معاف کرنا ’’نفرت سے پاک دُنیا‘‘ کی تحریک کا باعث بن گیا

ہم سب لوگوں کو اس دنیا میں اکٹھے رہنا ہے تو پھر کیوں نہ نفرت کو چھوڑ کر محبت اور امن کی راہ اپنائی جائے

قرآن کی تعلیمات کے مطابق اگر آپ کے ساتھ ظلم وزیادتی ہوئی ہے تو آپ انصاف کے طلب گار ہو سکتے ہیں‘ ۔ فوٹو : فائل

SINGAPORE:
''دین اسلام ہمیں سبق دیتا ہے کہ ایک انسان کی زندگی بچانا پوری انسایت کو بچانے کے مترادف ہے، چونکہ میں نے مارک انتھونی سٹرومین کو معاف کر دیا ہے تو میں اسے سزائے موت سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کروں گا ، میں ہر ممکنہ ذریعے اور پہلو سے اس کی زندگی بچانے کی سعی کروں گا، میں ہر دروازے پر دستک دوں گا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ ایک اور انسانی زندگی موت کے گھاٹ اتر جائے ۔''

یہ الفاظ اس عظیم بنگلہ دیشی نژاد ا مریکی مسلمان رئیس الدین بویان کی زبان سے ادا ہوئے جس پر سٹرومین نے قاتلانہ حملہ کیا۔ اس حملے میں رئیس کی جان تو بچ گئی مگر وہ ہمیشہ کے لئے ایک آنکھ سے معذور ہو گیا' اس کی زندگی تباہ ہو گئی اور غربت اور بے کسی کے سائے اس کے سر پر منڈلانے لگے۔

رئیس ان چند خوش نصیبوں میں سے ایک ہے کہ جن کو 2000ء میں لکی ڈرا کے ذریعے امریکی شہریت کا گرین کارڈ حاصل ہوا۔رئیس اسے اپنی خوش قسمتی سے ہی تعبیر کرتا تھا کہ اسے لاٹری کے ذریعے امریکی شہرت حاصل ہو گئی مگر اس وقت اس کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ بات نہ تھی کہ یہی خوش قسمتی بالآخر اس کے لئے بدقسمتی ثابت ہو گی۔ وہ زندگی بھر کے لئے ایک آنکھ سے معذور ہو جائے گا اور اس کا چہرہ ہمیشہ کے لئے داغدار ہو جائے گا۔ امریکہ پہنچ کر رئیس کچھ عرصہ امیکی ریاست مین ہٹن میں رہا اور پھر بہتر زندگی کے حصول کی خاطر ڈلاس آ گیا۔ ڈلاس میں اس کی ایک دوست نے اسے نوکری' رہائش اور تعلیم حاصل کرنے کے وسیع مواقع کے بارے میں بتایا تھا۔ رئیس کے لئے یہ سب آئیڈیل تھا ۔ اس کی عمر 27 برس ہو چکی تھی۔ وہ جلد از جلد سیٹ ہو کر اپنی منگیتر کے ساتھ شادی رچا کر نئی زندگی کی شروعات کرنا چاہتا تھا۔



نائن الیون کی دہشت گردی امریکی سرزمین پر ہونے والا وہ واقعہ ہے جس نے غیر ملکیوں اور خاص کر مسلمانوں پر امریکی زمین تنگ کر دی۔ امریکی انتہا پسندوں نے مسلمانوں کو ہر طرح سے زک پہنچانے کی کوشش کی جس کی ایک مثال رئیس پر ہونے والا قاتلانہ حملہ بھی ہے۔ یہ 21 ستمبر 2001ء کا واقعہ ہے یعنی نائن الیون سے صرف چار دن بعد ۔ رئیس ریاست ڈلاس کے علاقہ بکنر میں ایک سٹور پر کام کرتا تھا ۔ یہ علاقہ زیادہ بہتر نہیں گردانا جاتا کیونکہ یہاں پر سکیورٹی نہ ہونے کے برابر تھی بلکہ سٹور پر نصب سکیورٹی کیمرے بھی خراب ہو چکے تھے۔

رئیس کو اخبار اور ٹی وی کے ذریعے ایک 46 سالہ پاکستانی مسلمان وقار حسن کے قتل کا پتہ چلا جس کو اسی کے اسٹور میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ خبر پڑھنے کے بعد رئیس کو مسلسل تین راتوں تک یہی خواب آتا رہا کہ اسے بھی اسی انداز میں قتل کر دیا گیا ہے۔ اس نے بار ہا اپنے باس اور دوست سے درخواست کی کہ مانیٹرنگ کیمروں کو ٹھیک کروا دے یا پھر کم از کم ایک سکیورٹی گارڈ ہی رکھ لے مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ 21 ستمبر کو بعد از دوپہر رئیس سٹور پر ڈبل شفٹ کر رہا تھا کہ سٹرومین ہاتھ میں ایک ڈبل بیرل شاٹ گن لئے داخل ہوا۔ اس نے سر پر بیس بال کیپ اور آنکھوں پر چشمے لگائے ہوئے تھے جبکہ اس نے اپنے چہرے کے زیریں حصے کو مفلر سے ڈھانپ رکھا تھا۔ اس کا حلیہ بالکل مفرور کاؤ بوائز سے مماثل تھا۔ جب سٹرومین سٹور میں داخل ہوا تو رئیس کو فوراً احساس ہوا کہ سٹور پر ڈکیتی ہونے والی ہے۔

اس سے قبل بھی ایک دفعہ رئیس اسی قسم کی صورتحال سے دور چار ہو چکا تھا ۔ پہلی دفعہ جب ایک مسلح شخص ڈکیتی کی نیت سے سٹور میں داخل ہوا تو اس کے ہاتھ میں بھی پستول تھا مگر رئیس یہ سمجھا کہ یہ شخص اسے پستول فروخت کرنا چاہتا ہے کیونکہ مقامی افراد اس کو چوری شدہ ٹی وی' گھڑیاں اور دیگر اشیا فروخت کرنے کے لئے آتے رہتے تھے، حقیقت اس وقت کھلی جب نوارد نے اس پر پستول تان لی اور پیسوں کا مطالبہ کیا۔ مگر اس دفعہ رئیس ذہنی طور پر تیار تھا۔ اس نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً کیش کاونٹر سٹرومین کے سامنے خالی کر دیا اور کہا ''جناب یہ پیسے ہیں' آپ یہ لے جائیں اور پلیز مجھے گولی مت ماریں''۔

مگر سٹرومین نے کیش کو نظر انداز کرتے ہوئے رئیس سے پوچھا کہ ''تمہارا تعلق کس ملک سے ہے؟'' نائن الیون کے واقعہ کے تناظر میں یہ کوئی عجیب سوال نہ تھا کیونکہ دیگر افراد حتیٰ کے پولیس والے بھی رئیس سے مسلمانوں اور اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرتے رہتے تھے۔ ان کے لئے یہ امر دلچسپی سے خالی نہ تھا کہ صرف عرب ہی نہیں بلکہ دیگر اقوام اور ممالک میں بھی دینِ اسلام کے پیروکار ہیں۔ رئیس کہتا ہے کہ ''اس سے قبل کہ میں سٹرومین کے سوال کا جواب دیتا اس نے میرے چہرے کا نشانہ لے کرکاتوس داغ دیا ۔

پہلے پہل تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ گولی چلنے کی آواز کہیں دور سے آئی ہے مگر پھر میرا وجود ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹا جیسے کسی نے زور کا دھکا دیا ہو اور پھر مجھے اپنے چہرے پر ایسا دردانگیز احساس ہوا کہ جیسے بیک وقت ہزاروں شہد کی مکھیوں نے مجھے ڈنک مار لیا ہو۔ میں نے نیچے دیکھا تو میرے چہرے سے خون فوارے کی طرح نکل کر زمین پر گر رہا تھا۔ مجھے یوں لگا کہ جیسے میرا بھیجا بہہ کر زمین پر گر جائے گا تو میں نے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر رکھ لئے جو خون سے لت پت ہو چکا تھا۔ مرے ذہن میں پہلا خیال یہ ابھرا کہ کیا میں آج مر جاؤں گا''۔

رئیس اس قاتلانہ حملے سے بچ نکلا مگر اس کی زندگی اور چہرہ برباد ہو کر رہ گیا۔ اس کی داہنی آنکھ' چہرے اور سر میں کارتوس کے 38 چھرے پیوست ہو گئے تھے۔ چونکہ رئیس کی کوئی ہیلتھ انشورنس نہ تھی اور ڈاکٹر کے پاس لیجانے کے لئے اس کے پاس کوئی مستقل ذریعہ یا دوست نہ تھا جس کی وجہ سے اس کی داہنی آنکھ کی بینائی تقریباً اندھے پن کی حد تک کم ہو گئی۔ اسے داہنی آنکھ سے اب صرف مدھم ہیولے ہی نظر آتے ہیں جن کی پہچان سے وہ قاصر ہے۔ چہرے کی جلد اور ہڈیوں میں پیوست چھرے اس کے لئے انتہائی تکلیف کا باعث ہیں۔ وہ داہنی کروٹ کے بل سو بھی نہیں سکتا اور اگر حجام احتیاط کا مظاہرہ نہ کرے تو اس کے لئے بال کٹوانا بھی اذیت ناکی کا باعث بن جاتا ہے۔ کارتوس کے دو چھرے' جو رئیس کے لئے سوہان روح بنے ہوئے تھے' سرجری کے ذریعے نکال دیئے گئے۔ یہ یوں ہی تھا کہ جیسے کسی پلاس کے ذریعے دانت نکالا جائے جس میں درد کی اذیت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے جبکہ خون بھی زیادہ بہتا ہے۔




سب سے زیادہ دردانگیز چھرہ رئیس کے ماتھے میں پیوست تھا جو سرکی ہڈی سے ٹکرا کر فلیٹ ہو گیا تھا۔ پانچ وقت کا نمازی رئیس جب بھی سجدہ میں جاتا تو ماتھا زمین کے ساتھ لگتے ہی درد کی اتنی شدید لہر اٹھتی جو اس کی برداشت سے باہر ہو جاتی۔ رئیس کہتا ہے ''میرے پاس پیسے نہیں تھے اس لئے آنکھ اور دیگر آپریشنز کی لاگت ادا کرنے کے لئے میں بڑے قرضے کے بوجھ تلے دب گیا۔ مجھے آپریشن کے کئی مراحل سے گزرنا پڑا اور یہ مراحل کئی برسوں پر محیط تھے۔ میرے چہرے کے داہنی طرف اب بھی 35 چھرے پیوست ہیں۔ میں جب اپنے چہرے اور سر کی ہڈی کو چھوتا ہوں تو مجھے ان چھروں کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے جو میرے لئے باعث تکلیف ہے۔''

ادھر پولیس رئیس پر قاتلانہ حملے کرنے والے کو تلاش کر رہی تھی مگر تفتیش آگے نہیں بڑھ رہی تھی کیونکہ سٹرومین کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں تھیں اور مانیٹرنگ کیمروں کے خراب ہونے کی وجہ سے فوٹیج بھی دستیاب نہیں تھی۔ اسی دوران 4 اکتوبر 2001ء کو سٹرومین نے ٹیکساس میں اپنے تیسرے شکار پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا۔ یہ ایک 49 سالہ بھارتی نژاد امریکی واس دیوپاٹیل تھا جو ٹرومین کے جنون کی بھینٹ چڑھا۔ اس بار سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے سٹرومین کی شناخت ہو گئی اور جلد ہی پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔

مارک سٹرومین نے پولیس کو بتایا کہ نائن الیون کے واقعہ میں اس کی ایک بہن بھی مر گئی تھی جس نے اس کے دل کو عربوں اور وسط ایشیائی باشندوں کے خلاف نفرت سے بھر دیا۔ مگر ٹرومین کے اس بیان کی سچائی کبھی ثابت نہ ہو سکی کیونکہ اس کی کسی بہن کے بارے میں ایسی معلومات کبھی دستیاب نہ ہو سکیں کہ جو نائن الیون کے حملے میں زندگی ہار گئی ہو اور پھر اس کے جنون کی بھینٹ چڑھنے والے دونوں افراد ہی عرب نہ تھے۔ ان میں سے ایک پاکستانی اور ایک بھارتی باشندہ تھا۔ سٹرومین کے بارے میں مزید تفتیش کے بعد یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ وہ بچپن سے ہی جرائم میں ملوث ہے۔

اس نے 12 سال کی عمر میں پستول کے زور پر ڈکیتی کی تھی۔ وہ چوری' ڈکیتی،کریڈٹ کارڈ فراڈ اور اس طرح کے دیگر جرائم میں بھی ملوث تھا جبکہ وہ اس سے قبل بھی دو دفعہ جیل جا چکا تھا۔ سٹرو مین نے اس امر کا بھی اعتراف کیا کہ وہ ایک جرائم پیشہ گینگ کا ممبر ہے۔ اس کے پاس پستول اور کچھ آٹو میٹک اسلحہ بھی ہے اور اس کا ارادہ تھا کہ کسی دن وہ یہ اسلحہ لے کر کسی ایسے شاپنگ مال پر جہاں پر تمام وسط ایشیائی لوگ کاروبار چلا رہے ہوں، بے دریغ فائرنگ کر کے ان گنت افراد کو موت کے گھاٹ اتار دے ۔ سٹرومین نے ان تمام جرائم کا اقرار بڑی ڈھٹائی اور بے خوفی سے کیا جبکہ ان جرائم پر اسے رتی برابر بھی تاسف یا شرمندگی نہ تھی۔ عدالتی ٹرائل کے بعد سٹرومین کو 2002ء میں سزائے موت سناکر جیل بھیج دیا گیا۔

ادھر رئیس اپنی زندگی کو ڈھب پر لانے کی کوشش کر رہا تھا۔ چاروں اطراف سے اسے پریشانیوں نے گھیر رکھا تھا۔ اس کے پاس رہنے کے لئے گھر تھا نہ ہی کار۔ وہ پیسے پیسے کا محتاج ہو گیا جبکہ آپریشن کے اخراجات اور میڈیکل بلز کی صورت میں وہ لاکھوں روپے قرضے تلے دب چکا تھا۔ اس کے دوست جو پہلے اس کے شانہ بشانہ کھڑے تھے اب اسے بوجھ سمجھنے لگے جبکہ اس کی منگیتر نے بھی اسے چھوڑ کر نئی راہ چن لی تھی۔ مختصر یہ کہ وہ بالکل ہی بے یارومددگار اور تنہا ہو کر رہ گیا تھا۔ قاتلانہ حملے کے بعد رئیس ذہنی طور پر خوفزدہ اور اندر سے ٹوٹ کر رہ گیا تھا۔

گھر سے باہر نکلتے ہوئے اسے خوف آتا اس لئے اس نے خود کو گھر میں ہی مقید کر لیا تھا۔ ریڈ کراس والوں نے اس کے کیس کے مطالعہ کے بعد فیصلہ دیا کہ اسے نائن الیون کے فنڈ سے کچھ نہیں دیا جا سکتا' ہاں اسے تین وقت کی روٹی ضرور فراہم کی جا سکتی ہے مگر رئیس نے سختی سے انکار کر دیا۔آخر 2003ء میں اس نے ایک ریستوران میں بطور ویٹر ملازمت اختیار کر لی جبکہ ایک خدا ترس دوست ڈاکٹر کی کاوش کے نتیجہ میں حکومت کی جانب سے جاری کردہ" "Victim's compensation fund سے اس کے میڈیکل بلز کے اخراجات ادا کئے گئے اور یوں اس کے سر سے قرضوں کا بوجھ بہت کم ہو گیا۔ اب وہ اس قابل ہو گیا تھا کہ کرائے پر گھر لے سکے،کار خرید سکے اور نیا بینک اکاؤنٹ کھلوا سکے۔ 2009ء میں رئیس نے ایک دوست کے سکول سے فری کمپیوٹر کورس کیا اور ایک ''ریسٹورنٹ سافٹ ویئر'' ڈیزائن کیا جس سے اس کو کافی فائدہ ہوا۔

سکون کا سانس نصیب ہوا تو رئیس کو یاد آیا کہ اس نے علالت کے دوران خدا سے حج کرنے کا وعدہ کیا تھا چنانچہ اس نے فریضہ حج ادا کرنے کے لئے کمر باندھ لی۔ چونکہ رئیس کے والد پہلے ہی تین مرتبہ حج کی سعادت حاصل کر چکے تھے اس لئے رئیس اپنی والدہ کے ہمراہ حج کیلئے مکہ چلا گیا۔ جب رئیس حج سے لوٹا تو وہ مکمل طور پر ایک بدلا ہوا انسان بن چکا تھا۔ اس نے نہ صرف سٹرومین کو معاف کر دیا بلکہ اسے سزائے موت سے بچانے کے لئے تگ ودو بھی شروع کر دی۔ رئیس کہتا ہے ''مجھے اب اپنی فکر نہ تھی بلکہ میں اس انسان (سٹرومین) کے بارے میں سوچنے لگا کہ جو گزشتہ 9 برس سے جیل کی کالی کوٹھڑی میں پڑا موت کا انتظار کر رہا تھا۔



وہ بھی میری طرح انسان ہی ہے۔ بلاشبہ اس نے ایک خوفناک اور ناقابل معافی جرم کیا ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔ قرآن کی تعلیمات کے مطابق اگر آپ کے ساتھ ظلم وزیادتی ہوئی ہے تو آپ انصاف کے طلب گار ہو سکتے ہیں' نقصان کی تلافی کے لئے پیسہ لے سکتے ہیں یا پھر دشمن کو معاف بھی کر سکتے ہیں اور بدلہ لینے کی استطاعت رکھتے ہوئے معاف کر دینا بہت عظمت اور نیکی کا کام ہے۔ اب اگر میں نے اسے معاف کر دیا ہے تو اسے سزا دینے کا کوئی مطلب نہیں۔ بلاشک اس نے دو انسانوں کو قتل کیا ہے جن کی بیویاں بیوہ اور بچے یتیم ہو چکے ہیں مگر سٹرومین کو موت کے گھاٹ اتار کر وہ مقتول واپس تو نہیں آ جائیں گے اس لئے ہمیں سٹرومین کوبچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔''

رئیس نے سٹرومین کوسزائے موت سے بچانے کے لئے جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ بعدازاں سٹرومین نے ''نیویارک ٹائمز'' کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ'' مسلمان اب میری پشت پناہی کر رہے ہیں اور ان کو اس مقصد کے لئے آمادہ کرنے والا وہ شخص ہے جو میری نفرت کی بھینٹ چڑھا۔ اس عظیم انسان کے اسلامی عقائد نے اسے اتنی قوت بخشی ہے کہ وہ میرے ناقابل معافی جرم کو معاف کر سکے۔ یہ عمل ہم سب کے لئے باعث تقلید ہے۔

نفرت کو ختم ہونا چاہئے کیونکہ ہم سب لوگوں کو اس دنیا میں اکٹھے رہنا ہے تو پھر کیوں نہ نفرت کو چھوڑ کر محبت اور امن کی راہ اپنائی جائے۔'' رئیس نے تو سٹرومین کو معاف کر دیا مگر اسے دیگر دو افراد کے قتل کے جرم میں 20 جولائی 2011ء کو برقی کرسی کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ سزا پر عملدرآمد سے چند گھنٹے قبل سٹرومین اور رئیس کا ٹیلی فون کے ذریعے رابطہ ہوا۔

رئیس نے سٹرومین سے کہا کہ ''میں نے تمہیں معاف کیا اور میں تم سے نفرت بھی نہیں کرتا۔'' سٹرومین نے جواب دیا کہ ''میری طرف سے دلی شکریہ، میں تم سے محبت کرتا ہوں' تم نے میرے دل کو چھو لیا ہے کیونکہ تم نے وہ کیا کہ جس کی مجھے ذرہ برابر بھی امید نہ تھی۔'' رئیس اور سٹرومین کے درمیان یہ پہلا اور آخری رابطہ تھا۔ رئیس نے سٹرومین کو بچانے کے لئے جس تحریک ''World without hate''(نفرت سے پاک دُنیا) کا آغاز کیا تھا اس کو عالمگیر پذیرائی حاصل ہوئی اور اب رئیس اپنے درد ناک ماضی کو بھلا کر ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ مصروف عمل ہے۔
Load Next Story