کتابیں روتی ہیں
کتابوں کی سیل علم کے پھیلاؤ سے عبارت ہے۔ کتب میلے لگتے ہیں لوگ جوق در جوق جاتے ہیں۔
اس دن دل بھر آیا ، میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ، رونے کی وجہ میری دو ہزار لاوارث کتابیں تھیں جوکباڑی در اندازی کے وقت وقفہ وقفہ سے اونے پونے داموں خرید کر لے گیا۔
واردات یوں ہوئی کہ پرانا آبائی گھر چھوڑنا پڑا تو کرایہ دار آ گئے، میں نے دو بھتیجوں عاقب اور مردان شاہ سے کہا کہ ایک رکشہ کر لو اور پرانے گھر میں میری جتنی کتابیں ہیں وہ لے کر آ جاؤ۔ وہ کرائے کے پیسے لے کر رکشے پرگئے اور واپسی پر انھوں نے آ کر دو نائیلون کے تھیلے میرے سامنے الٹ دیے۔ ان میں سے میری بد نصیبی کا کچرا نکلا، چند پھٹی پرانی کتابیں اور اکثر بارش زدہ رسائل تھے۔ وہ نایاب اور شاندار کتابیں اردو، انگریزی، بلوچی زبان کا سرمایہ لٹ گیا۔
بس میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ وہ ساری کتابیں جو میں نے 40برسوں میں فٹ پاتھ ، پتھاروں، ریڑھی بانوں،کباڑیوں یا صدر، ایم اے جناح روڈ کے کتب فروشوں اورکتب میلوں میں خریدیں تھیں،اس میں سے کچھ نہیں ملا۔ ایسی کتابیں بھی بک گئیں جو علم، تفکر، تجربات اور تہذیب کا بہتا دریا تھیں۔ بہرحال میرا درد انگیز تجربہ مرزا غالبؔ کے اس شعر سے مختلف تھا کہ:
چند تصویر بتاں، چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا
لیکن اس اندوہناک واقعے کے ساتھ ہی انسانی آنسوؤں کی ایک درجن تحقیق چشم کشا ثابت ہوئی، اردو ادب اور شاعری کا باب تو سب سے پہلے کھلا، فرسٹ ایئر میں میر صاحب سے صحبت ہوئی تو فرمایا:
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لوہو (لہو) آتا ہے جب نہیںآتا
ادھر انگریزی مضامین اور تحقیقی رسائل نظروں سے گزرے تو پتا چلا کہ آنسوؤں پر ریسرچ ہو رہی ہے، جس میں سوال اٹھایا گیا کہ ہم روتے کیوں ہیں۔ سائنس دانوں اور فلسفیوں نے بتایا کہ انسانی آنکھ سے ٹپکنے والا آنسو فطرت کی سوغات ہے، یہ دل کو سکون دیتا ہے جب کسی کی آنکھ روتی ہے۔ محققین کے مطابق برطانوی معاشرے میں رسم چل پڑی کہ سر عام رونا دھونا صحیح نہیں، اگر رونا ہی ہے تو منہ چھپا کر رونا، علی الاعلان دھاڑیں مارکر رونے سے بہتر ہے۔
جو سنائی انجمن میں شب غم کی آپ بیتی
کوئی روکے مسکرائے، کوئی مسکرا کے روئے
ماہرین اشکیات نے دنیا بھر کی ثقافتوں سے موتی چن لیے۔ اشرافیہ کے آنسوؤں کی قدر وقیمت کا اندازہ لگایا، صنفی امتیازات کے سیاق وسباق میں آنسوؤں کے معاشرتی، سماجی، اعصابی، تخلیقی اور فطری احساسات پر بحث کے دریا بہا دیے۔ ایک تحقیق یہ بھی تھی کہ جس معاشرے میں اظہار رائے کی آزادی ہوتی ہے اس میں اظہار غم میں آنسو بہانے کی بھی اتنی ہی اجازت ہوتی ہے، یعنی دولت مند جی بھر کر رولیتے ہیں،جب کہ غریب کے پاس آنسو بھی خشک ہو جاتے ہیں۔
مثلاً ایسے ممالک کے سروے ہوئے جہاں آزادی اظہاراور سماجی وسائل کی فرا وانی ہو تو بے اختیار رونے کوجی چاہتا ہے، ایسے ملکوں میں چلی، سوئیڈن، امریکا،گھانا، نائجیریا اور نیپال شامل ہیں، دوسری ریسرچ کراس کلچرل تناظر میں ہوئی جس میں نسبتا رونے کا ردھم اعتدال پسندانہ بتایا گیا، کیونکہ ان ثقافتوں میں رونے کی ایک ''حد'' مقرر تھی۔ یہ غریب ملک تھے۔ یہاں بھی میرؔ صاحب کو منع کیاگیاکہ:
جو اس زور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
تحقیق سے ثابت کیا جاتا رہا کہ رونے سے غم کی شدت کم ہو جاتی ہے، امریکا میں خواتین ماہانہ 3.5 بار اوسطاً روتی ہیں جب کہ مرد ماہانہ1.9 بار اوسطاً روتا، چیختا اور سر پیٹتا رہ جاتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ فطرت نے انسان کو آنسو کتھارسیس کے لیے دیے ہیں،آنسو کے سرچشمے اس کی روح کی گہرائیوں سے پھوٹتے ہیں۔ انھوں نے استدلال پیش کیا کہ اگر باران رحمت نہ ہوتی تو کون سورج کی تمنا کرتا اور کس کو دن کا انتظار رہتا اگر رات نہ ہوتی۔
ایک رائٹر نے لکھا کہ کورمک میکارتھی کی کتاب The Roadتین سو صفحات پر مبنی ناول ہے جو بقول ان کے درد بھرے ناولوں میںاپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ اس میں ماحولیاتی ابتری، طبعی محرومیوں اور انسانی تذلیل و انحطاط کا بڑے دلگداز انداز میں جائزہ لیا گیا۔
یہ ناول نہیں درد کی شاہراہ ہے۔ اسی حوالہ سے رائٹر نے ملٹن، بیکٹ، ایٹس، بائبل پر بات کی اور اینا کارینینا، آف مائس اینڈ مین، اے ٹیل آف ٹو سٹیز، آل کوائیٹ آن دی ویسٹرن فرنٹ کو شمار کیا ہے اور درد انگیز اور اشک بار سطروں میں انسانی رنج وغم پر روشنی ڈالی ہے۔ کہتے ہیں آنسو عالمگیریت کی علامت ہوتے ہیں، ابتدائے تہذیب سے سائنس دانوں، فلاسفروں، محققین اور دانشوروں نے تحقیق کرکے بتایا کہ رونا انسانی زبان کی ایک مشترکہ میراث ہے۔ اظہار غم کا ذریعہ ہے۔ مگر بذات خود کھارے پانی کا سرچشمہ ہے جو سوکھ جاتا ہے بشرطیکہ ان آنسوؤں کے پیچھے انسانی دکھ اور الم ناکی کی کوئی کہانی چھپی ہوئی نہ ہو۔
یوں جب رفتہ رفتہ درد کتب کم ہونا شروع ہوا تو ان پرانی کتابوں کے بچھڑنے کا سبب یاد آیا جو دوستوں نے کمال مروت و مہربانی سے نظریں بچا کر پار کرلی تھیں، کچھ نے وعدہ فردا پر الماری پر ہاتھ صاف کر دیا کہ شاہ جی! واپسی شرط ہے۔
غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبارکیا
لڑکپن سے سنتے آئے تھے کہ کتابوں سے بہترکوئی دوست نہیں۔ بے شک۔ کتاب اور انسان کے درمیان علم، تہذیب، شائستگی، ادب اور آگہی کا رشتہ ہے، کتاب روشنی ہے، جہالت اندھیرا ہے۔ مجھے والدہ ان پرانی کتابوں کے درمیان بیٹھا دیکھتیں تو بہت آسودگی محسوس کرتیں، ایک دن کہنے لگیں ''نادر بیٹے، ایک دن یہی کتابیں تمہارے علم اور رزق کا وسیلہ بنیں گی۔'' اگر کسی کتاب کے چند ورق غائب ہو جائیں، پھٹ جائیں، اس پر رنجیدہ نہ ہوں، کوشش کریں کوئی کتاب ضایع نہ ہو۔ اب جب کہ میں غائب ہونے والی کتابوں کو یاد کرتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا کہ میری تجوری خالی ہے، میں مفلس ہوگیا ہوں۔
ایک روز لائٹ ہاؤس سینما کے سامنے ایک فٹ پاتھ پر ریڑھی والا کچھ کتابیں لیے کھڑا تھا۔ میں اس کے پاس آیا، کتابوں پر نظر ڈالی تو ایک انگریزی کتاب نے متوجہ کیا۔ کتاب کا نام تھا criticism on Filmخاصی ضخیم تھی ۔30 روپے میں مل گئی۔ دنیا کے بڑے ہدایتکاروں، نقادوں، اداکاروں اور اسکالروں کے لکھے ہوئے مقالات تھے۔
اسی طرح صدر میں ممتاز ادیب اور ڈرامہ رائٹر حمید کاشمیری کی کتابوں کی دکان کے سامنے کتابوںکی بہت مشہور دکان تھی، اس میں '' پیپرز آن ایکٹنگ '' مل گئی۔ اس میں بھی اداکاری کے فن پر بڑے اچھے مضامین تھے، لیکن جو بات میں نے روسی نژاد امریکی ہدایتکار رچرڈ بولس لیوسکی کی مختصر سی کتاب ''ایکٹنگ'' میں دیکھی، وہ کانسٹنٹائن اسٹانس لیوسکی کی ضخیم کتاب ''مائی لائف ان آرٹس میں'' بھی نہیں پائی، بلاشبہ سٹیج ڈرامہ اور تھیٹر پر وہ بڑی دستاویز تھی۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی اہل علم سے ملاقات ہو تو بڑی پتے کی بات کہہ جاتے ہیں۔ مجھے ایسے باغ و بہار دانشور بہت سے ملے۔ زاہدہ حنا نے مجھے کتابیں تحفتاً دیں۔ ملک عدیل نے بحرین سے لاکر شیکسپئر کے ڈراموں کا مجموعہ دیا۔ محمد میاں معلومات کا سمندر تھے، ان کا تدریسی انداز نوجوان صحافیوں کے لیے دل نشین تھا۔ سیاسی، ادبی، تاریخی اور میڈیا کے مختلف شعبوں ان کی گفتگو مصلحت اور ریاکاری سے پاک تھی، بہت سفاکانہ تجزیہ کرتے، آدمی لرز اٹھتا۔ مجھے پریس کلب میں جب بھی ملتے کوئی نیا موضوع چھیڑ دیتے ہیں۔ میں عموماً ''وہ کہے اور سناکرے کوئی'' کی تصویر بن جاتا۔ ایسا ہی دوسرا شخص میرے استاد لطیف احمد خان صاحب تھے۔
انھوں نے اسلامیہ کالج میں علم سیاسیات پڑھائی۔ روزنامہ ''حریت '' میں انھوں نے ''ریانز ڈاٹر'' پر تبصرہ لکھا جو ایک مقالہ کے ہم پلہ تھا۔ ہدایت کار ڈیوڈ لین پر ان سے بہترکون تبصرہ کر سکتا تھا۔ یہ لطیف احمد خان صاحب تھے جو ڈان کے دیگر سینئر صحافیوںکے ساتھ بیٹھے ہوتے تو نوجوان صحافیوں کے لیے وقت نکالا کرتے۔ ان ہی لمحات میں کسی نے یہ بات چھیڑی کہ چاہے فٹ پاتھ پرکتابیں بکتی ہوں وہ قابل قدر ہوتی ہیں، کتابوں کی سیل فیشن شو یا کیٹ واک سے کہیں بہتر تہذیبی اقدار کی حامل ہوتی ہے۔
کتابوں کی سیل علم کے پھیلاؤ سے عبارت ہے۔ کتب میلے لگتے ہیں لوگ جوق در جوق جاتے ہیں۔بچے کتابیں خریدتے ہیں، اگرچہ میڈیا میں بحث جاری ہے کہ پرنٹ میڈیا مر رہا ہے، کتابیں پڑھنے والے نہیں رہے، نیٹ، انسٹافون اور واٹس ایپ نے کتب بینی یا اخبارات سے رشتہ توڑ لیا ہے۔ مگر دل ہے کہ مانتا نہیں۔ اچانک بھارت کے ایک مشہور شاعر مخمور سعیدی کی نظم پرانے رسالہ میں مل جاتی ہے وہ ہاورڈ فاسٹ کی کتاب The Naked God پر ایک منظوم تاثر یہ ہے، پھر میں اپنی الماری سے اس کتاب کو نکال کر دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے والد محترم کو یہ کتاب ارشاد احمد خان نے دی ہے،کتاب کے انتساب میں لکھا ہے کہ اسرار عارفی کے نام جنھوں نے مجھے زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا۔
واردات یوں ہوئی کہ پرانا آبائی گھر چھوڑنا پڑا تو کرایہ دار آ گئے، میں نے دو بھتیجوں عاقب اور مردان شاہ سے کہا کہ ایک رکشہ کر لو اور پرانے گھر میں میری جتنی کتابیں ہیں وہ لے کر آ جاؤ۔ وہ کرائے کے پیسے لے کر رکشے پرگئے اور واپسی پر انھوں نے آ کر دو نائیلون کے تھیلے میرے سامنے الٹ دیے۔ ان میں سے میری بد نصیبی کا کچرا نکلا، چند پھٹی پرانی کتابیں اور اکثر بارش زدہ رسائل تھے۔ وہ نایاب اور شاندار کتابیں اردو، انگریزی، بلوچی زبان کا سرمایہ لٹ گیا۔
بس میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ وہ ساری کتابیں جو میں نے 40برسوں میں فٹ پاتھ ، پتھاروں، ریڑھی بانوں،کباڑیوں یا صدر، ایم اے جناح روڈ کے کتب فروشوں اورکتب میلوں میں خریدیں تھیں،اس میں سے کچھ نہیں ملا۔ ایسی کتابیں بھی بک گئیں جو علم، تفکر، تجربات اور تہذیب کا بہتا دریا تھیں۔ بہرحال میرا درد انگیز تجربہ مرزا غالبؔ کے اس شعر سے مختلف تھا کہ:
چند تصویر بتاں، چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا
لیکن اس اندوہناک واقعے کے ساتھ ہی انسانی آنسوؤں کی ایک درجن تحقیق چشم کشا ثابت ہوئی، اردو ادب اور شاعری کا باب تو سب سے پہلے کھلا، فرسٹ ایئر میں میر صاحب سے صحبت ہوئی تو فرمایا:
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لوہو (لہو) آتا ہے جب نہیںآتا
ادھر انگریزی مضامین اور تحقیقی رسائل نظروں سے گزرے تو پتا چلا کہ آنسوؤں پر ریسرچ ہو رہی ہے، جس میں سوال اٹھایا گیا کہ ہم روتے کیوں ہیں۔ سائنس دانوں اور فلسفیوں نے بتایا کہ انسانی آنکھ سے ٹپکنے والا آنسو فطرت کی سوغات ہے، یہ دل کو سکون دیتا ہے جب کسی کی آنکھ روتی ہے۔ محققین کے مطابق برطانوی معاشرے میں رسم چل پڑی کہ سر عام رونا دھونا صحیح نہیں، اگر رونا ہی ہے تو منہ چھپا کر رونا، علی الاعلان دھاڑیں مارکر رونے سے بہتر ہے۔
جو سنائی انجمن میں شب غم کی آپ بیتی
کوئی روکے مسکرائے، کوئی مسکرا کے روئے
ماہرین اشکیات نے دنیا بھر کی ثقافتوں سے موتی چن لیے۔ اشرافیہ کے آنسوؤں کی قدر وقیمت کا اندازہ لگایا، صنفی امتیازات کے سیاق وسباق میں آنسوؤں کے معاشرتی، سماجی، اعصابی، تخلیقی اور فطری احساسات پر بحث کے دریا بہا دیے۔ ایک تحقیق یہ بھی تھی کہ جس معاشرے میں اظہار رائے کی آزادی ہوتی ہے اس میں اظہار غم میں آنسو بہانے کی بھی اتنی ہی اجازت ہوتی ہے، یعنی دولت مند جی بھر کر رولیتے ہیں،جب کہ غریب کے پاس آنسو بھی خشک ہو جاتے ہیں۔
مثلاً ایسے ممالک کے سروے ہوئے جہاں آزادی اظہاراور سماجی وسائل کی فرا وانی ہو تو بے اختیار رونے کوجی چاہتا ہے، ایسے ملکوں میں چلی، سوئیڈن، امریکا،گھانا، نائجیریا اور نیپال شامل ہیں، دوسری ریسرچ کراس کلچرل تناظر میں ہوئی جس میں نسبتا رونے کا ردھم اعتدال پسندانہ بتایا گیا، کیونکہ ان ثقافتوں میں رونے کی ایک ''حد'' مقرر تھی۔ یہ غریب ملک تھے۔ یہاں بھی میرؔ صاحب کو منع کیاگیاکہ:
جو اس زور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
تحقیق سے ثابت کیا جاتا رہا کہ رونے سے غم کی شدت کم ہو جاتی ہے، امریکا میں خواتین ماہانہ 3.5 بار اوسطاً روتی ہیں جب کہ مرد ماہانہ1.9 بار اوسطاً روتا، چیختا اور سر پیٹتا رہ جاتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ فطرت نے انسان کو آنسو کتھارسیس کے لیے دیے ہیں،آنسو کے سرچشمے اس کی روح کی گہرائیوں سے پھوٹتے ہیں۔ انھوں نے استدلال پیش کیا کہ اگر باران رحمت نہ ہوتی تو کون سورج کی تمنا کرتا اور کس کو دن کا انتظار رہتا اگر رات نہ ہوتی۔
ایک رائٹر نے لکھا کہ کورمک میکارتھی کی کتاب The Roadتین سو صفحات پر مبنی ناول ہے جو بقول ان کے درد بھرے ناولوں میںاپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ اس میں ماحولیاتی ابتری، طبعی محرومیوں اور انسانی تذلیل و انحطاط کا بڑے دلگداز انداز میں جائزہ لیا گیا۔
یہ ناول نہیں درد کی شاہراہ ہے۔ اسی حوالہ سے رائٹر نے ملٹن، بیکٹ، ایٹس، بائبل پر بات کی اور اینا کارینینا، آف مائس اینڈ مین، اے ٹیل آف ٹو سٹیز، آل کوائیٹ آن دی ویسٹرن فرنٹ کو شمار کیا ہے اور درد انگیز اور اشک بار سطروں میں انسانی رنج وغم پر روشنی ڈالی ہے۔ کہتے ہیں آنسو عالمگیریت کی علامت ہوتے ہیں، ابتدائے تہذیب سے سائنس دانوں، فلاسفروں، محققین اور دانشوروں نے تحقیق کرکے بتایا کہ رونا انسانی زبان کی ایک مشترکہ میراث ہے۔ اظہار غم کا ذریعہ ہے۔ مگر بذات خود کھارے پانی کا سرچشمہ ہے جو سوکھ جاتا ہے بشرطیکہ ان آنسوؤں کے پیچھے انسانی دکھ اور الم ناکی کی کوئی کہانی چھپی ہوئی نہ ہو۔
یوں جب رفتہ رفتہ درد کتب کم ہونا شروع ہوا تو ان پرانی کتابوں کے بچھڑنے کا سبب یاد آیا جو دوستوں نے کمال مروت و مہربانی سے نظریں بچا کر پار کرلی تھیں، کچھ نے وعدہ فردا پر الماری پر ہاتھ صاف کر دیا کہ شاہ جی! واپسی شرط ہے۔
غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبارکیا
لڑکپن سے سنتے آئے تھے کہ کتابوں سے بہترکوئی دوست نہیں۔ بے شک۔ کتاب اور انسان کے درمیان علم، تہذیب، شائستگی، ادب اور آگہی کا رشتہ ہے، کتاب روشنی ہے، جہالت اندھیرا ہے۔ مجھے والدہ ان پرانی کتابوں کے درمیان بیٹھا دیکھتیں تو بہت آسودگی محسوس کرتیں، ایک دن کہنے لگیں ''نادر بیٹے، ایک دن یہی کتابیں تمہارے علم اور رزق کا وسیلہ بنیں گی۔'' اگر کسی کتاب کے چند ورق غائب ہو جائیں، پھٹ جائیں، اس پر رنجیدہ نہ ہوں، کوشش کریں کوئی کتاب ضایع نہ ہو۔ اب جب کہ میں غائب ہونے والی کتابوں کو یاد کرتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا کہ میری تجوری خالی ہے، میں مفلس ہوگیا ہوں۔
ایک روز لائٹ ہاؤس سینما کے سامنے ایک فٹ پاتھ پر ریڑھی والا کچھ کتابیں لیے کھڑا تھا۔ میں اس کے پاس آیا، کتابوں پر نظر ڈالی تو ایک انگریزی کتاب نے متوجہ کیا۔ کتاب کا نام تھا criticism on Filmخاصی ضخیم تھی ۔30 روپے میں مل گئی۔ دنیا کے بڑے ہدایتکاروں، نقادوں، اداکاروں اور اسکالروں کے لکھے ہوئے مقالات تھے۔
اسی طرح صدر میں ممتاز ادیب اور ڈرامہ رائٹر حمید کاشمیری کی کتابوں کی دکان کے سامنے کتابوںکی بہت مشہور دکان تھی، اس میں '' پیپرز آن ایکٹنگ '' مل گئی۔ اس میں بھی اداکاری کے فن پر بڑے اچھے مضامین تھے، لیکن جو بات میں نے روسی نژاد امریکی ہدایتکار رچرڈ بولس لیوسکی کی مختصر سی کتاب ''ایکٹنگ'' میں دیکھی، وہ کانسٹنٹائن اسٹانس لیوسکی کی ضخیم کتاب ''مائی لائف ان آرٹس میں'' بھی نہیں پائی، بلاشبہ سٹیج ڈرامہ اور تھیٹر پر وہ بڑی دستاویز تھی۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی اہل علم سے ملاقات ہو تو بڑی پتے کی بات کہہ جاتے ہیں۔ مجھے ایسے باغ و بہار دانشور بہت سے ملے۔ زاہدہ حنا نے مجھے کتابیں تحفتاً دیں۔ ملک عدیل نے بحرین سے لاکر شیکسپئر کے ڈراموں کا مجموعہ دیا۔ محمد میاں معلومات کا سمندر تھے، ان کا تدریسی انداز نوجوان صحافیوں کے لیے دل نشین تھا۔ سیاسی، ادبی، تاریخی اور میڈیا کے مختلف شعبوں ان کی گفتگو مصلحت اور ریاکاری سے پاک تھی، بہت سفاکانہ تجزیہ کرتے، آدمی لرز اٹھتا۔ مجھے پریس کلب میں جب بھی ملتے کوئی نیا موضوع چھیڑ دیتے ہیں۔ میں عموماً ''وہ کہے اور سناکرے کوئی'' کی تصویر بن جاتا۔ ایسا ہی دوسرا شخص میرے استاد لطیف احمد خان صاحب تھے۔
انھوں نے اسلامیہ کالج میں علم سیاسیات پڑھائی۔ روزنامہ ''حریت '' میں انھوں نے ''ریانز ڈاٹر'' پر تبصرہ لکھا جو ایک مقالہ کے ہم پلہ تھا۔ ہدایت کار ڈیوڈ لین پر ان سے بہترکون تبصرہ کر سکتا تھا۔ یہ لطیف احمد خان صاحب تھے جو ڈان کے دیگر سینئر صحافیوںکے ساتھ بیٹھے ہوتے تو نوجوان صحافیوں کے لیے وقت نکالا کرتے۔ ان ہی لمحات میں کسی نے یہ بات چھیڑی کہ چاہے فٹ پاتھ پرکتابیں بکتی ہوں وہ قابل قدر ہوتی ہیں، کتابوں کی سیل فیشن شو یا کیٹ واک سے کہیں بہتر تہذیبی اقدار کی حامل ہوتی ہے۔
کتابوں کی سیل علم کے پھیلاؤ سے عبارت ہے۔ کتب میلے لگتے ہیں لوگ جوق در جوق جاتے ہیں۔بچے کتابیں خریدتے ہیں، اگرچہ میڈیا میں بحث جاری ہے کہ پرنٹ میڈیا مر رہا ہے، کتابیں پڑھنے والے نہیں رہے، نیٹ، انسٹافون اور واٹس ایپ نے کتب بینی یا اخبارات سے رشتہ توڑ لیا ہے۔ مگر دل ہے کہ مانتا نہیں۔ اچانک بھارت کے ایک مشہور شاعر مخمور سعیدی کی نظم پرانے رسالہ میں مل جاتی ہے وہ ہاورڈ فاسٹ کی کتاب The Naked God پر ایک منظوم تاثر یہ ہے، پھر میں اپنی الماری سے اس کتاب کو نکال کر دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے والد محترم کو یہ کتاب ارشاد احمد خان نے دی ہے،کتاب کے انتساب میں لکھا ہے کہ اسرار عارفی کے نام جنھوں نے مجھے زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا۔