وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر بھرپور اجاگر کیا ایکسپریس فورم

بھٹو کے بعد عمران نے اسلامی کارڈ کھیلا، ڈاکٹر اقبال چاولہ،اپوزیشن کو تمام معاملات میں ساتھ رکھا جائے،ڈاکٹر فاروق حسنات

وزیر اعظم بڑے فیصلے لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جنرل (ر) غلام مصطفی، جارحانہ سفارتکاری کو برقرار رکھنا امتحان ہے، سلمان عابد فوٹو : ٹویٹر

وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر بھرپور طریقے سے اجاگر کیا اور نہایت جارحانہ اور متحرک انداز میں پاکستان کا موقف پیش کرتے ہوئے دنیا کو باور کرانے میں کامیاب رہے کہ بھارت کشمیر میں بدترین مظالم ڈھا رہا ہے، انہوں نے اسلام کے بارے میں نہایت سنجیدگی سے موثر دلائل دیے۔

وزیر اعظم کی تقریر سے بھارت دفاعی پوزیشن پر آگیا ہے، اس وقت عالمی سطح پر ماحول پاکستان کے حق میں ہے۔ ان خیالات کا اظہار ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے ''وزیراعظم کے دورہ امریکا'' کے حوالے سے منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔ فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے سرانجام دیے۔

پنجاب یونیورسٹی کے ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ ہیومینیٹیز و لاء اور چیئرمین شعبہ تاریخ پروفیسر ڈاکٹر اقبال چاولہ نے کہا کہ عمران خان کا جنرل اسملی سے خطاب ایک نئی تاریخ رقم کریگا، ذوالفقار بھٹو کے بعد عمران خان نے اسلامی کارڈ کھیلا ہے، اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔


ماہر امور خارجہ پروفیسر ڈاکٹر فاروق حسنات نے کہا کہ وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں جامع اور مدلل تقریر کی، ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش دھوکا ہے، امریکی کے تھنک ٹینکس میں بھارتی بیٹھے ہیں اور وہ پاکستانی کو جگہ نہیں بنانے دیتے، ہمیں چاہیے کہ جامع حکمت عملی بنا کر عالمی سطح پر بھرپور آواز اٹھائیں۔ انہوں نے کہا کہ مودی نے سارے کارڈ غلط کھیلے، ہندوستان کمزور دکھائی دے رہا ہے، وہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرکے مصیبت میں پھنس گیا ہے۔

دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) غلام مصطفیٰ نے کہا کہ وزیراعظم نے جس انداز میں مسئلہ کشمیر کا اجاگر کیا ماضی میں کبھی اس طرح نہیں ہوا، پہلی مرتبہ جارحانہ اور متحرک سفارتکاری کی گئی جو بہترین ہے۔ تقریر بہترین ہوگئی مگر اب اس کے بعد کے مسائل سمجھنے کی ضرورت ہے۔

سیاسی تجزیہ نگار سلمان عابد نے کہا وزیراعظم نے خود کو کشمیر کا سفیر قرار دیا اور جس بھرپور انداز میں انھوں نے کشمیر کا مقدمہ عالمی سطح پر پیش کیا وہ قابل تحسین ہے۔ نریندر مودی دفاعی پوزیشن پر آگئے ہیں، دنیا میں ان کے موقف کو پذیرائی نہیں مل رہی۔ اصل امتحان اب شروع ہوتا ہے کہ اس جارحانہ سفارتکاری کو کس طرح برقرار رکھا جائیگا۔
Load Next Story