الیکشن کمیشن کے ممبران کی تعیناتی وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر سے جواب طلب
پارلیمنٹ کو اپنے طور پر ایسے معاملات حل کرنے چاہئیں،چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ
ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے 2 نئے ممبران کی تعیناتی کے خلاف درخواست پر وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر سمیت تمام فریقین سے جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے الیکشن کمیشن کے 2 نئے ممبران کی تعیناتی کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ کس طرح پارلیمانی کمیٹی ان ناموں پر متفق نہیں تھی۔ پارلیمانی کمیٹی متفق نہ ہوسکے تو آئین کیا کہتا ہے، کیا جن ناموں کونامزد کیا گیا وہ کمیٹی کے سامنے رکھے گئے، پارلیمنٹ کو اپنے طور پر ایسےمعاملات حل کرنے چاہئیں، اسپیکر قومی اسمبلی اس حوالے سے معاملات دیکھ سکتے ہیں۔
درخواست گزار محسن شاہ نواز رانجھا نے عدالت کو بتایا کہ پارلیمانی کمیٹی کے 3 اجلاسوں میں ممبران الیکشن کمیشن کی تعیناتی پراتفاق نہیں ہوسکا، پارلیمانی کمیٹی کے اختلافات کے بعد آئین اس معاملے پرخاموش ہے، حکومت سپریم کورٹ کو اٹارنی جنرل کے ذریعے درخواست دائر کرسکتی ہے، صدر پاکستان کا اختیار نہیں کہ وہ ممبران کی تعیناتی اس طرح کرے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے 2 نئے ممبران کی تعیناتی کے خلاف درخواست سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن، وزارت قانون، سیکرٹری ٹو وزیراعظم ، سیکرٹری ٹو صدر اور نئے ارکان الیکشن کمیشن سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیئے۔ عدالت نے سینئر وکلا حامد خان،خالد انور اور مخدوم علی خان عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے ہدایت کی کہ اسے پہلے سے زیرسماعت درخواست کے ساتھ مقرر کیا جائے۔
سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے محسن شاہ نواز رانجھا نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ممبران کی تعیناتی آئین کے خلاف ہے، پارلیمانی کمیٹی کے ممبران کے علم میں لائے بغیر ممبران کی تعیناتی کی گئی، صدر پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کے پابند ہیں، ان کے پاس نوٹی فکیشن کرنے کا کوئی آئینی اختیار نہیں،حکومت قومی اسمبلی کے معاملات کو بھی آئین کی روح کے منافی لے کر چل رہی ہے،حکومت پروڈکشن آرڈر پر بھی آئین کی خلاف ورزی کر رہی ہے، 8 پارلیمانی کمیٹیوں کا تاحال کوئی اجلاس نہیں ہو سکا، ہم معاملات عدالتوں میں لانا نہیں چاہتے تھے لیکن مجبوراً رجوع کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے الیکشن کمیشن کے 2 نئے ممبران کی تعیناتی کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ کس طرح پارلیمانی کمیٹی ان ناموں پر متفق نہیں تھی۔ پارلیمانی کمیٹی متفق نہ ہوسکے تو آئین کیا کہتا ہے، کیا جن ناموں کونامزد کیا گیا وہ کمیٹی کے سامنے رکھے گئے، پارلیمنٹ کو اپنے طور پر ایسےمعاملات حل کرنے چاہئیں، اسپیکر قومی اسمبلی اس حوالے سے معاملات دیکھ سکتے ہیں۔
درخواست گزار محسن شاہ نواز رانجھا نے عدالت کو بتایا کہ پارلیمانی کمیٹی کے 3 اجلاسوں میں ممبران الیکشن کمیشن کی تعیناتی پراتفاق نہیں ہوسکا، پارلیمانی کمیٹی کے اختلافات کے بعد آئین اس معاملے پرخاموش ہے، حکومت سپریم کورٹ کو اٹارنی جنرل کے ذریعے درخواست دائر کرسکتی ہے، صدر پاکستان کا اختیار نہیں کہ وہ ممبران کی تعیناتی اس طرح کرے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے 2 نئے ممبران کی تعیناتی کے خلاف درخواست سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن، وزارت قانون، سیکرٹری ٹو وزیراعظم ، سیکرٹری ٹو صدر اور نئے ارکان الیکشن کمیشن سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیئے۔ عدالت نے سینئر وکلا حامد خان،خالد انور اور مخدوم علی خان عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے ہدایت کی کہ اسے پہلے سے زیرسماعت درخواست کے ساتھ مقرر کیا جائے۔
سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے محسن شاہ نواز رانجھا نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ممبران کی تعیناتی آئین کے خلاف ہے، پارلیمانی کمیٹی کے ممبران کے علم میں لائے بغیر ممبران کی تعیناتی کی گئی، صدر پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کے پابند ہیں، ان کے پاس نوٹی فکیشن کرنے کا کوئی آئینی اختیار نہیں،حکومت قومی اسمبلی کے معاملات کو بھی آئین کی روح کے منافی لے کر چل رہی ہے،حکومت پروڈکشن آرڈر پر بھی آئین کی خلاف ورزی کر رہی ہے، 8 پارلیمانی کمیٹیوں کا تاحال کوئی اجلاس نہیں ہو سکا، ہم معاملات عدالتوں میں لانا نہیں چاہتے تھے لیکن مجبوراً رجوع کر رہے ہیں۔