وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں کشمیریوں کی نمائندگی کا حق ادا کر دیا

وزیر اعظم عمران خان سے پاکستان اور کشمیر کے عوام نے جو توقعات قائم کر رکھی تھیں وہ انہوں نے پوری کر دیں۔

وزیر اعظم عمران خان سے پاکستان اور کشمیر کے عوام نے جو توقعات قائم کر رکھی تھیں وہ انہوں نے پوری کر دیں۔

وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مدلدل اور بہترین انتخاب کے چناو کے ساتھ تقریر میں پاکستان کی بھرپور نمائندگی کرکے میلہ لوٹ لیا ہے اوردنیا بھر میں خوب داد وصول کی ہے۔

اس فورم میں شرکت سے قبل عمران خان نے کشمیر میں بڑے عوامی اجتماع میں لوگوں کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب تک کوئی بھی قدم نہ اٹھانے کا جو پیغام دیا تھا اسے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کشمیر کا مقدمہ بھرپورر انداز سے لڑ کر اور بلا خوف خطر طاقتور عالمی ساہو کاروں کے سامنے کھڑے ہوکر انہیں آئینہ دکھا کر سچ کر دکھایا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس سے پہلے بھی اس فورم پر پاکستانی رہنماوں نے بھرپور انداز میں نہ صرف کشمیر بلکہ پوری امت مسلملہ کا مقدمہ لڑا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا میں پاکستان کوامت مسلمہ کے لیڈر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لیکن وزیر اعظم عمران خان کو ایسے موقع پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کا موقع ملا ہے جب مقبوضہ کشمیر کے عوام پر قیامت ڈھائی جا رہی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان سے پاکستان اور کشمیر کے عوام نے جو توقعات قائم کر رکھی تھیں وہ انہوں نے پوری کر دیں۔ پاکستان کا کوئی بھی وزیر اعظم ہو اسے''معذرت خواہانہ'' طرز عمل اختیار کرنے کی بجائے بھارتی وزیر اعظم کی ''فسطائیت اور توسیع پسندی'' کا سخت جواب دینا چاہیے۔

سو عمران خان نے وہ کچھ کر دکھایا اس کا انہیں نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ پاکستانی سیاست میں بھی بھرپور فائدہ پہنچا ہے، کیونکہ گذشتہ ایک سال کے دوران جس ناقص کارکردگی کی وجہ سے حکومت کو تنقید کا سامنا تھا اور عوامی حلقوں میں جس تیزی کے ساتھ عمران خان کی مقبولیت میں کمی واقع ہو رہی تھی اس خطاب سے اس گرتی ہوئی عوامی مقبولیت کی بحالی میں بھی مدد ملی ہے لیکن اس مقبولیت کے گراف کو دوبارہ بلندی کی طرف لے جانے کیلئے اب وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کو اقتصادی چیلنجز سے بھی اسی جذبے کے ساتھ نمٹنا ہوگا ورنہ غربت و مہنگائی کا بڑھتا ہوا عفریت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دھواں دھار اور کامیاب تقریر پر بجائے جانیوالے شادیانوں کو غم میں بدل دے گا کیونکہ مسائل میں گھری عوام کا پیٹ ان لچھے دار تقریروں سے نہیں بھرتا۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ایک ڈیبیٹنگ کلب ہے جہاں اقوام عالم کے سامنے ہر مملکت سربراہ نے اپنا مقدمہ لڑنا ہوتا ہے اور اس موقع پر مختلف ممالک کے سربراہان اور نمائندوں کو ''سائیڈ لائن'' ملاقاتوں کا موقع ملتا ہے جن میں جہاں دو طرفہ دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ہوتا ہے وہاں اپنے ''دکھڑے'' سنانے کا موقع ملتا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74واں اجلاس ایسے موقع پر منعقد ہوا جب بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی ا ہمیت ختم کردی، اس طرح بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کی طرف عملاً پیش رفت کی ہے۔

جس کے خلاف پاکستان نے پوری دنیا میں آواز بلند کی ہے اور عالمی طاقتوں کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے۔ اسی تناظر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اس مرتبہ نے عمران خان نے وزارت خارجہ کی لکھی ہوئی تقریر کی بجائے انتہائی خوبصورت فی البدیہہ تقریرکرکے یہ اجلاس اپنے نام کرلیا ہے ا ور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اس عالمی فورم میں اپنی فی البدیہہ تقریر میں کوئی ایسی غلطی نہیں کی جو کہ ماضی میں ان کی فی البدیہیہ تقاریر اور انٹرویوز میں سامنے آتی رہی ہیں۔


البتہ امریکہ میں اپنی مصروفیات میں دیئے گئے انٹرویوز کے دوران آئی ایس آئی کے ''القاعدہ'' کو تربیت دینے کے بارے میں بیان پر خوب تنقیدی ہو رہی ہے اور اس حوالے سے اپوزیشن ان کے خلاف پارلیمنٹ میں تحریک التوا لے کر آگئی ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنے خطاب مین اقوام عالم پر واضح کر دیا ہے کہ''میر ا ایمان 'لا الٰہ الا اللہ ہے' آخری سانس تک لڑوں گا، دنیا کو بھارت کی سوا ارب کی آبادی والی مارکیٹ تو نظر آرہی ہے لیکن 80 لاکھ لوگ نظر نہیں آرہے جنہیں 54 دن سے قید کرکے رکھا گیا ہے،جنگ ہوئی تو ہمارے پاس لڑنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچے گا'' ۔

انہوں نے اقوام عالم کا ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش تو کی ہے اور وہ اقوام عالم کی''بے حسی'' کا برملا اظہار چکے ہیں۔عوامی جمہوریہ چین، ترکی اور ایران نے کھل کر مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی تائید کی ہے کل تک جو اسلامی ممالک ہمارے ساتھ کھڑے نظر آتے تھے ان کے معاشی مفادات نے ان کو ''چپ'' سادھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ آج پاکستان دنیا میں تنہا کھڑا کشمیریوں کی آزادی کی ''جنگ'' لڑ رہا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر تشویش کا اظہار کرنے والے ممالک اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے اجلاس میں قرارداد پیش کرنے کے لئے دستخط کرنے کے لئے تیار نہیں تھے جس کے باعث پاکستان کو اس فورم پر بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا سلسلہ جاری ہے لیکن دنیا مادیت پرستی کی وجہ سے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے سوال اٹھایا کہ''کیا میں بھی کشمیر میں ہونے والے مظالم پر خاموش رہوں؟۔ سیاسی مخالفین ان کی اچھی پرفارمنس پر بھی داد دینے میں کنجوسی سے کام لے رہے ہیں۔

اب حکومت کو اس سحر سے باہر نکل کر عوام کیلئے بھی کچھ ایسا ہی کرکے دکھانا ہوگا کہ عوام نے عمران خان کی جن پرکشش و عوامی تقاریر کی بنیاد پر تبدیلی کی امید کے ساتھ مسند اقتدار پر بٹھایا ہے تبدیلی کا وہ خواب بھی پورا ہو سکے۔

اگرچہ وزیراعظم اس حوالے سے بھی کمربستہ دکھائی دیتے ہیں مگر اپنی ٹیم کے سامنے بے بس دکھائی دے رہے ہیں شائد یہی وجہ ہے کہ اب وزیراعظم عمران خان پھر سے اپنی ٹیم میں اہم تبدیلیاں کرنے جا رہے ہیں جس کا کہ وزیراعظم نے اظہار بھی کردیا ہے کہ جن وزراء کی کارکردگی ٹھیک نہیں وہ انہیں تبدیل کر رہے ہیں۔ سیاسی حلقوں میں بہت سے وزراء کے نام گردش کر رہے ہیں جن کی چھٹی ہونے جا رہی ہے اور بہت سے وزراء کے قلمدان تبدیل کئے جا رہے ہیں جبکہ کچھ نئے لوگ بھی شامل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

کپتان کی ٹیم کے اوپننگ کھلاڑی تصور کئے جانے والے اسد عمر کو بھی دوبارہ کابینہ میں لانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور انہیں وزارت پٹرولیم کا قلمدان دینے کی باتیں ہو رہی ہیں، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسد عمر واقعی پرانی تنخواہ پر کام کرنے پر تیار ہوگئے ہیں یا معاملہ کچھ اور ہے کیونکہ جب اسد عمر سے وزارت خزانہ کا قلمدان لیا گیا تھا تو اس وقت بھی انہیں وزارت پٹرولیم کا قلمدان سونپنے کی پیشکش کی گئی تھی جو شکریہ کے ساتھ اسدعمر نے قبول کرنے سے معذرت کر لی تھی اور اب اگر دوبارہ انہیں وہی قلمدان سونپا جا رہا ہے جو انہوں نے لینے سے معذرت کی ہے تو اتنی بڑی تبدیلی کے پیچھے کیا محرکات ہیں۔

دوسری طرف بعض حلقوں کا خیال ہے کہ وزارت خزانہ کا قلمدان واپس لئے جانے کے بعد قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر وہ جس انداز سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے حکومت شائد اس سے بھی خوش نہیں تھی اور آئی ایم ایف کے حالیہ سٹاف مشن کے دورہ پاکستان کے موقع پر قائمہ کمیٹی برائے خزانہ سے ہونیوالی ملاقات بارے بھی کوئی اچھی خبریں سامنے نیہیں آرہی تھیں، اسی لئے بعض حلقوں کا خیال ہے کہ چیئرمین قائمہ کمیٹی کے طور پر اسد عمر شائد حکومت کیلئے چیلنج بنتے جا رہے تھے اور اب جو دوبارہ تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں وہ بھی شائد انہی مشکلات سے چھٹکارا پانے کیلئے ہے، کیونکہ وزارت کا قلمدان ملنے کے بعد اسد عمر کو قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی چیئرمین شپ چھوڑنا پڑے گی ۔

اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان نے اقوام امتحدہ کے اجلاس میں شرکت کے بعد اپنی اقتصادی ٹیم کے اہم اجلاس کی صدارت کی ہے جس میں اقتصادی بحالی کے پلان کیلئے پیش کردہ سفارشات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے اور وزیراعظم نے اپنی ٹیم کو اقتصادی بحالی کیلئے آوٹ آف دی باکس حل پیش کرنے کی ہدایت کی ہے، وزیراعظم عمران خان نے کم لاگت گھروں کی تعمیر کے منصوبے اور معاشی ٹیم کی پیش کردہ سفارشات کی روشنی میں اقتصادی بحالی کے منصوبے کو حتمی شکل دینے کی ہدایات جاری کردی ہیں جبکہ پاکستان اسٹیل ملز کو لیز پر دینے کا معاملہ متعلقہ فورم ای سی سی میں لے جانیکی ہدایت کردی ہے۔
Load Next Story