اُمراء کی جمہوریت
مجھے ایسے پیغامات اب کثرت سے موصول ہوتے ہیں جن میں سیاست اور سیاستدانوں سے بیزاری کا اظہار کیا جاتا ہے۔
سیاسی موضوعات کی بھر مار ہے اس لیے جب دل چاہتا ہے کسی نہ کسی موضوع پر چاند ماری کر لیتا ہوں۔ آج کچھ پرانے کاغذات کا پلندہ جب صفائی کے لیے میرے سامنے رکھا گیا تو اس میں سے ایک سادہ ورق پر استاد دامن کا شعر لکھا ہوا نظر آیا جو کبھی میں نے لکھ لیا تھا۔
ایتھے کیویں گزاریئے زندگی نوں
ایہو سوچدے سوچدے گزر چلے
اگرچہ پنجابی زبان کو اردو کی ماں کہا جاتا ہے لیکن آج کل خود پنجابی بھی پنجابی نہیں بولتے تو اردو بولنے والوں سے کیا شکوہ اس لیے اس شعر کا ترجمہ اور مفہوم ملاحظہ فرمایئے کہ یہاں زندگی کیسے بسر کی جائے ، یہی سوچتے سوچتے عمر گزار چلے ہیں۔ اس درویش شاعر کے کلام میں نادار اور غریب آدمی کا دل دھڑکتا ہے ۔
اس نے اپنی زندگی صرف ایک چوبارے میں بسر کر دی اور زندگی کی تلخیوں نے اس کے مزاج کو اس قدر شگفتہ بنا دیا کہ استاد خود تو روتا رہا مگر اس کے شعر دلوں کو زندہ، دماغوں کو روشن کرتے رہے ۔ ان میں بظاہر مزاح تھا اور سننے والے ہنستے رہے لیکن یہ وہ ہنسی ہوا کرتی تھی جس کے بعد آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ استاد جس کی برسی بھی اب کسی کو یاد نہیں رہتی اپنے پیچھے سوائے اپنے کلام اور مداحوں کے اور کچھ نہیں چھوڑ گیا۔ غنیمت یہ ہے کہ اسے کوئی یاد کر لیتا ہے اور مجھے اس کی یاد اس شعر کی وجہ سے آ رہی ہے جس میں استاد کو اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ یہاں زندگی کیسے بسر کی جائے۔
اور یہاں زندگی بسر کرنا اب اتنا ہی مشکل ہو تا جا رہا ہے کہ جسم و جان دونوںکو جان کے لالے پڑے ہوتے ہیں۔ نہ قلب و روح کو سکون ہے اور نہ جسم کو۔ ایک طرف ملک کے بارے میں اضطرابات ہیں تو دوسری طرف گرانی کا یہ حال ہے کہ اب سوائے چند بڑے لوگوں اور سیاستدانوں کے کسی کی سمجھ میں نہیں آر ہا کہ ۔۔۔
ایتھے کیویں گزاریئے زندگی نوں
ہمارے ہاں جمہوریت کا یہ دستور بن چکا ہے کہ حکومت بار ی باری شریفوں، زرداریوں، چوہدریوں، مزاریوں، لغاریوں ، نوابوں، سرداروں ، ملکوں اور خانوں وغیرہ میں تقسیم ہوتی رہے۔ کیا ہمارے بڑوں نے یہ ملک ان بڑوں کے لیے بنایا تھا، اس میں غریبوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ چھوٹے لوگوں کا کام اطاعت اور صبر و شکر کے سوا اور کچھ نہیں اور ہمارے بڑے ہمیں اسی کی بار بار تلقین کرتے ہیں۔
انھی لوگوں نے ہمارا ملک توڑا تھا اور یہی لوگ ہمارے قومی انتشار کے ذمے دار ہیں۔ انھوں نے لڑاؤ اور حکومت کرو کا زریں اصول اپنائے رکھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج جب ایک تیسرے فریق کو حکومت کا موقع ملا ہے تو سیاستدان آپس میں لڑ رہے ہیں۔ لیکن ان کی لڑائی کے پیچھے ایک دوسرے کے مفادات ہیں۔ یہ سب ایک دوسرے کے سیاسی رشتے دار ہیں ان کے کارناموں سے اخبارات کے صفحے کالے ہو رہے اور ٹیلی ویژن پر ان کی آہ و بکا سنائی دے رہی ہے۔
مجھے ایسے پیغامات اب کثرت سے موصول ہوتے ہیں جن میں سیاست اور سیاستدانوں سے بیزاری کا اظہار کیا جاتا ہے اور یہ ایک خطرناک رجحان ہے ۔ سیاستدانوں میں اگر کوئی غلط ہے تو اس سے نفرت عوام کا حق ہے لیکن کسی گندے سیاستدان یا سیاستدانوں کی وجہ سے سیاست سے نفرت درست نہیں۔ سیاست ملکی معاملات کو چلانے کا نام ہے اور یہ کام کسی نہ کسی کو بہر حال کرنا ہی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ بدقسمتی سے سیاستدانوں کا ایک بڑا گروہ سیاست کی عام اخلاقیات پر بھی پورا نہیں اترتا کجا کہ اس کو عوام کے لیے قابل تقلید کیا جائے اور اس گروہ کو قائد عوام کا مقام دیا جائے۔
سیاستدانوں کے گروہ جس طرح اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اس سے عوامی اخلاقیات کا معیار بھی اس قدر گر چکا ہے کہ دن کو رات اور رات کو دن کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ حقیقت اپنی جگہ رہتی ہے اور اس کی تلخیاں ایک مدت تک محسوس کی جاتی ہیں۔ سیاستدانوں کے رویے دیکھ کر عوام محظوظ ہوتے ہیں لیکن جب سیاستدانوں کی طرف سے ان کے اپنے کارناموں کی تردیدیں سنائی دیتی ہیں تو بھی اس سے عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ عوام اب اپنے سیاستدانوں کے عادی ہو چکے ہیں اور ماضی میں ان کی ریکارڈ کی گئی آوازیں عوام کے حافظوں میں محفوظ ہیں۔
ہمارے اکثر سیاستدانوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ جس کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہو اسے بددیانتی کی ضرورت نہیں ہے۔ ماضی کی حکومتوں میں جس کو بھی اقتدار ملا تو وہ پہلے سے زیادہ رئیس بن کر اقتدار سے باہر آئے اورخاص طور پر ماضی میںبیشتر حکومتوں میں جب امیروں کو اقتدار ملا تو وہ لکھ پتی سے کروڑ پتی اور کروڑ پتی سے ارب پتی بن کر سامنے آئے۔
اس لیے یہ کہنا درست ہے غریبوں کو غریبوں کا درد ہوتا ہے اور نہ یہ بات درست ہے کہ خاندانی دولت مند بدعنوانی نہیں کرتے۔ دیانت اور بددیانتی کے لیے امیری غریبی کوئی معیار نہیں ہے اس کے لیے کچھ دوسری طرح کی تربیت کی ضرورت ہے اور اس تربیت کا اب رواج باقی نہیں رہا اور جب اس نئے مکتب کے سیاستدان حکومت میں آتے رہیں گے تب تک غریبوں کے لیے زندگی آسان نہیں ہو گی ۔ امیروں کے لیے جمہوریت کا مفہوم مفادت کا تحفظ جب کہ غریبوں کے جمہوریت کا مفہوم مختلف ۔ اور غریب یہ سوچتے سوچتے اس دنیا سے گزر جائیں گے کہ ......
ایتھے کیویں گزاریئے زندگی نوں
ایتھے کیویں گزاریئے زندگی نوں
ایہو سوچدے سوچدے گزر چلے
اگرچہ پنجابی زبان کو اردو کی ماں کہا جاتا ہے لیکن آج کل خود پنجابی بھی پنجابی نہیں بولتے تو اردو بولنے والوں سے کیا شکوہ اس لیے اس شعر کا ترجمہ اور مفہوم ملاحظہ فرمایئے کہ یہاں زندگی کیسے بسر کی جائے ، یہی سوچتے سوچتے عمر گزار چلے ہیں۔ اس درویش شاعر کے کلام میں نادار اور غریب آدمی کا دل دھڑکتا ہے ۔
اس نے اپنی زندگی صرف ایک چوبارے میں بسر کر دی اور زندگی کی تلخیوں نے اس کے مزاج کو اس قدر شگفتہ بنا دیا کہ استاد خود تو روتا رہا مگر اس کے شعر دلوں کو زندہ، دماغوں کو روشن کرتے رہے ۔ ان میں بظاہر مزاح تھا اور سننے والے ہنستے رہے لیکن یہ وہ ہنسی ہوا کرتی تھی جس کے بعد آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ استاد جس کی برسی بھی اب کسی کو یاد نہیں رہتی اپنے پیچھے سوائے اپنے کلام اور مداحوں کے اور کچھ نہیں چھوڑ گیا۔ غنیمت یہ ہے کہ اسے کوئی یاد کر لیتا ہے اور مجھے اس کی یاد اس شعر کی وجہ سے آ رہی ہے جس میں استاد کو اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ یہاں زندگی کیسے بسر کی جائے۔
اور یہاں زندگی بسر کرنا اب اتنا ہی مشکل ہو تا جا رہا ہے کہ جسم و جان دونوںکو جان کے لالے پڑے ہوتے ہیں۔ نہ قلب و روح کو سکون ہے اور نہ جسم کو۔ ایک طرف ملک کے بارے میں اضطرابات ہیں تو دوسری طرف گرانی کا یہ حال ہے کہ اب سوائے چند بڑے لوگوں اور سیاستدانوں کے کسی کی سمجھ میں نہیں آر ہا کہ ۔۔۔
ایتھے کیویں گزاریئے زندگی نوں
ہمارے ہاں جمہوریت کا یہ دستور بن چکا ہے کہ حکومت بار ی باری شریفوں، زرداریوں، چوہدریوں، مزاریوں، لغاریوں ، نوابوں، سرداروں ، ملکوں اور خانوں وغیرہ میں تقسیم ہوتی رہے۔ کیا ہمارے بڑوں نے یہ ملک ان بڑوں کے لیے بنایا تھا، اس میں غریبوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ چھوٹے لوگوں کا کام اطاعت اور صبر و شکر کے سوا اور کچھ نہیں اور ہمارے بڑے ہمیں اسی کی بار بار تلقین کرتے ہیں۔
انھی لوگوں نے ہمارا ملک توڑا تھا اور یہی لوگ ہمارے قومی انتشار کے ذمے دار ہیں۔ انھوں نے لڑاؤ اور حکومت کرو کا زریں اصول اپنائے رکھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج جب ایک تیسرے فریق کو حکومت کا موقع ملا ہے تو سیاستدان آپس میں لڑ رہے ہیں۔ لیکن ان کی لڑائی کے پیچھے ایک دوسرے کے مفادات ہیں۔ یہ سب ایک دوسرے کے سیاسی رشتے دار ہیں ان کے کارناموں سے اخبارات کے صفحے کالے ہو رہے اور ٹیلی ویژن پر ان کی آہ و بکا سنائی دے رہی ہے۔
مجھے ایسے پیغامات اب کثرت سے موصول ہوتے ہیں جن میں سیاست اور سیاستدانوں سے بیزاری کا اظہار کیا جاتا ہے اور یہ ایک خطرناک رجحان ہے ۔ سیاستدانوں میں اگر کوئی غلط ہے تو اس سے نفرت عوام کا حق ہے لیکن کسی گندے سیاستدان یا سیاستدانوں کی وجہ سے سیاست سے نفرت درست نہیں۔ سیاست ملکی معاملات کو چلانے کا نام ہے اور یہ کام کسی نہ کسی کو بہر حال کرنا ہی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ بدقسمتی سے سیاستدانوں کا ایک بڑا گروہ سیاست کی عام اخلاقیات پر بھی پورا نہیں اترتا کجا کہ اس کو عوام کے لیے قابل تقلید کیا جائے اور اس گروہ کو قائد عوام کا مقام دیا جائے۔
سیاستدانوں کے گروہ جس طرح اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اس سے عوامی اخلاقیات کا معیار بھی اس قدر گر چکا ہے کہ دن کو رات اور رات کو دن کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ حقیقت اپنی جگہ رہتی ہے اور اس کی تلخیاں ایک مدت تک محسوس کی جاتی ہیں۔ سیاستدانوں کے رویے دیکھ کر عوام محظوظ ہوتے ہیں لیکن جب سیاستدانوں کی طرف سے ان کے اپنے کارناموں کی تردیدیں سنائی دیتی ہیں تو بھی اس سے عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ عوام اب اپنے سیاستدانوں کے عادی ہو چکے ہیں اور ماضی میں ان کی ریکارڈ کی گئی آوازیں عوام کے حافظوں میں محفوظ ہیں۔
ہمارے اکثر سیاستدانوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ جس کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہو اسے بددیانتی کی ضرورت نہیں ہے۔ ماضی کی حکومتوں میں جس کو بھی اقتدار ملا تو وہ پہلے سے زیادہ رئیس بن کر اقتدار سے باہر آئے اورخاص طور پر ماضی میںبیشتر حکومتوں میں جب امیروں کو اقتدار ملا تو وہ لکھ پتی سے کروڑ پتی اور کروڑ پتی سے ارب پتی بن کر سامنے آئے۔
اس لیے یہ کہنا درست ہے غریبوں کو غریبوں کا درد ہوتا ہے اور نہ یہ بات درست ہے کہ خاندانی دولت مند بدعنوانی نہیں کرتے۔ دیانت اور بددیانتی کے لیے امیری غریبی کوئی معیار نہیں ہے اس کے لیے کچھ دوسری طرح کی تربیت کی ضرورت ہے اور اس تربیت کا اب رواج باقی نہیں رہا اور جب اس نئے مکتب کے سیاستدان حکومت میں آتے رہیں گے تب تک غریبوں کے لیے زندگی آسان نہیں ہو گی ۔ امیروں کے لیے جمہوریت کا مفہوم مفادت کا تحفظ جب کہ غریبوں کے جمہوریت کا مفہوم مختلف ۔ اور غریب یہ سوچتے سوچتے اس دنیا سے گزر جائیں گے کہ ......
ایتھے کیویں گزاریئے زندگی نوں