ہمارے زرعی سائنس داں اپنے محاذ پر سرگرم

پاکستانی سائنس دانوں کا زیادہ پیداوار کی حامل 33 فصلوں کی تیاری کا عظیم کارنامہ

زیادہ پیداوار کی حامل 33 فصلوں کی تیاری کا عظیم کارنامہ

پلانٹ بریڈنگ کا عمل زراعت کی دنیا میں مکمل طور پر انسان کی سوچ پر مبنی ہے۔وہ جب چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے اور جس انداز میں چاہتا ہے فصلوں کی نت نئی اقسام تیار کر لیتا ہے۔

یاد کریں قیام پاکستان سے قبل گندم کی قسم C-571 ہوتی تھی، مگر دراز قامت (یعنی 115 سینٹی میٹر) تھی، پلانٹ بریڈرز نے سوچا کہ اگر اس کا قد کم ہوجائے تو اس کی فصل آندھی وغیرہ کی وجہ سے گرنے سے بچ سکتی ہے۔ چناںچہ پلانٹ بریڈرز کی کوششوں سے گندم کی فصل کا قد کم ہو گیا۔ پھر اس نے سوچا کہ گندم کی فصل کی پیداوار ڈبل ہو جائے، ادھر پلانٹ بریڈرز نے سوچا تو ادھر اس کی سوچ کا ردعمل بھی سامنے آگیا اور پیداوار جو 1947 میں 7 من فی ایکڑ تھی وہ چند ہی سالوں میں 15 من فی ایکڑ ہو گئی ، پھر اس نے سوچا کہ گندم کے دانوں کے اوپر جو چھلکا نما کسار (awn) ہے۔ اس کو ختم ہونا چاہیے تاکہ گند م کی تھریشنگ اور پھر آٹا بننے کے عمل کے دوران کوئی رکاوٹ نہ بنے چنانچہ گندم کی قسم کوہ نور83- بنا ڈالی جس کو گنجی یا کونی قسم بھی کہتے ہیں، لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ گندم کی فصل کے پکنے کے دوران چڑیاں آتیں اور کھیت میں کھڑی گندم کی فصل پر لگے خوشوں سے چپکے سے دانہ نکال کر لے جاتیں، جس سے پیداوار خاصی کم ہوجاتی۔ چناںچہ دوبارہ گنجی قسم بنانے کا عمل روک دیا گیا۔ اس ساری تمہید کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کی ہر تخلیق کے پیچھے انسانی سوچ ہی کارفرما ہے۔ دنیا کے آئے دن تغیراتی موسم کے پیچھے تو قدرت کی سوچ کا عمل د خل ہے مگر اس تبدیل شدہ موسم میں فصلوں کی نت نئی اقسام کی تیاری کے پیچھے انسانی سوچ کارفرما ہے۔

لہٰذا زیادہ بارشیں ، زیادہ گرمی، یک دم ٹھنڈ، خشک سالی ۔۔۔ یہ ہیں وہ عوامل جس میں رہ کر ایک زرعی سائنس داں فصلات کی نئی اقسام تیار کرتا ہے اور کسی بھی ایک قسم کی تیاری میں 10 سے 12 سال کا عرصہ لگ جاتا ہے، فیصل آباد میں واقع ایوب ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (AARI) ، پاکستان کا واحد اور سب سے بڑا زرعی ادارہ ہے۔

جہاں غذائی سرحدوں کے تحفظ کے لیے ہر سائنس داں ہمہ وقت نت نئی ٹیکنالوجی سے لیس ہوکر نہ صرف چوکس ہے بلکہ غذائی خود کفالت کے لیے اقوام عالم میں نمایاں مقام دلانے میں بھی پیش پیش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان گندم، چاول، چینی، گنا، کپاس اور دیگر فصلوں میں خودکفیل بھی ہے اور پیداوار کے لحاظ سے متذکرہ فصلیں ہمارا ملک دنیا کے پہلے دس ممالک کی فہرست میں بھی موجود ہے۔

محکمہ زراعت حکومت پنجاب نے پنجاب سیڈ کونسل کے اجلاس میں ایوب ریسرچ کی طرف سے فصلوں، سبزیوں اور پھلوں کی زیادہ پیداوار کی حامل33 نئی اقسام کی عام کاشت کے لیے کی منظوری دے دی ہے۔ اس موقع پر ایوب ریسرچ کے ڈائریکٹر جنرل ریسرچ ڈاکٹر عابد محمود نے کہا کہ منظور کی جانے والی یہ 33 اقسام جب عام زمینداروں اور کاشتکاروں تک جائیں گی اور ہمارے وضع کردہ طریقہ کا ر سے کاشت کی گئیں تو ان کی پیداوار میں اضافہ کی توقع نہ صرف یقینی ہے بلکہ ان کی معاشی صورت حال بھی مستحکم ہو گی۔

قارئین! ان 33 اقسام میں سے چند ایک کی وضاحت درج کی جارہی ہے تاکہ عام شہری اس امر سے آگاہ ہو سکے کہ غذائی خود کفالت کے لیے فصلوں میں نئی قسم کیسے تیار کی جاتی ہے:

٭مہک: ہلدی کی پیداوار والے بڑے بڑے ممالک میں ترکی، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، انڈیا اور چین کا شمار ہوتا ہے۔ پاکستان ہلدی پیدا کرنے والا چھٹا بڑا ملک ہے۔ ہلدی پاکستان 212 ٹن برآمد تو کر رہا ہے مگر اعلیٰ کوالٹی کی 142ٹن کی ہلدی درآمد بھی کر رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ مقامی طور پر ہلدی کی کوئی نئی قسم کی تیار کی جائے۔ ادارہ تحقیقات سبزیات، فیصل آباد میں اگرچہ ہلدی پر تحقیق کم ہو رہی ہے اور یہاں پر سرے سے کوئی قسم موجود بھی نہیں تھی۔

لہٰذا اعلیٰ قسم کی ہلدی کی تیاری کا کام شروع ہوا تو مہک نے کسانوں کے ہاں بھی بہترین نتائج دیے، جس کے مطابق 25تا30 گنڈیاں (Rhizomes) فی پودا بنے اور فروخت کے قابل20تا25 گنڈیاں تھیں جن کا وزن تقریباً نصف کلو گرام کے لگ بھگ تھا اور یوں ان گنڈیوں کی اوسط پیداوار 20تا22 ٹن فی ہیکٹر رہی۔ یہ قسم زمین سے خوشبو پھیلاتے ہوئے سیدھی اوپر کو نشوونما پاتی ہے۔ ہلدی کی اس نئی اور پہلی قسم مہک کی تیاری میں غضنفر حماد، ڈاکٹر قیصر لطیف چیمہ، ڈاکٹر تصدیق حسین، ڈاکٹر اختر سعید اور محمد نجیب اللہ شامل ہیں۔

٭گولڈن جیوٹ 18- :جیوٹ یعنی پٹ سن ایک قدرتی ریشہ ہے جسے گولڈن فائبر سے بھی موسوم کیا جاتا ہے جس کی کاشت میں انڈیا، بنگلادیش، چین اور تھائی لینڈ دنیا کے نمایاں ترین ملک ہیں۔ اس وقت پنجاب میں جیوٹ کا زیرکاشت رقبہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ کہ کہ مقامی پٹ سن کی بجائے قیمتی زرمبادلہ خرچ کرکے جیوٹ انڈسٹری کے لیے بیرون ممالک سے جیوٹ منگوایا جا رہا ہے، مگر اب جیوٹ میں مستقبل کا انحصار ایگرونومک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، فیصل آباد کی تیارکردہ نئی اور پہلی قسم JFC-17 پر کیا جا سکتا ہے، کیوںکہ بقیہ اقسام کی نسبت 25تا40 من اس کی پیداواری صلاحیت زیادہ ہے ، جب کہ پچھلے سال اسی لائن نے 50 من فی ایکڑ کے ہندسے کو بھی عبور کیا۔

پاکستان بھر میں پہلی کوئی قسم موجود نہ تھی اور یہ پہلی قسم ہے جو ایوب ریسرچ کے سائنس دانوں نے تیار کی ہے۔ خریف کی بقیہ فصلوں کی نسبت، دریائی علاقوں میں کاشت منافع بخش ہونے سے بھی اس قسم کا کسان کی معاشی ترقی میں بہتری لانے میں اہم کردار ہے۔ گولڈن جیوٹ 18- کی تیاری میں حافظ محمد اکرم، ڈاکٹر نعیم خاں، ثوبیہ اعجاز اور ڈاکٹر سعید اشرف جیسے نمایاں سائنسدان شامل ہیں۔

٭جو17- / سلطان 17- :نبی کریم ﷺ کی پسندیدہ غذاؤں میں جو یعنی Barley کو بھی شامل ہونے کا شرف حاصل ہے، مگر مقام تفکر ہے کہ ملک بھر میں اس پر تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ ادارہ تحقیقات گندم، فیصل آباد میں جو کی 3 اقسام یعنی جو83- ، جو 87- اور حیدر93- کوئی 20 سے 30 سال پہلے کی تیار کردہ ہیں مگر اب جو کی 2 نئی اقسام کی تیاری کا اعزاز بھی اس ادارے کو ملا ہے۔ ملک شام کے تحقیقی ادارے ICARDA سے جو کی کچھ لائنیں درآمد کی گئیں اور تجربات میں سے گزارا گیا۔ جہاں لائن نمبرB-09018 نے چیک ورائٹی کی نسبت23 فیصد زائد پیداوار دی۔

یاد رہے کہ حیدر 93- کے سٹوں پر دانوں کی 6 قطاریں ہوتی ہیں جبکہ لائن نمبرB-09018 پر خوشوں پر دانوں کی 2 قطاریں تھیں اور یوں اس لیے بھی یہ لائن قابل توجہ رہی، کیوںکہ یہ بیماریوں سے پاک بھی تھی۔ جو کی ایک دوسری قسم بھی عام کاشت کے لیے منظور کی گئی۔ اس کے معاشی اشاریے بھی اپنے چیک ورائٹی سے زیادہ رہے اور اسے سلطان ستارہ یعنی سلطان2017- کے نام سے عام کاشت کے لئے سفارش کر دی گئی۔ جو کی دونوں اقسام کی تیاری میں ڈاکٹر جاوید احمد، ڈاکٹر غلام محبوب سبحانی مرحوم اور مسٹر عبداللہ شامل ہیں۔


٭پنجاب مسور2018- :ادارہ تحقیقات دالیں، فیصل آباد کی تیار کردہ پنجاب مسور2018- کی جڑیں100 سینٹی میٹر تک گہرائی میں جانے کی وجہ سے پانی کے کمی والے علاقوں میں بھی اس لائن نے بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ اس نئی قسم میں پنجاب مسور 2009- کی نسبت پنجاب مسور2018- میں زیادہ پروٹین (29.2%) ہے جبکہ پکنے کے بعد اس کے دانے کا پھیلاؤ2.5 گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے 2 بندوں کی ڈش میں4 بندے آرام سے کھانا کھا لیتے ہیں۔ پنجاب مسور2018- میں ایک پھلی میں 3 دانے اور گانٹھ میں 5 پھلیوں کی وجہ سے اکائی رقبہ پر اس کی پیداوار کا بڑھ جانا یقینی ہوتا ہے۔ پانی والے علاقوں اور خشک سالی میں زیادہ پیداوار کی حامل قرار دی جانے والی اس قسم کی تیاری میں نمایاں سائنسدانوں میں چوہدری محمد رفیق، ڈاکٹر فیض، ڈاکٹر اظہر اقبال اور ڈاکٹر عزیز الرحمٰان نمایاں ہیں۔

٭پنجاب برسیم(SB-11):چارے کی یہ قسم جو اپنے چارے اور بیج کی زیادہ پیداواری صلاحیت، چارے کی اعلیٰ کوالٹی اور بھوسے کی بہترین غذائی مقدار کے حصول کے لیے ادارہ تحقیقات چارہ جات، سرگودھا کے سائنس دانوں کی عظیم کاوش ہے۔ اس کا پودا 75 سینٹی میٹر لمبا ہے جس پر فی مربع میٹر پر400تا500 شاخیں لگ جاتی ہیں۔ اس پر سبز رنگ کے چوڑے پتے لگتے ہیں جو درجۂ حرارت اور گرمی کے خلاف نیم قوت مدافعت کا حامل ہے۔

SB-11 نے قومی سطح کے تجربات میں72.76 ٹن فی ہیکٹر کے ساتھ چیک قسم کی نسبت2.9 فیصد زائد پیداوار دی۔ اس قسم کو اگر 30ستمبر کو کاشت کیا جائے تو بقیہ اوقات کاشت کی نسبت زیادہ پیداوار آتی ہے، جبکہ 14 پانیوں کی بجائے10 آبپاشیوں سے زیادہ پیداوار دیکھی گئی ہے۔ ذائقے اور ہاضمے کے اعتبار سے SB-11 یعنی پنجاب برسیم زیادہ سودمند دکھائی دی ہے۔ اس کے بیجوں کے ہزار دانوں کا وزن3.00 تا3.5گرام ہے جبکہ اس کا سبز چارہ ایک ہیکٹر سے 12,000 کلو گرام تک آجاتا ہے۔ اس کی تیاری میں نمایاں سائنسدانوں میں محمد سلیم اختر، امیر عبداللہ، محمد ریاض گوندل، ڈاکٹر سلیم ، عبدالرزاق اور شکیل حنیف شامل ہیں۔

٭نور2018- : قومی سطح کے 2014-15 کے تجربات میںK-09012 یعنی نور 2018 نے ملک بھر کے 8 مقامات سے اوسط پیداوار827 کلو گرام فی ایکڑ دی جبکہ اسی ٹرائل میں سب سے کم پیداوار تحقیقاتی اسٹیشن برائے دالیں، ٹانڈو جام سندھ کی لائن بے نظیر کے پیداوار فقط 245 کلو گرام رہی، اور اگلے برس یعنی 2015-16 میں تجربے میں شامل 12 لائنوں میں سے K-09012 نے 1357 کلو گرام پیداوار کے ساتھ پاکستان بھر میں سرفہرست رہی، جس پر PCK-09012 کی، نور2018- کے نام سے پنجاب سیڈ کونسل نے عام کاشت کے لیے منظوری دے دی۔ اس قسم کی تیاری میں ادارہ تحقیقات دالیں فیصل آباد کے سائنس داں شامل ہیں۔

٭ساہیوال گولڈ: ادارہ تحقیقات مکئی و جوار ساہیوال کی تیار کی جانے والی مکئی کی زیادہ پیداوار کی حامل نئی قسم ہے، جسے عام کاشت کے لیے پنجاب، خیبرپختونخواہ اور آزاد جموں و کشمیر کے منظور کیا گیا ہے۔ قومی و صوبائی سطح کے مقابلوں میں نئی قسم ساہیوال گولڈ نے 20تا25 فیصد زیادہ پیداوار دی، جب کہ شدید تغیراتی موسم میں درخت کی طرح کھڑی رہنے والی یہ قسم پکنے کے دوران دیر تک ہری بھری رہتی ہے۔ درازقد ہونے کی وجہ سے اس کے چارے سے بھی اس نئی قسم کو مال مویشیوں کے لیے استفادہ کروایا جاسکتا ہے۔ دونوں موسموں کے لیے بہترین قسم ساہیوال گولڈ کی تیاری میں ڈاکٹر ارشد، میاں شفیق، عامر حسین اور اسرار محبوب شامل ہیں۔

٭ گوہر 19-: مکئی کی یہ قسم ادارہ تحقیقات مکئی و جوار ساہیوال کے قدرتی ماحول میں تیار کی گئی مکمل دورانیے میں سفید رنگ کی یہ فصل پنجاب، KPK ، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے تمام علاقوں میں کاشت کے لیے موزوں ترین قسم ہے۔ گوہر19- نے قومی سطح پر 30.8 فیصد زائد پیداوار دی۔ چنانچہ 6جون 2018 کو ایکسپرٹ سب کمیٹی نے فیلڈ میں خود جاکر اس نئی قسم کا معائنہ کیا اور پنجاب سیڈ کونسل کو سفارشات دیں کہ گوہر19- کی پرل قسم سے 14 فیصد زیادہ پیداوار ہے اور شدید موسمی حالات میں بھی اس قسم کے پودے زمین پر جم کر کھڑے رہتے ہیں، اسے بیک وقت دانوں، چارے اور چارے کی محفوظ ذخیرہ اندوزی کے لیے بھی کاشت کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔

٭سمٹ پاک: یہ مختصر دورانیے کی سفید مکئی کی قسم ہے جسے پنجاب، خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے تمام علاقوں کے لیے کاشت کرنے کی منظوری دی گئی ہے اس قسم کو بھی ادارہ تحقیقات مکئی و جوار ساہیوال کے سائنس دانوں نے اپنی طویل عرق ریزی کے بعد تیار کی ، اس قسم کو بین الاقوامی ادارہ تحقیقات گندم و مکئی، میکسیکو کے تعاون سے معاہدۂ تبادلہ اقسام کے تحت چند لائنیں درآمد کی گئیں جن میں بے شمار لائنوں میں سے سمٹ پاک لائن نے حیران کن نتائج دیے جس کے مطابق موسم بہار میں یہ قسم 90 تا100 میں پک جاتی ہے جبکہ اس کی پیداواری صلاحیت70 ٹن فی ہیکٹر ہے۔

٭پاپ ون: زیادہ پیداوار کی حامل یہ قسم ایک مکمل دورانیے کی قسم ہے جو عام کاشت کے لیے پنجاب، خیبر پختونخواہ، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت و بلتستان کے علاقوں کے لیے منظور کی گئی۔ پاپ ون قسم کا دانہ اپنے سائز یا حجم (Popping)میں گرم کرنے میں اضافہ کرلیتا ہے۔ بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول اور کھائی جانے والی پاپ کی کوئی قسم پاکستان بھر میں دستیاب نہیں تھی، جس کی درآمد کے لیے خاصا زر مبادلہ خرچ کرنا پڑتا تھا، لہٰذا ضرورت اس امر کی تھی کہ مقامی طور پر '' پاپ کارن'' کی قسم ہنگامی بنیادوں پر تیار کی جائے۔ چناںچہ یوسف والا پولز20- میں سے 4 لائنوں کو ایک مجوزہ ترتیب اور تجربات میں سے گزار کر پاکستان میں پاپ کارن میں پہلی قسم ''پاپ ون''تیا کرلی گئی۔ یہ قسم اپنے دانے کے پھیلاؤ کی وجہ سے صارفین اور انڈسٹری دونوں کی ضرورت رہے گی۔

٭سپر گرین: چارے کی زیادہ پیداوار کی یہ قسم پکنے کے آخر تک نہ صرف سبز رہتی ہے بلکہ اس کی غذائی اہمیت بھی دوسرے چاروں سے زیادہ پائی گئی ہے۔ اسے ادارہ تحقیقات چارہ جات، سرگودھا کے زرعی سائنسدانوں نے تیار کیا ہے، جن کے مطابق چارے کی دوسری اقسام جن میں افگوئی، ایم ایس 2010- اور سرحد وائیٹ شامل ہیں سے سُپر گرین اخذ کی گئی ہے۔ چارے کی یہ قسم 10 فیصد زیادہ چارہ دیتی ہے جبکہ پودوں پر پتوں کا رقبہ اور ان کی تعداد دوسری اقسام کی نسبت زیادہ ہے۔ دیر تک سبز رہنے والی سپر گرین اپنے ذائقے کی وجہ سے جانووں میں یکساں مقبول ہے اور پنجاب کے وہ تمام علاقے جہاں پانی کی سہولیات وافر ہیں وہاں کسان اسے شوق سے کاشت کرتے ہیں۔ اس کی تیاری میں محمد سلیم اختر کے ساتھ ساتھ عبدالباسط، عبدالجبار اور غلام نبی شامل ہیں۔

٭ایف ایچ1036- : چھلی کی یہ قسم ادارہ تحقیقات مکئی و جوار ساہیوال کے ذیلی ادارہ مکئی تحقیقاتی اسٹیشن واقع ایوب ریسرچ فیصل آباد کی تیار کردہ ہے۔ وفاقی سطح پر2017 میں اس کو 82 دوسری اقسام کے ساتھ 6 مختلف مقامات پر کاشت کیا گیا۔ FH-1036 نے اپنی چیک قسم کی نسبت16 فیصد زیادہ پیداوار دی۔ کیڑوں، بیماریوں اور گرنے کے خلاف قوت مدافعت کا حامل یہ ہائبرڈ پکنے کے بعد دیر تک کھیت میں ہرا بھرا رہتا ہے جس کی وجہ سے ضیائی تالیف کا یہ عمل بھی دیر تک جاری رہتا ہے، جو بعدازاں دانوں کے وزنی بننے کا سبب رہتا ہے۔ اس ہائبرڈ کی تیاری میں ڈاکٹر ارشد، محمد رفیق، احسن رضا ملہی اور عامر حسین شامل ہیں۔

٭بارانی ماش: دال ماش کی یہ قسم بارانی زرعی تحقیقاتی ادارہ، چکوال کی تیار کردہ ہے جہاں 2012تا2016 کے دوران دال کی مقامی لائنوں سے بہتر کارکردگی دکھانے والی لائن11CM-707 کا چناؤ عمل میں لایا گیا، اپنے ابتدائی تجربات میں بہترین کارکردگی کی حامل اس لائن کو وفاقی سطح کے تجربات 2016 میں شامل کر لیا گیا۔

جہاں اپنی پیداواری صلاحیت کی بنا پر 6 مقامات پر سرفہرست رہی اور 1035 کلو گرام فی ہیکٹر پیداوار آئی ، اور مجموعی طور پر 11 پیداواری تجربات میں 11 CM-707 نے کنٹرول (چیک) ورائٹی چکوال ماش سے 16 فیصد پیداوار زیادہ دی اور ایک دوسرے چیک عروج قسم کی نسبت اس کی پیداوار 23 فیصد زیادہ رہی۔ پنجاب سیڈ کونسل نے بارانی ماش کو پنجاب کے تمام بارانی علاقوں میں کاشت کی منظوری کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسے یکم جولائی سے 15 جولائی کے درمیان کاشت کیا جائے تو زیادہ پیداوار آتی ہے۔ بارانی ماش کی تیاری میں محمد عظیم طارق، ڈاکٹر غلام ربانی اور جاوید اقبال شامل ہیں۔

٭فخر پنجاب : یہ چری یعنی سارگم چارے کا نیا ہائبرڈ ہے جو جلد پکنے، درمیانے قدوقامت کے ساتھ زیادہ پیداوار کا حامل ہے، جسے پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان کے علاقوں میں کاشت کے لیے منظور کیا گیا۔ ادارہ تحقیقات مکئی و جوار ساہیوال کی اس قسم کے پنجاب بھر میں تجربات ہوئے اور 23 من فی ایکڑ کے ساتھ اس لائن نے بہتر کارکردگی دکھائی، فخر پنجاب، پاکستان کا پہلا مقامی طور پر بننے والا ہائبرڈ ہے، اسی طرح پھلو ں میں انار کی نئی اقسام میں پرل، گولڈن، کھجور میں شاکری، شامران، زاہدی، اصیل، خودروی، حلاوی، حلینی، کپرا، بیر میں پاک وائیٹ، اومران، انوکھی ، سوفان ، بہاول ایس ایل شامل ہیں، جن کی تیاری میں مسٹر فیاض، مطیع اللہ، محمد اخلاق اور اظہر بشیر کی دن رات کی محنت شامل ہے۔
Load Next Story