انسانوں کو بیمار کر رہی ہیں یا صحت مند؟