فاعتبرو یا اولی الابصار
کیا مسلمان جانوروں سے بھی بدتر ہیں کہ ان سے امتیازی سلوک برتا جائے اور کسی طرف سے آواز نہ اٹھے۔
حالیہ زلزلہ جس دن میرپور میں آیا اور اس کی خبر ٹی وی پر بریک ہوئی تو جیسا ہوتا ہے نہ نقصانات کا اندازہ ہو سکتا تھا نہ تباہی کا۔ بس خبر آ گئی کہ 5.8 کا زلزلہ آیا جس کا مرکز میر پور آزاد کشمیر کے نواح میں تھا اور زمین کے اندر اس کی گہرائی 8 یا 9 کلو میٹر تھی۔
اس ابتدائی خبر کے آتے ہی وزیر اعظم کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئیں اور جب ان سے زلزلے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا دیکھ لیجیے تبدیلی آ رہی ہے نا۔ اس تبدیلی کو زمین نے بھی محسوس کیا ہے۔ زمین نے کروٹ لی ہے (گویا اس تبدیلی کا خیر مقدم کر رہی ہے) اور مسکرا کر دوسرے موضوع پر گفتگو فرمانے لگیں۔ ان کا یہ ردعمل دیکھ اور سن کر ہم تو کانپ کر رہ گئے۔
جس زمانے میں انبیا اور رسل آ رہے تھے اس زمانے میں پیغمبروں کے جھٹلائے جانے والوں کے لیے بھی زلزلے آتے تھے اور وہ اس طاقت کے ہوتے تھے کہ بستیوں کی بستیاں خاک بسر ہو جاتی تھیں۔ آبادیوں کے نام و نشان مٹ جاتے تھے اور اہل ایمان کسی نہ کسی طور بچ رہتے تھے۔
جب انبیا کی آمد کا سلسلہ ختم ہو گیا تو زلزلوں کی شدت بھی کم ہو گئی مگر اب بھی جب زلزلہ آتا ہے تو آبادیاں لرز اٹھتی ہیں۔ تباہی و بربادی مچ جاتی ہے اور موت کا راج ہونے لگتا ہے۔ چند سیکنڈ کا زلزلہ فوری تباہی مچا دیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی تباہ کاریوں کا علم آپ کو ہوتے ہوتے ہوتا ہے۔
زلزلے کی طبیعاتی و ارضیاتی کیفیات سے ہم نابلد نہیں مگر زلزلے آج بھی لرزہ دینے والے اور اس کے جھٹکے خوف و دہشت میں مبتلا کر دینے والے ہوتے ہیں۔ لوگ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے گھروں سے نکل کر کھلے آسمان تلے آ پڑتے ہیں اور ان کے دلوں کی حرکتیں خود بخود بند ہو جاتی ہیں۔
مگر جب کوئی شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی حالت و کیفیت وہی ہوتی ہے جو ڈاکٹر صاحبہ کی ہوئی وہ ''تبدیلی'' کی گردان میں یہ بھول گئیں کہ جو کچھ آیا تھا وہ زلزلہ تھا اس کی تباہ کاریوں کا اندازہ گھنٹوں بعد ہو سکے گا پھر اس پر نوحہ خوانی کے فرائض بھی موصوفہ کو انجام دینا ہوں گے۔ اور دو دن بعد انھوں نے انجام دیے مگر جس بے خوفی اور مضحکہ خیز انداز میں انھوں نے اس خبر کو لیا اب وہ اس پر شرمندہ ضرور ہوئی ہوں گی مگر اس پر شرمندگی کافی نہیں توبہ بھی ضروری ہے۔
ادھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا شاندار اجلاس ہو رہا تھا اس میں بیشتر ممالک کے سربراہ شریک ہوتے یا اپنے اہم نمایندوں کو بھیجتے ہیں۔ یہ اجلاس ایک ایسے موقع پر منعقد ہو رہا تھا جب کشمیر میں ہندو بنیاد پرست نریندر مودی طاقت کا ننگا ناچ ناچ رہا تھا اور اہل کشمیر کسمپرسی کی حالت میں تھے۔ اس اجلاس میں بھارت کی نمایندگی خود نریندر مودی فرما رہے تھے جب کہ پاکستانی وفد کی قیادت پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کر رہے تھے اور کم از کم متعلقہ فریقوں کو دونوں کا ردعمل جاننے کی بے چینی تھی کہ یہ اہم مسئلہ کیا رخ اختیار کرتا ہے۔
نریندر مودی نے اپنے لیے مقررہ مدت سے کم وقت میں تقریر کر کے معاملہ نمٹا دیا اور اپنی تقریر میں کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا۔ بظاہر اس سے ان کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ اس وقت کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ معمول کی کارروائی ہے۔ بھارت نے اپنے دستور میں ''حصولی'' حذف و اضافہ کیا ہے اور ان کی ''رعایا'' اس پر شور و غوغا کر رہی ہے جو کچھ دن میں ختم ہو جائے گا۔ اس پر اگر پاکستان نے زبان کھولی تو اس کو بھارت کے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دے کر نظر انداز کروا لیا جائے گا۔
مگر جب پاکستان کے وزیر اعظم کی باری آئی اور انھوں نے پراعتماد اور جوشیلے لہجے میں مودی کی آر ایس ایس سے وابستگی گجرات کے قصائی کی صوبے کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے مسلمانوں کے قتل عام اور اب کشمیر کی انفرادی اور خصوصی حیثیت کے خاتمے، تقریباً دو ماہ سے کشمیری مسلمانوں کو جانوروں کی طرح قید و بند میں رکھنے، ان کو قتل کرنے اور عورتوں کی آبرو ریزی کے اقدامات کو واضح طور پر موثر انداز میں پیش کیا اور اقوام عالم کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے سوال اٹھائے کہ اگر اسی طرح عیسائیوں یا یہودیوں کو قید میں رکھا جائے تو اقوام یورپ اس کو برداشت کر سکیں گی۔
کیا مسلمان جانوروں سے بھی بدتر ہیں کہ ان سے امتیازی سلوک برتا جائے اور کسی طرف سے آواز نہ اٹھے۔ ہم مسلمان ہیں اور لڑنے مرنے کو تیار ہیں ہم امن چاہتے ہیں مگر اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو جواب دینے میں دیر نہ ہو گی۔ اور اگر دو ایٹمی طاقتیں یوں مد مقابل رہیں تو صرف دو ملکوں یا قوموں تک بات نہیں رہے گی پورا عالم انسانیت اس سے متاثر ہو گا۔
یہ تقریر اتنی مدلل اور اتنی موثر تھی جس نے مودی جی کے اس تصور کو ان کا کشمیر کا ذکر نہ کرنا اور مسئلہ نہ سمجھنا دنیا کو گمراہ کرنے کا سبب بنے گا مگر حقائق کو جن واشگاف الفاظ میں وزیر اعظم پاکستان نے پیش کیا اور جس طرح انھوں نے اسلام پر ''شرمندہ'' ہوئے بغیر اس کی امن پسندی کے اعلان کے ساتھ ساتھ دب کر نہ رہنے اور ذلت پر موت کو ترجیح دینے کی بات کر کے مہا منتری مودی کے موقف کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اور اب اہل کشمیر سے ہمدردی اور پاکستان کے موقف کی حمایت میں ایسی آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ زندہ اور پایندہ ہو گیا ہے جس میں نئی جان پڑگئی ہے۔
اس ابتدائی خبر کے آتے ہی وزیر اعظم کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئیں اور جب ان سے زلزلے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا دیکھ لیجیے تبدیلی آ رہی ہے نا۔ اس تبدیلی کو زمین نے بھی محسوس کیا ہے۔ زمین نے کروٹ لی ہے (گویا اس تبدیلی کا خیر مقدم کر رہی ہے) اور مسکرا کر دوسرے موضوع پر گفتگو فرمانے لگیں۔ ان کا یہ ردعمل دیکھ اور سن کر ہم تو کانپ کر رہ گئے۔
جس زمانے میں انبیا اور رسل آ رہے تھے اس زمانے میں پیغمبروں کے جھٹلائے جانے والوں کے لیے بھی زلزلے آتے تھے اور وہ اس طاقت کے ہوتے تھے کہ بستیوں کی بستیاں خاک بسر ہو جاتی تھیں۔ آبادیوں کے نام و نشان مٹ جاتے تھے اور اہل ایمان کسی نہ کسی طور بچ رہتے تھے۔
جب انبیا کی آمد کا سلسلہ ختم ہو گیا تو زلزلوں کی شدت بھی کم ہو گئی مگر اب بھی جب زلزلہ آتا ہے تو آبادیاں لرز اٹھتی ہیں۔ تباہی و بربادی مچ جاتی ہے اور موت کا راج ہونے لگتا ہے۔ چند سیکنڈ کا زلزلہ فوری تباہی مچا دیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی تباہ کاریوں کا علم آپ کو ہوتے ہوتے ہوتا ہے۔
زلزلے کی طبیعاتی و ارضیاتی کیفیات سے ہم نابلد نہیں مگر زلزلے آج بھی لرزہ دینے والے اور اس کے جھٹکے خوف و دہشت میں مبتلا کر دینے والے ہوتے ہیں۔ لوگ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے گھروں سے نکل کر کھلے آسمان تلے آ پڑتے ہیں اور ان کے دلوں کی حرکتیں خود بخود بند ہو جاتی ہیں۔
مگر جب کوئی شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی حالت و کیفیت وہی ہوتی ہے جو ڈاکٹر صاحبہ کی ہوئی وہ ''تبدیلی'' کی گردان میں یہ بھول گئیں کہ جو کچھ آیا تھا وہ زلزلہ تھا اس کی تباہ کاریوں کا اندازہ گھنٹوں بعد ہو سکے گا پھر اس پر نوحہ خوانی کے فرائض بھی موصوفہ کو انجام دینا ہوں گے۔ اور دو دن بعد انھوں نے انجام دیے مگر جس بے خوفی اور مضحکہ خیز انداز میں انھوں نے اس خبر کو لیا اب وہ اس پر شرمندہ ضرور ہوئی ہوں گی مگر اس پر شرمندگی کافی نہیں توبہ بھی ضروری ہے۔
ادھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا شاندار اجلاس ہو رہا تھا اس میں بیشتر ممالک کے سربراہ شریک ہوتے یا اپنے اہم نمایندوں کو بھیجتے ہیں۔ یہ اجلاس ایک ایسے موقع پر منعقد ہو رہا تھا جب کشمیر میں ہندو بنیاد پرست نریندر مودی طاقت کا ننگا ناچ ناچ رہا تھا اور اہل کشمیر کسمپرسی کی حالت میں تھے۔ اس اجلاس میں بھارت کی نمایندگی خود نریندر مودی فرما رہے تھے جب کہ پاکستانی وفد کی قیادت پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کر رہے تھے اور کم از کم متعلقہ فریقوں کو دونوں کا ردعمل جاننے کی بے چینی تھی کہ یہ اہم مسئلہ کیا رخ اختیار کرتا ہے۔
نریندر مودی نے اپنے لیے مقررہ مدت سے کم وقت میں تقریر کر کے معاملہ نمٹا دیا اور اپنی تقریر میں کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا۔ بظاہر اس سے ان کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ اس وقت کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ معمول کی کارروائی ہے۔ بھارت نے اپنے دستور میں ''حصولی'' حذف و اضافہ کیا ہے اور ان کی ''رعایا'' اس پر شور و غوغا کر رہی ہے جو کچھ دن میں ختم ہو جائے گا۔ اس پر اگر پاکستان نے زبان کھولی تو اس کو بھارت کے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دے کر نظر انداز کروا لیا جائے گا۔
مگر جب پاکستان کے وزیر اعظم کی باری آئی اور انھوں نے پراعتماد اور جوشیلے لہجے میں مودی کی آر ایس ایس سے وابستگی گجرات کے قصائی کی صوبے کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے مسلمانوں کے قتل عام اور اب کشمیر کی انفرادی اور خصوصی حیثیت کے خاتمے، تقریباً دو ماہ سے کشمیری مسلمانوں کو جانوروں کی طرح قید و بند میں رکھنے، ان کو قتل کرنے اور عورتوں کی آبرو ریزی کے اقدامات کو واضح طور پر موثر انداز میں پیش کیا اور اقوام عالم کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے سوال اٹھائے کہ اگر اسی طرح عیسائیوں یا یہودیوں کو قید میں رکھا جائے تو اقوام یورپ اس کو برداشت کر سکیں گی۔
کیا مسلمان جانوروں سے بھی بدتر ہیں کہ ان سے امتیازی سلوک برتا جائے اور کسی طرف سے آواز نہ اٹھے۔ ہم مسلمان ہیں اور لڑنے مرنے کو تیار ہیں ہم امن چاہتے ہیں مگر اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو جواب دینے میں دیر نہ ہو گی۔ اور اگر دو ایٹمی طاقتیں یوں مد مقابل رہیں تو صرف دو ملکوں یا قوموں تک بات نہیں رہے گی پورا عالم انسانیت اس سے متاثر ہو گا۔
یہ تقریر اتنی مدلل اور اتنی موثر تھی جس نے مودی جی کے اس تصور کو ان کا کشمیر کا ذکر نہ کرنا اور مسئلہ نہ سمجھنا دنیا کو گمراہ کرنے کا سبب بنے گا مگر حقائق کو جن واشگاف الفاظ میں وزیر اعظم پاکستان نے پیش کیا اور جس طرح انھوں نے اسلام پر ''شرمندہ'' ہوئے بغیر اس کی امن پسندی کے اعلان کے ساتھ ساتھ دب کر نہ رہنے اور ذلت پر موت کو ترجیح دینے کی بات کر کے مہا منتری مودی کے موقف کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اور اب اہل کشمیر سے ہمدردی اور پاکستان کے موقف کی حمایت میں ایسی آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ زندہ اور پایندہ ہو گیا ہے جس میں نئی جان پڑگئی ہے۔