’’اختلافِ رائے ‘‘
حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید ضرور کیجیے مگر اُسے یہ بھی بتایئے کہ آپ اُس کی جگہ ہوتے تو اس مشکل کو کیسے حل کرتے؟
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بالعموم اور سیاستدانوں میں بالخصوص اختلافِ رائے کی تہذیب اور طریقے کا بے حد فقدان ہے۔
بلاشبہ اس کی کچھ وجوہات کا تعلق کئی ایسے تاریخی عوامل سے ہی ہے جن کے تسلسل سے ہم آج تک آزاد نہیں ہو پائے مگر سارا الزام تاریخ کے سر دھرنا بھی صحیح نہ ہوگا کہ 72 سال قوموں کی زندگی کے اعتبار سے بہت زیادہ نہ سہی لیکن تھوڑی بہت تہذیب سیکھنے کے لیے یقینا بہت کافی ہوتے ہیں اور مزید بدقسمتی یہ کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔
پی ٹی آئی، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی تینوں بڑی جماعتوں میں ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکنے والی مستثنیات سے قطع نظر سب کے سب اختلافِ رائے کی تہذیب کے ضمن میں رعایتی نمبروں سے بھی پاس ہونے کے لائق نہیں اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ یہ مستثنیٰ قسم کے لوگ بھی بعض اوقات پارٹی وفاداری کے چکر میں ایسی زبان اختیار کر جاتے ہیں جو ہرگز اُن کو زیب نہیں دیتی۔ میں ناموں کے ذکر میں نہیں پڑوں گا کہ اس میں بھی خوامخواہ کے اختلافِ رائے کی گنجائش نکل سکتی ہے ۔
دوسرے کی بات کو تحمل سے سننا اور اُس کے صحیح حصے کو مان لینا ایک ایسی خصوصیت ہے جو مہذب ہونے کی پہلی نشانی ہے۔یہ جو ہر فطری یا خاندانی بھی ہوسکتا ہے مگر اس کی اصل درسگاہ وہ تربیت ہے جو کسی سیاستدان کو اُس وقت نصیب ہوتی ہے جب وہ نیچے سے یعنی اپنے محلے یا علاقے کی نمایندگی کے تجربے سے حاصل کرتا ہے۔
بنیادی سطح پر خلقِ خدا کے مسائل کو سمجھنا اور اُن کو سلجھانا ہی وہ عمل ہے جو کوئلے کے اندر سے ہیرے کو نکالتا اور تراشتا ہے، اسی لیے دنیا کے ہر مہذب جمہوری سماج میں بیشتر لوگ بلدیاتی نمایندگی سے اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں، اس نچلی سطح سے جو شخص اختلافِ رائے کی اہمیت، نوعیت اور طریقہ اظہار کو سمجھ جاتا ہے تو یہ ایک طرح سے اُس کی فطرتِ ثانیہ بن جاتی ہے اور آگے چل کر وہ بہت بڑے بڑے فیصلے بھی بہت آسانی اور خوش اسلوبی سے کر لیتا ہے جب کہ ہماری طرح کے معاشروں میں جہاں بیشتر سیاستدان اہلیت اور تربیت کے بغیر صرف نظام کی کمزوریوں کے باعث اوپر آ جاتے ہیں اور جن کے لیے پارٹی کی وفاداری اور لیڈر کی اندھی تقلید ہی اُن کی بقا کی ضامن بن جاتی ہے۔
چاہے اُن کو خود بھی اچھی طرح سے علم ہو کہ وہ ایک غلط بات کی تائید کر رہے ہیں، دوسرے کو اختلافِ رائے کا وہی حق دینا جو آپ اپنے لیے مانگتے ہیں اور اُس کی اُسی طرح سے تعظیم کرنا جیسے آپ اپنی رائے کی کروانا چاہتے ہیں، ایک ایسا راستہ ہے جو آپ کو اندر اور باہر دونوں طرف سے ایک مثالی اور باوقار انسان بناتا ہے ۔
غالباً یہ بات مشہور فرانسیسی فلسفی اور مفکر رُوسو سے منسوب کی جاتی ہے جو اُس نے اپنے ایک شدید نظریاتی مخالف کے بارے میں کہی تھی کہ ''اگرچہ میں اُس کے نظریات اور طرزِ فکر سے شدید اختلاف رکھتا ہوں مگر جس دن کسی نے اُس کو اظہار رائے سے روکنے کی کوشش کی، میں پہلا آدمی ہوں گا جو اُس کے ساتھ کھڑا ہوگا''
گزشتہ تین چار روز سے جب سے عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک شاندار تقریر کی ہے، اسی اختلافِ رائے کے حوالے سے ایک عجیب اور تکلیف دہ صورتِ حال دیکھنے میں آرہی ہے کہ بھارتی میڈیا اور سیاستدانوں کی طرح ہمارے کچھ سیاستدان اُس کی مخالف پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
ایسے حوالوں سے اُس پر تنقید کر رہے ہیں جو انتہائی ناجائز اور بے انصافی پر مبنی ہے جہاں تک اُس کی ایک سالم حکومت کے دوران اُس کی معاشی پالیسیوں، گورننس، مہنگائی اور کرپشن کے خلاف اقدامات کا تعلق ہے بلاشبہ اُن پر کم یا زیادہ تنقید کی جا سکتی ہے اور کی جانی چاہیے لیکن صرف مخالفت برائے مخالفت کے لیے انتہائی اوچھے، بودے اورغیر متعلقہ الزامات کو ہوّا دے کر دنیا کو ہنسنے اور دشمنوں کو دانستہ یا نا دانستہ طور پر اپنے ملک پر تنقید کے جواز مہیا کرنا کسی بھی طرح سے صائب اور مفید نہیں۔
سیاسی میدان میں آپ بے شک اُس کی مخالفت جاری رکھیئے کہ یہ آپ کا حق ہے لیکن جہاں معاملہ ملک اور معاشرے کے مفاد اور سچائی اور وطن دوستی کا ہو وہاں ہم سب کو عقلِ دانش، برداشت اور تہذیب سے کام لینا چاہیے اور واضح رہے کہ میں یہ بات پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین ا ور ڈھندورچیوں کو مخاطب کرکے کہہ رہا ہوں یعنی بینظیر اور میاں نوازشریف نے ملک کے لیے جو اچھے کام اور فیصلے کیے ہیں اُن کا اقرار اور توصیف بھی اُسی طرح سے واجب ہے جیسے عمران خان کی اس تقریرکا وہ پیغام اور تاثر قابلِ تعریف ہے جس نے بلاشبہ پاکستان کے وقار اور مسئلہ کشمیر کی سنگینی کو بہت عمدہ طریقے سے اُجاگر کیا ہے۔
یہ ملک ہم سب کا ہے، سو زیادہ بہتر طریقہ یہی ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید ضرور کیجیے مگر اُسے یہ بھی بتایئے کہ آپ اُس کی جگہ ہوتے تو اس مشکل کو کیسے حل کرتے؟ حکومت گرانا اور پھر سے آزاد اور منصفانہ انتخابات کے نعرے لگا نا موجودہ صورتِ حال میں کیسے مسائل کا حل ہو گا جب کہ باقی ہر چیز اُسی طرح سے رہے گی جیسی کہ اب ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تما م حکومت مخالف پارٹیوںکے پاس ہونا چاہیے ورنہ اُن کا اختلاف رائے میرے اور عطاء الحق قاسمی کی ایم اے او کالج کی لیکچرر شپ کے دوران ہمارے صدر شعبہ ہی کے بیان سے ملتا جلتا ہو گا جس کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔
ہمارے اُن مہربانِ صدر شعبہ کی عادت تھی کہ وہ ہر بات ''پروفیسر صاحب مجھے آپ کی رائے سے اختلاف ہے'' سے شروع کرتے تھے۔ ایک دن ہم نے طے کیا کہ خوامخواہ کی بدمزگی سے بہتر ہے کہ اُن سے بحث کی ہی نہ جائے، سو ہم نے اُن کی ہر بات پر ''بالکل ٹھیک کہا آپ نے'' کا ورد شروع کر دیا۔ باتوں باتوں میں وہ بوے ''ہماری نوجوان نسل تباہ ہوتی جا رہی ہے'' ہم نے کہا، بجا ارشاد واقعی یہ نسل بالکل تباہ ہو گئی ہے۔ بولے، مجھے آپ سے اختلاف ہے۔ میں نے کہا تھا نوجوان نسل تباہ ہوتی جا رہی ہے، یہ نہیں کہا تھا کہ ''بالکل '' تباہ ہو گئی ہے ۔
بلاشبہ اس کی کچھ وجوہات کا تعلق کئی ایسے تاریخی عوامل سے ہی ہے جن کے تسلسل سے ہم آج تک آزاد نہیں ہو پائے مگر سارا الزام تاریخ کے سر دھرنا بھی صحیح نہ ہوگا کہ 72 سال قوموں کی زندگی کے اعتبار سے بہت زیادہ نہ سہی لیکن تھوڑی بہت تہذیب سیکھنے کے لیے یقینا بہت کافی ہوتے ہیں اور مزید بدقسمتی یہ کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔
پی ٹی آئی، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی تینوں بڑی جماعتوں میں ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکنے والی مستثنیات سے قطع نظر سب کے سب اختلافِ رائے کی تہذیب کے ضمن میں رعایتی نمبروں سے بھی پاس ہونے کے لائق نہیں اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ یہ مستثنیٰ قسم کے لوگ بھی بعض اوقات پارٹی وفاداری کے چکر میں ایسی زبان اختیار کر جاتے ہیں جو ہرگز اُن کو زیب نہیں دیتی۔ میں ناموں کے ذکر میں نہیں پڑوں گا کہ اس میں بھی خوامخواہ کے اختلافِ رائے کی گنجائش نکل سکتی ہے ۔
دوسرے کی بات کو تحمل سے سننا اور اُس کے صحیح حصے کو مان لینا ایک ایسی خصوصیت ہے جو مہذب ہونے کی پہلی نشانی ہے۔یہ جو ہر فطری یا خاندانی بھی ہوسکتا ہے مگر اس کی اصل درسگاہ وہ تربیت ہے جو کسی سیاستدان کو اُس وقت نصیب ہوتی ہے جب وہ نیچے سے یعنی اپنے محلے یا علاقے کی نمایندگی کے تجربے سے حاصل کرتا ہے۔
بنیادی سطح پر خلقِ خدا کے مسائل کو سمجھنا اور اُن کو سلجھانا ہی وہ عمل ہے جو کوئلے کے اندر سے ہیرے کو نکالتا اور تراشتا ہے، اسی لیے دنیا کے ہر مہذب جمہوری سماج میں بیشتر لوگ بلدیاتی نمایندگی سے اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں، اس نچلی سطح سے جو شخص اختلافِ رائے کی اہمیت، نوعیت اور طریقہ اظہار کو سمجھ جاتا ہے تو یہ ایک طرح سے اُس کی فطرتِ ثانیہ بن جاتی ہے اور آگے چل کر وہ بہت بڑے بڑے فیصلے بھی بہت آسانی اور خوش اسلوبی سے کر لیتا ہے جب کہ ہماری طرح کے معاشروں میں جہاں بیشتر سیاستدان اہلیت اور تربیت کے بغیر صرف نظام کی کمزوریوں کے باعث اوپر آ جاتے ہیں اور جن کے لیے پارٹی کی وفاداری اور لیڈر کی اندھی تقلید ہی اُن کی بقا کی ضامن بن جاتی ہے۔
چاہے اُن کو خود بھی اچھی طرح سے علم ہو کہ وہ ایک غلط بات کی تائید کر رہے ہیں، دوسرے کو اختلافِ رائے کا وہی حق دینا جو آپ اپنے لیے مانگتے ہیں اور اُس کی اُسی طرح سے تعظیم کرنا جیسے آپ اپنی رائے کی کروانا چاہتے ہیں، ایک ایسا راستہ ہے جو آپ کو اندر اور باہر دونوں طرف سے ایک مثالی اور باوقار انسان بناتا ہے ۔
غالباً یہ بات مشہور فرانسیسی فلسفی اور مفکر رُوسو سے منسوب کی جاتی ہے جو اُس نے اپنے ایک شدید نظریاتی مخالف کے بارے میں کہی تھی کہ ''اگرچہ میں اُس کے نظریات اور طرزِ فکر سے شدید اختلاف رکھتا ہوں مگر جس دن کسی نے اُس کو اظہار رائے سے روکنے کی کوشش کی، میں پہلا آدمی ہوں گا جو اُس کے ساتھ کھڑا ہوگا''
گزشتہ تین چار روز سے جب سے عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک شاندار تقریر کی ہے، اسی اختلافِ رائے کے حوالے سے ایک عجیب اور تکلیف دہ صورتِ حال دیکھنے میں آرہی ہے کہ بھارتی میڈیا اور سیاستدانوں کی طرح ہمارے کچھ سیاستدان اُس کی مخالف پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
ایسے حوالوں سے اُس پر تنقید کر رہے ہیں جو انتہائی ناجائز اور بے انصافی پر مبنی ہے جہاں تک اُس کی ایک سالم حکومت کے دوران اُس کی معاشی پالیسیوں، گورننس، مہنگائی اور کرپشن کے خلاف اقدامات کا تعلق ہے بلاشبہ اُن پر کم یا زیادہ تنقید کی جا سکتی ہے اور کی جانی چاہیے لیکن صرف مخالفت برائے مخالفت کے لیے انتہائی اوچھے، بودے اورغیر متعلقہ الزامات کو ہوّا دے کر دنیا کو ہنسنے اور دشمنوں کو دانستہ یا نا دانستہ طور پر اپنے ملک پر تنقید کے جواز مہیا کرنا کسی بھی طرح سے صائب اور مفید نہیں۔
سیاسی میدان میں آپ بے شک اُس کی مخالفت جاری رکھیئے کہ یہ آپ کا حق ہے لیکن جہاں معاملہ ملک اور معاشرے کے مفاد اور سچائی اور وطن دوستی کا ہو وہاں ہم سب کو عقلِ دانش، برداشت اور تہذیب سے کام لینا چاہیے اور واضح رہے کہ میں یہ بات پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین ا ور ڈھندورچیوں کو مخاطب کرکے کہہ رہا ہوں یعنی بینظیر اور میاں نوازشریف نے ملک کے لیے جو اچھے کام اور فیصلے کیے ہیں اُن کا اقرار اور توصیف بھی اُسی طرح سے واجب ہے جیسے عمران خان کی اس تقریرکا وہ پیغام اور تاثر قابلِ تعریف ہے جس نے بلاشبہ پاکستان کے وقار اور مسئلہ کشمیر کی سنگینی کو بہت عمدہ طریقے سے اُجاگر کیا ہے۔
یہ ملک ہم سب کا ہے، سو زیادہ بہتر طریقہ یہی ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید ضرور کیجیے مگر اُسے یہ بھی بتایئے کہ آپ اُس کی جگہ ہوتے تو اس مشکل کو کیسے حل کرتے؟ حکومت گرانا اور پھر سے آزاد اور منصفانہ انتخابات کے نعرے لگا نا موجودہ صورتِ حال میں کیسے مسائل کا حل ہو گا جب کہ باقی ہر چیز اُسی طرح سے رہے گی جیسی کہ اب ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تما م حکومت مخالف پارٹیوںکے پاس ہونا چاہیے ورنہ اُن کا اختلاف رائے میرے اور عطاء الحق قاسمی کی ایم اے او کالج کی لیکچرر شپ کے دوران ہمارے صدر شعبہ ہی کے بیان سے ملتا جلتا ہو گا جس کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔
ہمارے اُن مہربانِ صدر شعبہ کی عادت تھی کہ وہ ہر بات ''پروفیسر صاحب مجھے آپ کی رائے سے اختلاف ہے'' سے شروع کرتے تھے۔ ایک دن ہم نے طے کیا کہ خوامخواہ کی بدمزگی سے بہتر ہے کہ اُن سے بحث کی ہی نہ جائے، سو ہم نے اُن کی ہر بات پر ''بالکل ٹھیک کہا آپ نے'' کا ورد شروع کر دیا۔ باتوں باتوں میں وہ بوے ''ہماری نوجوان نسل تباہ ہوتی جا رہی ہے'' ہم نے کہا، بجا ارشاد واقعی یہ نسل بالکل تباہ ہو گئی ہے۔ بولے، مجھے آپ سے اختلاف ہے۔ میں نے کہا تھا نوجوان نسل تباہ ہوتی جا رہی ہے، یہ نہیں کہا تھا کہ ''بالکل '' تباہ ہو گئی ہے ۔